You are currently viewing رزمیہ ادب کے ارتقائی سفر کا سنگِ میل

رزمیہ ادب کے ارتقائی سفر کا سنگِ میل

رزمیہ ادب کے ارتقائی سفر کا سنگِ میل

ڈاکٹر مشتاق احمد

پرنسپل، سی ایم کالج،دربھنگہ

عصرحاضر میں عالمی منظر نامے پر اردو کی جن شخصیات نے اپنے علمی وادبی کارناموں کی بدولت اپنی مستحکم شناخت قائم کی ہے ان میں پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔انہوں نے ذرائع ابلاغ کے اس انقلابی عہد میں جدید ترین تکنیک کے ذریعہ اردو زبان وادب کو ایک ایک نئی جہت عطا کی ہے۔ پروفیسر اکرام الدین ہندوستان کی ایک تاریخی تعلیم گاہ جواہر لال نہرو یونیورسٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔اس یونیورسٹی کا ہندوستانی زبانوں کا مرکز بہ ایں معنی بھی عالمی سطح پر اپنی شناخت رکھتا ہے کہ یہ مرکز درس وتدریس کے علاوہ تحقیقی وتنقیدی شعبے میں بھی نمایاں کارکردگی کا حامل رہا ہے اور ہنوز اس کی علمی وادبی فعالیت بر قرار ہے۔ پروفیسر خواجہ محمداکرام الدین ایک بیدار مغز، وسیع القلب،تعمیری غوروفکر اور فعال شخصیت کے مالک ہیں۔حالیہ دہائی میں تحقیق وتنقید کے شعبے میں انہوں نے اپنی صحت مند تنقیدی بصیرت وبصارت سے حلقۂ ادب کو متوجہ کیا ہے اور ان کی تحریریں حوالہ جاتی درجہ رکھتی ہیں۔ پیشِ نظر کتاب ”اردو، عربی اور فارسی میں رزمیہ ادب“ ورلڈ اردو ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام دو ردوزہ بین الاقوامی سمینار منعقدہ 30۔31/ جنوری 2019ء میں پڑھے گئے مقالات پر مبنی ہے۔پروفیسر خواجہ اکرام الدین نے اپنے مقدمہ میں رزمیہ شعروادب کی عالمی ادب میں کیااہمیت ہے اور بالخصوص مشرقی ادب میں رزمیہ ادب کا مقام کیا ہے اس پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ بلا شبہ عالمی ادب میں رزمیہ منظوم اور منثور دونوں طرح کی تخلیقات دستیاب ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ عہدِ قدیم سے ہی رزمیہ ادب کو اولیت کا درجہ حاصل رہاہے۔ جہاں تک برصغیرکاسوال ہے تو یہاں بھی رزمیہ ادب کی قدر ومنزلت دیگر اقسامِ ادب سے ہمیشہ نمایاں رہی ہے۔پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین نے اپنے مقدمہ میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ:

”رزمیہ شعروادب ادبیات ِ عالم میں بیش قیمت سرمایے کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہندوستان میں منظوم داستانیں، مہا بھارت اور رامائن کے اردو تراجم، شاہنامے اور مراثی، ایران میں شاہنامہ فردوسی، رستم وسہراب، خمسے اور مثنویات، عربی اور دیگر زبانوں کے رزمیہ شہ پارے زبان وبیان اور اظہار کے گوناں گوں پیرائے، عظیم ادبی سرمائے ہیں باوجود اس کے اردو میں رزمیہ ادب کی طرف کم توجہ دی گئی ہے“(ص: 7)

         اس میں کوئی شک نہیں کہ مغربی ادب میں عہدِ قدیم سے ہی رزمیہ شاعری کو غیر معمولی اہمیت حاصل رہی۔ بالخصوص ارسطوؔ نے جب شاعری کے مسلمات کی وکالت کی تو اس میں بھی اس نے رزمیہ شاعری کے اوصافِ ابدی کی تعریف کی اوراس نے کہا کہ”رزمیہ شاعری میں فنکار حالات وکیفیات کے امکانی پہلوؤں کو شاعری کی اصل سمجھتا ہے اور وہ ہمارے سامنے کارخانۂ قدرت کے نقشہائے رنگا رنگ کو پیش کرتا ہے۔ بوطیقا میں بھی ارسطو نے فنون لطیفہ اور شاعری کی بحث میں رزمیہ شاعری کی اہمیت تسلیم کی ہے۔ مگر مغربی ممالک کے مقابلے مشرقی دنیا میں رزمیہ ادب کی تنقید کو اتنی اہمیت نہیں دی گئی البتہ تخلیقی سطح پر یہ روش جاری رہی۔ قدیم سنسکرت کے علاوہ دیگر علاقائی زبانوں میں بھی رزمیہ ادب لکھا جاتا رہا لیکن ہمارے محققین اور ناقدین نے رزمیے کی ادبی و علمی اہمیت کو اجاگر کرنے کی طرف توجہ کم دی ہے۔ جہاں تک اردو، عربی اور فارسی کا سوال ہے تو اس میں رزمیہ ادب کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے اور وہ منظوم اور منثور دونوں فارم میں ہے۔ بالخصوص شاعری کے فارم میں رزمیہ ادب کو فروغ حاصل رہاہے۔ پروفیسر خواجہ اکرام الدین نے بجا لکھا ہے کہ:

