You are currently viewing وحید الہ آبادی کی غزلوں میں حسن وعشق

وحید الہ آبادی کی غزلوں میں حسن وعشق

مہر یکتا

ریسرچ اسکالر جامعہ ملیہ اسلامیہ ، نئی دہلی 

وحید الہ آبادی کی غزلوں میں حسن وعشق

وحید الہ آبادی اردو کے واحد ایسے شاعر ہیں جنہوں نے اپنے دیوان کی حفاظت کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے عظمت سخن کا نیا باب رقم کیا ۔انہوں نے اپنے کلام کو بچانے کے لیے موت کو گلے لگالیا، دیوان تو محفوظ رہا لیکن صاحب دیوان نہ رہا۔ بقول مصحفی:

دنیا سے ہم چلے گئے ناچار مصحفی

ایک یادگار اپنا دیوان رہ گیا

وحید الہ آبادی انیسویں صدی کے اس سنہرے دور سے تعلق رکھتے ہیں جس میں با کمال اور استاد شعرا کی ایک کہکشاں موجود تھی مثلا شاہ نصیر ،ناسخ،آتش،ذوق،غالب،مومن،ظفر اور داغ وغیرہ۔جہاں یہ شعرا اردو غزل کو اپنی مشاقی ،تخیل اور شاعرانہ صلاحیت سے چارچاندلگا رہے تھے وہیں وحید الہ آبادی کا نام شہرت کی بلندی کو چھو رہا تھا۔وحید الہ آبادی نے ابتدا میںمرزا حیدر علی آتش اور بعد میں بشیرعلی بشیر سے مشورہ سخن کیا۔وحید الہ آبادی خود بھی خو د بھی کثیرالتلامذہ استاد فن تھے۔اکبر الہ آبادی نے بھی ان سے ہی اصلاح لی:

استادی وحید میں جس کو کلام ہو

تیار اس سے بحث کو اکبر ہے آج کل

وحید الہ آبادی کی غزلوں کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان کے موضوعات روایتی تو ہیں لیکن اس میں خاصا تنوع ہے۔ان کے غالب موضوعات میں حسن و عشق کی باتیں، معشوق کے جور و ستم اور معشوق کا سراپا وغیرہ خاص ہیں۔ اس کے علاوہ تصوف، زندگی کی بے ثباتی، سفر، حب الوطنی، ہنگامۂ غدر، وحشت اور خمریات وغیرہ سے متعلق اشعار بھی ان کے کلام میں وافر تعداد میں موجود ہیں۔ظاہر ہے،یہ روایتی موضوعات ہیں،لیکن انھیں وحید الہٰ آبادی نے جس خوبی اور تازگی کے ساتھ بیان کیا ہے، اسے دیکھ کر یہی کہنا پڑتا ہے کہ وہ غیرمعمولی خلاقانہ صلاحیت کے مالک تھے۔ ان موضوعات کو انہوں نے بخوبی نبھایا بھی ہے اور ہر جگہ قادر الکلامی کا بھی ثبوت دیا ہے۔ یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ دنیا کی تمام زبانوں کے شعری سرمایہ میں عشقیہ ادب زیادہ مشہورومقبول رہا ہے۔ فارسی اور اردو شاعری سے اگر یہ نکال دیا جائے تو بے جان اور بے کیف ہوجائے گی۔ اردو شاعری میں امیر خسروؔ سے لے کرآج تک شاعری کا اہم موضوع عشق ہی رہا ہے۔ اردو شعرا نے عشق کے موضوع کو تمام موضوعات پر فوقیت دی۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ دوسرے موضوعات بالکل رد کردیے گئے۔ بلکہ سماجی اور سیاسی موضوعات بھی اگر غزل کی حدود میں داخل ہوئے تو عشق کا رنگ اختیار کرگئے۔ مثال کے طور پر سراج الدولہ کی گرفتاری ایک سیاسی سانحہ تھا۔ مگر جب غزل کا شاعر اسی سانحہ سے متاثر ہوا تواس نے اس طرح کہا :

غزالاں تم تو واقف ہو کہو مجنوں کے مرنے کی

دوانہ مرگیا آخر کو ویرانے پہ کیا گزری

اس طرح کے لاتعداد اشعار ہیں جو غزل کے انداز میں رچ بس کر اردو کے شعری ادب کی جان بن چکے ہیں۔ لہٰذا صنف غزل میں جن انفرادی کیفیات کی تصویر کشی ملتی ہے اس میں عشقیہ کیفیات بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ غزل نے متنوع اورر نگارنگ عشقیہ کیفیات کو اپنے دامن میں جگہ دی۔ اور ان جذباتی تقاضوں کو پورا کیا۔ ان عشقیہ کیفیات میں آفاقیت ہے۔ خسرو، ولی، سودا، درد، مصحفی، غالب اورمومن نے جن عشقیہ کیفیات کو پیش کیاوہ آج بھی ہمیں اپنی کیفیات معلوم ہوتی ہیں:

دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا

میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

اب رہی یہ بات کہ شاعروں نے اپنے اپنے زمانوں میں جن عشقیہ کیفیات کی ترجمانی کی ہے ان میں کہیں یکسا نیت یا یک رنگی کی کیفیت نہیںبلکہ ہر ایک میں انفرادی خصوصیت اور امتیازی رنگ نمایاں ہے۔ ہر ایک کا رنگ بالکل منفرد اور علیحدہ ہے اور الگ پہچانا جاسکتا ہے۔ اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے محمدحسن’’اردو میں عشقیہ شاعری‘‘ میں لکھتے ہیں۔ اردو شاعری میں عشق کا تصور ہر شاعر کے یہاں مختلف ہے اورجداانداز لئے ہوئے ہے۔ گوہر شاعر حسن، محبوب، عشق وعاشقی، وصال اور فراق ہی کی باتیں کرتا ہے۔ مگر شاعر کے اپنے تصورات کی بنا پر معانی اورمفاہیم بدلتے چلے جاتے ہیں۔ غالبؔ نے اسی بات کو مد نظر رکھ کر یہ کہا ہے :

ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو

بنتی نہیں ہے بادہ وساغر کہے بغیر

(اردو میں عشقیہ شاعری تصور اور روایت ،محمد حسن،ص۱۳)

غز ل کی روایت میں گل وبلبل، شمع وپروانہ، مے ومیخانہ، گل چیں وباغباں، گلشن وصحرا، قیس ولیلیٰ، فرہاد وشیریں، یوسف وزلیخا اور طور وموسیٰ وغیرہ نہ جانے کتنے اشاروں ، تمثیلوں اور تلمیحوں کا استعمال ملتا ہے۔ہر شاعر اپنے اپنے انداز میں ان کا استعمال کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ان کی انفرادی خصوصیت علاحدہ نظرآجاتی ہے۔ اس میں شاعر کی شخصیت کا بھی دخل ہوتا ہے اور شخصیت بڑی حد تک ماحول کے اثر سے بنتی ہے۔ ہردور کا ماحول دوسرے دور کے ماحول سے کسی نہ کسی حد تک مختلف ہوتا ہے اوراس ماحول کے اثرات شاعر کی شخصیت پرمختلف زاویوں سے پڑتے ہیں۔ شاعر کا فن اس شخصیت کا عکس ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ غزل کے ہر دور بلکہ ایک ہی دور کے مختلف غزل گو شعرا میںاس رنگا رنگی کا احساس ہوتا ہے۔ صرف میرؔ اور غالبؔ ہی ایک دوسرے سے مختلف نہیں، بلکہ خود میر، سودااور درد میں باوجود ایک ہی عہد میں پیدا ہونے کے بالکل مختلف ہیں۔مثلاً یہ کہاجاسکتا ہے کہ میرؔکے یہاں محبت سپردگی، ناکامی، اداسی اور سوگواری کا نام ہے۔ کیونکہ حالات نے ان پر کچھ اسی طرح کے اثرات چھوڑے۔ سوداؔ کے یہاں وہ کسی حدتک بدل جاتا ہے۔ یہاں سوگواری اور اداسی کی جگہ مسرت وشادمانی ملتی ہے۔ دردؔ کے یہاں حقیقت ومعرفت کی چاشنی نمایاں ہے۔ بالکل یہی معاملہ مصحفیؔ، انشاؔاور جرأتؔ کے یہاں بھی ہے۔ تینوںایک ہی عہد سے تعلق رکھتے ہیںلیکن بالکل مختلف رنگ کے حامل ہیں۔ مصحفی کے یہاں عشق سوز وگداز کانام ہے۔ جرأت کے یہاں وہ معاملہ بندی سے عبارت ہے۔ انشا کے یہاں محض خوش وقتی اور شوخی ہے۔کلاسیکی اردوغزل میں عشق کے مضامین کو مرکزیت حاصل ہے البتہ دیگر مضامین پر بھی پابندی نہیں۔ تمام عشقیہ شاعری کل تین مرکزی کرداروں پر قائم ہے:

