You are currently viewing اردو زبان و ادب کا نیا گہوار ہ : جامعہ ازہر ، قاہرہ 

اردو زبان و ادب کا نیا گہوار ہ : جامعہ ازہر ، قاہرہ 

ردو زبان و ادب کا نیا گہوار ہ : جامعہ ازہر ، قاہرہ

پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین 

  اردو  کی  نئی بستیوں  کا جب بھی ذکر آتا ہے اکثر ہم   یوروپ و امریکہ سے  اس کی ابتدا کرتے ہیں اور اسی پر بات ختم بھی ہوتی  ہے۔یہ  سچ ہےکہ اردو کی دیگر بستیوں سے پہلے یوروپ وامریکہ میں اردو پہنچی اور یہاں کے ادیب وشاعر یقیناً قابل مبارکباد ہیں جو اردو زبان و تہذیب کو زندہ و تابندہ رکھے ہوئے ہیں  لیکن   اس کے علاوہ بھی اردو کی کئی اہم بستیاں ہیں جن تک ہماری رسائی کم ہوئی ہے اور ان کو اس طرح نہیں سراہا گیا جتنا کہ وہ مستحق  ہیں ۔ان  بستیوں میں مصر سر فہرست ہے  جہاں اردو کی تعلیم و تدریس اور تصنیف و تالیف کا کام بڑے پیمانے پر ہورہا ہے ۔ ایسا لگتا ہے ہم اردو والوں نے یہاں کے ادیبوں  اور اساتذہ کی خدمات کو  نظر انداز کیا ہے ۔ میں یہ نہیں کہتا کہ دانستہ ایسا ہوا ہے شاید  روابط کی کمی کے سبب اردو دنیا میں بالخصوص مصر کو متعارف کرانے میں ہم اردو والوں سے  کوتاہی ضرور ہوئی ہے۔

مصر   اگر چہ افریقہ بر اعظم کا حصہ ہے لیکن یہاں کی تہذیب  پورے طور پر عربی تہذیب ہے، بلکہ اس کی تہذیب خود اپنے آپ میں مایہ ناز ہے ۔عربی زبان کا ملک ہونے کے باوصف اس ملک نے دیگر مشرقی زبانوں کے ساتھ ساتھ اردو کی آبیاری میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔کالج سے یونیورسٹی کی سطح تک اردو کی تدریس  اور ریسرچ  کے حوالے سے مصر کے اہل اردو کابڑا کام ہے ۔ انھوں نے اردو زبان کی تعلیم کے ذریعے بر صغیر سے تہذیبی روابط کو بحال کرنے میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں ۔

کہاجاتا  ہے کہ اردو   ، عربی کے بعددنیا کی    دوسری بڑی زبان ہے جس نے تہذیبی و ثقافتی اعتبار سے دنیا کے طو ل و عرض کا سفر کیا ہے ۔ یعنی تہذیبی ہجرت کے لحاظ سے اردو  دنیا کی دوسری بڑی زبان ہے ۔ یہ اردو والوں کے لیے باعث فخر ہے ۔ لیکن اس فخر و مباہات کاذکر  اب تک ہم اس  تزک و احتشام سے نہیں کر پائے ہیں جتنا کہ ہونا چاہیے تھا۔شاید اس معاملے میں خود ہم  اپنی دور افتادہ تہذیبی وراثتوں سے یا تو واقف نہیں ہیں یا مزید تلاش و جستجو کی کوشش نہیں کرتے  ۔ ورنہ   اردو کے تلاطم خیز سمندر، اس کی موجوں کی طغیانی اور اس کی تہوں میں ابھی بھی بہت سے دُرِنایاب موجود ہیں ۔

