You are currently viewing اسکینڈے نیویا میں اردو زبان و ادب

اسکینڈے نیویا میں اردو زبان و ادب

نصر ملک ، ڈنمارک

اسکینڈے نیویا میں اردو زبان و ادب

اسکینڈے نیویا میں اردو زبان و ادب:  ایک مختصر جائزہ

 

ڈنمارک میں مقیم اردو کے ادیب و محقق جناب نصر ملک صاحب نے یہ تحریر میری فرمائش پر لکھی ، ان کے شکریے کے ساتھ اپنے سائٹ پر شائع کررہا ہوں ۔

قارئین کو اس مضمون سے اسکینڈے نیویا میں اردو زبان و ادب کے ارتقا کا بخوبی علم ہوگا۔

خواجہ محمد اکرام الدین

………………………………………………………….

محترم خواتین و  حضرات !  اردو کے حوالے سے اِس بین الاقوامی کانفرنس کا بند و بست کرنے والے سبھی احباب اور خاص کر محترم جناب پروفیسرخواجہ  محمداکرام الدین کا ممنون ہوں کہ انہوں نے مجھے  کمال شفقت سے اِس کانفرنس میں شمولیت کی نہ صرف دعوت دی بلکہ اس میں اسکینڈے نیویا کے ملکوں یعنی ڈنمارک، ناروے اور سویڈن میں اردو  بان و ادب کے متعلق  کچھ کہنے کی تحریک  بھی دی  ۔۔۔۔۔  تو جناب والا۔۔۔۔۔ اردو اسکینڈے نیویا کے ممالک میں اب کوئی اجنبی زبان نہیں ۔۔۔۔۔ اور ہر چند کہ  یہ اِن ممالک میں انیس سو ستر کے عشرے میں  روزگار کے لیے ، آکر آباد ہو جانے  والے پاکستانیوں و ہندوستانیوں  کی وجہ سے ایسا ہوا ۔۔۔۔۔۔ لیکن ذرا ٹھہرئیے ۔۔۔  آپ کو شائد حیرانی ہو کہ آپ سے  نو ہزار کلو میٹر ۔۔۔۔ دور ۔۔۔۔ ڈنمارک جہاں سے فی الوقت میں آپ سے مخاطب ہوں، اس کا اور  اردو زبان کا تعلق  ۔۔۔۔۔۔  دو سو اناسی سال پرا نا ہے ۔۔۔۔۔ جی ہاں ! دو سو اناسی سال !۔۔۔۔۔ تو قصّہ یوں ہے کہ  سنہ سولہ سو بیس میں  ڈنمارک شاہ کرسچن چہارم کے زمانے میں  ۔۔۔۔۔  موجودہ ریاست تامل ناڈو  ۔۔۔۔۔  میں  ٹرنکے بار یا جیسا کہ ڈینش زبان میں اسے پکارا جاتا ہے ۔۔۔۔۔ تھنکیبار  ۔۔۔ کے راجہ  رگھو ناتھ نائک کے درمیان کے معاہدے کے تحت ڈنمارک کو وہاں اپنی ایک تجارتی منڈی اور چوکیاں قائم کرنے کی اجازت مل گئی ۔۔۔۔۔ اور پھر جیسا کی استعماری قوتیں کرتی چلی آئی ہیں ۔۔۔۔ ڈنمارک نے  اپنی تجارتی سرحدیں ۔۔۔۔۔۔۔ سیرام پور تک بڑھا لیں اور  اس طرح یہ تجارتی منڈی اور چوکیاں سنہ سترہ سو پچپن تک قائم رہیں اور اس ایک سو پنتیس سالہ عرصے کے دروان انتظامی امور کے لیے مختلف اوقات میں  چونیتیس گورنر مقرر کئے اور عیسائیت کی تبلیغ کے لیے بھی کئی مشنری اور پادری بھی وہاں بھجوائے ۔۔۔۔۔۔۔۔ انہی میں ایک مُستَشرِق بنیامین شلز بھی تھاجو لسانیات اور علوم شرقیہ کا ماہر تھا اور ہندوستان جانے سے پہلے فارس میں کافی مدت تک رہ چکا تھا ۔ اُس نے سنہ سترہ سو اکتالیس میں ابتدائی دور کی  اردو یعنی ہندوستانی زبان کی گرامر شائع کی

