You are currently viewing سید اقبال حیدر

سید اقبال حیدر

سید اقبال حیدر ، فرینکفرٹ ، جرمنی 

غزل
جائے نسیم سیر کو جیسے چَمن سے دور
گھوما پھرا ہوں یونہی میں اپنے بَدن سے دور

موسم کا نوحہ پڑھنے لگی ہر برہنہ شاخ

آئ خزاں تو ہو گئے گُل،پیرہن سے دور

تاروں کے بیچ تھا تو بہت تابناک تھا

کِتنا اُداس لگتا ہے چاند انجمن سے دور

حسرت کو میں نے پھینک دیا ہے نکال کر

میرا چراغ جلتا ہے اب میرے تن سے دور

رہتا نہیں ہوں چاند ستاروں کی چھائوں میں

ملتا ہے مُجھ کو نور بکھرتی کرن سے دور

اقبالؔ مُجھکو دل سے لگائے ہوئے ہیں لوگ
جا نِ وطن بنا ہوں میں اپنے وطن سے دور
٭
غزل

یہی سچ کی سزا ملتی رہے گی
سرِ مقتل قضا ملتی رہے گی
وہ دورِ امتحاں ہے ہر قدم پر

بڑھیں تو کربَلا ملتی رہے گی
کُھلا رکھئے تو دروازے کو دل کے

ترو تازہ ہوا ، ملتی رہے گی
جئے گا جو سعادت مند بن کر

بزرگوں کی دعا ملتی رہے گی
کوئی دیکھے تو کارِ خیر کر کے

پسِ مُردن جَزا ملتی رہے گی
محبت جُرم ہر اک دور میں تھی

محبت کی سزا ملتی رہے گی
محبت ہے خطائے بے ارادہ

بہ تاریخِ خطا ملتی رہے گی
اگر آتے رہیں آنکھوں میں آنسو

تو شیشے کو جِلا ملتی ملتی رہے گی
غزل اقبالؔ ہم کہتے رہیں گے
ادب کو یہ غذا ملتی رہے گی

Leave a Reply