You are currently viewing منافق

منافق

منافق

ذبیح ا للہ ذبیحؔ

  ریسرچ اسکالر،دہلی یونیورسٹی،دہلی

خدا نے اس کی زندگی میں مخلصین سے زیادہ منافقین کی فہرست طویل کر رکھی تھی۔خلوص، وضع داری، سبق آموز کہانیاں، رفیق، رقیب،نیکی، بدی، عشق اورمحبت ان سب الفاظ نے ہمیشہ اس کو اذیت میں رکھا۔خود اعتمادی کا سفرجب اس نے شروع کی تو زندگی شبنم کے قطرے کی مانند لگنے لگی۔دل کی آواز جب اس نے سنی توعشق کے مرض میں مبتلا ہو گیا۔جب اس راہ پرچل پڑاتو اسے آخرت سے زیادہ دنیا مشکل لگنے لگی۔ سگریٹ اور شراب نوشی کو اس نے زندگی تصور کر لیا۔گزشتہ دنوں خود کو اس نے شراب کی بوتل میں مقید کر دیاتھا۔ بچی کچی دھندلی یادوں کواس نے سگریٹ کے دھوئیں کے ساتھ اڑادیا۔ بس زندگی یوں ہی تمام سی ہو گئی اور وہ خاموش، غمگین کسی سنگین جرم میں مبتلاہو گیا۔ سوال ہے کون؟ کیوں؟ اور کیسے؟

کچھ سوالات کے جوابات بہت آسان اور سلجھے ہوئے ہوتے ہیں۔ لیکن غور کیا جائے تویہ مشکل لگتاہے دراصل الجھاؤ ہی اتنا ہوتا ہے کہ ان سوالات کے جوابات ڈھونڈنے والا انسان خودہی کہیں گم ہو کر رہ جاتا ہے۔ اور پھر ایک نئی کہانی وجود میں آتی ہے۔ایسی ہی کچھ کہانی کبیر اور انایا کی ہے۔تذبذب کا شکار یہ وہی کبیر ہے جو گزشتہ سال یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں تھا۔ کسی چھوٹے شہر سے جلد ہی منتقل ہوا تھا۔ زندگی سے بیزار تھا، اللہ کی نعمتوں کو عذاب تصور کرتا تھا، علم کا تجسس بہت تھا،با ادب اور حساس تھا، تخلیقی صلاحیت بھی اس میں موجود تھی، چھوٹوں سے شفقت اور بڑوں کا احترام اس کی تربیت میں تھا۔ مختلف شعبوں میں اس کی شناسائی تھی اور مختلف نوعیت کے لوگ اس کے دوست اوراحباب تھے۔لیکن پھر بھی وہ کبھی خوش نہیں رہتا ہر وقت اضطرابی کے عالم میں محو رہتا،کبھی اسے مستقبل کی فکر ہوتی تو کبھی ماضی کی تلخ یادوں کو سر پہ مسلط کر لیتا اورآئے دن ایک نئی پریشانی میں مبتلاہوتا۔ وہ جب دہلی آیا تو اسے ایسے لگا کہ جیسے دہلی کی زمین تنگ پڑ گئی ہو،آسمان سے آگ کے گولے برس رہے ہوں،آب و ہوا میں آلودگی اتنی تھی کی سانس لینا بھی اس کے لیے مشکل تھا۔یہاں کا آب و دانہ  مشکل سے ہضم ہوتاتھا۔جیسے تیسے زندگی بسر کر رہا تھا۔حساس اس قدر تھا کہ ہر ایرے غیرے کی باتوں سے متاثر ہو جاتاتھا۔خیر اس کے ادبی ذوق نے ان سب باتوں سے درکنار کردیا تھا۔اب وہ میری سمجھ سے بالاتر تھا۔دہلی کے حالات نے اسے جینا سیکھا دیا تھا۔ وہ اب دہلی کی اس فضا میں گھل مل سا گیا تھا۔آئے دن اپنے نئے دوستوں کے ساتھ برتھ ڈے پارٹی میں جاتا، کسی کے مضامین شائع ہونے کی خوشی میں ان کے ساتھ سیلیبریشن کر رہا ہوتا، کبھی کسی کی کتاب کے اجرے میں ملتا، کبھی افسانوی نشست میں ہوتا،تو کبھی وہیں قومی او ر بین الاقوامی سیمیناروں میں شرکت کرتا ہوا دیکھ جاتاتھا۔دوست واحباب بھی اس سے بہت محبت کرتے تھے۔ وہ بھی دوستوں پرجان چھڑکتاتھا۔اچانک سے اسے استاد محترم ڈاکٹر ثوبان سعید کا مقولہ یاد آیا کہ۔

