ہائیڈل برگ یونیورسٹی ، جرمنی میں اردو زبان وادب کی تدریس
محمد رکن الدین
جرمنی کا نام ذہن میں آتے ہی علامہ اقبال کا جرمنی میں قیام اور اقبال کی ذہنی کشادگی کے اوراق ذہن میں گردش کرنے لگتےہیں۔ علامہ اقبال نے اپنی زندگی کا اہم ترین وقت جرمنی میں گزار کر ذہن وفکر میں کشادگی پیدا کی۔ فکرو فلسفے میں تنوع اور خیال میں گیرائی اور گہرائی پیدا کی۔ میونخ یونیورسٹی ،میونخ ہمیشہ اردو ادب کے طالب علموں کے ذہن میں محفوظ ہے۔ میونخ یونیورسٹی، جرمنی سے علامہ اقبال نے فلسفے کی ڈگری حاصل کی۔ ہائیڈل برگ کو شہرِ اقبال ہونے کا شرف حاصل رہاہے۔ہائیڈل برگ میں ایک نہر ہے، اس نہر پر ایک پل ہے۔ اس پل کو’ اقبال اور اووفر نہر کا کنارہ ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ ہائیڈل برگ یونیورسٹی میں ایک اقبال چیئر کی پوسٹ ہے جہاںچند ممالک کے اردو اسکالر پوسٹ ڈاکٹریٹ کرنے جاتے ہیں۔ہائیڈل برگ یونیورسٹی اردو زبان وادب کے حوالے سے خصوصی شہرت کی حامل ہے۔شعبۂ ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ میں اردو زبان کے لیے مستقل لیکچررشپ ایک مدت سے قائم ہے۔اس یونیورسٹی میں خدمات انجام دینے والے اساتذہ میں ڈاکٹر کرسٹینا اوسٹر ہیلڈ، مجاہد حسین زیدی اور پروفیسر فتح محمد ملک قابل ذکرہیں۔ہائڈل برگ یونیورسٹی کا شعبۂ اردو بہت ہی فعال اور متحرک ہے۔ کرسٹینا اوسٹر بحیثیت سربراہ ، شعبۂ اردو ریٹائر ہوئی ہیں۔کرسٹینا اپنے وسیع تدریسی تجربے، اردوسے جرمنی میں تراجم اور تحقیقی وتنقیدی تصنیفات و مقالات کی وجہ سے پوری دنیا کی اردو آبادی میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں۔ان کی چند مطبوعہ تحقیقی کتابوں اور مقالات کی تفصیل کچھ یوں ہیں۔’ دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی آواز‘ (Voice From The Inner Courtyard)یعنی اردو کی ابتدائی خواتین شعرا کے حوالے سے تحقیقی وتنقیدی جائزہ۔’ نذیر احمد کے ناول ’’ابن الوقت‘‘ سے متعلق مشرقی و مغربی تہذیب کے تقابل اور تصادم پر جرمنی زبان میں شائع شدہ مقالہ‘۔’ قرۃ العین حیدر ، عبد الصمد اور الطاف فاطمہ کے ناولوں کی روشنی میں مسلمانوں کے مسائل کا جائزہ‘‘، یہ مقالہ بھی جرمنی زبان میں شائع ہوچکا ہے۔کرسٹینا کا پر مغز مقالہ ’’ نذیر احمد اور اردو ناول‘‘’ دراسات اردو ‘ کے شمارہ نمبر 14سن 2001میں شائع ہوچکا ہے۔محمد عمر میمن کا معروف جریدہ’’ دراسات اردو ‘‘ میں قیصر تمکین کی ایک کہانی ’ایک کہانی گنگا جمنی‘ کا انگریزی ترجمہ شائع ہوا تو کرسٹینا نے اس پر انگریزی میں تجزیاتی مقالہ بعنوان”Deconstruction a Deconstructionist”تحریر کیا۔ علاوہ ازیں انھوں نے کلاسیکی اور جدید اردو شعرا وادبا مثلاً قلی قطب شاہ ، ملاوجہی ، ولی دکنی، سودا، غالب، نذیر احمد، شرر، سرشار،سرسید، منٹو،بیدی ، عصمت چغتائی، رشید جہاں، قرۃ العین حیدر، ندیم ، فیض، راشد، میراجی اور انتظار حسین کی تخلیقی کائنات پر جامع اور بھرپور مضامین قلم بند کیے ہیں جو برصغیر کے ممتاز ادبی رسائل وجرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں۔جناب مجاہد حسین زیدی ہائڈل برگ میں تقریباً پچیس سال تک اردو زبان وادب پڑھاتے رہے، ان کا ایک اہم اور معروف کام ’ جرمنی میں اردو مخطوطات‘ ہے۔یہ جرمنی میں پائے جانے والے اردو زبان کے مخطوطات کا کیٹلاگ ہے جسے مجاہدحسین زیدی نے مرتب کیا ہے۔