You are currently viewing مہنگا اولڈ ایج ہوم

مہنگا اولڈ ایج ہوم

مہنگا اولڈ ایج ہوم

(افسانہ)

مہوش  نور

میں جلدی جلدی آفس کے کام سمیٹ رہی تھی کیونکہ مجھے اپنی دادی ماں سے ملنے اولڈ ایج ہوم جانا تھا۔ان کی آج سالگرہ تھی اور مجھے دیر ہو رہی تھی۔آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ دادی اوراولڈ ایج ہوم؟؟؟
دراصل بات یہ ہے کہ مجھے اولڈ ایج ہوم کا دورہ کرنا،وہاں بڑے بزرگوں کے درمیان وقت گزارنا،ان سے باتیں کرنا اچھا لگتا ہے، اس لیے میں جب بھی فری ہوتی ہوں،اولڈ ایج ہوم کا چکر لگا لیتی ہوں۔پہلے تو جب فرصت ملتی تھی تب جاتی تھی لیکن جب سے دادی ماں سے ملی ان سے عجیب سی انسیت ہو گئی تب سے میں روز جایا کرتی ہوں،ان سے ڈھیر ساری باتیں کرنے۔
دادی سے میری ملاقات ایسے ہی ایک دن ہوئی جب میں اولڈ ایج ہوم گئی۔شام کا وقت،بہار کا موسم،ہر طرف کالے اور گھنے بادل چھائے ہوئے تھے۔ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں بہہ رہی تھیں اور میں لان میں بزرگوں کے بیچ بیٹھی خوبصورت موسم اور ان کی باتوں دونوں سے ہی لطف اندوز ہو رہی تھی۔تبھی مجھے دور راہ داری میں ایک بزرگ خاتون لاٹھی کے سہارے دھیرے دھیرے لان کی طرف آتی ہوئی دکھائی دیں۔دریافت کرنے پہ معلوم ہوا کہ ابھی دو تین دن پہلے یہاں آئی ہیں۔آج پھر ایک بیٹا ماں کو بوجھ اور بے کار چیز سمجھ کر خود سے دور تنہائیوں کی نذر کر گیا تھا۔پتا نہیں کیوں وہ خاتون مجھے بہت اچھی لگیں میں اٹھ کے ان کے پاس چلی آئی اور ان سے باتیں کرنے لگی۔باتوں کے دوران بار بار میری نظریں ان کے چہرے کا طواف کرنے لگتیں کیونکہ اتنی عمر ہونے کے باوجود بھی ان کے چہرے پہ ایک عجیب سی کشش اور نور تھا۔اس لیے مجھے اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوا کہ وہ اپنی جوانی میں خوبصورت رہی ہوں گی۔ بات کرنے کے انداز،لباس اور سلیقے سے بندھی ہوئی ساڑی اس بات کی غماز تھی کہ وہ خاتون کسی رئیس اورتعلیم گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں۔ان کا اخلاق بھی بہت اچھا تھا۔سب سے ہنس کر باتیں کرتی تھیں۔زندہ دلی تو جیسے ان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی لیکن اس ہنسی اور زندہ دلی کے پس پشت مجھے غموں،دکھوں اور رنج و الم کا ایک دریا بہتا دکھائی دیتا۔وہ ہنستی ضرور تھیں ہونٹ تو ساتھ دیتے پر آنکھیں ویران رہتیں ان میں نہ کوئی چمک نہ کوئی خوشی جھلکتی۔مزاحیہ باتیں تو کرتیں لیکن محسوس ہوتا تھا کہ وہ اندر سے کسی غم میں مبتلا ہیں۔وہ صرف لوگوں کو دکھانے کے لیے یہ سب کر رہی ہیں کہ میں اندر سے بھی خوش ہوں۔بظاہر خوشی کا چولا پہننے والی یہ عورت اندر سے بہت غمگین نظر آئی مجھے۔کئی بار دل میں یہ خیال آیا کہ ان سے ان کے غموں کے بارے میں پوچھوں کہ وہ کون سا دکھ ہے جو آپ کو نہ کھل کر ہنسنے دیتا ہے اور نہ ہی جینے دیتا ہے؟