You are currently viewing ماں کا حق

ماں کا حق

محمودہ قریشی ، آگرہ 

ماں کا حق

ارما نفیسن  بیگم کا ایک ہی بیٹا ہے- جس کو نفیسن بیگم بہت محبت کرتی ہیں چونکہ تین بیٹیوں کے بعد ایک بیٹے کا منھ دیکھا ہے – ہو بھی کیو ں نہ وہ ہی اکیلا ان کے بڑھا پے کا سہارا ہے  -بچپن سے ہی نفیسن بیگم کی خواہش رہی  ہے کہ وہ اس کے لئے خوبصورت سی دلہن اور اپنے لئے بہو تلاش کر لائے- اور وہ دن بھی بہت جلد ا ہی گیا چو نکہ ارمان کو دیکھنے کے لئے اج لڑکی والے ا رہے ہیں- نفیسن بیگم کی خوشی کا کچھ ٹھکانا نہیں ہے- جیسے ہی دروازے پر پہلی دستک ہوتی ہے وہ اپنے بوڑھے پیروں سے دوڑی چلی جاتی ہیں – دروازہ کھول کر ارمان کو دیکھ کراس کی پیشانی چومتی ہیں-  اسے اندر لے کر اتی ہیں ارمان بھی چھوٹے بچچے کے مانند اپنی اممی کی گودی میں سر رکھ کر ان سے باتیں کرنے لگتا ہے -کہتا ہے اممی …..اپ کا بیٹا ان لوگوں کو پسند تو اجائے گا چونکہ وہ ٹہرے امیر لوگ ،،ماں بیٹے اپنی گفتگو میں مصروف تھے کہ دروازے پرپھر دستک ہوتی ہے – چھوٹی بانو  نے دروازہ کھولا اور اممی کو پکارتی ہے -اممی  مہمان اپ کو بلا رہے ہیں-  اس طرح دونوں طرف سے دیکھنا دیکھانا ہو کر   دونوں طرف سے رضا مندی  ہو جاتی ہے- ان لوگوں کو ارمان بہت پسند اتا ہے  اس طرح تاریخ مقرر ہو کر ارمان کا نکاح بھی ہو جاتا ہے- اور نفیسن بیگم بیٹے کی دلہن کو گھر میں لا کر پھولی نہیں سماتی, ان کی خوشی کا کچھ ٹھکانا نہیں رہتا- چونکہ ان کی بہت بڑی مراد جو پوری ہوئی تھی-  دلہن کوبس ایک ٹک جمائے دیکھتی جاتی ہیں-  دلہن کو چارپائی سے پاؤں نیچے تک نہیں اتارنے دیتی- دلہن کو ذرا بھی تکلیف ہو ان گوارہ نہیں,  گھر کے سارے کاروبار اپنے بوڑھے ہاتھوں سے انجام دیتی  ہیں-  اس طرح وقت گزرتا جاتا ہے اور چار پانچ مہینوں باد نفیسن بیگم کو یہ احساس ہوتا ہے کہ ان کا بیٹا بدلتا جا رہا ہے- جو بیٹا اپنی اممی سے مشورہ کیے بغیر کچھ کام نہیں کرتا تھا اج وہی اپنی دلہن کے لئے اپنی اممی سے حجت کرنےپرامدہ ہے اور ان سے یہاں تک کہہ دیتا ہے “”اپ کی تو بڑھا پے کی وجہ سے عقل خراب ہو گئ ہے ٬”اب نفیسن بیگم کو صرف احساس ہی نہیں بلکہ پورا یقین ہو گیا تھا کہ  یہ سب ان کی اس نئی نویلی دلہن کا نتیجہ ہے- جس کی اؤ بھگت میں وہ اپنی پرواہ نہیں کر تی اور جیسا کہ معشر ے کے حالات ہیں یہ سب باتیں نفیسن بیگم کے گھر کی روز کی کہانی بن جاتی ہیں کبھی خود ان کا اپنے جگر کا ٹکڑا تو کبھی ان کی حسین بہو جس کو لانے کے لئے نفیسن بیگم نے خواب سجائے تھے- اج وہی بہو ان سے منھ در منھ زبان لڑاتی ہے  افت اس دن ٹوٹتی ہے جس دن نفیسن بیگم کے بھوڑے ہاتھوں. سے کام کرتے ہوے بہو کا ریفیجریٹر خراب ہو جاتا ہے- یا یو ہی اس نے برف جمانا ختم کر دیا تھا ارمان کی وہ ہی دلہن ان پر اس طرح اگ ببولہ ہو جاتی ہے  ٬اس روز گھر میں قیامت برپا ہو جاتی ہے- اور صرف اتنا ہی نہیں نفیسن بیگم پر ہاتھ اٹھانے میں ذرا بھی تردد نہیں کر تی- پھر بھی نفیسن بیگم کو اتنا افسوس بہو کا نہیں ہو  رہا تھاجتنا پاس کھڑے ارمان کا ہو رہا تھا جو اپنی دلہن  کے اس رویے  پر ذرا بھی حرکت نہیں کر رہا تھا- وہ یہ تک کہنا ضروری نہیں سمجھتا کہ تم میری اممی سے کس طرح بات کر رہی ہو-  بوڑھی انکھوں میں اندھیراچھا جاتا ہے ایسا لگتا ہے جیسے ان کے پیروں کی زمیں نکل گئی ہو اور ان کو دل کا صدمہ پہنچتا ہے ۔.