اس مخطوطات سے متعلق یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ وہی مخطوطات ہیں جو انیسویں صدی کے ممتاز مستشرق شپرینگر کے توسط سے جرمنی پہنچے تھے۔مجاہد حسین زیدی کا یہ کارنامہ ہمیشہ یاد کیا جائے گا۔ ان کی سبکدوشی کے بعد کرسٹینا نے شعبۂ اردو کی باگ وڈور سنبھالی تھیں۔ان کے علاوہ ڈاکٹر محمد اجمل، ڈاکٹر صدیق شبلی، ڈاکٹر حسن عسکری رضوی اور ڈاکٹر فتح محمد ملک وغیرہ بھی ہائیڈل یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف ساؤتھ ایشیا سے بطور استاد وابستہ رہے ہیں۔
ہائیڈل برگ یونیورسٹی میں’ قائد اعظم چیئر‘کاقیام اردو زبان کے لیے نیک فال ثابت ہوا۔ اس چیئر کے سربراہ کی حیثیت سے پروفیسر فتح محمد ملک ہائیڈل یونیورسٹی سے وابستہ رہے ہیں۔ ان کی مدت کار 1984سے 1988اور 1992سے 1996تک رہی۔فتح محمد ملک اردو دنیا میں قد رکی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔موصوف ایک ممتاز محقق، نامور دانشور اور روشن خیال اسکالر کی حیثیت سے ایک وسیع حلقے میں احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ ملک صاحب کافی دنوں تک مقتدرہ قومی زبان کے سربراہ بھی رہے ہیں۔علامہ اقبال ان کا خاص میدان ہے۔ جرمنی میں قیام کے دوران انھوں نے دو تحقیقی وتنقیدی کتابیں تحریر کیں ان میں ’’ اقبال، فکرو عمل‘‘ اور فیض ، شاعرو سیاست‘ ‘ شامل ہیں۔ان کے علاوہ موصوف کی دیگر اردو اور انگریزی میں قابل قدر تصنیفات موجود ہیں۔ جن میں ’ اقبال اور افغانستان، تعصباب، انداز نظر، تحسین ونظر، احمد ندیم قاسمیـ: شاعر اور افسانہ نگار اور اپنی آگ کی تلاش ‘‘ قابل ذکر ہیں۔
ہائیڈل برگ یونیورسٹی کے شعبۂ لسانیات کے تحت ہونے والے چند تحقیقی مواد کی تفصیل کچھ یوں ہے۔’ اردو اصوات اور طرز تحریر‘ عنوان پر تحقیقی کام کی پہلی جلد 1966میں شائع ہوئی تھی۔1981میں ایک سکالر فریڈریشن روزن نے ’امانت کی اندر سبھا‘کا جرمن زبان میں ترجمہ کرکے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی تھی۔ہوبرٹ جانسن نے 1983میں ’ اردو میں فن شاعری‘ کے موضوع پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری لی تھی۔ معروف مستشرق محترمہ ارسلا روتھن نے ’ امراؤ جان‘ کا ترجمہ کر کے ایم اے کی ڈگری حاصل کی تھی۔ڈاکٹر انور نے ’ اردو اور جرمن فقروں کی بناوٹ کا موازنہ‘ کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی تھی۔
ڈاکٹر الرک سٹارک جرمن نژاد ہیں اور اپنا تعارف ہندی اسکالر کے طور پر کراتی ہیں۔لیکن اردو زبان بہت پھراٹے سے بولتی ہیں۔ہائیڈل برگ یونیورسٹی کے سارک ایشیا انسٹی ٹیوٹ میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔1984تا1989یونیورسٹی آف بون (جرمنی)میں فرانسیسی زبان کی تاریخی اور تقابلی مطالعہ کے ساتھ ثانوی مضمون کی حیثیت سے ہندوستانی زبانوں میں ایم اے کی سند حاصل کی۔ 1990تا 1994کے دوران انھوں نے مسلمان ناول نگاروں کے ہندی ناولوں میں تہذیب و شناخت کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ہائیڈل برگ یونیورسٹی میں اردو زبان وادب کی یہ مختصرروداد ہے۔ ہائیڈل برگ یونیورسٹی کا اردو شعبہ ایک ایسی شخصیت کا منتظرہے جو اس یونیورسٹی کی شاندارماضی کی روایت کو یوں ہی برقرار رکھے۔
متشکرم ❤️❤️❤️
معلم خصوصی