لیکن پھر یہ سوچ کر اپنی زبان کوقابو میں کر لیتی تھی کہ پرانے زخموں کو کرید کر انہیں تکلیف کیوں پہونچاؤں۔یہی سب سوچ کر میں نے ان سے کوئی بھی سوال نہیں کیا۔کئی سال ہو گئے دادی سے ملتے ہوئے۔ان کی صحت اب پہلے جیسی نہیں رہی تھی۔پہلے سے اور بوڑھی اور بیمار نظر آ رہی تھیں۔چہرے کی کشش اب ماند پڑنے لگی تھی ان کی گرتی ہوئی صحت دیکھ کر مجھ سے رہا نہیں گیا اور میں نے ہمت کرکے وہ سوال پوچھ ہی لیا جو کئی سالوں سے میرے دل و دماغ پر چھا یا ہوا تھا۔
“دادی جان آپ سے ایک بات پوچھوں؟”
“پوچھو بیٹا!میں تیری بات نہیں سنوں گی تو کس کی سنوں گی تو تو میری بیٹی ہے۔”
دادی نے کہا۔
“دادی کون سا ایسا غم ہے جو آپ کو دن رات کھائے جا رہا ہے؟یہاں اولڈ ایج ہوم میں کوئی اپنی مرضی سے نہیں آتا،کیا آپ کو گھر کی یاد آتی ہے،اس وجہ سے پریشان رہتی ہیں؟”
میں نے ہمت کرکے وہ بات پوچھ ہی لی جو برسوں سے نہیں کہہ پا رہی تھی۔میں ان کے زخموں کو ہرا نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن سوچا شاید میں ان کی کچھ مدد کر سکوں ان کو ان کے خاندان سے ملوا سکوں۔
“ہاں بیٹا!مجھے گھر کی بہت یاد آتی ہے،وہاں گزارے ایک ایک پل آنکھوں کے سامنے گردش کرتے ہیں۔بیٹے،بہو اور پوتے،پوتیوں کی یاد ستاتی ہے۔”دادی نے بہت ہی درد بھرے لہجے میں خلا میں گھورتے ہوئے جواب دیا۔
میں نے دادی سے کہا آپ مجھے اپنے گھر اور اولڈ ایج ہوم تک کے سفر کی روداد بتائیے نا۔پہلے تو دادی نے انکار کر دیا لیکن میرے اصرار کرنے پر انھوں نے اپنی چھوٹی مگر خوبصورت دنیا کی داستان کچھ یوں سنائی:
میں اپنی فیملی میں چار بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی اور ماں باپ کی لاڈلی بیٹی تھی۔خوب ناز،نخرے اٹھواتی۔میری ہر خواہش پوری کی جاتی۔میرے بھائی بہن بھی مجھے بہت پیار کرتے تھے۔اسکول یا کالج سے لوٹتے وقت میرے لیے کچھ نہ کچھ کھانے پینے کی چیزیں ضرور لاتے۔مجھے ان کی واپسی کا بے صبری سے انتظار رہتا جیسے ہی میں ان کو دیکھتی دوڑتے ہوئے ان کے گلے لگ جاتی اور اپنے ننھے ننھے ہاتھوں کو پھیلا کر اپنا تحفہ وصول کرتی۔پھر میں بھی ان کے ساتھ اسکول جانے لگی،زندگی بہت خوشگوار تھی۔زندگی یونہی ہنستے کھیلتے گزر رہی تھی۔میں نے کب شباب کی دہلیز پہ قدم رکھا مجھے پتا ہی نہ چلا۔پھر میری شادی تمہارے دادا عباس مرزا سے ہو گئی۔ان کا شمار شہرکے رئیس اور بہت بڑے بزنس مین میں ہوتا تھا۔تمہارے داد میرا بہت خیال رکھتے تھے۔انھوں نے کبھی بھی کسی چیز کی تکلیف نہیں ہونے دی۔اس وقت ہم دونوں میاں بیوی کی خوشیوں کی انتہا نہ رہی جب ہمارے یہاں شہریار نے جنم لیا۔ہم دونوں کو جیسے زندگی کا مقصد مل گیا تھا۔ہماری خوشی کی دنیا ہم تین پر محیط تھی۔وقت گزرتا گیا۔شہریار اب کافی سمجھدار ہو گیا تھا اور اب بزنس میں اپنے والد کا ہاتھ بٹانے لگا تھا۔