You are currently viewing آدمی اکیلا ہے

آدمی اکیلا ہے

فریحہ باجوہ 

سیال کوٹ ، پاکستان 

     نظم ۔۔۔۔۔۔آدمی اکیلا ہے

خواہشوں کا میلا ہے

آدمی اکیلا  ہے

زندگی کی راہوں میں

دور تک نگاہوں میں

بات ہے جوانی کی

زندگی سہانی کی

دیکھ شادیانے ہیں

محفلیں ہیں گانے ہیں

کوئی کھیل سمجھا ہے

کوئی جیل بیٹھا ہے

کرب ہے مصیبت ہے

سانس ہی اذیت ہے

سب کو میں نے جانا ہے

ہر کوئی یہ مانا ہے

آدمی اکیلا ہے

گرچہ ایک میلا ہے۔

****

نظم ۔۔۔۔۔زندگی آ مرے ساتھ چل

زندگی مرے ہاتھوں میں ہاتھوں کو دے زندگی

چل مرے ساتھ باغوں میں چل

وادیوں میں مرے ساتھ لہرا کے چل

مجھ کو آواز دے

پربتوں پہ مرے ساتھ جگجیت کی

دل نشیں موہنی لے میں غزلیں سنا

ساحلوں پہ میرے ساتھ دوڑیں لگا

پانیوں پہ مرے ساتھ چل

ریت کے گھر بنا

میرے ہاتھوں میں ہاتھوں کو دے زندگی

مجھ کو مجھ سے ملا

زندگی آ مرے ساتھ چل

*****

غزل

ہر خرابے نے مری خوب پزیرائی کی

دیکھ حالت تو ذرا اپنے تمنائی کی

جس طرح بھی کٹے کٹ کہ ہی بس رہتی ہے

زندگی تو نہیں محتاج مسیحائی کی

آج آنکھ بھی ملانے سے گریزاں ہے وہ

کل تلک بزم میں تھی جس نے پزیرائی کی

آنکھ روتی ہے مجھے اور جگر کوستا ہے

دل نے ظالم سے بھلا کیوں تھی شناسائی کی

****

غزل

فلک پہ چاند جوں تاروں کے درمیان میں ہے

اسی طرح اک شخص داستان میں ہے

چوٹ بھی دیتا ہے مرہم بھی لگاتا ہے

خوبی یہ ایک میرے مہربان میں ہے

ڈوبنا ہے روز تو ابھرتا ہے کس لیے

میری طرح سے یہ بھی کسی امتحان میں ہے

دھوپ سے نہ بارش سے محفوظ ہوں میں

خرابی موسم میں نہیں سائبان میں ہے

اب اللہ ہی اسے پار لگائے تو لگائے

کشتی میری بھنور کے درمیان میں ہے

(فریحہ باجوہ سیالکوٹ)

Leave a Reply