You are currently viewing فرزانہ نیناں

فرزانہ نیناں

خواجہ محمد اکرام الدین

فرزانہ نیناں  کا نسائی لب و لہجہ اور ریڈیو  فضا کی دھوم

’نوٹنگھم آرٹس اینڈ لٹریری سوسائٹی‘ کی چئیر پرسن  فرزانہ نیناں  اب برطانوی شہری ہیں اور  نوٹنگھم  میں مقیم ہیں ۔ کئی دہائیوں سے وہ براطانیہ میں رہتی ہیں لیکن مشرقی تہذب سے اسی طرح لگاؤ ہے  جیسے پھول پودے سے لگا ہو۔فرزانہ نیناں کی شہرت اگرچہ ان کی شاعری کے سببب زیاد ہ ہے   مگر وہ صرف شاعرہ نہیں  ہیں وہ ایک اچھی نثر نگار ، ادیبہ اور ڈیجٹل ٹکلنالوجی سے اردو  کو ہم آہنگ کرنے والی بر صغیر کی  اقدار سے معمور ایک مشرقی خاتون ہیں ۔ سب سے بڑٰ بات یہ ہے کہ وہ اپنی تنظیم کے ذریعے اور دوسری کئی تنظیموں کے اشتراک سے اردو کی محفلیں سجاتی  رہتی ہیں ۔یہ سرگرمیاں اگر ایک جانب اردو زبان و ادب کی ترویج   میں مفید ہیں  تو دوسری جانب فرزانہ کو یہ بھی خیال رہتا ہے کہ برطانیہ میں مقیم افراد کو ا پنی تہذیبی سر گرمیوں کی کمی  کا احساس ہو تا ہے اسی کے پیش نظر وہ ’’ریڈیو فضا  ‘‘ سے نو ع بنوع  پرگراموں کا انعقاد کرتی رہتی ہیں ۔  ریڈیو فضا یہ خود چلاتی ہیں اور سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اس ریڈیو کے ذریعے انھوں نے نئی نسل کو جوڑ رکھا ہے ۔ اس ریڈیو کے ذریعے اردو کے نئے نئے اوردلچسپ پروگرام نشر کیے جاتے ہیں جسے  فیس بک پر ویڈیو پروگرام کی شکل میں دیکھا جاسکتا ہے۔ جن لوگوں کو شکایت ہے کہ برطانیہ میں مقیم  نئی نسل اب اردو سے دور ہوتی  جارہی ہے وہ بہت درست نہیں فرزانہ نیناں اور ان جیسی کئی خواتین نے بالخصوص اس جانب توجہ دی ہے ( جن کا ذکر میں کسی او ر کالم میں کروں گا) نوٹنگھم میں اور بھی کئی تنظیمیں ہیں جو اردو کے لیے کام کررہی ہیں مگر فرزانہ ایک خاتون ہیں دیگر ذمہ داریوں کے ساتھ وہ جس طرح زبان و ادب کی خدمت کر رہی ہیں وہ بے مثل ہے ۔

