You are currently viewing سفر ناموں میں ہندستان کی تہذیبی جھلکیاں

سفر ناموں میں ہندستان کی تہذیبی جھلکیاں

سفر ناموں میں ہندستان کی تہذیبی جھلکیاں

پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین 

                دنیا کی قدیم وجدید تاریخ و تہذیب کو سمجھنے کے لیے سفرنامے ایک مستند دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں۔ سفر سے دور بینی اور جہاں بینی کا ہنر آتاہے۔ تجزیے اور محاسبے کے لیے ذہن میں وسعت پیداہوتی ہے۔ اپنے من میں ڈوب کر سراغ زندگی پالینے کا سلیقہ آتا ہے، قدرو منزلت میں اضافہ ہوتا ہے اور فتح و ظفر کے نسخے ہاتھ آتے ہیں۔ یہ بات ہم سے پوشیدہ نہیں کہ برطانوی قوم نے سفر سے ہی خود کو گداسے تاجر، تاجر سے کمپنی بہادر اور کمپنی بہادر سے قیصر ہند کے منصب تک رسائی حاصل کی ہے۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ بہتر سے بہتر کا متقاضی ہوتا ہے۔ جب ایک سیاح مختلف اقوام کی طرز معاشرت، تہذیب و تمدن ، رسوم روایات، تعلیم و تربیت اور ان کے انتظامی وسیاسی امور سے واقف ہوتا ہے تو پھر انھی خطوط پر اپنایا اپنے وطن کی اصلیت کا محاسبہ کرتا ہے۔ اپنی خوبیوں پر خوش اور غلطیوں اور کوتاہیوں پر فکر مند ہوتا ہے۔ یہ عمل انسان اپنے تجربے اور مشاہدے پر بھی کرتا ہے اور دوسروں کے تجربے اور مشاہدے سے بھی فائدہ اٹھاتا ہے۔ سفر کے تجربے اور مشاہدے سے نہ صرف سیاح کی نظر وسیع ہوتی ہے بلکہ اس کی روداد سفر سے قاری کی نظر میں بھی وسعت اور بالیدگی آتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اپنے متعلق اپنے خیالات اس وقت تک اچھے اور شائستہ نہیں ہوسکتے جب تک اپنی حقیقت دوسروں سے دریافت نہ کرلیں۔ سفرنامے کا ایک احسن پہلو یہ بھی ہے کہ سفر نامہ نگار اپنی روداد سفر بیان کرتے ہوئے غریب الدیار کا اپنے وطن اور اپنی رہائش سے بھی موازنہ کرتا جاتا ہے۔ آپسی رودادوں کی واقفیت سے انسان، علوم وفنون، اخلاق و عادات، صنعت و حرفت اور تہذیب و ثقافت سے ترقی و خوش حالی کی سمت میں لین دین کا منصوبہ بناتا ہے۔ سیاح  اپنے شوق سے سفر اختیار کرتا ہے۔ اس کی سیاحت میں مجبوری اور جبر نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی، ان کے سامنے مطالعۂ کائنات اور مشاہدہ حیوانات و نباتات ہوتا ہے۔ کائنات کی فطرت سے اسے یک گونہ لگائو اور اپنائیت ہوتی ہے۔ وہ جن مقامات اور چیزوں کا مشاہدہ کرتا ہے اس کے عمل اور ردّعمل کو دوسروں سے بھی بتانا چاہتا ہے۔ پھر وہ اپنے مشاہدے کو تحریری شکل میں حقیقت کا جامہ پہناتا ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ سیاح ایک فوٹوگرافر ہے،سفر ایک کیمرہ اور سفرنامہ اس کا فوٹوگراف۔ اب اس میں فوٹوگراف کی حقیقت کیا ہے یہ فوٹوگرافر پر منحصر ہے۔ وثوق سے تو نہیں کہا جاسکتا لیکن قیاس کیا جاتا ہے کہ انسانوں نے کسب معاش یا جہاں بینی کے شوق میں سیاحت شروع کی ہوگی۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ جاکر اپنی ضرورتوں کی تلاش اور لوگوں کو معلوم ہونے لگا ہوگا کہ کس جگہ کی آب و ہوا کیسی ہے۔ وہاں کے لوگ کیسے ہیں۔ کیسے زندگی جیتے ہیں۔ ان کا ذریعۂ معاش کیا ہے انھوں نے کیسی ترقی کی ہے یا وہ کس تنزلی کے شکار ہیں۔ اسی شوق اور جستجو نے پرتگالی سیاح واسکوڈی گاماکو ہندوستان کی تلاش کے لیے آمادہ سفر کیا لیکن وائے قسمت کے وہ بھٹکتا ہوا امریکا کے ساحلی جزیرے ویسٹ انڈیز کو جاپہنچا۔ پہلے اس نے خیال کیا کہ یہی ہندوستان ہے لیکن اس نے ہندوستان کی کھوج اپنے دوسرے سفر 1498 میں کی۔ واسکوڈی گاما اس کھوج کے بعد جب اپنے وطن واپس لوٹا اور اس نے اپنے ہم وطنوں کو اپنی روداد سنائی تو پھر کیا تھا اقوام یورپ کے لیے یہاں کی راہیں کھل گئیں۔ یوروپی اقوام نے صرف اپنی تہذیب ، مذہب اور علوم و فنون کو اقوام عالم میں عام کیا بلکہ ہر جگہ اپنی ترقی کے ذرائع ڈھونڈ نکالے اور اس جانب گامزن ہوئے۔

                سفر اور روداد سفر کے کئی زاویے ہیں لیکن ان زاویوں میں تہذیب وثقافت کو مغز کی حیثیت حاصل ہے۔ تہذیب اور سماج کے بیان سے ہی تاریخ کے دھارے نکلتے ہیں۔ جس زمانے کا روداد سفر ہوگا اس زمانے کا سماجی اور سیاسی نقطۂ نظر بھی اس میں ضرور ہوگا۔ اس لحاظ سے سفر ناموں میں تاریخ کے ایسے واقعات فراہم ہوجاتے ہیں۔ جو تاریخ کی کتابوں میں بھی نہیں ملتے۔ اسی مناسبت سے محققین نے یہ رائے دی ہے کہ ’’ تاریخ اگر بے جان واقعات کو بیان کرتی ہے تو سفر نامے زندہ واقعات کی تاریخ ہیں۔‘‘ تاریخ لکھتے وقت تاریخ نویس عموماً حکومت وقت کے عتاب سے احتیاط کا پابند ہو جاتا ہے۔ جب کہ سفر نامہ نگار مصلحت سے بے نیاز ہوکر اپنی روداد لکھتا جاتا ہے۔ یہ ایک طرح کا ذاتی احساس اور بیان ہے جس میں حقیقت قدرے بے خوف ہوکر بیان کی جاتی ہے۔ باوجود اس کے اس کی تاریخی صداقت پر عویٰ بھی نہیں کیا جاسکتا۔