لاطینی زبان میں اس گرامر کا نام GRAMMATICA HINDOSTANICAہے ۔ اسی ڈینش ۔۔۔۔ بنیامین شلز نے بائبل مقدس سے  کتابِ پیدائش کے پہلے چار ابواب کا اردو ترجمہ کیا جو سترہ سو  پنتالیس و چھیالیس میں شائع ہوا  اور پھر اُس نے کتاب ِدانیال کا اردو ترجمہ کیا جو سنہ سترہ سو اڑتالیس میں طبع ہوا۔۔۔۔۔ اور پھر بنامین شلز نے بائبل کے   مخلتف ابواب یعنی ۔۔۔۔۔ رسولوں کے اعمال، یعقوب علیہ السلام  کا مکتوب،مرقس کی انجیل، یوحنا کی انجیل مع مکاشفہ، مکاشفہ یوحنا اور نیا عہد نامہ کا بھی اردو  یا تب کی ہندوستانی کہلوانے والی زبان میں ترجمہ کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ تو یہ تھے بنیامین شلز کے کمالات ۔۔۔۔۔ لیکن ایک اور ڈینش مُستَشِرق ۔۔۔۔ اَوارس ابیل نے اردو زبان کی ایک لغت سنہ سترہ سو بیاسی میں ڈنمارک کی راجدھانی کوپن ہیگن ہی سے شائع کی ۔۔۔۔ اس طرح ڈنمارک ہی سے شائع ہونے والی اردو کی یہ  پہلی کتاب تھی ۔۔۔۔ اس فرہنگ میں اردو زبان کے ترپن الفاظ کے معنی کا گیارہ زبانوں میں مقابلہ کیا گیا ہے اور اردو کی گنتی بھی شامل ہے ۔۔۔۔۔۔۔تو صاحب یہ ہے ڈنمارک اور اردو زبان کا تعلق ۔۔۔۔۔ جو دو سو اناسی پرانا ہے اور ابھی حال ہی میں ، میری اہلیہ ہما نصر اور خود میں نے ۔۔۔۔۔۔۔ ایک جامع ڈینش اردو لغت شائع کر کے اِس تعلق گم گشتہ کو بحال کر دیا ہے ۔( چھ سو صفحات پر محیط اس ڈینش اردو لغت میں پندرہ ہزار سے زائد ڈینش الفاظ کے معنی اور اُن معنی کے مترادفات دئے گئے ہیں ) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   اور اب کچھ ذکر ناروے اور ڈنمارک میں اردو شاعری کے بارے میں ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔

محترم خواتین و  حضرات !  کانفرنس کے موضوع کے اعتبار سے اب میں اپنی گفتگو کا آغاز ڈنمارک و ناروے  میں مہجور شعراء کے حوالے سے کرتا ہوں ۔۔۔ اس کے بعد اِن ممالک میں اردو ادیبوں کی بات کریں گے ۔۔۔۔ ان ممالک میں اردو  ادیبوں کے مقابلے میں غزل  و نظم   لکھنے والے شاعروں کا حلقہ وسیع ہے ۔۔۔۔۔  اور شاعروں میں ایک قدر مشترک جو کھل کر دکھائی دیتی ہے ۔۔۔۔ وہ ہجرت کا موضوع ہے  جس  کا اظہار کم وبیش سبھی نے اپنی غزلوں ، نظموں میں کہا ہے  ۔ میری نگاہ میں یہ ایک فطری عمل ہے  ۔۔۔۔ انسان کہیں بھی چلا جائے اپنی جنم بھومی کو یاد کرتا ہے اور جب کسی اجنبی دیس، سماج اور ماحول میں جا بسے اور وہاں بھی اسے تنگ نظری کا سامنا ہو تو پھر  ذکر وطن ایک وظیفہ بن جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔  کم و بیش نصف صدی قبل ڈنمارک، ناروے اور سویڈن میں جا  کر آباد ہونے والے اردو شعراء  کی ابتدائی شاعری میں  تو یوں لگتا ہے کہ اپنی ہجرت،  نئے دیس، نئے ماحول، نئی زبان اور نئے سماج  کے طعنے  ان کا موضوع رہے ۔۔۔۔۔۔ لیکن اب ان کی شاعری میں مقامی رنگ اور  شدید برفانی ماحول کے مناظر دکھائی دیتے ہیں  اور یخ بستہ کر دینے والی ہواؤں کی آواز بھی سنائی دیتی ہے ۔ میں یہاں اِن شعرا کے  فن کی پختگی اور محاسن کا محاسبہ نہیں کروں گا  بلکہ صرف آپ احباب کو  اِن مہجور شعرا سے متعارف کرانے کی کوشش تک خود کو  محدود رکھوں گا ۔۔۔۔۔۔ ناروے کے بڑے  معتبر اور غزل کے جیّد شاعر  اور چار مجموعوں کے خالق، مسعود منور کے یہ شعر سماعت فرمائیے اور ہجرت کے پس منظر میں اُن کی کیفیت کا اندازہ لگائے جو صرف اُنہی کی نہیں وہاں رہنے والے سبھی ایشائیوں کے ابتدائی حالات کی نشاندھی کرتے ہیں :

