You are currently viewing رپورتاژ:  اکیسویں صدی میں اردو ادب

رپورتاژ: اکیسویں صدی میں اردو ادب

رپورتاژ

اکیسویں صدی میں اردو ادب

دو روزہ آن لائن  عالمی کانفرنس زیر اہتمام جی سی وویمن یونیورسٹی سیالکوٹ پاکستان

سعدیہ سلیم شمسی رسرچ اسکالر

 عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد

وقت اور حالات انسان کو جینے کا ہنر سکھا دیتے ہی ہیں۔ جیسے کہ دسمبر ۲۰۱۹ سے دنیا سیک ایسی گومگوں کی صورتحال کا شکار ہے کہ تمام تر کار ہائے زندگی،امور سلطنت اور ہر شخص اور ادارے کے فرائض منصبی میں جمود سا آ گیا ہے۔ وباء کے ان دنوں میں شخصی دوری ہی احتیاط اور زندگی کی اہم دوری بن گئی ہے اس لیے گویا سب کچھ تھم گیا ہے سوائے وقت کی رفتار کے۔ دنیا گزشتہ آٹھ ماہ سے اس  وبا سے باہر نکلنے کے لیے بھر پور جتن کر رہی ہے مگر تاحال حل ندارد۔

 ایسے میں مختلف شعبہ ہائے حیات سے وابستہ لوگوں نے سماجی رابطوں کے ذریعہ سے معلومات کی ترسیل کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب عام آدمی ٹیکنالوجی سے دور تھا موجودہ حالات نے اسے ٹیکنالوجی سے ہم کنار ہونا سکھایا اردو زبان و ادب کے جو قومی و بین الاقوامی سمینار لاکھوں روپے خرچ کرکے بڑے بڑے ہالوں میں منعقد ہوا کرتے تھے اب کامیابی کے ساتھ آن لائن منعقد ہو رہے ہیں ۔

ایسے عالم میں  بھی کچھ  ادارےاور ادبی لوگ  اس وقت سے بھی  نہ صرف بھر پور فائدہ  اٹھارہے ہیں بلکہ ایک جہاں بھر کو اپنی اس ضیا پاشی سے مستفید ہونے کا موقع فراہم کررہے ہیں۔

 ایک ایسی ہی علم و عرفان کی چہار سو ضیا بکھیرتی ادبی کانفرنس کا انعقاد جی سی وویمن یونیورسٹی سیالکوٹ کی طرف سے 7 اور 8 اگست کو کیا گیا ۔ جس میں دنیا بھر سے  آسمان ادب کے بیسوں ستارے شریک ہوئے اور  تشنہ گان علم  کو مسلسل دو روز تک فیضیاب کرتے رہے  ۔

 اپنی نوعیت کی اس منفرد تقریب میں بشمول پاکستان دنیا بھر کے آٹھ ممالک سے 50 کے لگ بھگ مندوبین شمع  محفل بنے رہے   ۔

اردو ادب کے افق پر موجود کئی ادبی ستارے اس تقریب میں جلوہ افروز ہوئے  جن میں ڈنمارک سے جناب نصر ملک صاحب ، انڈیا سے محترم اکرام الدین صاحب اور اسکے علاوہ بھی ایک طویل ترین فہرست  ہے جسے ہم اختصار میں (جی سی وویمن یونیورسٹی سیالکوٹ) کے افق پر جلوہ افروز ہونے والی ایک ادبی کہکشاں کا نام دے سکتے ہیں ۔۔

کانفرنس کا آغاز حسب دستور تلاوت کلام پاک سے ہوا ، تلاوت کلام پاک کے بعد جناب ڈاکٹر افضال بٹ صاحب صدر شعبہ اردو نے استقبالیہ پیش کیا جس میں انہوں نے تمام مہمانوں کو پروگرام میں خوش آمدید کہا اور شرکت پر  تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔

افتتاحی کلمات پروفیسر نائلہ ارشد صاحبہ نے کہے جو انچارج کلیہ فنون و سماجی علوم اینڈ نیچرل سائنسز کے طور پر جی سی ویمن یونیورسٹی،سیالکوٹ میں  خدمات سر انجام دے رہی ہیں ۔

