خواجہ محمد اکرام الدین
مہجری ادب کا درخشاں ستارہ ڈاکٹرسید تقی عابدی
کناڈا میں مقیم ہندی الاصل ڈاکٹرتقی عابدی عہد حاضر میں دانشوری کی روایت کے علمبردار ہیں وہ بیک وقت ادیب، ناقد، محقق ، مصنف اور شاعر ہیں۔پیشے کے اعتبار سے اردو درس وتدریس اور اردو ادب و شعرسے ان کا کوئی پیشہ ورارانہ تعلق نہیں ہے لیکن ایک خاص تہذیبی فضا میں ان کی شخصیت کی تعمیر وتشکیل ہوئی اسی لیے وہ ابتدا سے ہی شعر و ادب اور تصنیف وتالیف کی جانب مائل رہے۔ میڈیکل سائنس کی تعلیم کے دوران ہی ان کی کئی تحریروں نے اہل نظر سے داد و تحسین حاصل کی ، شعبۂ طبابت میں باضابطہ ملازمت کے بعد بھی انھوں نے اپنی اس تہذیبی و ثقافتی روش کو قائم رکھا اور ادب کے سرمائے میں اپنی تصنیفات و تالیفات سے بیش قیمت اضافہ کیا لیکن کمال یہ ہے کہ انھوں نے اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو بھی متاثر نہیں ہونے دیا بلکہ اپنے معاصرین میں فن طبابت میں بھی امتیازی مقام پر فائز ہیں۔ وہ کناڈا میں مقیم ہیں لیکن دنیا کے کئی ممالک میں میڈیکل سے وابستہ تنظیموں اور اداروں میں بطور ماہر طبیب منسلک ہیں۔ تقی عابدی ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں انھوں نے اردو کے نامور شعرا کی شخصیت اور فن پر بہت ہی معیاری او ر تحقیقی کام کیا ہے ان میں حالی ، اقبال ، فیض ، انیس ، دبیر اورکئی معاصر شعرا پر ان کا کام اردو دنیا میں قدرکی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔تقی عابدی کا شمار مہجری ادیبوں میں ہوتا ہے۔ عہد اور معاشرے کے پیش نظر اد ب میں تبدیلیاں آتی رہی ہیں اور ادب کے پرکھنے کے معیار ومنہاج میں بھی اسی کے مطابق نظریات اور اصول بنتے رہے ہیں لیکن آج کے عہد میں ادب کی تفہیم و تعبیر کے نظریات اور اصول و ضوابط میں بہت تیزی سے تبدیلیاں آرہی ہیں اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ ہماری زندگی اور ہمارا معاشرہ بہت سرعت سے تغیر و تبدل کی جانب مائل ہے ۔ موجودہ دور میں کسی ادب کی قدرو وقیمت اور اس کے ثروت مندہونے کے جہاں کئی معیارات ہیں وہاں اب ایک اہم معیار یہ قائم ہوگیا ہے کہ جس ادب میں ’مہجری ادب‘ کا سرمایہ جتنا وقیع ہوگا وہ ادب زیادہ ثروت مند تسلیم کیا جائے گا۔ اس کے پیچھے منطق یہ ہے کہ آج کا معاشرہ عالمی گاؤں کا معاشرہ ہے اس لیے ادب کی وسعت بھی اسی قدر ہونی چاہیے ۔یہ معیار و میزان بہت حد تک درست بھی ہے کیونکہ موجودہ عہد میں زبان و ادب میں ربط و اشتراک اور لین دین کا عمل عالمی سطح پر بہت تیزی سے ہورہا ہے ۔ جب ہم اس معیار پر اردو زبان و ادب کو دیکھتے ہیں تو خوشی ہوتی ہے کہ اردو عالمی سطح پر مہجری ادبی تخلیقات و تصنیفات سے مالا مال ہے ۔دنیا کے بڑے ممالک جیسے لندن، امریکہ ، کناڈا، جاپان ، یورپ کے کئی ممالک، ایشیا اور افریقہ کے کئی ممالک کے ساتھ ساتھ کئی چھوٹے چھوٹے ممالک میں بھی اردو کے مہجری ادیب موجود ہیں ۔مگر مجموعی طور پر اگر جائزہ لیں تو اندزہ ہوتا ہے کہ یہاں ان ممالک میں شعری تخلیقات زیادہ سامنے آرہی ہیں ۔ تقریباً ہر ملک میں شعرا کی بہت ہی اچھی تعداد موجود ہے لیکن نثری تخلیقات اور تصنیفات ان کے مقابلے میں بہت کم ہیں ۔تحقیق و تنقیدپر تو بہت ہی کام ہورہے ہیں ۔ موجودہ منظر نامے میں تحقیق و تنقید کے اعتبار سے مہجری ادب کا جائزہ لیں تو ان میں روشن ستارے کی طرح تقی عابدی کی شخصیت سب سے نمایاں نظر آتی ہے ۔سچائی بھی یہی ہے کہ ابھی بر صغیر سے باہر اردو کے ادیبوں میں تحقیق و تنقید کے میدان میں کام کرنے والوں میں سب سے نمایاں نام اور اہم تحقیقی و تنقیدی کام تقی عابدی کا ہی ہے ۔اب تک ان کے پچاس سے زائد علمی، ادبی اورتحقیقی کام سامنے آچکے ہیں ۔ ہندستان ، پاکستان ، مصر اور کئی ممالک میں ان پر تحقیقی مقالے لکھے جاچکے ہیں ۔ان کی خدمات کے عوض ہند وپاک کے کئی ادبی اور علمی اداروں نے انھیں اعزازات سے بھی نواز اہے ۔اردو کے ساتھ ساتھ و ہ فارسی زبان پر بھی دسترس رکھتے ہیں ۔فارسی زبان میں بھی ان کی گرانقدر تصنیف کلیات غالب( فارسی ) ہے جو ہندستان اور ایران سے شائع ہوئی۔
تقی عابدی نے حال ہی میں خواجہ الطاف حسین حالی کاکلیات مرتب کر کے تحقیق میں بہت اہم خدمت انجام دی ہے ۔ انھوں نے بہت سے ایسے کلام کو بھی اس کلیات میں شامل کر دیاہے جو کہیں دستیاب نہیں تھے اس کے علاوہ حالی کی شاعری کے تمام جہتوں کو جس خوش اسلوبی سے متعارف کرایا ہے وہ قابل تحسین ہے ۔انیس و دبیر، اقبال وفیض کے حوالے سے بھی ان کی تحقیقی کتابیں بہت ہی وقیع ہیں ۔ ان شعراکے مطالعے میں انھوں نے تقابلی تنقید اور سماجیاتی نقطۂ نظر کو سامنے رکھا ہے ۔گزشتہ ایک دہائی میں تقی عابدی نے تحقیق و تنقید کے میدان میں جتنے کام کیے ہیں انھیں دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ جو کام اداروں کے تھے انھیں تقی عابدی نے تن تنہا کیا ہے ۔ ان کی تمام علمی و ادبی کاوشوں کو آج بھی وقعت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اورآنے والے دنوں میں بھی مزید احترام اور وقعت سے دیکھا جائے گا ۔