بیسوا زادے نہ تھے، ہم پر ستم ڈھایا گیا  +++ اوسلو کے ہر کلب میں ہم کو نچوایا گیا

حوریانِ ناروے کے وصل کی قیمت نہ پوچھ +++ خاکروبوں میں ہمارا نام لگوایا گیا

یاد کر مسعود ؔوہ لاہور کی شہ زادیاں  +++ جن کے غمزوں کا قصیدہ عمر بھر گایا گیا

تو جناب ،  یہ محض اشعار نہیں یہ اُن حالات کی تلخیوں کی نشانیاںہیں جن کا اِن مہجور شاعروں کو سامنا کر پڑا ۔

ناروے کے جمشید مسرور ، جن  کے اردو و نارویجیئن زبانوں میں شاعری کے مجموعے شائع ہوئے ہیں ۔۔۔۔۔ غزل  ۔۔۔  لکھنے میں کمال رکھتے ہیں ۔۔۔۔ اُن کی شخصیت و ادبی کارناموں پر بعد میں بات ہوگی، پہلے ، ان کے چند ایک شعر آپ کی نذر ہیں:

روح پر اندھے خلا کے سائے برسائے گئے  +++  ہم ستاروں تک نظر کے ہاتھ پھیلائے گئے

زیست شرمندہ ہے اے جاں تیری یادوں سے مگر +++ فیصلے کچھ پاؤں کی ٹھوکر سے منوائے گئے

ناروے میں اپنے قیام کے دوران  مسعود ہاشمی کا یہ انداز اظہار ملاحظہ کیجیئے :

دولت کے بے شمار وسیلوں میں قید ہیں  +++ ہم لوگ دیدہ زیب  فصیلوں میں قید ہیں

فیصل ہاشمی جیسے  معتبر غزل گو شاعر نئے ماحول، نئی تہذیبی و ثقافتی دکھوں کا اظہار کچھ یوں کرتے ہیں :

نئی تہذیب، نئے شوق ، نئے رنج و الم  +++ ہم کو، اس شہر پہ جادو کا اثر لگتا ہے

اب آپ ذرا سمندروں میں گھرے،  ناروے کا تصویر کیجیے  ۔۔۔۔  آپ  کو فیصل ہاشمی کی آواز کچھ یوں سنائی دے گی:

کشتی کو سمندر سے محبت بھی بہت تھی +++لیکن اُسے ساحل کی ضرورت بھی بہت تھی

ٹھہرے ہوئے پانی میں تلاطم بھی بہت تھا  +++ سوئے ہوئے جذبوں میں حرارت بھی بہت تھی ۔

ناروے میں مشقِ سخن جاری رکھے ہوئے کئی اوربھی  شاعر و شاعرات ہیں لیکن میں اُن کا فرداً فرداً  نمونہ کلام پیش کرنے سے قاصر ہوں کہ مضمون طویل ہو جائے گا البتہ  خالد حسین تھتھال جو بنیادی طور پر پنجابی کے ادیب و شاعر ہیں اور رودو میں بھی شعر کہتے ہیں۔۔۔اُن کی ایک نظم کا ایک ٹکڑا پیش کرتا ہوں ۔۔۔۔۔ سماعت کیجیے :

          میری عاجزی، یہ انا میری / میرا صدق میرا ولولہ / وارفتگی یہ جنوں میرا /یہ پیار سے لبریز دل / جو انگ انگ میں ترنگ ہے/ یہ سب ترے ہی سنگ ہے ۔

سید حیدر حسین کا یہ انداز تکلم ملاحظہ  ہو :

