کناڈا میں اردو زبان کے فروغ میں ادبی ارسائل کی خدمات
محمد رکن الدین
اردو کی نئی بستیوں میں خصوصاً اردو زبان وادب کی شناخت مشاعروں کی وجہ سے ہے اور ساتھ ہی اردو زبان وادب کے ارتقا میں ادبی اداروں ، انجمنوں، کانفرسز، سیمینار، مجالس اور تقاریب، مہمان اساتذہ اور شعرا کے ساتھ مخصوص محافل، مقامی ادیبوں کی تخلیقات اور ان کی تقاریب اجرا، مقامی سالانہ مشاعرے، انمول اور نادر کتابوں کی نمائش، اردو اخبارات، ریڈیو اور ٹی وی پر ہفتہ وار اردو پروگرام معاون ثابت ہورہے ہیں۔ کینیڈا میں بین الاقوامی مشاعروں کا باضابطہ آغاز حفظ الکبیر قریشی نے کیا۔ کینیڈا میں اردوزبان و تہذیب کے چند مؤسسین میں قریشی صاحب کا نام سرفہرست ہے۔انہوں نے اپنی انجمن اردو کے زیر اہتمام 1980میں ایک مشاعرہ کروایا جس میں ہندوپاک کے نامور شعرا وادبا نے شرکت کی۔ کینیڈا میں مختلف تنظیموں کی نگرانی میں مختلف عناوین پر متعدد کامیاب سیمینار ہوچکے ہیں۔ ان میں عالمی جوش سیمینار، عالمی غالب سیمینار، عالمی میر سیمینار اور عالمی انیس سمینار قابل ذکر ہیں۔ ان سیمیناروں کے علاوہ بھی بہت ساری ادبی کانفرسز کینیڈا میں منعقد کی جاتی ہیں جن میں اردو ادب کے جید عالم ودانشور کو انعامات واعزازات سے نوازا جاتا ہے۔ ان تنظیموں کے علاوہ کینیڈا میں اردو ادب کے دل دادوں کے پاس اپنی ذاتی لائبریریاں ہیں، شائقین حضرات ان لائبریروں سے برابر استفادہ کرتے رہتے ہیں اور گاہے بہ گاہے ان لائبریریوں میں بھی ادبی نشست کا اہتمام کیاجاتاہے۔ کینیڈا کے مختلف شہروں میں اردو زبان روزمرہ کی زندگیوں میں استعمال کی جاتی ہے لیکن شہر ٹورنٹو کو کئی جہتوں سے کینیڈا کے دیگر شہروں کے مقابل اردو زبان وادب کے فروغ میں اولیت حاصل ہے چناں چہ مناسب معلوم ہوتاہے کہ کینیڈا کی ادبی صورت حال پر روشنی ڈالی جائے۔
کینیڈا میں اردو کا پہلا رسالہ ’’صہبا‘‘ حفظ الکبیر قریشی نے شائع کیا۔ یہ رسالہ 1968میں پہلی دفعہ منظر عام پر آیا۔ اس کے بعد پاکیزہ ،الہلال، امروز، پیغامبر اور ملاقات نے صحافت کی دنیا میں قدم رکھا۔ ان ہفتہ واروں میں سے اب صرف پاکیزہ باقی ہے۔ پاکیزہ کو پچھلے تیس سال سے صبیح الدین منصور پابندی سے شائع کررہے ہیں۔ ٹورنٹو میں اگر اردو روزناموں اور جرائد کا تجزیہ کریں تو اندازہ ہوتاہے کہ گزشتہ پندرہ، بیس برسوں میں شہر ٹورنٹو رسائل وجرائد کا مرکز بن چکاہے۔ موجودہ عہد میں پاکیزہ کے علاوہ پاکستان اسٹار، اردو ٹائمز، عوام، کارواں، اخبار پاکستان، سنڈے ٹائمز، پاکستان ٹائمز، اسٹرن نیوز، صداقت، آفاق، پاکستان پوسٹ، ٹورنٹو ٹائمزوغیرہ اردو کے اخبارات ہیں جو پابندی کے ساتھ ہرہفتہ شائع ہوتے ہیں۔ ان میں کچھ روزنامے بھی ہیں جن میں بیشتر اخبارات آن لائن بھی دستیاب ہیں۔ ان میں سب سے بڑا اخبار اردو ٹائمز ہے۔ جو ایک ساتھ ٹورنٹو، مانڑیال، شکاگو، نیویارک اور لاس اینجلس سے شائع ہوتا ہے۔ اردو میں ریڈیو پروگرام صدائے پاکستان، ریڈیو پاکستان، ساز آواز، ریڈیو کا کارواں اور سن شائن کے ناموں سے ہرہفتہ مختلف دنوں اور اوقات میں اپنی نشریات پیش کرتے ہیں۔ ٹی وی کے پروگراموں میں وژن آف پاکستان، دل دل پاکستان، نام سے اردو میں ہفتہ وار پروگرام نشر ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ’’سرساگر‘‘ اور ATNجن کے پروگرام چوبیس گھنٹے جاری رہتے ہیں۔ مشہور شاعر اور صحافی تسلیم الہی زلفی اور اشفاق حسین پیش کر تے ہیں۔’’سر ساگر‘‘سکھوں کا پنجابی چینل ہے پھر بھی اس میں زلفی صاحب ہر روز چار گھنٹے اردو کے معیاری پروگراموں کا اہتمام کرتے ہیں۔ATNپر اشفاق حسین مجالس، تقاریر، مشاعرے، گفتگو اور ڈرامے پیش کرتے ہیں۔ٹورنٹو کی ان صحافتی سرگرمیوں سے کچھ عرصہ قبل دوسہ ماہی اردو رسائل ٹورنٹو اور ٹوواسے نکالے گیے تھے وہ اشفاق حسین کا ’’اردو انٹر نیشنل‘‘اور ولی عالم شاہین کا Urdu Canadaتھے۔
سرزمین کینیڈا میں محبان اردو کافی تعداد میں موجود ہیں۔ ان میں ایک اہم نام ڈاکٹر ساجدہ علوی کا ہے، جنہوں نے کینیڈا کی تاریخ میں پہلی بار کینیڈا اور کیوبک کی مشہور ترین یونیورسٹی میگل Megill میں اردو چیئر (Urdu Chair) کا قیام کروایا جس کی وجہ سے اردو بحیثیت اختیار ی مضمون پڑھنے کا باقاعدہ انتظام کیا گیا۔ اردو کی نئی بستیوں کی اہم اور منفرد نظم نگار شاعرہ نسیم سید نے جب کنگسٹن میں سکونت اختیار کی تو کینیڈا کے تاریخی شہر میں اردو کی شمع مزید روشن ہوگئی۔ انہوں نے کنگسٹن میں کامیاب مشاعروں کے علاوہ ایک بین الاقوامی اور بین اللسانی سیمینار منعقد کروایا جس کا موضوع Impact of Ethinc Writers on Canadain Cultureتھا۔اس میں روسی، فرانسیسی، چینی، انگریزی اور دیگر زبانوں کے مصنفین نے شرکت کی۔ کینیڈا کے مغربی صوبوں کے تقریباً ہر بڑے شہر میں اردو سے شغف رکھنے والے افراد نے انجمنیں قائم کیں اور ٹورنٹو کی طرح وینک کوور، کالگری، ایڈمنٹن، ریجائنا، سسکاٹون، ونی پیگ میں کامیاب اردو کی محفلیں منعقد ہوئیں۔ ۱۹۸۰ تک مانڑیال کینیڈا کا سب سے بڑا اور اہم شہر تصور کیاجاتاتھا۔ اگرچہ وہاں ابتدائی زمانے سے اردو سے شغف رکھنے والے مہاجر دیگر شہروں کی بہ نسبت کم تعداد میں آئے پھر بھی اس شہر کی ادبی شخصیات نے اردو کی ترویج اور فروغ کے لیے یونیورسٹی کی سطح پر سب سے زیادہ کام کیا ان میں ڈاکٹر ساجدہ علوی کا نام سرفہرست ہے۔ مانڑیال میں دوسری اہم اور فعال شخصیات میں علی عباس حسنی، عقیلہ کیانی، فاروق حسن، ڈاکٹر محمد ذکی مرحوم، ڈاکٹر مطلوب حسین۔ شفیق علوی ،فرزانہ حسین ،کرامت ،رشیدہ مرزااوررفعت نور کےنام اہم ہیں۔ جن کی جدوجہد کی بدولت مانڑیال میں اردو کی سرگرمیوں کا سلسلہ ہنوز جاری وساری ہے۔
سنڈیری شہر میں عبدالقوی ضیا مرحوم کی اردو خدمات قابل تحسین ہیں۔ اوٹووا(Ottawa)کینیڈا کا خوب صورت دارالخلافہ ہے۔ اٹووا شہر کی نامور ادبی شخصیات میں ولی عالم شاہین، ڈاکٹر نصرت یار خان، ابرار الحسن، سید افتخار حیدر، معین اشرف(مرحوم)، ڈاکٹر افتخار نسیم، روشن شرما اور حمیرہ انصاری کے نام اہم ہیں۔ ان کے علاوہ ونی پیگ(Winnipeg) کی مشہور شاعرہ عرفانہ عزیز، ونڈسر(Windsor)میں اردو شعروادب کے محقق اور نامور شاعر عروج اختر زیدی اور کیوبک(Quebec) شہر میں ڈاکٹر عبدالقیوم لودھی کے ادبی کارنامے قابل ذکر ہیں۔
ٹورنٹو میں اردو کی فعال انجمنوں میں رائٹر فورم، غالب اکادمی، اردو انٹرنیشنل، کینیڈین اردو رائٹرز فورم، انجمن تحفظ اردو، گہوارہ ٔ ادب، بزم فانوس اوربزم خلش وغیرہ اردو کی خدمات میں مصروف ہیں۔ کینیڈا کے معتبر اور شہرت یافتہ نثرنگاروں کی طویل فہرست ہے۔ ظاہر ہے ان تمام پر علیحدہ علیحدہ گفتگو کرنا اس مختصر مضمون میں ممکن نہیں اس لیے صرف ان کے اسما کے ذکر پر اکتفا کیاجاتاہے۔ کینیڈا کے شہرت یافتہ نثرنگاروں میں ڈاکٹر شان الحق حقی، ڈاکٹر سید تقی عابدی، اکرام بریلوی، ڈاکٹر خالد سہیل، جناب سلطان جمیل نسیم، محترمہ شکیلہ رفیق، جناب تسلیم الٰہی زلفی، ڈاکٹر مظفر اقبال، رضاء الجبار، بیدابخت، رحیم انجان، جاوید دانش، حفیظ الکبیر قریشی ، خواجہ ناظم الدین مقبول اور افتخار حیدر وغیرہ ہیں۔ مذکورہ تمام نثر نگارمختلف اصناف ادب کے ماہر اور صاحب کتاب ہیں جن کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کینیڈا میں اردو زبان وادب کا مستقبل بہت تابناک ہے مگر شرط یہ ہے کہ نئی نسل بھی اپنی مادری اور تہذیبی زبان یعنی اردو زبان وادب سے اپنا رشتہ اسی جذبے کے ساتھ قائم رکھے ورنہ آئندہ کچھ سالوں میں جب بزرگ ادیب و شاعر اس دنیا سے رخصت ہوجائیں گے تب نئی نسل کی بے توجہی اور بے رغبتی اردو زبان وادب کے لیے کافی نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