سماج اور تہذیب و ثقافت کو ارتقا کی جانب گامزن کرنے میں سیاحوں اور ان کے سفرناموں کا بڑا رول رہا ہے۔ کسی ملک کی سماجی، سیاسی ، تاریخی، تجارتی، تعلیمی اور معاشی صورت حال کا جائزہ جس طرح سفرناموں میں لیا گیا ہے اور انسانوں نے اپنی ترقی میں جس قدر اس سے استفادہ کیا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔ آج اقوام عالم جس مقام پر ہے ان میں سیاحوں کا بہت اہم رول رہا ہے۔ انسانی تہذیب و تمدن کی تاریخ کو سمجھنے میں اور ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے میں سفر ناموں نے بڑا کردار اداکیا ہے۔ اس بات کی شہادت ہمیں ملکی اور بیرون ملکی سیاحوں کے سفرناموں سے مل جاتی ہے۔

                دنیا کا سب سے پہلا سیاح ہیروڈوٹس (Herodotus) کو ماناجاتاہے۔ دنیا کی تہذیبوں میں یونان اور ہندوستان کی تہذیب کو تقدم زمانی حاصل ہے۔ جب دنیا جہالت کے اندھیروں میں گم تھی اس وقت یونان اور ہندوستان میں علم و عمل کا چراغ روشن تھا۔ لوگ دور دور سے تعلیمی اور تہذیبی شعور حاصل کرنے ہندوستان آتے تھے۔ یونانی تاجروں نے بھی ہندوستان کا سفر کیا اور وہاں کے بادشاہ ہندوستان کے جغرافیہ سے واقف تھے۔ ڈاکٹر سریندر ماتھر نے اپنی کتاب ’’ یاترا ساہتیہ کا ادبھو اور وکاس‘‘ میں لکھا ہے کہ ہندوستان کے ویدک زمانے میں بھی یہاں کے لوگ تجارت کی غرض سے سفر کرتے تھے، سمندری سفر بھی کرتے تھے اور زمینی سفر، پیدل ، بیل گاڑی یا گھوڑوں سے کرتے تھے۔ رامائن کے دور کے سفر ناموں میں بھی یہاں کی تہذیب، رسم و رواج اور صنعت و حرفت کے بارے میں جانکاری ملتی ہے جس سے معاشی اور جغرافیائی حالات کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ مہابھارت ، وید، پران اور رامائن سے ہندوستانی تہذیب وثقافت کے بہت سے گوشے منور ہوتے ہیں۔ تجارت سے تحصیل علم تک کے سفر کا ذکر اسی زمانے سے ملنے لگتا ہے۔

                قدیم زمانے سے ہی غیر ملکی سیاح ہندوستان آتے رہے ہیں۔ انگریزی ، عربی، چینی اور فرانسیسی سیاح جنھوں نے ہندوستان کا سفر کیا ہے انھوں نے اپنے سفر ناموں میں یہاں کی تاریخ، تہذیب، جغرافیہ اور معاشی صورت حال کا جائزہ لیا ہے۔ پروفیسر محمد مجیب نے اپنی کتاب ’’تاریخ تمدن ہند‘‘ میں واضح طور پر لکھا ہے کہ یہ ملک شروع سے ہی غیر ملکی سیاحوں کامرکز توجہ رہا ہے۔ موہن جوداڑو اور ہڑپا کی تہذیب اس بات کی شہادت دیتے ہیں۔ مذہبی نقطۂ نظر سے دیکھیں تو ہندوستان شجر عرفان کی سرزمین سمجھا جاتا ہے۔ ایران، توران، چین، جاپان اور عرب ممالک سے لوگ چل کر یہاں آئے اور ان کا مقصد یاتو یہاں کی مذہبی پیشوائی قبول کرنا تھا یا پھر ان لوگوں نے اپنے مذہب کی تبلیغ واشاعت میں یہاں کے خطے خطے کو اپنا مسکن بنالیا۔ انھوں نے اپنی تہذیب اور زبان کا بیج بویا یاپھر یہاں کی بولیوں میں اپنی زبانیں ملاکر انھیں ارتقائی سفر پر گامزن کیا۔ ہندوستان میں جدید ہند آریائی زبانوں کے ارتقا کے مطالعے سے اس بات کی شہادت بخوبی مل جاتی ہے جن میں انگریزی، عربی، فارسی، ترکی اور فرانسیسی لفظیات کا وافرذخیزہ ہے۔