پہلی نشست کی صدارت جناب پروفیسر خواجہ اکرام الدین صاحب نے کی ۔مہمان اعزاز جناب پروفیسر  ناصر عباس نیر صاحب تھے ۔اس کانفرنس میں  جہاں بھر  سے  گلستان ادب کے  بیسوں  گل  اپنی اپنی منفرد خوشبوؤں اور  مہک سے اس محفل کو  معطر کرتے رہے ۔اس نشست میں  پہلا مقالہ ” ریاست جموں و کشمیر کے منظرنامہ میں اردو ادب” کے عنوان سے  پروفیسر شہاب عنایت ملک صاحب نے پیش کرنا تھا مگر چونکہ یہ ایک آن لائن کانفرنس تھی اور جموں و کشمیر میں انٹرنیٹ کی دیگر گوں صورتحال آڑے آئی اور وہ اپنا مقالہ بروقت پیش نہ سکے پھر شام چار بجے جب لہری  رو گامزنِ سفر ہوئی تو  شہاب صاحب اپنا مقالہ پیش کرنے میں کامیاب ہوئے، جبکہ باقی کارروائی اپنے تسلسل کے ساتھ جاری رہی۔ دوسرا مقالہ افروز عالم صاحب نے پیش کرنا تھا لیکن وہ  بوجہ کسی مصروفیت کے شریک نہ ہوسکے ۔اسکے بعد ترتیب وہ ترتیل سے مقالہ جات پیش ہوتے رہے اور اہل ادب نے تشنہ گان علم کو خوب سیراب کیا ۔کلیدی مقالہ مہمانِ اعزاز  پروفیسر ڈاکٹر خواجہ محمد اکرام الدین صاحب   نے بہت منفرد،جامع اور مدلل انداز میں پیش کیا ۔

پروفیسر ڈاکٹر محمد یوسف خشک صدر نیشنل اکادمی ادبیات،پاکستان نے بطور مہمان خصوصی خطاب کیا ۔انھوں نے جی سی ویمن یونیورسٹی سیالکوٹ کے شعبہ اُردو کی تعلیمی اور تحقیقی سرگرمیوں کو  سرہاتے ہوے کہا  کہ اکادمی ادبیات ،پاکستان جی وویمن یونیورسٹی کی ہر ممکن معاونت کرئے گی   اور شعبہ اردو  جی سی ویمن یونیورسٹی سیالکوٹ کو اہم موضوع پر منفرد  کانفرنس منعقد کرانے پر  وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر رخسانہ کوثر اور صدر شعبہ اُردو جناب افضال بٹ صاحب اور انکی پوری ٹیم کو مبارکباد پیش کی۔

شگفتہ صاحبہ نے دونوں دن مسلسل نظامت کے فرائض بڑی تندہی اور احسن طریقے سے  سرانجام دیے ۔

 بلاشبہ جتنی  خوبصورتی  سے انہوں نے پروگرام کو آگے بڑھایا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اگر میں یوں کہوں کہ یہ شعر آپ کی ذات اور کارکردگی پر بالکل صادق آتا ہے تو بیجا نہ ہوگا

شمیمِ گل سے معطر تھا دامنِ کوہسار

ہر گل شگفتہ تھا، اور ہر گل گلِ تر تھا

مجھے بذات خود اس پہلے  کئی ادبی سینمارز اور تقریبات میں شرکت  کا موقع ملا اور عام تجربہ یہیں رہا ہے  اذانیں ہوتیں تھیں اور ہم سنی ان سنی کرتے تھے ۔ منتظمین کو کبھی نماز کا وقفہ کرنے کا خیال نہیں تک  آتا  بسا اوقات تو یہ بھی  دیکھنے میں بھی آتا  کہ اذان ہورہی ہوتی اور ادھر پروگرام پوری سرعت سے جاری و ساری رہتا۔

