You are currently viewing غزل

غزل

غزل

آنکھوں نے کبھی میری یہ منظر نہیں دیکھا
غواص نے ایسا کبھی گوہر نہیں دیکھا
ہو جاتیں شرفیاب یہ آوارہ ہوائیں
گلیوں سے کبھی اس کی گزر کر نہیں دیکھا
آراستہ ہے خود ہی، اداؤں سے ستم گر
پھر کیا ہے عجب اس پہ جو زیور نہیں دیکھا
تھا نجم شناسی کا بڑا زعم جو خود پر
اس جیسا فلک پر مگر اختر نہیں دیکھا
تھی ان کی سخاوت تو سمندر کی طرح سے
افسوس کہ محروم نے لنگر نہیں دیکھا
لکھا تھا طلب گار نے اک حرف معافی
کیا خوب ستم ڈھایا جو پڑھ کر نہیں دیکھا
یوں قید ہوئے اس کے کہ ذیشان نہ پوچھو
پل بھر کے لیے خود سے نکل کر نہیں دیکھا
( ذیشان مصطفیٰ )
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی نئی دہلی

Leave a Reply