                غیر ملکی سیاحوں میں سب سے پہلے میگستھنیز کا نام آتا ہے جس نے موریہ عہد حکومت میں ہندوستان کا سفر کیا تھا۔ مولوی سید علی بلگرامی کی ترجمہ شدہ کتاب ’’ تمدن ہند‘‘ میں میگستھنیز کے اس سفر کا مفصل بیان ملتا ہے۔ میگستھنیز تین سوسال قبل مسیح پاٹلی پترا کے علاقے میں داخل ہواتھا۔ جس کے سفر کا اصل مقصد یہ تھا کہ عربوں نے جو تجارت یورپ سے قائم کی ہے اس کا راستہ بدل کر پلوارہ اور انطاکیہ سے ہو کر مصر کو کر دیا جائے۔ اسی تجارت نے مصر کے حکومت وقت کو کافی دولت مند بنادیا تھا تبھی قاہرہ اور بلخ نے بھی ہندوستان کی جانب اپنی للچائی نظر اٹھائی تھی۔ میگستھنیز نے اپنی کتاب Indica  میں جو اپنی روداد لکھی ہے اس سے اہل نظر کا خیال ہے کہ ہندوستان کے اس وقت کے حالات کا ایک خاکہ تیار کیا جاسکتا ہے۔ میگستھنیز کے بعد چینی سیاح فاہیان نے پانچویں صدی عیسوی میں ہندوستان کا سفر کیا تھا۔ اس کا مقصد اگرچہ بدھ مذہب کی تعلیم حاصل کرنا تھا لیکن اس نے اپنے بیان سفر میں بدھ حکومت کے حالات کا جو ذکر کیا ہے اس میں ہندوستانی تہذیب وثقافت کے کئی پہلوئوں پر روشنی پڑتی ہے۔ 641میں ایک اور چینی سیاح ہیون سانگ نے ہندوستان کا سفر کیا تھا جس نے چار برسوں تک ہندوستان کے مختلف خطوں کی سیر کی۔ اس نے ہندوستان کے شمال سے لے کر دکن تک کا سفر کیا اور اپنی روداد سفر میں نہ صرف یہاں کی تہذیب وتمدن ، حکومت کے حالات، علوم و فنون اور لوگوں کی رہائش کا ذکر کیا ہے بلکہ بعض مشہور شخصیات کے اخلاق و عادت اور ذرائع معاش کا بھی ذکر کیا ہے۔ زمانۂ قدیم میں عرب کے سیاحوںنے تجارت اور تبلیغ مذہب کی خاطر ملکوں ملکوں کی سیاحت کی، اسی زمانے سے عرب کے ہندوستان سے تعلقات بھی استوار ہیں۔ عرب کا سب سے پہلا سیاح جو ہندوستان آیا تھا اس کانام سلیمان تھا۔ تجارت اس کا بڑا پیشہ تھا۔ اس نے اپنا سفرنامہ ’’ سلسہ التواریخ‘‘ 237 ہجری میں لکھا تھا اس سفر نامے میں سلیمان تاجر نے ہندوستان کے ساحلی علاقوں کی تہذیب و معاشرت، بادشاہوں کے حالات اور ان کی سیاست کا چینی تہذیب و سیاست سے موازنہ کیا ہے اور جو کچھ لکھا ہے اپنے مشاہدے کی بنیاد پر لکھا ہے۔ خلیج فارس کے ایک سیاح ابوزید حسن السیرافی نے تیسری صدی ہجری میں جو ہندوستان کا سفر کیا تو اس کا مقصد بھی تجارت ہی تھا۔ یہ خلیح فارس کی ایک بندرگاہ سیراف کا رہنے والاتھا۔ سیرافی نے اپنے سفرنامے میں ہندوستان کے رسم و رواج ، تمدن و معاشرت ، مذہبی اعتقادات اور راجائوں کے حالات کا تذکرہ کیا ہے۔ انھوں نے اپنے چشم دید واقعات اور دیگر سیاحوں کے بیانات کو ملحوظ نظر رکھ کر اپنی روداد بیان کی ہے۔ معین الدین ندوی نے اپنی کتاب ’’ہندوستان عربوں کی نظر میں‘‘ میں ایک اور عرب سیاح بزرگ بن شہریار سے متعلق لکھا ہے کہ یہ تیسری اور چوتھی صدی ہجری کے درمیان ہندوستان ا?یا تھا اور جس نے ہندوستان کے ساحلوں اور جزیروں کی سیر کی تھی۔ اس سیاح نے اپنے مشاہدے اپنے سفرنامے ’’ عجائب الہند‘‘ میں بیان کیا ہے۔ بزرگ بن شہریار نے اس میں جنوبی ہند اور گجرات کے متفرق واقعات اور جوگیوں اور سنیاسیوں کی ریاضتوں کا ذکر کیا ہے۔ اسی طرح عرب سیاح سعودی ابوالحسن نے اپنے سفر نامے ’’مروج الذہب‘‘ میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت سے متعلق اپنے مشاہدے پیش کیا ہے۔ ایرانی سیاح ابواسحاق ابراہیم نے 340 ہجری میں ہندوستان کی سیاحت کی تھی یہ ایک جغرافیہ داں بھی تھا اور اپنی کتاب ’’ الاقالیم‘‘ میں ہندوستانی تہذیب اور یہاں کے جغرافیائی حالات کا نقشہ کھینچا ہے۔ 331 ہجری میں ایک بغدادی تاجر محمد ابوب القاسم نے سندھ کے علاقے کی سیر کی اور اپنے سفر نامے ’’ اشکال البلادیا‘‘ میں اس کا ذکر کیا۔ مشہور سیاح ابوریحان البیرونی، ناصر خسرو اورابن بطوطہ نے ہندوستان کا سفر کیا۔ البیرونی نے  گیارھویں صدی عیسوی میں اور ابن بطوطہ نے چودھویں صدی عیسوی میں ہندوستان کا سفر کیا تھا۔ ہندوستان کے عہدوسطیٰ کی تاریخ اور تہذیب کو سمجھنے میں ابن بطوطہ کا سفرنامہ ایک وقیع حوالہ ہے۔ یہاں تک کے مورخین نے بھی اس کے سفر نامے سے استفادہ کیا ہے۔ اس عہد کے ہندوستان کی تہذیب، تاریخ ، صنعت و حرفت، علوم وفنون، تجارت ، زراعت، معاش، پھل، باغات اور اخلاق و عادات پر جتنی معلومات اس کے سفرنامے سے ملتی ہے اور کہیں نہیں ملتی۔ ابن بطوطہ اپنے روداد سفر میں ہندوستان کے مذہب ، سماج اور سیاست ہر جگہ گھسا ہوا نظر آتا ہے۔ ابن بطوطہ ایک تاجر تھا جس نے تجارت کی غرض سے مشرق سے مغرب تک کا سفر کیا۔ اسی کے بعد واسکوڈی گاما نے پہلے ویسٹ انڈیز کا اور پھر ہندوستان کا پتا لگایا اور کولمبس نے امریکا کی دریافت کی ، پھراہل یورپ نے لگاتار اس خطے کا سفر کیا اور عرب کی تجارت اہل یورپ کے ہاتھوں میں چلی گئی۔ حکیم ناصر خسرو سولھویں صدی میں ہندوستان ا?یا تھا جو ایک مشہور شاعر اور فلسفی بھی تھا۔ عبدالرزاق کانپوری نے اپنی کتاب ’’سفر نامۂ حکیم ناصر خسرو‘‘ میں اس کے روداد سفر کا مفصلاً ذکر کیا ہے۔ حکیم ناصر خسرو نے اپنی روداد میں یہاں کے جغرافیائی حالات ، فرماں روائے وقت کی سیاست، علمائے کرام اور صوفیائے کرام، مذہبی عبادت گاہیں، مذاہب اور ان کے پیروکاروں کے طور طریقے، مدارس اور تعلیم گاہوں کا مفصلاً ذکر کیا ہے۔ یہاں تک کہ ملکی رسم و رواج، میلے ٹھیلے ، جشن، مناظر قدرت اور  باغات کی تفصیلات پڑھ کر حیرت انگیز خوشی ہوتی ہے۔

                سترھویں صدی عیسوی میں مغل شہنشاہ شاہ جہاں کے زمانے میں ایک مشہور فرانسیسی سیاح ٹیونیز بھی ہندوستان آیا تھا۔ یہ ایک جوہری تھا۔ جس نے اورنگ زیب کے زمانے تک چھ بار ہندوستان کا سفر کیا تھا اور ہیروں کی تجارت میں کافی دولت ہندوستان سے اپنے ملک اٹھالے گیا۔ فرانسیسی سیاحوں میں ایک اور نام موسیوتھیونو کا آتا ہے جو سترھویں عیسوی میں ہندوستان آیا تھا۔ اس کے سفر کا اصل مقصد تحصیل علم تھا۔ اس کی روداد میں ہندوستان کی کئی علمی فتوحات کا حیرت انگیز انکشاف ملتا ہے۔ اورنگ زیب کے ہی عہد میں ایک اور فرانسیسی سیاح برنیر نے بھی ہندوستان کا سفر کیا تھا۔ اس نے دارا اور اورنگ زیب کے حالات تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ انھوں نے اس وقت کے ہندوستان کی تہذیب و تمدن یا علوم و فنون کے ساتھ ساتھ شہزادوں اور عمائدین شہر کے معاشقے کا بھی ذکر کیا ہے۔