مگر اس کانفرنس کی جو بات مجھے خاص اور اچھی لگی وہ یہیں تھی کہ نماز جمعہ کے لیے باقاعدہ وقفہ کیا  گیا۔ یقیناً  اس کے لیے منتظمین کو جتنی بھی داد دی جائے کم ہے یہ نہ صرف ایک احسن اقدام تھا بلکہ  مجھے پورا یقین ہے اس اقدام سے اس کانفرنس میں خیرو برکت اور  خوشنودیِ خداوند قُدس بھی ضرور شامل رہی ہوگی ۔

ایک طویل ترین کانفرنس ہونے کے باوجود جس میں دونوں دنوں میں  کل ملا کر پانچ الگ الگ سیشن ہوئے ہمیں  زرا بھی یہ احساس نہیں ہوا کہ سارا دن ہم سب لوگ متواتر اس میں شامل رہے ہیں،

 بلکہ یوں محسوس ہورہا تھا جیسے ہم گھر سے لائیو نہیں بلکہ کانفرنس ہال میں موجود رہ  کر اس کانفرنس میں شریک  ہیں کسی قسم کی اکتاہٹ،  غنودگی یا تھکان کا دور دور تک کوئی احساس تک نہیں تھا ۔

 تشنگی اور چاشنی تھی کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی خیر وقت کب تھمتا ہے ،پہلا  دن کیسے گزرا،کب گزرا کب مقررہ وقت ختم ہوا  پتہ بھی نہ چلا۔دوسرے روز بھی کارروائی کا آغاز حسب سابق تلاوت کلام پاک سے کیا گیا ۔

    دوسرے روز  پہلی نشست کی صدارت جناب پروفیسر مولا بخش صاحب نے کی جنکا تعلق انڈیا سے ہےجبکہ مہمان اعزاز محترمہ پروفیسر فوزیہ اسلم صاحبہ تھیں ۔

 تمام شرکاء کے مقالہ جات اپنے موضوعات،  فکر، ریسرچ  اور احساسات کے اعتبار سے منفرد تھے ہر مقالے سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں تھی کہ مقالہ نگار نے بہت سخت محنت جانفشانی  اور ذاتی تحقیق کے بعد ہی یہ مقالہ جات یہاں پیش کیے ہیں  جسے نہ صرف شرکاء نے خوب سراہا بلکہ تمام سامعین نے بھی اپنے برقی پیغامات کے ذریعے خوب داد و تحسین پیش کی اور بالخصوص طلباء کو اس کانفرنس میں شریک ہر ایک مقالہ نگار سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا ۔یہاں چند ایک مقالہ جات کا ذکر میں خاص طور پر کرنا چاہوں گی، جو ہر اعتبار سے جامع مکمل ،مفصل  ،فکر انگیز وسیع تحقیق پر مبنی تھے ۔جن میں  ڈاکٹر خاور نوازش صاحب کا مقالہ بہت ہی بے مثال تھا آپ نے صدارت کے فرائض بھی  بڑے احسن انداز میں سر انجام دیے ، ڈاکٹر سعدیہ طاہر صاحبہ  ،ضیاء الحسین صاحب،

 ڈاکٹر گلزار بھٹ صاحب ، ڈاکٹر ریاض توحیدی صاحب، عائشہ صدیقہ صاحبہ سب کےمقالے  لاجواب تھے….

کس کس کا نام لوں اور کس کس کو چھوڑ دوں

جو ذرہ جس جگہ ہے، وہیں آفتاب ہے

سب شرکاء محفل نے  محض گفتگو نہیں کی بلکہ علم کے گراں بہا  موتی بکھیرے  جس سے نہ صرف ہم سب مستفید ہوئے  بلکہ   پروگرام سننے والے ہر شخص نے بھرپور استفادہ کیا۔میری بیٹی عائشہ پوری تقریب کو بڑے انہماک سے سنتی رہی اور نہ صرف نصر ملک صاحب کے خوشخطی سے لکھے گئے پلے کارڈ سے محظوظ ہوتی رہیں (جن میں نصر ملک صاحب نے ” آواز نہیں آرہی ” لکھ رکھا تھا اور جب جب آواز نہ آئے اسے آویزاں کیا کرتے تھے )بلکہ اسکے علاوہ بھی انہوں نے اس  کانفرنس سے  بہت کچھ سیکھا ۔اسکے علاوہ میرے  محترم اور مشفق استاد جناب اسلم فاروقی صاحب مستقل تقریب میں میرے ساتھ حوصلہ  افزائی کرتے رہے میں آپ کی بہت ممنون و مشکور ہوں یقیناً آپ جیسے عظیم رہنما جنکی راہنمائی کریں وہ لوگ کبھی  ناکام نہیں ہوسکتے   ۔