”رزمیہ شاعری ہماری ادبی وتہذیبی وراثت کا اہم حصہ ہے۔ رزمیہ شاعری کا ایک امتیازی پہلو یہ بھی ہے کہ یہ تہذیب وثقافت کے اظہار کا ایک اہم وسیلہ بھی ہے۔ رزمیہ شاعری میں ا نسانی تہذیب وتمدن، تاریخ وثقافت اور حماسہ کے ساتھ ساتھ اس میں معاشرتی اقدار واخلاق اور انسانی جذبات ونفسیات کی بھرپور عکاسی ہوتی ہے۔ رزمیہ شاعری میں اس عہدمخصوص کے معاشرتی اور سماجی زندگی کے ان پہلوؤں کو دیکھا جا سکتاہے جو تاریخ کی کتابوں میں بھی نہیں ملتیں“(ص: 8)

پروفیسر علی احمد فاطمی نے اس بین الاقوامی سمینارمیں اپنا کلیدی خطبہ پیش کیا تھا اور رزمیہ شاعری کے تعلق سے یہ نقطہ پیش کیا تھا کہ:

”موضوع کے اعتبار سے رزمیہ شاعری میں وسعت اور پھیلاؤ ہے اس کے بر عکس غزل میں محدودیت اور کساؤ ہے۔ رزمیہ میں طویل بیانیہ کا حسن کام کرتا ہے اور غزل میں مختصراً اشارہ اور کنایہ کا فن کام کرتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ غزل کی اساس عشق پر ہے اور رزمیہ کا اصل موضوع تصادم اور جنگ ہے جو حسن پرستوں کی نظر میں دوسرے اور تیسرے نمبر کی چیز سمجھی گئی۔ غزل میں بزم ہے اور جدل میں رزم، غزل میں فریاد ہے اور رزم میں للکار، غزل میں سرگوشی ہے اور رزم میں بلند آہنگی۔ اس لیے اردو شاعری کی مخصوص تہذیب نے اور تہذیب شاعری نے غزل کو جو اہمیت دی وہ رزمیہ شاعری یا رثائی شاعری کو اہمیت نہیں دی“(ص:32)