پھر ایک حادثے نے ہماری زندگی ہی بدل دی،کار ایکسڈنٹ میں تمہارے دادا چل بسے۔میں نے بہت مشکل سے خود کو اور شہریار کو سنبھالا۔کچھ سالوں بعد میں نے شہریار کی نادیہ سے شادی کر دی۔بیٹے اور بہو بزنس سنبھالنے لگے۔مجھے دھیرے دھیرے احساس ہونے لگا کہ بہو اور بیٹے کا رویہ میرے ساتھ اچھا نہیں۔پہلے کی طرح اب وہ بات نہیں کرتے۔میں نے کتنی بار پوچھا بھی پر کوئی جواب نہیں ملا۔کافی دنوں کے بعد ایک دن شہریار میرے کمرے میں آیا تو میں خوش ہو گئی لیکن یہ خوشی چند منٹ کی ہی تھی۔کیونکہ وہ مجھ سے کہہ رہا تھا کہ ماں میں اور نادیہ تو پورا دن آفس میں ہوتے ہیں۔ہم دونوں اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ آپ کو وقت نہیں دے پاتے اور نہ ہی آپ کی خدمت کر پاتے ہیں۔اس لیے ہم دونوں نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ آپ کو اولڈ ایج ہوم شفٹ کر دیں گے،جہاں آپ کی دیکھ بھال اچھی طرح ہو جائے گی۔میں اسے با ر بار کہتی رہی کہ مجھے یہاں کوئی کمی نہیں ہے،میں خوش ہوں،تم لوگوں سے مجھے کوئی شکایت نہیں،میرے منع کرنے پر بھی وہ بار بار اصرار کرتا رہا۔پھر میں خاموش ہو گئی اور “ہاں “کر دی۔ماں جو ٹھہری،بچوں کے دل کا راز تک بن کچھ کہے ہی جان لیتی ہے۔میں سمجھ گئی تھی بات کچھ اور ہے وہ دونوں اب مجھے بوجھ سمجھنے لگے تھے،اپنی خوشیوں میں رکاوٹ سمجھنے لگے تھے۔اس لیے میں نے مسکرا کر کہا کہ ٹھیک ہے۔جس میں تم خوش رہو۔میں جانے کو تیار ہوں۔وہ بہت خوش ہو کر میرے کمرے سے گیا۔مگر اس نے یہ نہیں دیکھا کہ اس کے آنے سے جن آنکھوں میں رونق آ گئی تھی،ہونٹ مسکرا اٹھے تھے،چہرہ کھل اٹھا تھا،جینے کی پھر سے چاہت جاگ اٹھی تھی،ایک ماں کو اپنی اولاد کو سینے سے لگا کر ڈھیر سارا پیار کرنے کی خواہش جاگ اٹھی تھی اب وہاں صرف بے رونق اور ویران آنکھیں،تنہا اور کھوکھلا انسانی جسم پڑا ہوا تھا۔تب سے بیٹے کا انتظار کر رہی ہوں۔بہت مصروف ہو گیا ہے وہ۔روز ملنے کا وعدہ کرتا ہے اور آنا ہی بھول جاتا ہے۔مصروف اتنا ہے کہ ماں کی خیریت بھی نہیں پوچھتا۔جب بھی میں فون کرتی ہوں بس اس کا ایک یہی جملہ سننے کو ملتا ہے کہ” ماں میں ایک بہت ضروری میٹنگ میں ہوں،ابھی مصروف ہوں،بعد میں فون کرتا ہوں۔”اور رابطہ منقطع ہو جاتا ہے۔کچھ مہینے پہلے شہریار کا فون آیا تھا بتا رہا تھا کہ وہ لندن شفٹ ہو گیا ہے اپنی فیملی کے ساتھ اور کہا کہ میں آپ کو فون کرتا رہوں گا۔بس بیٹا تب سے لے کر آج تک دو ہی تین بار اس کا فون آیا۔پر میں ماں ہوں اس کی،مجھے ہر وقت اس کی فکر رہتی ہے۔اس لیے ہر رات میں فون کے پاس بیٹھ کر انتظار کرتی ہوں نہ جانے کب فون آ جائے۔لگتا ہے میرے بیٹے کو میری یاد نہیں آتی۔کبھی کبھی جب دل نہیں مانتا تو خود ہی فون کرلیتی ہوں بات نہیں ہو پاتی۔بہت مصروف ہوں ابھی بعد میں بات کرتا ہوں۔یہ کہہ کر میری بات سنے بغیر ہی فون رکھ دیتا ہے۔یہی کہانی ہے میری زندگی کی۔