چند یادیں بسی ہیں سینے میں +++ اور کیا رہ گیا ہے جینے میں

تھا سمند تو پر سکوں لیکن +++ ایک طوفان تھا سفینے میں

اور محترم سامعین ۔۔۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ ہم ناروے کے شعراء کو الوداع کہتے ہوئے ۔۔۔۔۔۔  ڈنمارک کے شعراء سے ملیں ۔۔ ناروے  کے متعلق مسعود ہاشمی کے تجربہ پر مبنی ایک قطعہ ضرور پیش کرنا چاہتا ہوں :

ناروے میں اور سب سامان ہے / روح کی بستی بڑی ویران ہے  ++ ہرکسی کا دل یہ کرتا ہے سوال/ ٹوٹ جانے کا کوئی امکان ہے ۔

تو سامعین محترم آئیے اب آپ کی ملاقات ڈنمارک کے شعراء سے کراتے ہیں ۔ڈنمارک میں بھی ناروے کی طرح نثر لکھنے والوں کے مقابلے میں شاعروں کی تعداد کہیں زیادہ ہے ۔۔۔۔۔۔  اقبال اختر، ادبی تنظیم، ’’اردو فورم کے سربراہ ہیں  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اُن کا نمونہ کلام حاضر ہے :

یہ ویرانی، یہ تنہائی کی شب، کیسے بسر ہوگی +++ کسی نازک بدن کے دل میں گھر کرنا ضروری ہے

یہاں نوائے مسرت صدائے نوحہ ہے +++ دیارِ غیر میں اختر  ؔ اُداس رہتا ہے

ہر اِک رُت میں نظر کے سامنے ہے اِک نیا منظر  +++ یہ منظر کس طرح دیکھے نظر ، فرصت نہیں ملتی

فواد کرامت جتنی ایک ہنس مکھ شخصیت ہیں ، شاعری کے اعتبار سے اتنے ہی سنجیدہ ہیں ۔۔۔۔ نئے موضوعات ۔۔۔۔  ملاحظہ کیجیئے:

نہ پوچھ آئے ہیں منزل کو چھوڑ کر کیوں کر +++ کہ نارسائی ادھر اس قدر ہے کیا کہیئے

کیا نئے زخم مرا کرب نکھاریں دیکھو +++ آج پھر وقت کے ہاتوں میں ہیں کچھ سنگ  نئے

کامران اقبال اعظم کا شعری مجموعہ ’’ اس کا وعدہ تھا کل شام ‘‘  شائع ہو چکا ہے ۔۔۔۔ اُن کے دو شعر:

انہیں پوچھو کہ کن حالات میں رکھا ہوا ہے +++خوشی نے بھی جنہیں صدمات میں رکھا ہوا ہے

جو پس منظر میں تھا وہ پیش منظر کی طرف ہے +++ نکل کے گھر سے بھی میرا سفر گھر کی طرف ہے

ابو طالب ،شہر تہذیب لکھنؤ سے تعلق رکھتے ہیں اور غزل گوئی میں یکتا ہیں ، دو شعر ان کے حاضر ہیں:

یوں بھی نئی زمین پہ ہم کو ملا ہے سچ +++جیسے ہر اِک کتاب میں  ہم نے پڑھا ہے جھوٹ

یہ ہم زباں ہیں جو میری زباں نہیں سمجھے +++ سہل سی بات بھی اُن کے لیےثقیل ہوئی

چھوٹی بلکہ بہت چھوٹی بحر میں لکھنے والے  صفدر علی آغا کا مجموعہ کلام ’’تیری باتیں‘‘ شائع ہو چکا ہے ۔۔۔۔ اسی سے دو شعر:

تھا اثاثہ جو اِک ثقافت کا  +++ لٹ گیا مال وہ غنیمت کا

ہے وحشت نئی نہ پرانی یہاں  +++  کہ لوگ اب سکوں سے بھی ڈرنے لگے

طاہر عدیل آسی اگرچہ نظم و غزل بھی لکھتے ہیں لیکن انہوں نے نعت گوئی میں شہرت پائی ہے ان کے دو شعری مجموعے ، ’’ شہر خواب سے آگے‘‘ اور  ذکرِ رسالت مآب ﷺ  شائع ہو چکے ہیں ہو چکے ہیں ۔ ظفر اعوان پنجابی و اردو دونوں زبانوں میں شاعری کرتے ہیں ۔۔۔۔  ان کا اردو مجموعہ ’’ آرزوئے سحر‘‘ بھی شایع ہو چکا ہے ۔۔۔۔۔ شعر گوئی کا  منفرد انداز لئے اور اپنے اظہار کا الگ رنگ رکھنے والے طاہر ؔعدیل کا شعری مجموعہ ’’ کوئی دوسرا نہیں ‘‘  شایع ہو چکا ہے اور اسے کافی پذیرائی حاصل ہوئی ہے ۔۔۔۔۔۔  عدیل طاہر ؔکے دو شعر :