                سترھویں اور اٹھارھویں صدی عیسوی نشا? الثانیہ کا عہد ہے۔ اس عہد میں کئی یورپین سیاحوں نے ہندوستان کا سفر کیا، جن میں جان جوشیواکیٹلر،بنجمن شیلز، فرگسن، اورجان گلکرسٹ کے نام لیے جاسکتے ہیں، جنھوں نے ہندوستانی تہذیب اور زبانوں کے تقابلے مطالعے پر اپنی محنت صرف کی۔ اپنی تحقیقی کاوشوں سے ہندوستانی زبان کی صرف ونحو اور لغت نویسی کا کام کیا اور جدید ہندآریائی زبانوں کے ارتقا میں غیر معمولی طور پر اپنی حصہ داری نبھائی۔ اگرچہ ان کے مقاصد تجارتی اور سیاسی تھے لیکن یہاں کی زبانوں سے ان کی محبت نے بڑا فائدہ پہنچایا۔ اسی زمانے میں ہندوستانی نے ، فرانسیسی، ڈچ، پرتگالی اور انگریزی اصطلاحات سے استفادہ کرنا شروع کیا اور یہاں کی تہذیب و ثقافت بھی ان سے متاثر ہوئی۔ فکری اور تہذیبی زندگی میں نئے تصورات رونما ہوئے۔ انگریزی علوم ، سائنس ا ور ٹیکنالوجی نے نئی راہیں دکھائیں۔ لیکن اس کا ایک منفی پہلو بھی سامنے آیا۔ ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب بکھرنے لگی۔ غلامی کا ظلم اور بربریت، اقتصادی لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہوگیا۔ یہاں کی چھوٹی چھوٹی صنعتیں ختم ہوگئیں اور ہندوستان اور ہندوستانی مفلسی اور ناداری کے اندھیروں میں ڈوبنے لگے۔ ہندوستانی سماج کرب و اذیت کے آشوب سے اس قدر بے چین ہوا کہ نتیجے میں اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی کا انقلاب رونما ہوا۔ اگر چہ اس انقلاب اور جنگ میں ہمیں کامیابی نہیں ملی اور ہم ایک لمبے عرصے تک اپنے محاسبے میں لگ گئے۔ پھر ہم پر یہ عقدہ کھلا کہ جب تک ہم خود کو نئی تعلیم ، سائنس اور ٹیکنالوجی سے بہرہ ور نہیں کریں گے ترقی کا خواب نہیں دیکھ سکتے۔ اس وقت ہندوستانی سماج چونکہ ہندو اور مسلم دوگروہوں میں بنٹ گیا تھا لہٰذا سماج سدھار میں ہندوئوں کے پیشوا راجارام موہن رائے، بھارتیندو،ہریش چندر اور سوامی وویکانند جیسے لوگ سامنے آئے، تو مسلمانوں کی پیشوائی سرسید احمد خاں، شبلی، حالی، محسن الملک جیسے دانشوروں نے کی۔ اسی کے نتیجے میں سرسید یا علی گڑھ تحریک رونما ہوئی اور جس کے لیے سر سید کو لندن کے سفر پر روانہ ہونا پڑا۔ ڈاکٹر قدسیہ قریشی نے انھی نکتوں کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ سرسید احمد خاں نے اس دور میں مسلمانوں کو اصلاح معاشرت اور مغرب کے نئے سائنسی انکشافات سے آگاہ کیا۔ ان کا مقصد اپنے وطن کے لوگوں میں نیا شعور بیدار کرنا تھا، انگریزی علوم کا سیکھنا، زندگی کی نئی قدروں کو اپنانا اور تعلیم کے لئے یورپ کا سفر کر نے کے لیے عوام کو اکسانا تھا۔ اس لحاظ سے سرسید کا سفر نامہ ’’ مسافراِن لندن‘‘ بھی ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے جائزے اور تجزیے کے باب میں ایک اہم سفرنامہ ہے‘‘۔ یوسف خاں کمبل پوش نے 1837میں جو لندن کا سفر کیا تھا اور اپنی روداد ’’ عجائبات فرنگ ‘‘ میں لکھی تھی اسے بھی انہی تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔ موصوف نے لندن کے سفر کے حالات کا ہندوستان کے حالات سے موازنہ اور مقابلہ کیا ہے۔ منشی امین چند نے بھی اپنے سفرنامے ’’ سفرنامۂ امین چند‘‘ میں انیسویں صدی کے ہندوستان کا منظرنامہ پیش کیا ہے۔ انھوں نے یہاں کی آبادی، دریا، پہاڑ اور تاریخی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے۔ انھوں نے شاہ جہاں آباد یعنی دہلی کا نقشہ کھینچتے ہوئے یہاں کے لوگوں کی پوشاک، رہن سہن ، کسب معاش، ان کی عیاشی اور فضول خرچی، گفتگو میں فارسی الفاظ کا بکثرت استعمال کی تفصیلات بیان کی ہیں اور یہ بھی لکھا ہے کہ’’ اس زمانے کا جاہل بھی باتیں کرتے ہوئے ایک بڑا عالم محسوس ہوتا ہے‘‘۔ انھوں نے کشمیر ، امرتسر، لکھنؤ، کلکتہ، جگن ناتھ، دہلی اور بنارس جیسے شہروں کی تاریخ و تہذیب پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ مرزا عوض علی بیگ نے بھی اپنے سفرنامے ’’ آئینہ ٔ حیرت‘‘ میں لکھنؤکے نوابی عہد کی زندگی کا نقشہ کھینچا ہے۔ نواب سکندر بیگ نے بھی اپنے سفرنامے میں ہندوستان کی مختلف شہروں کی تاریخ و تہذیب پر روشنی ڈالی ہے۔ شہزادہ رئیس کا سفرنامہ ’’ موج سلطانی‘‘ بھی اسی قبیل کا سفرنامہ ہے جس میں شہروں کے تاریخی اور جغرافیائی حالات کے ساتھ ، اخلاقیات اور آداب واطوار سے بھی بحث کی ہے۔ بعض سیاسی نوعیت کے بھی سفرنامہ ہیں جن میں جالندھر کے کمشنر اور لارڈ ڈفرن کے سفرناموں کو اہمیت حاصل ہے۔ جالندھر کے کمشنر ٹی۔ ڈی نے سررشتۂ تعلیم صوبۂ اودھ کی تحریک پر صوبۂ اودھ کے نصابی تعلیم کو درست کرنے کی غرض سے تاشقند تک کا سفر کیا تھا۔ لارڈ ڈفرن نے ہندوستان کی ریاستوں سے حکومت کے رشتے مضبوط کرنے کی غرض سے 1886میں ہندوستان کی کئی ریاستوں کا سفر کیا تھا۔ انھوں نے اپنی روداد شاعری یا خطوط کی شکل میں لکھی تھی۔ انگلستان کے ایک سیاح وینٹریم نے 1887میں کشمیر کا سفر کیا تھا جس کے شریک سفر کنھیالال کپور بھی تھے اور اس روداد سفر کو کنھیالال نے ’’ سیر کشمیر‘‘ کے نام سے مرتب کیا۔ ہندوستان کی تہذیب و ثقافت پر مبنی ایک منظوم سفرنامہ ’’ مثنوی نادر‘‘ کا ذکر بھی نصیرالدین ہاشمی نے ’’ دکن میں اردو‘‘ میں کیا  ہے۔ یہ سفرنامہ 1823 میں لکھا گیا تھا۔ جس کا ذکر قطب النساء  ہاشمی اور قدسیہ قریشی نے بھی کیا ہے۔ اس سفرنامے میں نواب اعظم جاہ کے عہد کے حالات و  واقعات ، مذہبی رجحانات، نذرونیاز، محلوں اور باغوں کی آرائش، نوابوں اور امیروں کی طرز رہائش کا جائزہ لیا گیا ہے۔ افسوس کہ فی الوقت یہ کتاب حیدرآباد کی لائبریری سے گم ہے۔ جس کی تلاش اہل فکروتحقیق کی ایک اہم ذمے داری ہے۔ اگر یہ سفرنامہ دستیاب ہوجاتا ہے تو اردو کا یہ پہلا سفرنامہ تسلیم کیا جائے گا۔

