You are currently viewing ہوا کی سیٹیاں

ہوا کی سیٹیاں

 فرزانہ نیناؔ ں

برمنگھم، برطانیہ

ہوا کی سیٹیاں

 گئی شاموں کی رونق زرد پتوں کی طرح اُڑ کر

 صحن میں شور کرتی ہے

 شفق خانہ بدوشوں کی طرح گھر گھر بھٹکتی ہے

 دیئے کی لو بھڑکتی ہے

 بچھڑنے والے جب سارے کبوتر لوٹ آتے ہیں

 تو میں اس چاند کی تھالی میں سارے خواب رکھتی ہوں

 اسی بستی میں جاتی ہوں۔۔۔

 جہاں آواز پر تیری مری آواز رقصاں تھی

 مگر اس لمحے جانے کیوں ہوائیں سُر بدلتی ہیں

مرے دل کو مسلتی ہیں

کٹیلے زخم دیتی ہیں

 میں ان دھندلی زمستانی ہوا کے برف اوڑھے مرغزاروں میں

صدائیں چھوڑ کر چپ چاپ گھر کو لوٹ آتی ہوں

 دریچے بند کرتی ہوں

سماعت بند کرتی ہوں

 مگر کمبخت جانے کون سے رستے سے آتی ہیں

 بڑی بے سُر ہواؤں کی فسردہ سیٹیاں ساری

 ہوا کی سیٹیاں ساری!!!

غزل 

 

ڈار سے بچھڑا ہوا جیسے پرندہ رہ گیا روح

کب کی اڑ چکی اور جسم رکھا رہ گیا

میں اتر کر آ گئی کالی پہاڑی سے اِدھر

سبز خوابوں کا شجر اُس پر بریدہ رہ گیا

آج تو اپنی کہانی نے مجھے الجھا دیا

ہوتے ہوتے پھر ادھورا اک تماشہ رہ گیا

میں بھی جا کر دیکھ آئی ہوں وہ جا ئے حادثہ

اب جہاں گاڑی کا ٹوٹا پھوٹا شیشہ رہ گیا

آنکھ میری بھر گئی تھی اس کو پا کر سامنے

جو زباں تک آ چکا تھا وہ بھی قصہ رہ گیا

پار دریا کرنے کا تو حوصلہ مجھ میں نہیں

ہاں نئی کشتی بنانے کا سلیقہ رہ گیا

سوچتی ہوں میں قبیلے والوں سے اب کیا کہوں

ایک جھمکا کھو چکا ہے ایک جھمکا رہ گیا

خواب ہے یا میں حقیقت کی گلی میں ہوں کہیں

ذہن میں اک کشمکش کا سلسلہ سا رہ گیا

زندگی کی شاخ پر نیناں رہا کچھ بھی نہیں

لے اڑی سب کچھ ہوا بس ایک پتہ رہ گیا

* فرزانہ نیناؔ ں

Leave a Reply