You are currently viewing رشید نیرواں رازداںؔ:ماریشس

رشید نیرواں رازداںؔ:ماریشس

محمد ثناء اللہ
ریسرچ اسکالر جواہر لال نہرو یونیورسٹی،نئی دہلی

رشید نیرواں رازداںؔ:ماریشس

رشید نیرواںرازداںؔ یوں تو گوناگوں صلاحیتوں کے حامل شخصیت کا نام ہے،لیکن بنیادی طور پر وہ ایک کامیاب فن کار اور ماریشس کے بے حد مقبول ڈرامانگار ہیں۔ رشید نیروا رازداںؔ ماریشس میں اردو ڈراما نگاری کے میدان میں وہ نام ہے جنھوں نے خود کو صرف اور صرف صنف ڈراما کی آبیاری کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ گزشتہ صدی کی آٹھویں دہائی کے بعد ماریشس کے جن ڈرامانگاروں نے مسلسل ڈرامانگاری کی ہے ان میں رشید نیرواں رازداںؔ سرفہرست ہیں۔ اب تک ماریشس کے شائع شدہ ڈراموں میں سب سے زیادہ تعداد نیرواں کے ڈراموں کی ہے۔ رشید نیروا رازداںؔ نے مختلف موضوعات پر متنوع اردو ڈرامے تحریر کیے۔ ان کے ڈراموں کے کل چار مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ پہلا ’’اندھا کنواں‘‘ جس میں کل 15ڈرامے شامل ہیں جو 2015ء میں منظر عام پر آیا۔ دوسرا مجموعہ ’’ہماری پہچان‘‘، تیسرا ’’آہ کی گواہ‘‘ اور چوتھا ’’وطن کا قرض‘‘ 2007ء، 2014ء اور 2017ء میں بالترتیب منظر عام پر آیا۔ ان مجموعوں میں مشمولہ ڈراموں کی کل تعداد تقریباً چالیس سے زائد ہیں۔

رشیدنیرواں16 دسمبر 1953ء کو ماریشس کے شہر تریلوے کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔ان کے والد ایک نیک دل انسان اور اصولوں کے پابند شخص تھے۔ابتدائی تعلیم مروجہ روایتوں کے مطابق مقامی مکتبوں میں ہوئی۔جہاں انہوں نے مرحوم شوکت علی امام دین اور مولانا عبدالرشید نواب سے علوم دینیہ کے ساتھ اردو کی ابتدائی کتابیں بھی پڑھیں۔رشید نیرواں کی ایک خاص بات یہ ہے کہ انہوں باقاعدہ ہندوستان یا پاکستان کی کسی یونیورسٹی میں اردو کی تعلیم حاصل نہیں کی، پھر بھی ان کی اردو دانی ،زبان کی صفائی اور اسلوب نگارش کا ایک زمانہ گرویدہ ہیںاور ان کے اردو لب و لہجہ پر ہندو پاک کے اردو داں رشک کناں ہیں۔رشید نیرواں دل کے سچے،عزم کے پکے ،اردو کے عاشق صادق اور بلند کردار کے حامل انسان ہیں۔مختلف علوم و فنون کے مطالعہ میں خاص دل چسپی رکتھے ہیں۔شعر و ادب اور لسانی تاریخ کے وہ ماہر ہیں۔
رشید نیرواں رازداںؔ نے کم و بیش غزل گوئی اور افسانہ نگاری بھی کی ہیں ،لیکن ڈراما نگاری ان کا خاص فن ہے۔ ڈراما نگاری ہی ان کی پسندیدہ صنف سخن ہے۔ ڈرامے کی باریکیوں اور فنی لوازمات سے وہ بخوبی واقف ہیں۔ باقاعدہ انہوں نے ڈرامیٹک آرٹس میں ڈپلوما کی ڈگری حاصل کی ہیں۔ ایک کامیاب ڈراما نویس ہونے کے ساتھ ایک اچھے ہدایت کار بھی ہیں۔ زیادہ تر اپنی تحریرکردہ ڈراموں کو انہوںنے خود ہی اسٹیج پر بھی پیش کیے۔ کئی ڈراموں میں ادا کاری کے فن کا بھی مظاہرہ کیاہے۔رشید نیرواں ماریشس کے پہلے فن کار اور ڈراما نگار ہیں جنہوں نے ملک سے باہر پاکستان میں بھی اپنے ڈراموں کو اسٹیج پر پیش کر چکے ہیں ۔متعدد بار ماریشس کے سالانہ ڈراما فیسٹیول میں انہیں بہترین ڈرامانگار،بہترین ہدایت کار اور بہترین فن کارکے انعامات سے نوازا جا چکا ہے۔
رشید نیرواں رازداںؔ ایک سلجھے ہوئے ادیب ہیں۔ فن ڈراما کے اسرار و رموز سے وہ خوب واقف ہیں۔ ہندوستان کے معروف ادارہ ’’نیشنل اسکول آف ڈراما‘‘ سے فن ڈراماکی انھوں نے تعلیم و تربیت حاصل کی ہیں۔ ہدایت کاری کے ساتھ اداکاری بھی کرتے ہیں۔ 1981ء میں انھوں نے ایک ڈراما بعنوان ’’ہائے وقت‘‘ تحریر کیا جس میں ایک مونولاگ (Monologue) بھی تھا۔ اس میں رازداں نے خود ادا کاری کی تھی۔ گزشتہ 20سالوں سے وہ وزارت فنون و ثقافت سے وابستہ ہیں اور فن ڈراما کے فروغ و ترقی کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں۔ ان کی انتھک محنتوں کا ہی نتیجہ ہے کہ آج ماریشس میں اردو ڈراما فیسٹیول دیگر زبانوں سے کہیں زیادہ عوام میں مقبول ہے۔ فن ڈراما کی ترویج و اشاعت میں رازداںؔ کی خدمات گوناگوں ہیں۔
پیشے سے رشید نیرواں پرائمری ٹیچر ہیں۔ درس وتدریس اور معلمی ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ 1987ء میں اعلیٰ تعلیم کی غرض سے صابر گودڑ صاحب علی گڑھ تشریف لائیں تو اس وقت وہ ماریشس کے ڈرامایونٹ میں بطور Creative Art Officerمقرر تھے۔ ان کی جگہ پر رشید نیرواں کو اس کام کے لیے مقرر کیاگیاہے۔ انہوں نے اپنی فنی و فکری اور انتظامی صلاحیتوں کی بدولت ڈراما یونٹ کو عموماً اور اردو ڈراما کو خصوصاًہمہ جہت ترقی اور سمت و رفتار عطا کیا۔نیرواں نے شب ورو ز محنت و مشقت اور جانفشانی سے ہر علاقے میں اردو ڈراما کلب کو متحر ک کیا اسکول کے طلبا کو ڈراما میں شرکت کے لیے نہ صرف حوصلہ افزائی کی بلکہ ان کی تربیت و تعلیم کا فریضہ بھی نبھایا۔گزشتہ چار دہائیوں سے وہ ماریشس میں اردو ڈراما کے فروغ و ترویج میں سرگرم عمل ہیں۔