         پروفیسر علی احمد فاطمی کے اس اقتباس سے اردو کی غزلیہ شاعری اور رزمیہ شاعری دونوں کی اہمیت واضح ہوگئی ہے۔ کتاب کے مرتب پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین نے یہ کوشش کی ہے کہ عربی، فارسی اور اردو میں جتنے بھی رزمیہ ذخیرے موجود ہیں ان پر مختصراً ہی سہی لیکن گفتگو ضرور ہو اس لئے مشمولہ مضامین میں اس کی کوشش بھی دکھائی دیتی ہے۔ اس تبصرہ میں یہ ممکن نہیں کہ تمام مشمولہ مضامین پر بحث کی جائے لیکن قلم کاروں کی فہرست سے بھی یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ کتاب موضوعاتی طورپر کتنی اہم ہے۔ پروفیسر علی احمدفاطمی کے کلیدی خطبہ اور پروفیسر یوسف عامرکے صدارتی خطبہ کے علاوہ عربی میں رزمیہ شاعری کے متعلق پروفیسر یوسف عامر، پروفیسر رانیہ فوزی، ڈاکٹر محمد عزیز ندوی، ڈاکٹر ولاء جمال العسیلی، ڈاکٹر محمد مشتاق، حیدر الاسلام کے مضامین شامل ہیں۔ جب کہ فارسی میں رزمیہ ادب کے تعلق سے پروفیسر علیم اشرف خاں، ڈاکٹر فرزانہ اعظم لطفی، ڈاکٹر ارشد القادری کے مضامین سے فارسی میں رزمیہ ادب کی سمت ورفتار کا پتہ چلتا ہے۔اردو میں رزمیہ شاعری کے باب میں پروفیسر نعمان خاں،پروفسر ابنِ کنول، پروفیسرکوثر مظہری، پروفیسراسلم جمشید پوری، پروفیسر جہانگیر وارثی، پروفیسر ندیم احمد، ڈاکٹر محمد کاظم، ڈاکٹر محمد محسن، ڈاکٹر خالد مبصر،محمد رکن الدین اور ڈاکٹر رشید اشرف وغیرہ کے مضامین شامل ہیں۔مشمولہ مقالات کے مطالعے سے رزمیہ ادب کے تعلق سے ایک واضح خاکہ قاری کے ذہن میں ابھر کر سامنے آجاتا ہے۔ میرے خیال میں رزمیہ شاعری یا نثری تخلیقات پر اس طرح کی کوئی بھرپور کتاب سامنے نہیں آئی تھی۔ اگرچہ یہ کتاب سمیناری مقالات ومضامین پر مبنی ہے اس لئے کہیں کہیں تشنگی کا بھی احساس ہوتا ہے لیکن شرکائے سمینار نے حتی المقدور یہ کوشش کی ہے کہ وہ اپنے متعینہ عنوانات کے ساتھ انصاف کر سکیں۔پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین قابلِ مبارکباد ہیں کہ انہوں نے اس اچھوتے موضوع پر بین الاقوامی سمینار کا انعقاد کیا اور پھر سمینار کے مقالات کو دستاویزی حیثیت میں پیش کرنے کا علمی وادبی فریضہ انجام دیا ہے۔کیوں کہ اردو میں رزمیہ ادب کے تعلق سے صرف اور صرف مراثی کو موضوع بنایا جاتا رہا ہے اور بیشتر کتابیں رزمیہ شاعری کی مثال تک محدود رہی ہیں۔لیکن اس کتاب کا خاصّہ یہ ہے کہ اس میں منظوم ومنثور دونوں ہیئتوں میں دستیاب رزمیہ ادب کی تنقید پیش کی گئی ہے۔جیسا کہ مرتب پروفیسر خواجہ اکرام الدین نے اپنے مقدمہ میں بھی اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے:

”اردو میں رزمیہ کا تصور بالخصوص مرثیوں کے ساتھ مستحکم ہوچکا ہے۔ لیکن جب اس موضوع کو سمینار کے لئے منتخب کیا گیا تو دیکھ کر حیرت ہوئی کہ نظم ونثر کی مختلف اصناف میں رزمیہ عناصر پر مستند اور مدلل مقالے پیش کیے گئے ہیں۔ مرثیہ، مثنوی، نظم، غزل، داستان،ناول اور افسانوں میں بھی رزم وبزم کی جو داستان بیان ہوئی ہے ان سب پر گفتگوہوئی تو نہ صرف مجھے بلکہ سامعین کو بھی سوچنے پرمجبورکیا کہ رزمیہ کے تصور کو نثر سے جوڑنا کس حد تک درست ہے اور کیا واقعی نثری اصناف کو بھی رزمیہ کے زمرے میں شامل کر سکتے ہیں۔ ہم نے دانستہ ان مضامین کو اس کتاب میں شامل کیا ہے تاکہ اس حوالے سے بحث وتمحیص کا سلسلہ شروع ہو“(ص:13)

         اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کتاب کے ذریعہ رزمیہ ادب کے تعلق سے جو ہمارے ذہن میں ژالے بنے ہوئے تھے وہ ٹوٹیں گے اور نئی بحث کا آغاز بھی ممکن ہے۔ میرے خیال میں کسی بھی سمینار کی سب سے بڑی یہی کامیابی ہے کہ پیش پا افتادہ مضامین کی دنیا سے باہر نکل کر تازگی کا احساس ہوسکے۔براؤن بک سے 2019ء میں شائع اس کتاب کی ضخامت 438/ صفحات ہے اور قیمت700/ روپے ہے۔مجھے امید ہے کہ جہانِ ادب میں اس کتاب کا خیر مقدم ہوگا اور مرتب پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین کی علمی وادبی کاوش کا اعتراف کیا جائے گاکہ وہ اس کے مستحق ہیں۔

٭٭٭

Mobile: 9431414586

Email: rm.meezan@gmail.com

Leave a Reply