دادی ماں کی زندگی کی کہانی سن کر میں نے کتنی ہی راتیں خود سے سوال کرتے ہوئے گزار دی کہ کوئی اولاد اپنے ماں باپ کے تعلق سے اتنی لاپرواہ کیسے ہو سکتی ہے؟ایسے لوگوں کے دلوں میں اتنا سکون کہاں سے آتا ہے؟بغیر ماں باپ سے بات کیے ان کا دن کیسے گزر جاتا ہے؟ماں باپ کی خیریت پوچھے بغیر نیند کیسے آ جاتی ہے؟کیا دولت کا نشہ اور آنکھوں کو چکا چوند کر دینے والی باہر کی زندگی اتنی پرکشش ہے کہ جو ماں جیسی عظیم ہستی کو اور اپنے خون کے رشتے کی اہمیت کو کھو دیتی ہے؟
آج میں اسی اپنی پیاری دادی ماں کی سالگرہ منانے کے لیے ان کے پاس آئی ہوں۔ہم سب نے مل کر بہت مستی کی۔دادی آج پھر اپنے بیٹے کو فون لگا رہی تھیں۔اس خوشی کے موقع پر وہ اپنے بیٹے سے بات کرنا چاہ رہی تھیں۔آج بھی وہی بہانہ مصروف ہوں بعد میں بات کرتا ہوں۔ان کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں تھی۔بڑھاپے اور بیٹے کی لاپرواہی نے انہیں مزید کمزور اور بیمار بنا دیا تھا۔آج وہ بہت بے چینی و بے قراری سے بیٹے کے بات کرنے کا انتظار کر رہی تھیں۔لیکن ان کے لائق و فائق مصروف بیٹے نے فون نہیں کیا اور میں ان سے صبح ملنے کا وعدہ کر کے آ گئی۔صبح میں جلدی اٹھ گئی اور دادی کے پاس جانے کی تیاری کرنے لگی۔نہ جانے آج کیوں عجیب سی گھبراہٹ ہو رہی تھی۔اولڈ ایج ہوم پہونچتے ہی میں نے دادی کے کمرے کی طرف دوڑ لگا دی۔کمرے کا دروازہ کھولا تو دیکھا سامنے دادی بستر پہ لیٹی ہوئی ہیں،آنکھیں دروازے کو تک رہی ہیں اور ایک ہاتھ فون پہ۔ایسا لگ رہا تھا جیسے انہوں نے پوری رات فون کا انتظار کرتے اور نمبر ملاتے ہوئے گزار دی ہو۔میں دوڑ کے ان کے پاس گئی اور ان کے بے حس و حرکت پڑے جسم کو ہلایا تو ان کی گردن ایک طرف ڈھلک گئی۔ایک ماں کی آنکھیں اپنے بیٹے کا انتظار کرتے کرتے،دروازے کو تکتے تکتے پتھرا گئیں،ان کے کان ترس گئے بیٹے کی آواز سننے کے لیے،پر بیٹا اپنی دنیا میں مست اسے یہ بھی پتہ نہیں کہ اس کے سرپہ جو مہربان اور دعاؤں کا سایہ تھا،جس سائے نے اسے کامیابی عطا کی تھی،جس سائے نے اسے زمانے کے سرد گرم حالات سے بچایا تھا وہ اس سے محروم ہو چکا ہے۔
میری انگلیاں بے ساختہ موبائل کے کی بورڈ پر شہریار کا نمبر ڈائل کرنے لگیں،فون ریسیو ہوتے ہی میں نے بولنا شروع کر دیا:
“آپ کی ماں انتقال کر گئیں،پلیز آپ ان کی تدفین کے لیے انڈیا آ جائیں۔۔۔۔”
“جی۔۔۔میں نے ماں کو انڈیا کے سب سے اچھے اور مہنگے اولڈ ایج ہوم میں رکھا تھا،اس لیے ان کی آخری رسومات بھی اچھی طرح ہوگی۔”
شہریار کی زبان سے ادا ہونے والے یہ جملے جیسے ہی میرے کانوں سے ٹکرائے میں سن ہو گئی اور وہیں بیٹھتی چلی گئی۔

 

Mahwash Noor

Senior Research Scholar

CIL/SLL&CS, JNU, New Delhi

Email: mahwashjnu10@gmail.com

Leave a Reply