”جب آپ کسی نئے شہر میں داخل ہوتے ہیں اور وہاں کچھ حالات ایسے پیش آتے ہیں کہ جیسے شہر نکال کے پھینک رہا ہو۔ وہیں جب آپ صبر و تحمل سے کام لیتے ہیں تو شہر ماں کے آغوش کی طرح آپ کی حفاظت کرتی ہے“

 جب ہی اس کے واٹس ایپ پر ایک میسیج آیااور یہ میسیج پاکستان سے آیا تھا۔ جس میں اس کے پہلے مضمون شائع ہونے کی خبر تھی۔وہ خوشی سے مچل اٹھا،پھر اس کی آنکھوں میں نمی،دبی آواز میں اس نے کہا! خدا تیرا شکر ہے۔ پھر اسے استاد محترم ڈاکٹر ثوبان سعید کا دوسرا مقولہ یاد آیا۔

”بیٹا ماں کے پیٹ سے کوئی کچھ سیکھ کر نہیں آتا‘‘ کچھ عرصہ کے بعد آئے دن اخبارات اور رسائل میں اس کے مضامین اور افسانے آنے لگے تھے اور اس کے علاوہ اس کی نمائندگی قومی اور بین الاقوامی سیمیناروں میں بھی ہونے لگی تھی۔ آخرکار اس کا خواب تکمیل کو پہنچ رہا تھا۔اب اس کی زندگی پہلے سے بہتر تھی،وہ خوش تھا۔خدا سے اسے اب کوئی شکایت نہ تھی۔ لیکن اب اس کے مخلص دوست اس سے خوش نہ تھے،ان کوشکایت تھی،وہ انہیں اب چالاک اور چالباز نظر آرہا تھا، تقریباً اس کے تمام دوست اس سے اب بد ظن ہونے لگے تھے۔ اور تو اور کل جو چھوٹا بھائی بول کردن رات خدمت کرایا کرتے تھے۔ آج تو بس اسے وہ اپنے حلقوں میں جونیئر تسلیم کرنے کی تبلیغ کر رہے تھے۔ اس کی عادت واطوار کا مذاق اڑا رہے تھے۔اس میں قصور کبیر کا کیا تھا؟ مجھے کبھی سمجھ نہیں آیا۔قصوراس کا شاید بس اتنا تھا کہ وہ سب سے محبت کرتا تھا،سب کے لیے مخلص تھا،دلوں جان سے سب کے ناز و نخرے اٹھاتا تھا، کبھی کسی خاتون کو غلط نگاہوں سے نہیں دیکھا،حد سے زیادہ شریف کردار بھی تھا۔وہ اب ان سینئرزسے شاید ذرا بہترہونے لگا تھا،اس سوچ و فکر میں کبیر کبھی نہیں پڑا بلکہ سینئرز نے خود اپنے ذہن میں یہ وہم پال رکھا تھا۔ان سب باتوں سے کبیر بیزار ہو رہا تھااور بد ظن بھی ہونے لگا تھا۔ شاید وہ اپنا ذہنی تواز ن کھونے لگا تھا۔ اس کے پیر تلے زمین جیسے کھسک رہی تھی۔ محبت بھرا ماحول خشک ہو رہا تھا۔اب اسے اپنے آپ سے نفرت سی ہونے لگی تھی۔