فرزانہ کا تعلق پاکستان کے شہر کراچی سے ہے ۔ وہ ایک علمی گھرانے کی چشم و چراغ ہیں ان کے والد بھی اچھا شعری ذو ق رکھتے تھے اسی لیے وراثت میں شعری ذوق ان کو ملا ہے  حالانکہ وہ براہ راست اردو کی طالب علم نہیں رہی ہیں انھوں نے   ٹیلی کمیونیکیشن  کے شعبے  میں تعلیمی اسناد حاصل کیں ۔ اس کا عملی  نمونہ اگر دیکھان ہو تو انٹرنیٹ  پر کئی جگہ اور ان ویب سائٹ پر دیکھ سکتے ہیں کہ انھوں نے اپنے کلام کی مناسب سے گرافک کے ذریعے اپنی تمام نظموں اور غزلو ں کو پیش کیا ہے ۔ یہ بڑی اچھی بات ہے کہ اردو تحریر  میں اردو گرافک کا استعمال اور کلام کو زیب و زینت بخشنے کا انھیں خوب ہنر آتا ہے ۔ فرزانہ نیناں اپنی انھیں ہنرمندیوں کے سبب پورے یوروپ میں شہرت  رکھتی ہیں ۔ ان کے ویب سائٹ  پر ایک تعارفی تحریر  میں  اس طرح لکھا گیا ہے ’’ برطانیہ میں منظرِ عام پر آنے والی چند شاعرات میں فرزانہ نیناںؔ کا نام بڑا معتبر ہے،۔متنوع صلاحیتوں کی مالک فرزانہ خان نیناؔں کا تعلق سندھ کے ایک سربر آوردہ خانوادے سے ہے۔مجلسی اور معاشرتی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں اور اپنی ادبی تنظیم کے تحت کئی برس سے مشاعرے و دیگر تقریبات بخوبی منعقد کرواتی رہتی ہیں جو کہ ان کی خوش سلیقگی و خوب ادائیگی کی بھرپور آئینہ دار ہیں،اس شگفتہ وشستہ ہونہار شاعرہ کے انکل محمد سارنگ لطیفی سندھی زبان کے مشہور شاعر، صحافی اور ڈرامہ نویس تھے اور اس رحجان کا سلسلہ انہی سے جا ملتا ہے،کراچی سے رشتہء ازدواج میں منسلک ہوکر برطانیہ کے شہر نوٹنگھم میں آباد ہوئیں، ابتدا میں نثری کہانیاں لکھیں اور نظم سے سخن طرازی کا آغاز کیا،جبکہ نثری رنگ میں گہرائیوں کی بدولت کتابوں پر تبصرہ جات اور کالم بھی ایسے دلچسپ لکھتی ہیں کہ پڑھنے والے مزید کا تقاضہ کرتے رہتے ہیں،فرزانہ نیناںؔ کے خاص نسائی لہجے و منفرد انداز شعرگوئی نے یک لخت اہلِ ذوق کو اپنی جانب متوجہ کر کے برطانیہ کی مسلمہ شاعرات کے طبقے میں اپنا معتبر مقام بنا یا ہوا ہے ،ان کا شعری مجموعہ بعنوان ۔۔’’درد کی نیلی رگیں‘‘ منظرعام پر جب سے آیا ہے تخلیقی چشمے میں ارتعاش پیدا کر رہا ہے۔‘‘  فرزانہ نیناں کی انھیں صلاحیتوں کے سبب انھیں بہت سے انعام و اعزازات سے نواز گیا ہے  جن میں قابل ذکر یہ ہیں ۔ انو ویشن ایوارڈ،پلیسی کمیونیکیشن،اپنا آرٹس اچیومنٹ ایوارڈ،اپنا آرٹس فاؤنڈیشن،بیسٹ اچیومنٹ ایوارڈ،ہریش چیریٹی فاؤنڈیشن،حسن کارکردگی ایوارڈ،پاکیزہ،حسن کارکردگی ایوارڈ، ریڈیو رمضان،نوٹنگھم

حسن کارکردگی گولڈ ایوارڈ، ریڈیو کرن،حسن کارکردگی گولڈ ایوارڈ، ریڈیو فضا ایوارڈ وغیرہ سے نوازا گیا ہے ۔

فرزانہ نیناں کی شاعری کی جہاں تک بات ہے تو اس میں ایک نسائی حسیت کی نئی آواز اور لے موجود ہے ۔ ان کی شاعری کی  کئی خصوصیات  ہیں  جن کا تفصیلی ذکر تو ممکن نہیں لیکن اتنا کہنا کافی ہوگا کہ ان کی شاعری میں میں مشرق و مغرب کے افکار کا سنگم ہے ۔ نرم لب و لہجہ میں وہ بڑی سی بڑی بات کہہ جاتی ہیں ۔چند مثالیں دیکھ لیں اور مزید معلومات کے لیے ان کے ویب سائٹ کو دیکھ سکتے ہیں ۔

بہت آسان تھا اس کی محبت کو دعا کرنا        بہت مشکل ہے بندے کو مگر اپنا خدا کرنا

کہاں تک کھینچنا دیوار پر سیدھی لکیروں کو             تمہاری یاد میں کب تک انھیں بیٹھے گنا کرنا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منزل کو رہگذر میں کبھی رکھ دیا کرو         اپنی طلب سفر میں کبھی رکھ دیا کرو

جن پر وصال ِ یار کا طاری رہے نشہ          وہ حوصلے نہ ڈر میں کبھی رکھ دیا کرو

Leave a Reply