کچھ دن بعد جب نفیسن بیگم کی طبیعت میں کچھ فرق ہوا٬ تو ارمان اپنی اممی کے پاس اتا ہے – ان سے کہتا ہے٬ اممی٬٬٬٬ یہاں کب تک یو ہی چارپائی پر بیٹھی رہے نگی کچھ اپنی بہو کا کا م وغیرہ میں ہاتھ بٹائے اور ہاں اپ کی بہو کی کچھ طبیعت علیل سی ہے اس کا خیال رکیھے گا-  نفیسن بیگم بیٹے کے منھ سے یہ الفاظ سن کر بے پناہ رونے لگتی ہیں -وہ بیٹا جو کہ  ان کو ہر خوشی دینا چہتا تھا٬ اج وہی ماں کو اپنی بہو کی نوکرانی بنا کر رکھنا چہتا ہے-بوڑھی ماں کی اس کی نظروں میں کوئی قیمت نہیں؟   ۔ بیٹے کی ان باتوں سے نفیسن بیگم کو بہت صدمہ پہنچتا ہے- ان کو سخت افسوس ہو رہا تھا ٬کہ یہ ان کا وہی ننھا سا ارمان ہے جس کو وہ بے پناہ  محبت کرتی تھی – وہ بھی ان سے اتنی ہی محبت کرتا تھا پر اج نہ جانے وہ محبت وہ خلوص کہاں چلا گیا ہے ؟کہاں کھو گیا ہے ؟.  اور نفیسن بیگم بس اس صدمہ میں زندگی گزارنے لگتی ہیں- بڑھا پے میں جب کہ ماں باپ کو اپنی اولاد کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے اس وقت
بچچے اپنے ما ں باپ کا ساتھ چھوڑ کر چلے جاتے ہیں اور اپنی زندگی میں مگن رہنا چہاتے ہیں ۔ان کو پیچھے گزاری  ہوئی زندگی سے کچھ مطلب نہیں ہوتا
ذرا سوچے اگر کسی بچچے کے ماں باپ بچپن میں ہی فوت ہو جائے یا اسے چھوڑ کر چلے جاتے ہیں تو اولاد کو کس قدر پریشانیوں کا سامنا کرنا ہوتا ہے وہ ہو سکتا ہے غلط راستہ پر بھی جا سکتی ہے٬ اور ان کو کس قدر اپنے و الدین کی یاد ستاتی ہے٬ کہ اگر ہمارے بھی و الدین ہوتے تو اج ہم جہاں ہیں شائد وہاں نہ ہو تے- ہمارے ماں باپ ہوتے تو  ہم یہ کرتے٬ ہم وہ کرتے ٬ لکین ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ اتنا ہی غم و الدین کو بھی تو ہوتا ہو گا؟ جب ان کو ان کی اولاد  چھوڑ کر جاتی ہے- یا خود ان کو ہی ان کے گھر سے نکال دیتی ہے

 اج یہ درد صرف نفیسن بیگم کا ہی نہیں بلکہ ہر اس ماں کا ہے- جو اپنی بہو لانے کے لئے خوب بنتی ہے-  کیا قصور ہے اس ماں کا،؟کیا گناہ ہے ؟کیا بیٹے کے لئے دلہن لانا  ہی اس کا سب سے بڑا گناہ بن جا تا ہے ؟.
ہم اج کل کے بچچے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ماں باپ کے ساتھ اس طرح کا سلوک کر ہم کون سی دنیا بنا رہے ہیں ؟کیا اگے انے والی زندگی ہی سب کچھ ہے٬ پیچھے گزاری ہوئی زندگی سے کچھ مطلب نہیں، ان ماں باپ نے ہمارے لئے کتنی مشکلیں برداشت کی ہیں اور ہمیں اس قابل بنایا ہے کہ ہم میں زندگی گزارنے کا شعور ا جائے کیا اج ہی کے دن کے لئے انہونے اپنی راتوں کی نیند کھوئی ہے ؟ اور دونوں کاچین کھویا ہے؟کیوں ہم چھوٹی چھوٹی چیزوں سے ماں کو طولتے ہیں- جس ماں نے ہمیں پیدا کیا ٬ ہمارے لئے راہ روشن کی اس کے ساتھ ایسا برتاؤ ، ان کے لئےاس طرح کا ذہن رکھتے ہیں، اس ماں کے لئے  “”(کیا اس کا کوئی حق نہیں”””,,,),,,؟اس کے لئے ہمارا کوئی فرض نہیں ؟پیچھے گزارے ہوئے لمحوں کا کوئی احساس نہیں؟.

“””حسرت ان گنچوں پہ ہے جو “ماں،،کو مرجھا دیں      ٬٬٬٬٬
محمودہ قریشی اگرہ  یو ۔پی  انڈیاسے)

 

 

Leave a Reply