مشکل نہیں سفر میں اگر حوصلہ ملے

رہبر صحیح ملے تو صحیح راستہ ملے

۔میں جناب ڈاکٹر افضال بٹ صاحب کی بھی ممنون ہوں آپ نے اتنی زیادہ مصروفیات کے باوجود مجھے پروگرام سے پہلے بھی فون کر کے نیک تمناؤں کا اظہار کیا جبکہ پروگرام کے اختتام پر بھی آپ نے فون کر کے دعائیں دیں اور  ناچیز کا شکریہ ادا کیا ۔تمام مہمانان گرامی نے مقالہ جات کے اختتام پر بہت کھل کر اظہار خیال کیا ۔۔

خواجہ اکرام صاحب نے یہ تجویز بھی دی کہ آئندہ اسی طرز کا ایک پروگرام رکھا جائے جہاں اساتذہ بھی مدعو ہوں مگر بولنے کا موقع صرف ریسرچ اسکالرز کو دیا جائے کیوں کہ وہیں ہماری نئی پود ہیں آنے والے دنوں میں  مسند ادب  کو انہیں ہی  سنبھالنا ہے ۔

نصر ملک صاحب نے احمد فراز کو یاد کر کے انکے ساتھ اپنی ایک بیس سال پرانی تصور دکھائی اور یہ تجویز پیش کی کہ ہمیں مزاحمتی ادب کو بھی ایسے سیمینارز کا لازمی حصہ بنانا چاہیے ۔

نصر ملک صاحب نے جہاں دیگر مقالہ نگاروں کے مقالوں پر تبصرہ کیا وہیں مجھ ناچیز کے مقالے پر بھی کھل کر داد دی اور یہاں تک کہا کہ” سعدیہ سلیم شمسی نے شمس کی کرنیں آگرہ کے تاج محل پر گرا دیں اور بہت بہترین اور جامع مقالہ پیش کیا ” یقینا آپ کے یہ الفاظ میرے لیے کسی مستند سند سے کم نہیں ۔

 بلاشبہ  ایسی منفرد  کانفرنس اور اسکی   خوبصور ت اور   حسین یادیں ہمیشہ ہمارے دل و دماغ میں ترو تازہ رہیں گی ۔بہت خوبصورت  اور سہانی یادیں  لیے  یہ کانفرنس لگ بھگ ساڑھے پانچ بجے اختتام

پزیر ہوئی ۔آخر میں ، میں اس منفرد ، کامیاب اور منظم کانفرنس منعقد کرانے پر  وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر رخسانہ کوثر صاحبہ ، جناب ڈاکٹر افضال بٹ صاحب صدر شعبہ اردو جی سی وویمن یونیورسٹی سیالکوٹ، محترمہ شگفتہ فردوس صاحبہ، تمام آئی ٹی ٹیم اور دیگر فیکلٹی سٹاف کو بہت بہت مبارکباد دینا چاہوں گی ۔اور اس دعا کے ساتھ اجازت چاہوں گی  کہ اللہ تعالیٰ تاقیامت  اس مادر علمی کو اسی طرح علم و ادب کی خدمت کرنے کی ہمت ، توفیق ، استطاعت اور مدد عطاء فرمائے آمین ثمہ آمین

جن سے منسوب ہے تاریخ وفاداری کی

آندھیو ان درختوں کو گرا مت دینا

 

۔

This Post Has One Comment

  1. افتخار الدین انجم

    ماشاءاللہ بہت خوب

Leave a Reply