اگر ہم رازداںؔ کے ڈراموں کے موضوعات کی بات کریں تو وہ مختلف اور متنوع ہیں۔ حیات و کائنات کے تقریباً تمام موضوعات و مضامین کا احاطہ کیا ہے۔ سماجی برائیوں، انسانی رشتوں، معاشرتی تعلقات، عالمی بحران اور دہشت گردی جیسے موضوعات پر انھوں نے اپنا قلم اٹھایا ہے۔ یک بابی ڈرامے کے چھوٹے سے کینوس پر سنجیدہ سے سنجیدہ ملکی و عالمی مسئلے کو اپنے ڈرامے میں رازداں ؔنے جگہ دی ہے۔ مجموعی طور پر رشید نیرواں رازداں ؔکے ڈرامے ماریشس کی ڈراما نگاری کی روایت میں صرف اضافہ ہی نہیں ہے بلکہ فن ڈراما کو انھوں نے بام عروج بھی عطا کیا ہے اور عالمی شناخت بھی دلائی ہے۔
مجموعہ ’’اندھا کنواں ‘‘ٹھہرا ہوا لمحہ،دست مبارک ،میرا ضمیر میری عدالت،شبنم،ان کے آنے سے،غفلت کی لاش،خاموش چیخیں ،اولڈ پلیز ہوم،اس وقت،ہائے وقت،سراسیمگی،فکر فردا،پاسباں،خود غرضی۔مجموعہ’’ہماری پہچان‘‘آشفتہ حال،احیائے اخلاق،عمل اور رد عمل،ہد ہد،کشمکش،پریشان۔مجموعہ’’آہ کی گنج‘‘ ناواقف حال،انتظار کے سائے میں،نویلا امتحان،قربانی ڈاٹ کم۔مجموعہ ’’وطن کاقرض‘‘اصول،زیرو ڈپو،تہذیب النسا،انقلاب کی آہٹ،ڈراما نگار کی تلاش میں،نئی نسل،خلاف اصول۔کے عنوان سے چاروں مجموعے میں شامل ڈرامے مو ضوع و مواد اور اسلوب و بیان کی وجہ سے اہم اور قابل مطالعہ ہیں۔

٭٭٭

Leave a Reply