سرسید کا ایک دوسرا سفرنامہ ’’ سفرنامۂ پنجاب‘‘ ہے جو 1884میں شائع ہواتھا۔ یہ سفرنامہ اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ اس میں ان کی تحریک کی روح سانس لے رہی ہے۔ یہ سفرنامہ قوم کے نام ایک پیغام ہے جس میں تعلیم کی اہمیت اور ترقی کے راز سے آشنا کیا گیا ہے۔ اس سفرنامہ میں لدھیانہ ، گورداس پور، لاہور، مظفر نگر، جالندھر اور امرتسر کے سفر کے حالات جمع ہیں۔ سرسید کے ’’ سفرنامۂ پنجاب‘‘ کے مرتب سید اقبال علی سرسید کے سکریٹری بھی تھے اور انھوں نے اپنی زود نویسی سے یہ سفر نامہ قلمبند کیا تھا۔

                مولانا حکیم عبدالحی کا سفرنامہ ’’ دہلی اور اس کے اطرف‘‘ 1894کے ان کے سفر پر مشتمل ہے۔ اور 1958میں مولانا سیدابوالحسن علی ندوی نے اپنے مقدمے کے ساتھ اسے دہلی سے شائع کیا۔ مولانا عبدالحی کے اس سفر کی روداد اگرچہ مذہبی ہے لیکن انھوں نے اس میں جس طرح دہلی اور اس کے اطراف کی تاریخی عمارتوں، گلیوں، بازاروں، مسجدوں، مدرسوں اور درگاہوں کا ذکر کیا ہے اس سے اس وقت کے مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت اور اخلاق و عادات پر خاطر خواہ روشنی پڑتی ہے۔

ہندوستان کے خاندان ہلکر کے مشہور راجا تکونی رائو نے شہنشاہ دہلی سے ملاقات کی غرض سے 1850ء  میں سفر کیا تھا۔ اس سفر میں ان کے منشی امید سنگھ بھی تھے جنھوں نے ان کا سفرنامہ ’’باغ نو بہار‘‘ کے نام سے قلمبند کیا۔ اس سفرنامے میں تکونی رائو نے بادشاہ وقت کی جاہ وحشمت کے کئی پہلوئوں کا ذکر کیا ہے ، ان میں دہلی کی مسجدیں، بازار، نظام الدین اولیا، یہاں کی عمارتوں اور باغات کابھی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ نواب غوث محمد خان کا سفرنامہ ’’ سیر المحتشم‘‘ میں ان کے حالات قلمبند ہیں جس میں سارنگ پور، گوالیار، اکبر آباد، دھول پور، فرخ ا?باد، قنوج، لکھنو?، جے پور،دہلی ، اجین، چتوڑ، اور اجمیر شریف کے سفر کی روداد بیان کی ہے ، ’’ سروریاض‘‘ میں شیخ محمد ریاض نے شاہ جہاں پور سے دہلی کے سفر کی روداد بیان کی ہے۔ یہ سفر 1860ء میں کیا گیا تھا۔ نواب کلب علی خاں رام پور نے 1870ء میں برطانیہ کے ولی عہد شاہزادہ ڈیوک آف اڈن سے ملاقات کے لیے رام پور سے آگرہ کا سفر کیا تھا اور اپنے سفر کے حالات ڈائری کی شکل میں لکھے جو اودھ اخبار میں ضمیمہ کے طور پر شائع ہوچکا ہے۔ پنڈت کنھیا لال نے اپنے سفرنامہ ’’ سفرنامہ ٔ کشمیر‘‘ میں الہ آباد سے کان پور ، آگرہ ، سہارن پور، امرت سر، لاہور اور سری نگر اور پھر دہلی لوٹنے کا مفصلاً ذکر کیا ہے۔ اس سفر کی روداد انھوں نے 1882میں لکھی تھی۔ شہزادہ مرزا رئیس بخت جو بہادر شاہ ظفر کے پوتے تھے انھوں نے 1884ء میں ہندوستان کے مختلف شہر وںکی سیر کی اور سفر کا حال ’’ موج سلطانی‘‘ میں قلمبند کیا۔ ریاست رادھن پور گجرات کے نواب بسم اللہ خاں نے 1891میں ہندوستان کے مشہور مقامات ، جے پور، اجمیر شریف، لاہور، دہلی، اکبر آباد، راولپنڈی، پیشاور اور لکھنو وغیرہ کی سیر کی اور سفر کے حالات ’’ سفر نامۂ حضور عالی‘‘ میں جمع کر دیا۔ لہٰذا ان سفرناموں کے جائزے سے ہندوستان کی اس وقت کی تاریخ و تہذیب مرتب کرنے میں بنیادی مواد فراہم ہوتے ہیں۔ دہلی سے متعلق بے

