ڈاکٹر مہوش نور
اصل نام: ہر چرن داس
قلمی نام: ہرچرن چاولہ
پیدائش: 9جون1925،داؤدخلیل(پاکستان)
وفات: 6نومبر 2001 ،اوسلو ،ناروے
ہر چرن چاولہ کا اصل نام ہر چرن داس ہے۔ان کے والد کا نام کیول رام تھا۔ہرچرن چاولہ 9جون1925 میں داؤد خلیل(پاکستان) میں پیدا ہوئے۔آبائی وچن بھی یہیں ہے۔۔چاولہ مختلف جگہوں پر قیام پذیر ہوتے رہے۔جیسے میانوالی سے ملتان،راولپنڈی ،دہلی ،ممبئی ،اور پھر فرینکفرٹ ہوتے ہوئے جرمنی پہنچ گئے اور آخر میں یہیں سکونت اختیار کی۔
چاولہ بنیادی طور پر افسانہ نگار اور ناول نگار ہیں۔ملک اور بیرون ملک کے موقر رسائل و جرائد میں آپ کے افسانے شائع ہوتے رہے ہیں۔افسانوں کے بعد انہوں نے ناول میں طبع آزمائی کی تو کئی ناول لکھ ڈالے۔اپنی زندگی کے نشیب و فراز کو ”البم”نام کی ایک کتاب میں رقم کیا ہے۔
زندگی کی آخری سانس تک اردو کی خدمت کرتے ہوئے اردو کی انجمن کا یہ روشن چراغ 6نومبر 2001 ،اوسلو ،ناروے میں گل ہوگیا۔ جب ملک تقسیم ہوا اور انسانوں کا قافلہ مشرق سے مغرب اور مغرب سے مشرق کے سفر پر نکل پڑا۔
بعض تو راستوں ہی میں لٹ گئے، بعض منزلوں پر لٹ گئے اور جو بچ گیے وہ کسی طرح منزل مقصود تک پہنچ ہی گیے۔ اس دردناک سفرکا منظر آج بھی ان کی آنکھوں اور دلوں میں پوشیدہ ہے اور آج بھی ان کے لب اس آگ اگلتے ہیں لمحوں، خون کی ہولی کھیلنے والے لوگوں اور ان کی حیوانیت کی داستان سناتے ہیں۔
ہرچرن چاولہ انھیں داستان سنانے والوں میں سے ہیں جو داؤد خلیل کی سرزمین کو چھوڑ کر ہندوستان آگیے۔ پنجاب یونیورسٹی، چنڈی گڑھ سے بی اے کی تعلیم حاصل کی۔ ذریعہ معاش کے لیے مختلف نوکریاں کیں۔ پوسٹ آفس سے فلمی دنیا تک، کہاں کہاں زندگی کی آسودگی کی جستجو نہیں کی۔
انھوں نے ایک بار پھر وطن چھوڑ کر ناروے کی سرزمین پر قدم رکھا۔ انسان اگر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہو تو یورپ آنے کے تھوڑے ہی دنوں کے بعد اپنی تہذیب، اپنی زبان اور اپنا ملک یاد آنے لگتاہے۔ مگر کچھ اس روشن فکر کو وہاں کی کرنسیوں کے ڈھیر میں دفن کردیتے ہیں اور کچھ اپنے وطن سے، اپنی زبان سے اور اپنی تہذیب سے زیادہ وابستگی محسوس کرتے ہیں۔
جہاں تک ان کی تصنیفات وتالیفات کی بات ہے تو ان کی بے شمار تخلیقات منظر عام پر آچکی ہیں۔ ان کے افسانوں کے سات مجموعے شائع ہوچکے ہیں جو اردو زبان میں ہیں۔ اردو افسانوں کے علاوہ انھوں نے ہندی زبان میں بھی افسانے لکھے ۔ وہ ناروے کی کمیون لائبریری میں اردو، ہندی، پنجابی کے ریٹائرمنٹ تک ایڈوائزر رہے۔ ریٹائر ہونے کے بعد موصوف چھ مہینے ناروے میں تھے اور چھ مہینے ہندوستان میں۔