 اب کبیر ماضی میں پھر سیر و تفریح کر رہا تھا۔ جب بھی ماضی کے آئینے میں اسے انایا آپی نظر آئیں۔یہ انا یا آپی انہی سینئرز میں سے تھیں۔جو کبیر کے لیے پوری دنیا سے بہت مختلف تھیں۔ خوش اخلاق،خوش طبع،خوش وضع،خوش پوشاک،خوب رو،خو ب صورت، خدا کی طرف سے عمدہ نین ونقش،اعلیٰ درجے کی ذہین، با کمال شاعرہ، مضمون نگار، تبصرہ نگار، ادبی حلقوں میں منفرد شخصیت کی مالک،موضوع انتخابات میں خود مختار،خشک سے خشک موضوع پر قلم کی رفتار،تحریر میں سلاست و روانی،زبان دلچسپ،اسلوب تاثراتی،کسی بھی موضوع پر ان کے قلم کاانصاف پسند ہوناایسی کچھ شخصیت ہے انایاآپی کی جو محتاج تعارف نہیں ہے۔کبیر انایا آپی کو پہلی دفعہ نبیلہ آپی کے ذریعہ لائبریری کے باہر شام کی چائے پہ ملا تھا۔وہ اس وقت کسی کالج میں گیسٹ لکچرریا پھر ایڈہاک پر تھیں۔ان کے درس و تدریس کا کام شعبۂ اردو میں موضوع بحث تھا۔ہر کسی کی زبان پہ انایا کے نام کا ہی ورد تھا۔سب کی نگاہیں مشکوک تھیں کہ انایا کیسے؟عجیب اتفاق تھا کہ جس محفل میں بھی کبیر شامل ہوتا وہاں انایا کا تذکرہ ضرور ہو رہا ہوتا۔

ان کی ملازمت پر سوال؟ ان کی تحریروں پر سوال؟  ان کے کردار پر سوال؟ ان کے شائع شدہ مضامین پر زبردستی کا سرقے کا الزام، ان کی انداز گفتگو سے حسد، ان کے مخلصین پر انگلی،ان سب باتوں کا کبیر کے دماغ پر بہت اثرہورہا تھا۔جس کی وجہ سے وہ تذبذب کا شکار ہوگیا۔کبیر ان سبھی کرداروں سے انایا کا موازنہ بھی کرنے لگاتھا۔اب کوئی بھی اسے ایماندار نظرنہیں آرہا تھا۔ شعبۂ اردوکے ریسرچ اسکالرزلڑکے ہوں یا لڑکیاں جو ظاہری طورپربڑے پارسا بنتے تھے لیکن حقیقت سے کوسوں دور ان سب کی پارسائی تھی۔دراصل سب کے سب منافق لوگ تھے۔شعبہ میں سب دیندار بن کر آتے تھے،کوئی نماز پڑھتا تو کوئی کسی کو حدیث سناتااور رمضان میں تو افطار کی دعوتیں بھی ہوتیں،کچھ کچھ تحقیقی باتیں بھی ہوتیں تھیں۔کوئی صاحب موضوع کا انتخاب کرتے اور پھر کوئی صاحب عنوان دیتے۔

 مثلا کسی لڑکی کا ہی انتخاب کر لیا۔پھر تو اس کی خیر نہیں۔یہ معاملہ صرف افطار کا نہیں تھا بلکہ ہر روز کا۔مختلف اوقات میں مختلف جگہوں پر،کبھی چائے والی بھابھی کی دکان پر،تو کبھی ریسٹورینٹ میں، کبھی کبھی کسی ہاسٹل میں بھی اور خصوصی طور پر شعبۂ اردو تو سب کا مرکز تھا۔کبیر یہ سب سوچ رہا تھا جب ہی ساحل بھائی اور سمر بھائی کے ساتھ کچھ دوست بھی ہر بار کی طرح حاضر ہو گئے۔اور پھر شروع ہو گئے۔ارے سمر بھائی وہ دیکھو انم جارہی ہے۔