دل و دماغ میں ہیں وہم اور گمان بہت +++ دکھائی دیتا نہیں جس کے ہیں نشان بہت

بدلتی جاتی ہیں اقدار جس طرح طاہرؔ  +++  میں سب یہ دیکھ سکوں، مجھ میں اتنی تاب کہاں

تو  صاحب یہ تھا کچھ ذکر ۔۔۔۔  شمال مغربی یورپ  کے ملک ناروے اور ڈنمارک میں غزلخوان شعراء کے متعلق ۔۔۔۔۔۔۔ اور اب کچھ ذکر اِن ممالک میں اردو زبان و ادب کی ترویج کے بارے میں ۔

سنہ انیس سو ستر کی دہائی میں روزگار کی خاظر یہاں پہنچنے والے پاکستانی و ہندوستانی تارکین وطن نے جب آہستہ آہستہ اپنے قدم جما لئے اور بال بچوں کو بھی یہاں بلوا لیا تو  سکولوں میں اپنے بچوں کو اردو زبان کی تعلیم کے لیے زور دینا شرع کیا اور پھر جہاں جہاں ایسے بچوں کی زیادہ تعداد تھی وہاں کے سکولوں میں پرائمری درجے تک اردو پڑھائے جانے کا بندوبست ہی نہیں باقاعدہ اساتذہ بھی مہیا کر دیئے گئے ۔۔۔۔ یہ سلسلہ کئی سال تک چلتا رہا اور پھر بلدیاتی بجٹ کٹوتیوں اور والدین کی عدم دلچسپی کی وجہ سے یہ سلسلہ بحال نہ رہا سکا لیکن یہ کمی چند ایک اسلامی دینی اداروں اور مساجد نے پوری کرنے کی کوشش کی جو بعض جگہوں پر اب بھی جاری ہے