ہر چرن چاولہ بہت منظم شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی سی وی کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ زندگی میں کتنی بار گرم ہواؤں نے ان کا استقبال کیاا ور ٹھنڈی وتازہ ہواؤں نے کہاں کہاں ہرچرن چاولہ کی بلائیں لیں۔ انہوں نے ان گرم، سرد اور ٹھنڈی ہواؤں کو بھی اپنی تخلیقات میں جگہ دی ہے۔
انھوں نے اپنی تصنیفات کی فہرست خود ہی بنائی ہے جو حسب ذیل ہے:
عکس اور آئینے (افسانے)اشاعت1975
ریت سمندر اور جھاگ؍؍1980
البم (افسانے زندگی کے )؍؍1989
اوراق،لاہور میں شائع شدہ ؍؍1977 تا 1987
دل،داغ اور دنیا (افسانے) ہرچرن چاولہ کے منتخب افسانے
ترجمہ شدہ افسانے
۔The Boroken Horezonان کے افسانوں کے انگریزی ترجمہ، اشاعت، 1974
۔ آخری قدم سے پہلے، چاولہ کے افسانے(ہندی میں ترجمہ شدہ ) اشاعت1983
۔پانڈی دی عورت ، چاولہ کے افسانے (پنجابی، گورمکھی میں ترجمہ شدہ ، 1985
۔ناروے کی بہترین افسانے (سترہ نارویجین منتخب کہانیوں کا اردو ترجمہ)، 1989
۔An Guish of Horse And Stories(چاولہ کی کہانیوں کا انگریزی ترجمہ)، 1990
۔چاولہ کی ادارت میں چنے گیے ہندوستانی افسانے نارویجین زبان میں۔
ناول
۔درندے (المیۂ تقسیم پر) 1968 دوسرا ایڈیشن1991
۔چراغ کے زخم (ناول) ہندوستان کے پس منظر میں1982
۔بھٹکے ہوئے لوگ دوسری ہجرت کی داستان،1994
بچوں کے لیے
۔ننھی جل پری،ڈنمارک کے مشہور ادیب ایچ سی اندرسن کی بچوں کے لیے کہانی کا اردو ترجمہ
۔ننھی جل پر، آندرسن کی بچوں کے لیے کہانی کا ہندی ترجمہ
ہرچرن چاولہ 1948 سے باضابطہ افسانہ لکھنے لگے تھے۔جس کی رفتار میں تیزی ناروے میں قیام کے بعد آئی۔یوں توان کے اکثر و بیشتر افسانے پسند کیےگیے ۔ان کا سب سے مشہور افسانہ “گھوڑے کا کرب “ہے جسے انتہائی فن کارانہ اداز میں پیش کیا گیا ہے۔اس کہانی میں انسانی کرب کو علامتی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔اس میں گھوڑا ایک علامت ہے جو محنت کا سمبل ہے۔ایسے لوگ جو ملازمت کی تلاش میں اپنے ملک سے باہر رہتے ہیں۔اس غیر ملک میں انسان کن کرب اور مسائل سے دو چار ہوتا ہے ،اس افسانے میں اسے بخوبی بیان کیا گیا ہے۔ہرچرن چاولہ کا ایک اور افسانہ ہے”ریت،سمندر اور جھاگ” یہ بھی اپنی نوعیت کا ایک اہم افسانہ ہے۔اس کہانی کے ہر ایک کردارمیں زندگی کی نیرنگی بھی ظاہر ہوتی ہے اوررشتوں کی کیفیت کے ساتھ مادی حالات بھی منعکس ہوتے ہیں۔ان کے اہم افسانوں میں “آتے جاتے موسموں کا سچ”،”دوسا”،”ڈھائی اکھّر”،”قفس”،”سانپوں کاجوڑا”،”انگارا”وغیرہ ہیں۔
ان کی ناولوں میں ایک ناول جس کا عنوان “آگے سمندر ہے”ہے۔اردو ادب کا یہ روشن ستارہ ہم میں نہیں ہیں لیکن ایسا لگتاہے کہ وہ متبسم چہرہ کسی گوشے سے نکل کر ہمارے سامنے آجائے گا۔