ساحل بھائی اس کی بات نہ کریں۔وہ بہت ٹیڑھی کھیر ہے۔ کبھی میں نے اسے کسی ایک شخص کے ساتھ نہیں دیکھا۔کبھی بدر کے ساتھ تو کبھی اس ہندی والے کنال کے ساتھ مٹک مٹک کے باتیں کرتی ہیں۔ سالی!  بس ایک بار چپیٹ میں آجائے پھر تو میں اس کی اکڑ نکال دوں گا۔

ارے سمر بھائی اتنا غصہ؟ لگتا ہے اس نے کبھی آپ کو گھاس نہیں ڈالا۔ذرا صبر رکھیں اور غصہ بچا کے رکھیں کام آئے گا نکالنے میں۔

ویسے ساحل!  تو تو مجھے نہ ہی سمجھاتو اچھا ہوگا۔ابھی کسی چھمیا کو دیکھے گاتو اور نکل لے گا۔کل رات تو کس کے ساتھ تھا اکیلے ہی تونے پورے مزہ مار لئے۔

سمر بھائی رہنے بھی دیں۔ اگلی بار مل کے مزہ کریں گے۔

دوسری طرف دانیا اور آسما بیٹھیں تھیں وہ بھی رومانوی باتیں کر رہیں تھیں۔

ارے دانیا! تیری رنگ بہت خوبصورت ہے۔کس نے دیا؟

چل ہٹ جا!کریدتی رہتی ہے۔

بتا نہ اسیی نے دیا کیا؟ جس کے ساتھ تو آج کل گھوم رہی ہے؟

نہیں رے۔اس نے نہیں دیا۔

پھر کس نے دیا؟

میر ی خالہ کا بیٹا۔ جو آج کل مجھ پہ مرتا ہے وہ ابھی پچھلے مہینے سعودی سے آیا ہے۔

اور اس کا کیا کرے گی؟  جس کے ساتھ تو لیو ان میں رہتی ہے۔وہ تجھے چھوڑے گا نہیں۔

ارے چل اس کے جیسے نہ جانے کتنے آئے اور گئے۔یہ بھی چلا جائے گا اوروں کی طرح۔

کبیر یہ ساری ورغل باتیں سن کر پھر سوچنے لگا۔

یہ وہ باوقار اور مہذب لوگ ہیں جوہمیشہ شباب میں ڈوبے ہوئے رہتے ہیں اور ڈوبتے جا رہے ہیں۔ان کے والدین ان کے اعمال جان لیں تو شرمسار ہو جائیں۔ان کاظاہر اور باطن دونوں ان کے سائے سے مختلف ہے۔ان کا خود کا دامن داغدار ہے۔اور دوسروں کوکریکٹر  سر ٹیفکیٹ بناتے ہیں اور اس کی تصدیق بھی کرتے ہیں۔یہ سب انایا آپی کے بھی دوست ہیں اور یہ کسی کے ساتھ ایماندار نہیں ہیں۔اورانایا آپی سے ایسے گلے ملتے ہیں کہ بس یہی لوگ تو مخلص ہیں باقی سب تو انایا آپی کے حاسدین ہیں۔خدا خیر کرے۔سب منافق لوگ ہیں۔یہ لوگ پی۔ایچ۔ڈی ادب میں نہیں بلکہ منافقت میں کر رہے ہیں۔ایک دفعہ بہت ہمت کرکے کبیر نے انایا آپی سے ان سب باتوں کا ذکرکیا۔اور پھر بہت حیرت انگیز واقعہ اس کے سامنے درپیش آیا۔انایا آپی نے جو کہاوہ سن کر کبیر دنگ رہ گیا۔اور پھرکبیر ایک دم خاموش ہو گیا اور سوچنے لگا کہ انا یا آپی کتنی اعلیٰ ظرف ہیں،کتنی سادہ مزاج ہیں،وہ کتنی پاک روح ہیں کہ کسی کے لیے ان کے دل میں حسد اوربغض نہیں ہے۔سب جانتے ہوئے بھی کون انجان بن کے رہتا ہے؟