 ۔۔۔۔ اسکینڈے نیویا کا سب سے پہلا اردو اخبار ’’صدائے پاکستان‘‘ ڈنمارک ہی سے میرے بھائی ظفر ملک نے انیس سو بہتہر میں جاری کیا اور میں خود پانچ سال تک اس کا مدیر رہا ۔۔۔ اس کے علاوہ ڈنمارک سے اردو کے کم و بیش اکتیس  پندرہ روزہ، یا ماہنامے وقتاً فوقتاً  شائع ہوتے رہے، لیکن اپنی اپنی دو تین اشاعتوں کے بعد ختم ہوتے گئے  ۔۔۔۔  ماہنامہ ’’ امن ‘‘ سردار شمشیر سنگھ شیر نے جاری کیا لیکن بمشکل ایک سال ہی مکمل کر سکا ۔۔۔۔۔۔ فی الوقت ماہنامہ وطن نیوز انٹرنیشنل ہی واحد رسالہ ہے جو پچھلے پچیس سال سے چوھدری امانت علی کی ادارت میں مسلسل شائع ہو رہا ہے ۔۔۔۔ ان کی تین کتابیں بھی شائع ہو چکی ہیں ۔۔۔ خود میری شاعری کی کتاب ’’قطبین ‘‘ انیس سو چھیاسی میں اور کہانیوں/ افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’ ہوئے مر کے ہم جو رسوا‘‘ انیس سو  ترانوے میں شایع ہوا ۔۔۔۔ ڈنمارک سے شائع ہونے والی پہلی کتابیں تھیں ۔ اس کے علاوہ  اور ڈینش و عالمی ادب کے تراجم پر مشتمل نو کتابیں اور بچوں کے لیے  عالمی ادب سے منتخب کہانیوں کے اردو تراجم پر مشتمل میری گیارہ کتابیں  شائع ہو چکی ہیں اور ڈینش مصنف ایچ ۔ سی اینڈرسن کی بچوں کے لیے کہانیوں کے اردو ترجمے پر مشتمل میری کتاب رائل لائبریری نے شائع کی ہے ۔ اور ابھی حال ہی میں ’’ اپنی لاڈلی ڈینش  بچی کے نام مہاتما گاندھی کے محبت نامے‘‘ کے عنوان سے میری ایک کتاب، انجمن ترقی اردو ہند  نے شائع کی ہے ۔۔۔۔۔۔جب کہ میں نے معروف ڈینش فلسفی ادیب و شاعر وِلّی سؤرنسن کی  ڈینش اساطیر کے پس منظر میں لکھے گئے ناول کا ترجمہ بعنوان ’’ دیوتاؤں کا زوال ‘‘ کیا ہے جو کہ ڈینش زبان سے اردو میں ترجمہ کیا غیا پہلا ناول ہے ۔ میرے چھوٹے بھائی اسد ملک نے تین ضخیم  ڈینش ناولوں کا ترجمہ ’’نیلاہٹ میں سفر، ۔۔۔جولائی کے دو دن۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔ ڈیوڈ کی کتاب ‘‘ کے نام سے کیا ہے ۔  ڈنمارک میں اردو کے نام پر کئی ایک تنظیم بنتی رہیں بکھرتی رہیں ۔۔۔۔ ان کا کام صرف مشاعروں کا انعقاد کرنا ہوتا تھا  ۔ فی الوقت تین تنظیمیں متحرک ہیں، اِن میں اپنی کارکردگی کے لحاظ سے ادبی و ثقافتی تنظیم ۔۔۔۔  ’’ بیلی ‘‘ کا پلّہ بھاری ہے ۔  ’’ کہانی گھر ‘‘ کے نام سےصائقہ رازی کی تنظیم  بچوں کو اردو زبان و ادب  کی جانب لانے کے لیے بہترین کردار ادا کر رہی ہے اور اسے والدین کا بھر پور تعاون حاصل ہے ۔ ڈنمارک میں اب تک جن شعرا ء کی کتابیں شائع ہو چکی ہیں، ان میں مجھ خاکسار سمیت  اقبال اختر، علی صفدر خان،  کامران اقبال اعظم، صفدر علی آغا،  طاہر عدیل، عدیل احمد آسی، ظفر اعوان،ترغیب بلند نقوی ، آنجہانی شمشیر سنگھ شیرؔوغیرہ شامل ہیں ۔۔۔۔ فواد کرامت اور ابو طالب ڈنمارک کے اردو شاعروں میں کئی اعتبار سے سرفہرست شمار ہوتے ہیں ۔ محترمہ  طاہرہ شمیم حسین کا ناول ’’جہنم کے اُس پار‘‘، اسلام ساقی کی کتاب، ’’ ساحل کے ساتھ ساتھ‘‘ اور  مرحوم مقبول بھٹی کی کتابیں، ’’ آئینۂ جہلم ‘‘ اور ’’منزلیں‘‘ بھی قابل ذکر ہیں ۔