          ان بستیوں میں مصر  کی سر زمین بھی ہے جس  نے اردو کے گیسو کو سنوارنے،سجانے اورنکھارنے میں قابل قدر خدمات انجام دی ہے۔ لیکن اردو کی بستیوں کےذکر میں ہم    مصر کو وہ مقام نہیں  دے سکے جس کا وہ مستحق ہے۔مصر میں اردو کے طلبہ واساتذہ کی تعداد کو دیکھیں یا  اردو  تصنیف و تالیف کو دیکھیں تو خوشی ہوتی ہے کہ اتنی بڑی  تعداد میں اساتذہ، طلبہ وطالبات اردو کی تعلیم و تدریس  میں مصروف عمل ہیں ۔ کالج سے یونیورسٹی کی سطح تک اور پی۔ایچ ڈی کی سند کے حصول تک کا سفر اردو  کے لیے فال نیک ہے ۔ مصر میں فی الوقت طلبہ و طالبات اور اساتذہ کی تعداد سیکڑوں میں ہے ۔جن یونیورسٹیز  میں ارود کی تعلیم کا باضابطہ نظم ہے ان میں ازہر یونیورسٹی   کے دو شعبے (لڑکیوں اور لڑکوں کے لیے الگ الگ)عین شمس یونیورسٹی ، قاہرہ یونیورسٹی ، اسکندریہ یونیورسٹی، طنطایونیورسٹی اور منصورہ یونیورسٹی کے نام قابل ذکر ہیں۔ازہر یونیورسٹی کا شعبہ ٔ اردو برائے خواتین اور ازہر یونیورسٹی کا  لڑکوں کے لیے شعبۂ  اردو  ، عین شمس یونیورسٹی اور قاہرہ یونیورسٹی میں   سنجیدہ موضوعات پرتحقیقی مقالے بھی لکھے جارہے ہیں ۔

          مصر میں اردو کی تاریخ کی ایک صدی بھی ابھی مکمل نہیں ہوئی ہے لیکن اس کےکارنامے حروف زریں سے لکھے جانے کے قابل ہیں ۔ہمارے محترم دوست ڈاکٹر پروفیسر یوسف عامر ، وائس چانسلر ازہر یونیورسٹی جو بنیادی طور پر اردو کے پروفیسر ہیں ،سے اس سلسلے میں ہماری اکثر گفتگو ہوئی ہے انھوں نے مجھے مصر میں اردو کی تاریخ کے حوالے سے چند اہم موڑ کی نشاندہی کی اسی کے ساتھ   ڈاکٹر پروفیسر  ابراہیم محمد ابراہیم   ، ڈاکٹر احمد القاضی اور ڈاکٹر جلال السعید الحفناوی کے مضامین سے مصر میں اردو زبان کی نشو ونما اور ارتقا کا علم ہوا۔ ابھی میرے سامنے ڈاکٹر ابراہیم کا مضمون ہے جو عربی زبان میں ہے ۔ میں نے اپنے مصری شاگرد مصطفیٰ علاءالدین کی مدد سے اسے سمجھنے کی کوشش کی ہے ۔ ڈاکٹر ابرہیم کا یہ مضمون کافی طویل اور مفید مطلب ہے لیکن کچھ اقتباسات کا مفہوم اس طرح ہے  ’’ سنہ1930ء میں بڑی تعداد میں ہندوپاک کے لوگ مصر تشریف لائے۔ یہ لوگ اردو  زبان اچھی  طرح  سمجھتے اور بولتے تھے۔ اور ان میں ہندوستانی ابو سعید العربی کا نام قابل ذکر ہے، جنھوں نے پہلی بار اردو زبان کا رسالہ (جہان اسلامی) کے نام سے قاہرہ سے شائع کیا ۔ اسی سال 1930ء میں ایک ہفتہ واری اخبار نکلا جس کےمدیر محمود احمد عرفانی تھے ۔ اس اخبار کے اجراء میں ان کے بھائی محمد ابراھیم علی عرفانی نے بھی مکمل تعاون دیا اور ان کی حوصلہ افزائی کی۔اردو زبان کی تدریس مصری یونیورسٹیوں ،تعلیمی اداروں میں پچھلےاسی(80) سال سے چل رہی ہے ۔ مصری حکومت نے مشرقی زبانوں کی تعلیم وتدریس پر بیسویں صدی کے نصف اول ہی سے توجہ دینی شروع کر دی تھی تدریس کے سلسلے کا آغاز سنہ1939ء میں قاہرہ یونیورسٹی کے معہد اللغات الشرقیہ (اورینٹل لینگویج انسٹی ٹیوٹ)میں ہوا۔ جولائی سنہ1952ء کے بعد مصری حکومت نے اردو زبان میں ریڈیونشریات کا آغاز کیا تاکہ اس کے ذریعہ ہندوپاک کے ساتھ مصر کے دوستانہ تعلقات استوار رہیں۔ یہ پروگرام شام 6 بجے سے 8 بجے تک قاہرہ کے وقت کے مطابق ” ریڈیو قاہرہ “سے نشر کیا جاتا ہے۔‘‘( پروفیسر ابرہیم محمد ابراہیم کے مضمون سے ماخوذ)

Leave a Reply