ان کے دوست ان کے اوپر بہتان لگاتے ہیں اور وہ کہتی ہیں کہ اگنور کرو،کسی کے لیے دل میں بغض نہیں رکھتے۔ مثبت سوچو سب مثبت ہوگا۔جب ہی کبیر کو اپنا خیال آیا اور اس نے سوچا میرا کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے انایا آپی کے مسئلوں کے سامنے۔انایا آپی اتنی مثبت سوچ کی ہو سکتی ہیں تو میں کیوں نہیں؟ جب کہ ہمارے معاشرے میں عورتوں کو کمزور اور منفی سوچ کا مالک سمجھا جاتا ہے۔لیکن انایا آپی کے اتنے حاسدین کیوں ہیں؟ اوہ! ان کی خوبصورتی اور ایک خاتون ہو کر اتنی ترقی یافتہ۔اور پھر اسے اپنی ماں کاوہ مقولہ یاد آیاجو انہوں نے واحدہ آپی کے لیے کہا تھا:

”بیٹا لڑکیوں کی خوبصورتی ان کے لیے زحمت بن جاتی ہے۔بلوغت کے زمانے میں خوب صورتی داغ بن کر ابھرتی ہے۔زمانے والے تمہاری خواہش ظاہر کریں گے اور جب تم ان کی خواہشات کی تکمیل نہ کر سکوگی تو وہ تمہیں بد فعل اور بدکرداروں میں شمار کریں گے،بازاروں میں تمہاری عزت اچھالیں گے اور پورے زمانے میں تمہیں بدنام کریں گے۔“

شاید ایسی ہی کچھ کہانی انایا کی ہے سب اس کی خوب صورتی اوراس کی ترقی یافتہ زندگی سے حسد کرتے ہیں۔دنیا میں نہ جانیں ایسی کتنی انایا ہوتی ہوں گی۔جو لوگوں کے لیے انا کا مسئلہ بنتی ہوں گی۔اور نہ جانے کبیر جیسے بھی کتنے لوگ ہوتے ہوں گے جن کا دوستی اور رشتہ داری کے نام پر استحصال ہوتا ہوگا۔خیر پھر بھی کبیر اور انایا معاشرے کے لیے مثالی کردار ہیں۔اتنا سب ہونے کے بعد بھی وہ مسلسل اپنی زندگی میں آگے بڑھتے رہے۔میں نے آخری دفعہ کبیراور انایا کو سر سید ڈے پر دیکھا تھا۔ وہ دونوں اب کہاں ہیں پتہ نہیں۔خیر خدا ان دونوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے آمین۔

 Mobile: 9599207050

Email: zabeeh030@gmail.com

This Post Has One Comment

  1. sayed ikram

    ورلڈ اردو ایسو سی ایشن قابلِ مبارک باد کہ جس نے ریسرچ اسکالر ذبیح اللہ ذبیح کا افسانہ شائع کرکےاس نوجوان اسکالرکی کی حوصلہ افزائی کی

    فروغِ اردو زبان ایجوکیشنل انڈ سوشل ویلفئر ٹرسٹ ہاپوڑ کی جانب سے اس لائق تقلید اور قابلِ ستاش قدم کی مبارک باد پیش ہے

    دعا ہے کہ ورد ایسو سی ایشن روز افزوں ترقی کی راہ پر گامزن ہو اور اردو زبان کی ترقی اور فروغ میں اپنی خدمت سر انجام دیتا رہے

    شکریہ سید اکرام 9837577222

Leave a Reply