ورلڈ اردو ایسوسی ایشن کی طرف سے ہندوستانی زبانوں کا مرکز، جواہرلعل نہرو یونیورسٹی نئی میں معروف افسانہ اور ڈراما نگار اور مشہور شاعر اور سفرنامہ نگار جناب عارف نقوی ( مقیم حال برلن )کے استقبال میں ایک خصوصی لیکچر کا اہتما م کیا گیا ۔ عارف نقوی نے جرمنی میں اردو زبان وادب اور تہذیب وثقافت پر خطاب فرمایا اور اپنے نصف صدی سے زیادہ کے تجربات و مشاہدات کو بیان کیا۔ عارف نقوی کا تعلق یوں تو لکھنوسے ہے لیکن لمبے عرصے سے برلن، جرمنی میں قیام پذیر ہیں۔ ان کی مشہور تصانیف میں ‘‘تلاش سحر، زخموں کے چراغ ، ایک سے چار، پیاسی دھرتی جلتے سائے، جرمنی کل اور آج، خلش، یادوں کے چراغ، نقوش آوارہ، کھلتی کلیاں، جرمنی میں نصف صدی، کیرم سے رشتہ، سوئے فردوس زمیں، طائر آوارہ، راہِ الفت میں گامزن اورمتعدد ڈرامے’’ شامل ہیں۔ عارف نقوی نے جرمنی میں اردو زبان وادب پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ نہ صرف جرمنی میں بلکہ پورے یوروپ میں اردو زبان وادب ایک محبوب زبان کی شکل اختیار کررہی ہے۔ انھوں نے برلن اور جرمنی کے ابتدائی دور کا ذکر کرتے ہوئے اپنے تمام تجربات بیان کیے کہ کس طرح یوروپ میں اردو مقبول زبان ہورہی ہے۔ پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین نے عارف نقوی کا تعارف کراتے ہوئے ان کی تقریبا ساٹھ سالہ خدمات کو سراہتے ہوئے جواہرلعل نہرو یونیورسٹی میں ان کا استقبال کیااور کہا کہ عارف نقوی صاحب ۶۷ سال سے برلن میں مقیم ہیں اور مستقل اردو زبان وادب کے حوالے سے کام کرر ہے ہیں ، ان کی اپنی تنظیم انجمن اردو کے علاوہ بھی برلن میں اردو کی کئی تنظیمیں ہیں جو اردو کے فروغ میں سر گرم ہیں اور ان کے مابین اشتراک بھی ہوتا رہتاہے۔ اردو زبان وادب سے لگاؤ اور محبت نے انہیں پوری دنیا میں ایک الگ شناخت دی ہے۔ان کی ادبی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ عارف نقوی کی شخصیت اردو کی نئی بستیوں کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ اخیر میں پروفیسر انورپاشانے اپنے صدارتی خطاب میں اردو اور عارف نقوی کے دیرینہ تعلقات پر روشنی ڈالی اور ان کی خدمات سے آگاہ کیا۔ اس موقع پر پروفیسر مجیب الرحمن، پروفیسر رضوان الرحمن، پروفیسر شبینہ عمر ، ڈاکٹر توحید خان،ڈاکٹر شیو پرکاش کے علاوہ کثیر تعداد میں ریسرچ اسکالرس موجود تھے۔ جب کہ ڈاکٹر شفیع ایوب نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