 شمارے سفرنامے ہیں۔ ایک سفرنامہ سید شاہ محمد اکبر داتا پوری کا ’’ سیر دہلی ‘‘ ہے۔ یہ سفرنامہ 1311 ھجری کے دہلی کی مکمل تصویر پیش کرتا ہے۔ اس وقت کی شادی بیاہ، لباس، وضع قطع اور رہن سہن کا تفصیلی حال اس میں موجود ہے۔ ’’واجد علی شاہ نے اپنے سفرنامہ میں لکھنو سے کلکتے تک کے سفر کا حال لکھا ہے۔ ان کے سفرنامے کام ’’ حزن اختر‘‘ ہے جو مثنوی کے قالب میں ہے۔ ’’ سفرنامۂ لالہ چند رام ‘‘ میں لالہ چندرام نے بندرابن ، متھرا ، بنارس اور الہ آباد کے سفر کا حال لکھا ہے۔ یہ سفرنامہ بھی انیسوی صدی کے آخر کا ہے۔ اس میں ہندو میتھولوجی اور دیومالائی قصّے بھی ہیں۔ اس میں بنارس ، کاشی اور وارانسی کی وجہ تسمیہ بھی تفصیل سے بیان کی گئی ہے۔ حافظ عبدالرحمن امرتسری کا سفر نامہ ’’ سیاحت ہند‘‘ 1898ء میں  شائع ہوا جس میں سات اسفار کے ساتھ مراد آباد اور رام پور وغیرہ کے سفر کا ذکر بھی شامل ہے۔ ’’روز نامچہ سیاحت کشمیر‘‘ ریاست کپورتھلہ کے فرماں روا کا سفر نامہ ہے جو 1889ء میں لکھا گیا۔ ’’ سفرنامۂ کشمیر‘‘ محمددین فوق کا سفرنامہ ہے۔ مولانا جعفر تھا نیسری کا سفرنامہ ’’ کالاپانی‘‘ ہے جو 1863میں لکھا گیا۔ اسے روز نامچہ یا خود نوشت میں بھی شمار کیا جاتا ہے۔ اس کا دوسرانام ’’ تواریخ عجیب‘‘ بھی ہے۔ اس میں پیلی بھیت، انبالہ، دہلی، لاہور، کراچی، بمبئی سے کالاپانی، انڈمان تک کے سفر کا حال لکھا ہے۔ اس سفر نامہ میں ایک سیاسی قیدی کی جدوجہد اور اس کی بیکسی و لاچاری کی کسک ہے۔ سرسید کے سفرنامۂ لندن کی طرح ایک اور سفرنامہ ’’ انگلینڈ اینڈ انڈیا‘‘ جس کے مصنف لالہ بیج ناتھ ڈسٹرک جج ہیں۔ یہ سفر نامہ 1899ء￿  میں انگریزی میں شائع ہواتھا۔ اس کی مقبولیت کے سبب ہی اس کے اردو ترجمے بھی شائع ہوئے۔ مولاناشبلی نعمانی کا سفرنامہ ’’سفرنامۂ روم و مصروشام‘‘ سیداحتشام حسین کاسفرنامہ ’’ساحل اور سمندر‘‘ اور محمد عمرعلی خان کاسفرنامہ ’’ارڑنگ چین‘‘ کے تذکرے بھی یہاں دلچسپی سے خالی نہیں۔ یہ ایسے سفرنامے میں جو بیرون ملک کے سفر پر مشتمل ہیں لیکن ہندوستانی تہذیب وثقافت، تعلیمی منصوبے، طرز بودوباش اور صنعت و حرفت میں تقابل اور موازنے سے یہ ہماری توجہ اپنی جانب کھینچتے ہیں۔ مولانا شبلی کے سفر کا اصل مقصدوہاں کے مختلف تعلیمی اداروں کے طرز تعلیم اور تحریکات کا مطالعہ کرنا اور ہندوستان میں اس کی بحالی کی راہیں ہموار کرناتھا۔ احتشام حسین کو امریکا اور انگلستان کے سفر پر لکھنو یونیورسٹی نے فیلوشپ دے کر بھیجاتھا جس کا اصل مقصد وہاں کے لوگوں سے ملک کر یہ پتا لگانے تھا کہ ہندوستان کی ادبی زندگی میں نظم پیدا کرنے ، اچھے ادب کی حوصلہ افزائی کرنے اور کتابوں کی اشاعت کو بہتر بنانے میں کیسا لائحہ عمل اختیار کیا جانا چاہئے۔ محمد عمر علی خاں نے بھی چین کا سفر کرتے ہوئے ہندوستانی تہذیب سے بیشتر مقامات کا موازنہ کیا ہے۔ چین کی پیداوار، کاشتکاری ، طرز تحریر ، مذہب اور عقیدت اور کھانے پینے کے طور طریقوں کا مشاہدہ کرتے ہوئے ہندوستان ہمیشہ ان کے سامنے رہا ہے۔ ایک سفرنامہ مسیح

 الدین علوی کا’’سفیراودھ‘‘ کے نام سے ہے۔ مسیح الدین علوی کو واجد علی شاہ نے اودھ کا سفیر مقرر کیا تھا۔ اس کے سفرنامے کانام ’’ تاریخ انگلستان‘‘ تھا لیکن اپنے وطن اور جائے پیدائش کی کسک سے ہی لوگوں نے اس کا نام ’’سفیراودھ‘‘ تجویز کیا تھا۔ ان سفرناموں کا ذکر یہاں اس لیے ضروری ہے کہ اس میں مصنف نے بیرون ملکی طرز معاشرت اور زندگی کا موازنہ اہل وطن سے کیا ہے ایسے دیگر سفرناموں کی بھی بازیافت کی جانی چاہئے جو ہندوستان کے علاوہ کسی اور ملک کے سفر کے حالات پر مشتمل لیکن اس کے تجزیاتی موازنہ نے اور مطالعے سے اپنے محاسبے کا شعور بالیدہ ہوتاہو۔