  نوشین اقبالؔ  اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بڑی معتبر شاعرہ ہیں ۔۔۔۔شعراء تو اور بھی ہیں لیکن مضمون کہیں طویل نہ ہوجائے اس لئے اُنہیں نام با نام یاد کرنے سے معذور ہوں ۔ ڈنمارک ریڈیو نے سنہ انیس سو پچاسی میں دوسری پانچ غیر ملکی زبانوں کے ساتھ اردو نشریات کا آغاز بھی کیا ، جہاں میں پچیس سال تک بطور ایڈیٹر انچارج اور سیاسی مبصر کام کرتا رہا لیکن سنہ دو ہزار دس میں اردو سروس اور دوسری زبانوں کی نشریات  بجٹ کی کمی کی وجہ سے بند کر دی گئیں ۔۔۔۔۔۔ فی الوقت  ’’ ریڈیو آپ کی آواز‘‘ اور ’’ریڈیو ہموطن ‘‘ ایف ایم ریڈیو موجود ہیں ۔ ان کے علاوہ  بھی تین چار ریڈیو ایسے ہیں جو  اپنی ہفتہ وار نشریات جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ چاند شکلا ہدیہ بادی کا ؤن لائن ریڈیو ’’ سب رنگ ‘‘ بھی قابل ذکر ہے ۔ اردو زبان و ادب کے حوالے سے  پچھلے پندرہ سال سے میری اپنی ویب سائٹ اردو ہمعصر ڈاٹ ڈی کے، بھی قابل ملاحظہ ہے، یہاں روزانہ ڈینش خبریں دی جاتی ہیں اور نشر بھی کی جاتی ہیں ۔۔۔۔۔ مختصراً یہی کہا جا سکتا ہے کہ ڈنمارک میں ابھی تک تو اردو ہے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ، آثار بتاتے ہیں کہ  شاید یہ محض پاکستانی و ہندوستانی گھرانوں میں بول چال تک ہی رہ جائے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تو آئیے اب ڈنمارک کے پڑوسی ملک ناروے میں اردو زبان و ادب کے متعلق بات کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ناروے میں بھی اردو  زبان ۔۔۔۔  ۱۹۷۲ء میں پاکستانی و ہندستانی تارکین وطن کے طفیل پہنچی اور  اب تک وہی اس کی آبیاری کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔ لیکن ناروے میں اردو کی تخم کاری میں ، سعید انجم (مرحوم) آنجہانی ہرچرن چاولہ، سید مجاہد علی،  جمشید مسرور ، فیصل ہاشمی، انیس احمد ، فیصل نواز چوھدری  اور خالد تھتھال  بنیادی طور پر پنجابی کے شاعر و ادیب ہیں ۔ ان کے کئی مجموعے شائع ہوچکے ہں  ۔۔ اردو میں بھی ان کا قلم روان رہتا ہے ، ان سب احباب کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی ۔۔ ناروے میں اردو کے چھوٹے چھوٹے تشہیری پمفلٹ نما اردو اخبارات تو  پاکستانیوں کے کئی دھڑوں نے اپنے اپنے پروپیگنڈے کے لیے ناروے آتے ہی شایع کرنے شروع کر دئیے تھے لیکن  میاں زاید صوفی نے  ’’ آواز ‘‘ نام

سے پہلا اخبار جاری کیا جو  مسلسل شائع تو ہوتا رہا لیکن بعد میں  اسے قائم  نہ رکھ سکا اور بند ہو گیا ۔۔۔۔۔۔ اسی طرح جنوری انیس سو اسی تک کم و بیش  دس  بارہ پندرہ رسالے  شایع ہوتے رہے اور  ۔۔۔۔۔  معروف شاعر و ادیب و مترجم جمشید مسرور کا ماہنامہ  ۔۔۔ باز گشت ناروے کا پہلا اردو ادبی رسالہ تھا  جس کی  بازگشت اب تک سنائی دیتی ہے ۔۔۔۔۔ جمشید مسرور کی  اردو کے لیے خدمات  کا احاطہ کرنا اس مختصر سے مضمون میں ناممکن ہے،  انہوں نے جہاں بہت سے نارویجین شعراء و ادیبوں کی تخلیقات کو اردو میں ڈھالا ہے وہاں خود ان کی نظمیں نارویجیئن زبان میں متعدد’’ انتھیالوجیز ‘‘میں اور  ایک درسی کتاب میں بھی  شامل ہیں ۔ان کی خدمات کے صلہ میں حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی گولڈ میڈل سے نوازا ہے ان کی شاعری کے کئی مجموعے شایع ہو چکے ہیں اور کچھ نارویجیئن زبان میں بھی ترجمہ ہوئے ہیں ۔ سنہ انیس سو اسی سے اب تک بڑی باقاعدگی سے  شایع ہونے والا ماہنامہ کارواں تو سید مجاہد علی کی  اردو کے لیے خدمات کا ایک مجاہدانہ کارنامہ ہے ۔۔۔۔۔  کاروان اب کچھ عرصے سے آن لائین شائع ہوتا ہے ۔۔۔۔۔ سید مجاہد علی کی ایک کتاب ’’ میڈیا بر سرِ پیکار ‘‘  نے تو پاکستان کے میڈیا حلقوں میں ہلچل مچا رکھی ہے ۔ انیس احمد کے دو ناول  اور فیصل نواد چوھدری  کا ایک سفر نامہ اور کہانیوں کی کتابوں کے ساتھ ، ان کی یادوں پر مشتمل ایک ضخیم کتاب کا تو جواب ہی نہیں ۔ وہ نارویجیئن زبان میں بھی لکھتے ہیں۔۔۔۔۔ رسالوں میں معروف شاعر و ادیب اور محقق  مسعود منور کا ’’ بوتیکا ‘‘  منصور احمد کا ’’پیام مشرق‘‘ اور محترمہ مسرت افتخار حسین  کے ’’ کلچر ‘‘ کا ذکر بڑا اہم ہے ۔ ایشین کلچر اہنڈ آرٹس کونسل کے طاہر ڈار کا رسالہ ۔۔۔۔ روزن ۔۔۔ بھی بڑا منفرد تھا ۔  ۔۔۔۔۔ ناروے کے پرائمری سکولوں میں اردو کی تعلیم کا حال ڈنمارک سے مختلف نہیں، جس کا ذکر میں پہلے کرچکا ہوں ۔۔۔۔۔ اردو  سے گہرا شغف رکھنے والے رفیق چوھدری نے اردو برادری کی ایک بڑی مشکل اور نارویجیئن زبان کو سمجھنے کی راہ میں رکاوٹوں کو  دور کرنے کے لیے انیس سو اٹھہتر میں پہلی اردو نارویجیئن ڈکشنری شائع کی جس نے لسانی

