تبصرہ
پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین
کویت میں ادبی پیش رفت :ایک اہم دستاویز
(افروز عالم کی کتاب )
نئی نسل کے مشہور شاعر جناب افروز عالم صاحب نے شاعری کے اور دیگر ادبی سرگرمیوں کے علاوہ نثری تالیفات کے میدان میں بھی مضبوطی سے قدم رکھاہے ۔ ’’کویت میں ادبی پیش رفت‘‘ ان کی زیر نظر تصنیف ایک اہم دستاویز ی کتاب ہے ۔ کویت کو خلیجی ممالک میں کئی اعتبار سے شہرت حاصل ہے ۔ اکثر کویت کا نام سن کر اقتصادی ترقیات کا نقشہ ہی ذہن میں آتا ہے ۔ لیکن و ہ لوگ جن کو ادب و شعر سے شغف ہے ان کو کویت کی شعری محفلیں اور مشاعرے یاد آتے ہیں ۔ کویت کو اس لحاظ سے بھی خلیجی مما لک میں ایک منفرد مقام حاصل ہے کہ وہاں دیگر ممالک کی بہ نسبت مشاعروں کی محفلیں پہلے سجیں اور کئی انجمنوں نے اس کو تہذیبی و ثقافتی سرگرمی کے طور پر پیش کیا ۔ اس طرح یہ مشاعرے کویت میں بر صغیر کی تہذیب کی علامت کے طور پر پیش کیا جانے لگا۔ اس سے ایک تاثر یہ ابھرا کہ یہاں صرف شاعری کے ہی چرچے ہیں اور اسی کو مقبولیت بھی حاصل ہے ۔ لیکن شہرت کا یہ پہلو بھی قابل صد تحسین ہے کہ دیار غیر میں ہماری تہذیب کی نمائندگی ہورہی ہے ۔ جہاں تک مشاعرے کی بات ہے تو مشاعرے تو بلا شبہ تہذیبی و ثقافتی زندگی کی کا اشاریہ رہے ہیں ۔
افروز عالم صاحب نے اس کتاب کی ترتیب و تالیف سے کویت کی ادبی زندگی کا تصور ہی بدل دیا ۔ اس کتاب کے مطالعے کے بعد خود میری معلومات میں اضافہ ہوا اور یہ جان کر خوشی ہوئی کہ یہاں شاعر ی کے علاوہ نثر ی اصناف کے بھی عمدہ شہ پارے منظر عام پر آچکے ہیں ۔ یہ کتاب اگرچہ مضامین کا مجموعہ ہے مگر خود اس میں افروز صاحب کے کئی مضامین موجود ہیں جن میں انھو ں نے کویت میں ادبی پیش رفت کے ان نشانات کو تاریخ کا حصہ بنا دیا جو لوگ بھول جاتے ۔ اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ افروز صاحب نے تاریخی لحاظ سے ان تمام نقوش کو واضح کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔ بر صغیر سے باہر جہاں بھی اردو زبان و ادب کی ترقی اور ترویج کے لیے جس طرح کے بھی کام ہورہے ہیں وہ قابل صد آفرین ہیں اور وہ تاریخ ادب کو حصہ ہیں ۔ اس کتاب کے پہلے حصے سے میں کویت کی تاریخ و تہذیب کے ساتھ ساتھ وہاں کس طرح اردو کی سرگرمیاں شروع ہوئیں اور مقبول عام ہوئیں ان کا تفصیلی ذکر موجود ہے ۔ یقیناً وہ تمام احباب قابل مبارکباد ہیں جنھوں نے مختلف انجمنیں بنائیں اور طرح طرح کی ادبی سرگرمیوں کو رواج بخشا۔
اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ اس میں بہت سے ادبیوں اور شاعروں کا تعارف کرایا گیا ہے اور ان کی تحریروں کو بھی کتاب میں شامل کر دیا گیا ہے ۔ ا ن تحریروں میں شاعری کے علاو ہ افسانے ، خاکے ، کالم اور طنزو مزاح شامل ہیں ۔ آخر میں انھوں نے یاد رفتگاں کے عنوان سے ان لوگوں کو بھی تاریخ کا حصہ بنا یا جو وہاں سے چلے گئے ۔ یہ ادبی دیانتداری ہے کہ انھوں نے ماضی اور حال کے تمام افراد کی خدمات کا ذکر کیا ہے جنھوں نے کویت میں اردو زبان و ادب کے تشہیر وترویج میں حصہ لیا ۔
میں اس دستاویزی کتاب کے لیے افروز عالم صاحب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔ مجھے امید ہے کہ یہ کتاب اردو قارئین کی توجہ کا مرکز بنے گی اور اسے قبولیت حاصل ہوگی۔