                بیسویں صدی میں لکھے گئے ایسے سفرناموں جن میں ہندوستان کی تاریخ، تہذیب، سماج اور علوم و فنون، سیاست کے حالات ملتے ہیں ان میں ایک عجیب کشاکش کا ماحول گرم ہے۔ صلح و آشتی اور آزادی کے لیے انسانی روح بے چین نظر آتی ہے۔ خواجہ حسن نظامی کا سفرنا مہ ’’ روزنامچۂ  1907‘‘ ہے جس میں بمبئی، سوفات، گجرات اور کاٹھیاواڑ کے لوگوں کے حالات قلمبند کیے گئے ہیں۔ سرکشن پرساد کا سفر نامہ 1916ء  میں ’’ سفرنامہ‘‘ کے نام سے منظر عام پر آیا جس میں سیاست اور معاشرت کے ساتھ فطرت انسانی کے تجربے اور تجزیے پر مشتمل ہے۔ قاضی عبدالغفار خاں کا سفرنامہ ’’سیردکن‘‘ جسے معین الدین عقیل نے ’’ نادر سفرنامہ‘‘ کے نام سے مرتب کیا ہے ، جو خطوط کی شکل میں ہے۔ اس سفرنامے ہیں 1914ء کے اورنگ آباد، دولت ا?باد، خلد آباد، حیدر آباد اور ایلورا کے غاروں اور پہاڑ و نباتات کاذکر کافی تفصیل سے کیا ہے اس سے اورنگ آباد کے مقبروں، مسجدوں اور وسائل آمدورفت سے واقفیت ہوتی ہے۔ سرکشن پرساد کا ایک اور سفرنامہ ’’ سیر پنجاب‘‘ ہے جس میں 1913ء  کے پنجاب ، اجمیر، دہرہ دون، بمبئی، امرتسر اور لاہور کا نقشہ کھینچاہے۔ عبدالشکورخاں کا سفرنامہ ’’ خضر منزل‘‘ جس میں دکن کے بنگلور اور شمال کے کشمیر کی تہذیب و تمدن اور انسانی نفسیات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ایک سیاح میجر طلاخان نے 1932میں برصغیر ہند کا سفر سائیکل سے کیا تھا جس نے اپنے سفرنامے میں تاریخ اور آثار قدیمہ کا مرقع پیش کیا ہے۔ 1923ء سے 1933تک مولانا راشد الخیری نے ہندوستان کے مختلف شہروں کی سیر کی جن کے سفر کی روداد’’ سیاحت ہند‘‘ میں ان کے بیٹے رازق الخیری نے جمع کردی۔ اس سفر میں ہندوستان کے اس وقت کے مسلمانوں کے حالات ، ان کے اخلاق و عادات اور خصوصاً تعلیم نسواں کی صورت حال کا مفصلاً ذکر کیا گیا ہے۔ میرعثمان علی کا سفرنامہ ’’سفرنامۂ شاع ند‘‘ میں 1932 کے لکھنو ، رام پور اور دلی کی سیاسی اور سماجی صورت حال کا جائزہ لیا ہے۔ سندھی خان نے اپنے سفرنامے ’’ تحفۂ بنگالہ‘‘ میں 1917ء کے مشرقی بنگالی کی تہذیب ثقافت کا احاطہ کیا ہے۔ دہلی اور شملہ کے سفر پر مشتمل مولانا طاہر سیف الدین کا سفرنامہ’’تذکرۂ سیفی‘‘ 1920ء میں منظر

عام پر آیا۔

                پنڈت شیونرائن شمیم کا سفرنامہ ’’ سفرنامہ? شمیم‘‘ 1927 میں منظر عام پر آیا۔ اس سفرنامے میں زیادہ تر ہندومت اور بدھ مت کے مقدس مقامات کی سیر کا حال بیان کیاگیا ہے۔ خواجہ حسن نظامی کا ایک اور سفرنامہ ’’ اسرار رنگون‘‘ 1911میں روز نامچے کی شکل میں سامنے آیا جس میں کاٹھیاواڑ، گجرات اور سومنات سے لے کر رنگون کے سفر کے حالات بیان کیے گئے ہیں۔ ہندوستان کی تہذیب و ثقافت کے بیان میں سید محمد ناصر کا سفرنامہ ’’ سیاحت ہند‘‘ بھی غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ انھوں نے 1938ء کے ہندوستان کے مختلف مقامات کی روداد مثلاً روہیل کھنڈ ریلوے کے انتظامات ، دریائوں، سرسبزوادیوں کا رقبہ، مردم شماری کے ضابطے سے لوگوں کی آبادی، زراعت ، سیاست، مکانات کا ذکر کیا ہے۔ ان کی سیاحت کا مقامات ، امرتسر، لاہور، پاک پٹن، ملتان، بہاولپور، حیدرآباد، کراچی، کوئٹہ اور شکارپور، دہلی ، متھرا، آگرہ، دھولپور، بھوپال، برہان پور، ممبئی، احمد آباد، اجمیر، جے پور ، سہارن پور، لکھنو ، اودھ، ا?لہ آباد کے حالات کا مفصلاً ذکر کیا ہے۔ اس کے علاوہ سید ہاشمی فرید آبادی کاسفرنامہ ’’ اندرون ہند اور اندرون حیدرآباد، کرشن چندر کا پودے، جگن ناتھ آماد کا جنوبی ہند میں دوہفتے، مہارا جا سرکشن پر شاد کا روز نامچۂ گلبرگہ اور روز نامچۂ برار، صغرا ہمایون عزرا کے روزنامچۂ بھوپال و دہلی، رہبر کشمیر، سفرنامۂ پونا و مدراس، سپر بہارو بنگالہ، سفرنامۂ مدراس و دالٹیر اور سیاحت جنوبی ہند، مہاراجا سرکشن پرشاد کا سیر ناگپور (حصہ و دوم)، سید تراب علی کا سفر نامۂ کرناٹک، راجا دھرم کرن کا سفر لکھنو، صاحب زادہ محمد مصطفی علی خاں کا سیروسیاحت ہند، پنڈت ٹھاکردت شرما کا سیر شملہ، کوی راج بلونت سنگھ موہن کا سیر کشمیر، سید علی بلگرامی کا دکن میں موسیوتھینو، خاں بہادر شیخ عبدالقادر کا عہد اکبری میں سیر کشمیر محمد ظریف لکھنوی کا کشمیر جنت نظیر ، خالد کے بیگ کا ماورائے ہند (حصہ اول دوم) ، لالہ بال کشن کا ہندوستان کی سیر، حفیظ جالندھری کا منظوم سفرنامہ تصویر کشمیر، صاحب زادہ حسین میاں کا حالات سفر مالابار، سید مقبول حسین کا دہلی گائیڈ اور احمد حسین خاں کا عجائبات ہندوستان وغیرہ کے جائزے سے ہندوستان کی تہذیب و ثقافت روشن ہوتی ہے۔

                ا?زادی اور تقسیم وطن کے بعد سفرناموں کی ایک اور نوعیت سامنے ا?ئی جن میں ہندوستان کی تہذیب و ثقافت کے بیان میں ہجرت کا کرب داخل ہوگیا۔

ا?زادی کے بعد اپنا ہی گھر دوحصوں میں تقسیم ہوگیا۔ سچ میں اتنی اونچی دیواریں اٹھادی گئیں کہ ایک کا دوسرے پار جانا محال ہوگیا۔ اپنے ہی دیس میں ہم اجنبی ہوگئے۔ ایک لمبے عرصے تک لوگ حصوں میں بانٹے جاتے رہے۔ جب مذاہب اور علاقوں کے نام پر لوٹ کھسوٹ اور قتل و غارت گری کی ا?گ ٹھنڈی ہوئی اور لوگوں نے جب ایک جانب سے دوسری جانب اپنی یادوں کی راکھ کریدنی چاہی تو ان پر ہزار طرح کی پابندیاں عاید کردی گئیں۔ ان کا شوق سفر ارباب اقتدار کے غیض و غضب اور رحم و کرم کامحتاج ہو گیا۔ ایک ہی گھر کے کچھ افراد دیوار کے ایک جانب اور کچھ افراد دیوار کی دوسری جانب ہجرت کے کرب میں تڑپتے رہے اور اپنی ہی جائے پیدائش تک جانے اور دیکھنے کو ترستے رہے۔ بالا?خر اجازت نامے کی سہولت ملی تو دیرینہ  دوست اور مقامات کی سیر کرتے ہوئے ماضی کی یادوں کا کرب ان کے احساسات کو پارہ پارہ کرنے لگا بقول ناصر کاظمی :

