You are currently viewing  ڈاکٹر منیر الدین احمد: ہیمبرگ ،جرمنی
 ڈاکٹر منیر الدین احمد: ہیمبرگ ،جرمنی

 ڈاکٹر منیر الدین احمد: ہیمبرگ ،جرمنی

ڈاکٹر مہوش نور

اصل نام: ڈاکٹر منیر الدین احمد

قلمی نام: ڈاکٹر منیر الدین احمد

پیدائش: 22نومبر 1934،راولپنڈی

ڈاکٹر منیر الدین احمدکاآبائی وطن چنگا بنگیال، تحصیل گوجرخان،پاکستان ہے۔ان کی پیدائش 22نومبر 1934 میں راولپنڈی میں ہوئی۔ ان کے دادا نے ان کا نام محمد یحیٰ رکھا تھا۔ لیکن منیر الدین احمد کی والدہ نے پیر صاحب کے مشورے پر منیر الدین احمد رکھا۔ شروع میں وہ یحیٰ فضلی کے نام سے لکھتے رہے لیکن 1979 کے بعد منیرالدین احمد قلمی نام اختیار کیا۔ ان کے دادا مولوی محمد فضل خاں چنگوی متوفی بہت بڑے عالم اور ممتاز مصنف تھے۔ انھوں نے ایک درجن سے زیادہ کتابیں لکھیں۔ منیر الدین احمدچارسال کے تھے تو ان کے دادا نے اس داعی اجل کو لبیک کہا۔

منیر الدین احمد کے دادا کے پاس ایک انمول لائبریری بھی تھی جس کو انھوں نے اپنی آنکھوں سے لٹتے ہوئے دیکھا تھا۔ جب منیر الدین احمد اس قابل ہوئے کہ کتابوں کو اکٹھا کرکے ان کی ایک فہرست بنائیں تو اس وقت تک بہت نایاب کتابیں غائب ہوچکی تھیں۔ ان کے دادا جان کو “اجی”کہاجاتاتھا۔ دادا کی کتابوں کو پڑھنے کے لیے انھوں نے مولوی فاضل اور گریجویشن کی ڈگری پنجاب یونیورسٹی سے حاصل کی۔ دادا کی کتابوں کو پڑھنے سے ان کا علمی ادبی ذوق نکھرا۔

مذہبی مسائل سے شروعات کرکے فکر کا یہ قافلہ معاشرتی تحریکات، فلسفہ وتاریخ، سیاسیات اور تعلیم کی طرف گامزن ہوتارہا اور آخر میں تلاش وجستجو اور فکر کے اس قافلے نے 1960 میں ہمبرگ یونیورسٹی (جرمنی) میں پڑاؤ ڈالا۔ جہاں انھوں نے 1967میں اسلامی نظام تعلیم سے قبل ساڑھے چارسوسال کی تاریخ پر تحقیقی مقالہ لکھا اور ڈاکٹریٹ کی سندحاصل کی۔سند کے بعد ہی سے ہیمبرگ یونیورسٹی میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ “جرمن اور نیٹ انسٹی ٹیوٹ” کے ریسرچ فیلو بھی ہیں۔

منیر الدین احمد کے لکھنے کا آغاز افسانہ نگاری سے ہوا۔موصوف شیر محمد اختر کو اپنا “ادبی گرو” مانتے ہیں۔جو ہفت روزہ ‘‘قندیل’’ لاہور کے مدیر ہیں۔ 1948 اور 1979کے درمیانی عرصے میں ان کی جو بھی تحریریں منظر عام پر آئیں وہ سب یحیٰ فضلی کے نام سے شائع ہوئیں۔ یہ نام ان کے دادا جی نے دیا تھا۔ یہ عہد احمد ندیم قاسمی، بیدی، منٹو کا عہد تھا۔ یہ سارے ممتاز افسانہ نگار ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے۔

اس لیے منیر الدین احمد یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اگر وہ انجمن ترفی پسند مصنفین کے باقاعدہ ممبر نہیں تھے مگر اس تحریک سے وہ کافی متاثر تھے۔ منیرالدین احمد 1960 میں پاکستان کو الوداع کرجرمنی پہنچ گئے۔ وہاں زبان کا مسئلہ در پیش آیا۔ موصوف نے جرمن زبان سیکھ کر جرمن سے بھرپور استفادہ کیا۔

پاکستان میں ان کے جتنے بھی افسانے شائع ہوئے ان میں سے بعض منیرالدین احمد کے نام سے شائع ہوئے ہیں اور بعض یحیٰ فضلی کے نام سے۔ پاکستان سے کوچ کرنے سے قبل موصوف 15افسانے لکھ چکے تھے۔ جرمنی میں انھوں نے کم وبیش 50افسانے لکھا۔ علاوہ ازیں انھوں نے تراجم پر بھی کام کیا۔ ان کی تصنیفات کی فہرست حسب ذیل ہے:

جرمن معاصر ادب: کہانیاں، نظمیں، متعدد طنزومزاح کے ادب پارے جرمن ادب سے اردو میں ترجمہ۔

پاکستانی ادب: (جرمن زبان میں ترجمہ)

اس کتاب میں ولی دکنی سے فیض تک۔ اردو کے اہم شعرا اور ممتاز افسانہ نگاروں کے افسانوں کے تراجم شامل ہیں۔ (کچھ نظموں کا ترجمہ انے ماری شمل نے کیاہے)

جیون سائے: جرمن شاعر ایربش فریڈ کی ایک سو نظموں کا اردوترجمہ

جرمن افسانوی کا انتخاب: یہ کتاب 30افسانوں پر مشتمل ہے جس میں مکافکا، نروان، برتھولت بریش سٹیفان اندرس، ہانس ہینڈر جیسے شہرۂ آفاق اہل قلم کے ساتھ کم شہرت یافتہ ادیبوں کی کہانیاں بھی شامل کی گئی ہیں۔

پیٹر نجسلی: کہانیاں، خطبات بوطیقا، افسانے

دوری سائیے: جرمن شاعرولف گانگ بیشکر کی نظموں کا اردو ترجمہ

میں اسے ڈھونڈتا پھرا: دس جرمن شاعروں کی ایک سو نظموں کا اردو ترجمہ

تخلیقی ادب

اسلامی نظام تعلیم (انگریزی )زیورچ (سوئٹزرلینڈ) یہ کتاب مسلمانوں سے قبل مدرسہ نظام تعلیم پر تحقیق ہے۔

زردستارہ(افسانہ)، شجرممنوعہ(افسانے، نثرانے، نظمانے)، بنت حرام(افسانے)، حدیث باراں، مولوی محمد فضل خاں: ایک عالم ربانی کی سوانح حیات،بچھڑی ہوئی گونج اور دوسرے افسانے۔

منیرالدین احمد نے 12سال کی عمر میں داداجان کی سوانح حیات لکھنے کا ارادہ کیا تھا جو نصف صدی سے زیادہ عرصے کے بعد پوری ہوئی۔ ڈاکٹر منیر الدین احمد نے “شجرممنوعہ” میں نثر کی جس صنف کو “نثرانے” کہاہے کسی زمانے میں (گزشتہ چالیس پینتالیس سال پہلے) نثر کی اسی طرح کی ایک صنف کو افسانچے بھی کہاگیاہے۔

Leave a Reply