You are currently viewing  احتجاج کے نئے لب ولہجہ کی شاعرہ:پروین شیر

 احتجاج کے نئے لب ولہجہ کی شاعرہ:پروین شیر

 احتجاج کے نئے لب ولہجہ کی شاعرہ:پروین شیر

ولڈ اردو ایسوسی  ایشن کے زیر اہتمام  جے این یو میں مشہور شاعرہ پروین شیر کو استقبالیہ

نئی دہلی

آج یہاں جواہر لال نہرو یونی ورسٹی میں ولڈ اردو ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام کنیڈ ا سے تشریف لائیں تخلیق کار اور مصور پروین شیر کو استقبالیہ دیا گیا ۔ اس موقع پر منعقد ہونے والے ادبی مباحثے میں اسکالروں اور طلبا نے خاص طور پر حصہ لیا۔ پروین شیر نے ان سے تبادلہ خیال کر نے کے ساتھ ساتھ اپنی تخلیقات بھی سنائیں۔

ممتاز ناقد پروفیسر عتیق اللہ کی صدارت میں منعقد ہونے والے اس پروگرام میںپروین شیر نے کہا کہ ہندوستان سے باہر نئی نسلوں میںاردو سیکھنے کا ذوق وشوق بڑھتا جارہا ہے۔ غیر ملکوں میں مقیم ہندوستانی چاہتے ہیں کہ ان کے بچے بھی ہندوستانی تہذیب وثقافت کو قریب سے محسوس کرے ۔ والدین کی اس ذہنیت سے نئی نسلوں میں اردو زبان کے تئیں ایک الگ طرح کی شیفتگی پائی جاتی ہے۔ شاعری میں رچے بسے احساسات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ’’ شاعری زندگی کے پھول کی بکھری ہوئی پنکھڑیاں ہیں ۔ وہ پھول جو خوشبو لٹانے کے لیے آندھیوں کے درمیان کھلا تھا۔۔۔۔۔۔۔‘‘انھوں نے اپنی چند مشہور نظموں کے علاوہ اپنا افسانہ ’’نیلا لفافہ ‘‘ بھی سنایا۔ واضح رہے کہ پروین شیر کا تعلق پٹنہ کے ایک علمی خانوادے سے ہے۔ ان کے تین شعری مجموعے ’’کرچیاں، نہال ِ دل پر سحاب جیسے ، بے کرانیاں‘‘ اور ایک سفرنامہ ’’چند سیپیاں سمندروں سے‘‘ شائع ہوئے۔ اس کے علاوہ انھوں نے دوسری زبانوں سے کچھ تراجم بھی کیے ۔ پروین شیر کے بیٹے فراز نے اپنی امی کے تخلیقی سفر پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میری امی کے متعلق جب مجھ سے کچھ پوچھا جاتا ہے تولامحالہ اردو کا تذکرہ آتا ہے اور اس طرح اردو کی طرف نوجوان نسل کا رجحان بڑھنے لگتا ہے۔

قبل ازیںسفیر ِ اردو پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین نے پروین شیر کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ وہ مختلف الجہات ادیبہ ہیں۔ کیوں کہ انھوں نے شاعری اور افسانے کے علاوہ موسیقی اور مصوری بھی کی ہے۔ انھوں نے نہ صرف لفظوں کے سہارے سماجی مسائل کو ابھارا ، بلکہ رنگوں اور لکیروں کو بھی تخلیقی جامہ پہنایا ہے۔ پروفیسر اکرام الدین نے مزید کہا کہ پروین شیر نے اپنی شاعری کی مصوری خود کی ہے۔کسی بھی تخلیق کار کی یہ خوش بختی ہوتی ہے کہ اس کی تخلیقات کو پیش نظر رکھتے ہوئے مصوری کی جائے،مگر یہ اعزاز سے کم نہیں کہ کوئی تخلیق کار خود اپنی تخلیقات کی مصوری کرے ۔

صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے پروفیسر عتیق اللہ نے کہا کہ پروین شیر کی شاعری میںمنفرد درد اور کسک پایا جاتا ہے۔ اس انفرادیت کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے نسائی ادراک واحساس کو برتنے میں فن کاری کا مظاہرہ کیا۔ عموماًشاعرات کی شاعری میں غم وغصہ اور جھنجھلاہٹ بہت زیادہ پائی جاتی ہے ، مگر پروین شیر کی شاعر ی میں پائی جانے والی اداسی اور احتجاجی لہجے میں نرمی اور ملائمیت موجودہے، جو انھیں منفرد بناتی ہے۔ پروفیسر عتیق اللہ نے کہا کہ پروین کی شاعر ی کوماحولیاتی تباہی اور فطرت نے بھی خاصا متاثر کیا ہے۔

اس پروگرام میں ڈاکٹر احتشام ،ڈاکٹر توحیدخان ، ڈاکٹر محمد کاظم ، ڈاکٹر سمیع الرحمن اور ڈاکٹر محمد عمران کے علاوہ کثیر تعداد میں ریسرچ اسکالر موجود تھے۔جب کہ ورلڈ اردو ایسوسی ایشن کے اسسٹنٹ ائرکٹر محمد ثناء اللہ نے  نظامت کے فرائض اداکیے۔

Leave a Reply