ہمیں وہ برگ خزاں دیدہ ہیں جنھیں ناصر

چمن میں ڈھونڈتی پھرتی ہے بوئے ا?وارہ

                ا?زادی کے بعد ہندوستان کی تہذیب و ثقافت پر مبنی ایسے سفرنامے زیادہ تر پاکستان میں لکھے گئے۔ ان سفرناموں میں پروفیسر حمیداحدخاں کا سفرنامہ میری بھارت یاترا ہے جسے یادوں کی بازیافت اور محبتوں کی تجدید کہہ سکتے ہیں۔ پریم رتن ووہرا کا سفرنامہ کٹک سے بمبئی تک ، میں پریم رتن نے ا?زادی کے بعد کی انسانی بربریت اور تعصب کے طوفان کا احاطہ کرتا ہے۔ انتظار حسین اردو کے ایک بڑے افسانہ نگار ہیں۔ ان کا سفرنامہ ’’ زمین اور فلک اور ‘‘ میں ایک گم شدہ زمین اور ا?سمان سے دوبارہ ملاقات کی ہے جن میں کثرت سے دیومالائی حوالے ملتے ہیں۔ ’’دیدہ وباز دیدہ‘‘ ڈاکٹر فرمان فتحپوری کا سفرنامہ ہندوستان ہے جس میں انھوں نے بھولے بسرے خواب کو بیدار کیا۔ ممتاز مفتی کا سفرنامہ ہند یاترا ، میں ہندوستان کو دور حاضر کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی ہے لیکن یادوں کی باز یافت سے ان کا دامن بھی تر ہوا ہے۔ عرفان علی شاہ کا سفرنامہ ’’قدم بہ قدم‘‘ ہے جس میں انھوں نے افسانوی ہیئت میں ہندوستان کی مقامات اور افراد کے نقوش اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ سید انیس شاہ جیلانی کا سفرنامہ ’’ مقبوضہ کشمیر‘‘ ہے جس میں ہندوستان کی معروف ادبی شخصیتوں سے ملاقاتوں کے تذکرے ہیں۔ حسن رضوی کا سفرنامہ ’’دیکھا ہندوستان‘‘ میں حسن رضوی نے نظر کو خبر کی راہ دکھائی ہے۔ اس میں جذبے اور احساس کی کارفرمائی ہے اور ہندوستان کی تہذیبی، سماجی، ثقافتی اور ادبی حالات و ماحول کا جائزہ ہے۔ ڈاکٹر اختر حسین ملک کا سفرنامہ ’’ ایک ہفتہ دہلی میں، شیخ منظور الہیٰ کا سفرنامہ مانوس اور اجنبی ، رفیق ڈوگر کا سفرنامہ اے ا?ب رود گنگا، جمیل زبیری کا سفرنامہ موسموں کا عکس، ڈاکٹر وزیر ا?غا کا سفرنامہ ایک طویل ملاقات، منظر علی کا سفرنامہ’’ سفرنامہ? ہندوستان‘‘ کراچی سے بہار تک ، منیر فاطمی کا سفرنامہ خواب کا سفر وغیرہ کا انھی تناظر میں مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ کوثر چاند پوری نے شہرخوباں اور لمحوں کا کھنڈر عناوین کے تحت افسانے کی ہیئت میں ہندوستان کو دیکھا ہے۔ اسے ایک طرح سے ان کے ادبی شعور کانچوڑ کہا جاسکتا ہے۔

ان سفرناموں کے اجمالی جائزے سے اتنا تو اندازہ ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے ہندوستان کا سفر کیا ان میں تاجر، سفیر، طبیب، صحافی، سپاہی اور ڈار سے بچھڑے ہوئے لوگ، خانہ بدوش یعنی زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں دنیا کے مختلف ممالک، طبقہ اور خیالات سے ان کا تعلق تھا۔ بعض لوگوں نے اپنے مستقبل کو سنوارنے کے لیے ہند یاترا کی تو کچھ نے یہیں ا?کر پناہ حاصل کی۔ ان سیاحوں نے اپنی سیاحت کو خواہ شجاعت کا کارنامہ سمجھا ہو، دنیا کی سیر کا ا?ئینہ کہا ہو یا تہذیب و ثقافت اور تعلیم سیاست کے تبادلے کا سفینہ لیکن ان میں موخذے کے بیان کے بغیر سفرنامے کوآفاقی قدر نہیں ملی اور نہ مل سکتی ہے۔ اس کے بغیر ان کی روداد تفریح طبع کا سامان تو فراہم کرسکتی ہے لیکن زندگی کی تعمیروترقی اس سے نابلد رہے گی۔ زندگی اگر حرکت کا نام ہے اور ارتقا اس کی فطرت تو تہذیب و تمدن، معاشرہ، صنعت و حرفت، زبان اور تعلیم ، بودوباش اور سیاسی حکمت عملی کے تذکرے اور اس کے تجزیے اور تبادلے کے بغیر ان میں ا?فاقی قدروں کی سمائی نہیں ہوسکتی۔ سفرناموں کا جائزہ لیتے ہوئے اس کی تہذیب اور تاریخ پر ناقدین اور محققین نے اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ ایسے سفرنامے جو تاریخی ، علمی ، ادبی، مذہبی، جغرافیائی اور سوانحی حالات پر مشتمل ہیں زیادہ مقبول ہوئے ہیں، عوام نے ان کی بڑی قدر کی اور ان کی تحریروں سے دوسرے لوگوں نے خاطر خواہ استفادے کیے۔ سلی مین کے سفرنامے ’’ Sleeman in Qadh ‘‘ مولانا شبلی اور محمد حسین ا?زاد کے سفرناموں کے دیباچے۔ سریندر ناتھ کی مرتبہ ’’ Indian Travls of thevenot and careri‘‘ ڈاکٹر قدسیہ قریشی کی تحقیق ’’اردو کے سفرنامے ‘‘، ڈاکٹر خالد محمود کی تحقیق و تنقید ’’ اردو سفرناموں کا تنقیدی مطالعہ‘‘ مرزا حامد بیگ کی تحقیق ’’ اردو سفرنامے کی مختصر تاریخ‘‘، ڈاکٹر انور سدید کی تصنیف ’’ اردو ادب میں سفرنامہ ‘‘، اور معین الدین عقیل ’’ سیردکن‘‘ کے دیباچے اپنے اس خیال کی توضیح میں دیکھے جاسکتے ہیں۔

Leave a Reply