اعتبارسے اردو برادری کے لیے نارویجیئن سماج میں داخل ہونے کی راہیں کھول دیں ۔ ۔۔۔۔۔ اوسلو کی مرکزی لائبریری میں  اردو کی کم سے کم  پندرہ بیس ہزار کتابیں موجود ہیں اور ملک کے بڑے بڑے شہروں کی لائبریروں میں  بے شمار اردوکتابیں  ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اوسلو یونیورسٹی کے شعبۂ علوم شرقیہ میں  اردو زبان بھی شامل ہے ۔   ۔۔۔۔۔ اور باقاعدہ پڑھائی جاتی ہے ۔۔۔۔ ناروے میں سید مجاہد علی نے اردو مشاعروں کی بنیاد رکھی اور پچھلے بیس تیس سالوں سے وہاں اردو مشاعرے منعقد کئے جارہے ہیں جن میں ہند و پاکستان کے نامور شعراء کو مدعو کیا جاتا ہے ۔ ناروے میں اردو کی ترویج کے لیے  پچھلے کچھ عرصہ سے کئی ایک ادبی و ثقافتی  انجمنیں بڑی متحرک میں  اور یوں کہا جا سکتا ہے کہ ناروے  میں اردو زبان و ادب مستقبل  میں بھی پھلتا پھولتا رہے گا  لیکن کب تک ۔۔۔۔۔ اس بارے میں  فی الوقت کچھ کہنا مشکل ہے  ۔۔۔۔۔۔  ۔۔۔۔  تو محترم سامعین و ناظرین یہ ہے  ۔۔۔۔ ڈنمارک و ناروے میں اردو زبان و ادب  کی صورت حال پر  ایک طائرانہ نظر کا ما حاصل ۔۔۔ جو میں نے  بڑے اختصار کے ساتھ آپ کی خدمت  میں پیش کیاہے ۔۔۔۔۔ لیکن یہ حتمی نہیں ۔۔۔۔ مضمون کی طوالت اور وقت کی کمی کے پیش نظر ۔۔۔  سویڈن میں اردو  کی صورت حال پر گفتگو کسی اور موقع پر ہوگی ۔۔۔۔۔ اب میں آپ سبھی سے اجازت لینے سے پہلے، اس کانفرنس کے منتظمین اور خصوصی طور پر،  پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین ، جو یورپ و مشرق وسطیٰ میں اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے  شب و روز کوشاں رہتے ہیں  اور ہم جیسے مہجوری ادب ، شعر و نثر تخلیق کرنے والوں کو متحرک رکھتے   ہیں ،  اور سچی بات تو یہ ہے کہ ان کی کاوشوں سے  مشرق وسطیٰ اور مغربی یورپ میں اب اردو ادب جدید انداز میں  ابھر رہا ہے ۔۔۔  جسے وہ  اردو کے مرکزی دھارے میں شامل کرنے کے لیے بھی متحرک ہیں ۔ میں ان کا بطور خاص شکریہ ادا کرتا ہوں کی مجھے اس کانفرنس میں شمولیت کا موقع ملا ۔۔۔۔  بیشک آن لائن ہی سہی  ۔۔۔۔۔۔۔  یار زندہ صحت باقی ۔۔۔۔ ۔   والسلام

Leave a Reply