(۱) عاشق

(۲) معشوق

(۳) رقیب

غزل میں چونکہ ذاتی یاانفرادی عشق کا بیان نہیں ہوتا ہے۔ بلکہ غزل کا عاشق تمام عاشقوں کا نمائندہ ہے،کوئی ایک شخص نہیں ہے۔ یہ عاشق معشوق کے لئے بے قرار ہے۔ لیکن معشوق کو حاصل کرنے میں ناکام ہے۔ وہ تقدیر کا پابند ہے۔ہجر اس کا مقدر ہے ۔ اوریہ بات بھی اہم ہے کہ ہجر اور حرماں نصیبی کو غزل کی شعریات میںنمایاں مقام حاصل ہے۔ محبوب سے محبت، اس کی جدائی کا کرب، محبوب کے کھودینے کا غم زندگی کا وبال بن جاتا ہے۔ یہی کیفیت تقریباً تمام شعرا کے کلام میںبدرجہ اتم موجود ہے۔ یعنی عشق کے بیان میں دو اہم موضوعات وصل وہجر ہیں۔ عاشق معشوق سے وصل کی خواہش کرتا ہے۔وصل کی تمنا میں ہی نئے نئے پہلو کو اشعارکے قالب میں ڈھالتا ہے اور ہجر کی کیفیات کو اپنے تخیل کی مدد سے اشعار میں جگہ دیتا ہے۔ چونکہ غزل کا معشوق بھی ایک فرد نہیں ہے بلکہ تمام معشوقوں کا نمائندہ ہے اسی لئے سب سے زیادہ حسین ہے اور جتنا حسین ہے اتنا ہی ظالم وجابر ہے۔ سنگدلی معشوق کی علامت ہے۔ رقیب کا کردار بھی غزل کا ذیلی کردار ہونے کے باوجود وسعت لئے ہوئے ہے۔کیونکہ یہ اغیار ناصح، محتسب اور حاکم سے لے کر تمام مخالفین بلکہ پوری دنیا اس احاطے میں آجاتی ہے۔ عشق کے بیان میں عاشق، معشوق، وصل وہجر، محبوب کی سنگدلی، محبوب کے حسن، رقیب، محتسب، ناصح اور زاہد وغیرہ کے مضامین نظم کئے جاتے ہیں۔ وحید کے یہاں بھی یہ سارے مضمون بدرجہ اتم موجود ہیں۔ تمام مضامین اشعار کے قالب میں خوبصورتی کے ساتھ ڈھالے گئے ہیں۔

مثلاً عشق میں آنسو بہانا، اختر شماری کرنا، گریباں چاک کرنا، معشوق کے ذکر وفکر میں محو رہنا، بے خودد رہنا، شمع کے مانند جلتے رہنا، دل کا دغا دے دینا اور ہمت وحوصلہ کھودینا وغیرہ ۔چند اشعار دیکھیے:

نظر آتی ہے تاروں کی چمک اشکوں میں آنکھوں کے

اثر باقی ہے اب تک رات کی اختر شماری کا

قرار اک دم نہیں جو صورت سیماب اشکوں کا

رواں ہے قافلہ آنکھوں سے دل کی بے قرار ی کا

جلتی ہے شمع رات کو کیا سر سے پائوں تک

یہ تیرے دل جلوں کی سراپا ہے یادگار

نہ پوچھے جائیںگے اگر حسن وعشق کے جھگڑے

تو سب سے حشر کے دن بے حساب ہیں ہم

یہ جب آنکھ ان سے لڑی نہ تھی

تویہ آنسوئوں کی جھڑی نہ تھی

کوئی دل میں پھانس گڑی نہ تھی کوئی رات اتنی بڑی نہ تھی

ہوئے جب کسی کے خیال میں گم اسی روز سے آپ میں آ نہ سکے

کہیں دل کا پتہ لگا نہ سکے کہیں اپنا سراغ بھی پا نہ سکے

اب خبر یار کی لائے گی اگر باد صبا

دل گم گشتہ کو بھی ڈھونڈھ کے لانا ہوگا

بن پڑے عشق جو دنیامیں تویہ کام ہے خوب

اس میں رسوا ہوا تو رسوائی میں بھی نام ہے خوب

بعد مدت کے جو آمد ہے ادھر یار کی آج

نہ خبر اپنی ہے مجھ کو نہ دل زار کی آج

شوریدگی عشق کا سن پایا جو مذکور

تعظیم جنوں کے لئے مستانہ اٹھا رقص

مندرجہ بالا اشعار میں جہاں عشق کی رنگا رنگ کیفیات کو بیان کیاگیا ہے وہیں مندرجہ ذیل اشعار سے طبیعت کی شوخی وظرافت نمایاں ہے :

بیخود ہمیں رکھتی ہے انہی آنکھوں کی مستی

ہم آپ سے کیا ہوش میں آتے نہیں صاحب

خدا جانے کیا ہوگیا خوف دل کا

میں آج ان کو پھر بے خطر دیکھتا تھا

پہلے شعر میں شاعر جہاں معشوق سے مخاطب ہے اور بیخودی کا سبب معشوق کی آنکھوں کی مستی کو قراردیتا ہے،وہیں دوسرے شعر میں خود کلامی کرتے ہوئے کہتا ہے کہ آج میں جو بنا کسی خوف وخطر کے معشوق کو دیکھ رہاتھا خدا جانے آج میرے دل کا خوف کہاں چلا گیاتھا۔ پہلے شعر میں’’صاحب‘‘ اور دوسرے شعر میں’’خدا جانے‘‘ سے شعر کا حسن دوبالا ہوگیا ہے۔ وحید نے عشق میں ملنے والی تکالیف اور سوز والم کو اس طرح بیان کیا ہے :

کہتے ہیں اس کو عشق کہ پروانے رات کو

خود شکل نور ہوتے ہیں جل کر چراغ میں

مرنے پر بھی عشق نے پیچھا نہ چھوڑا عشق کا

لوگ سچ کہتے تھے یہ آزار جاتا ہی نہیں

یہ لطف بھی اٹھا چکے کچھ دن کسی کے ساتھ

اب دل میں حوصلہ ہی نہیں رسم وراہ کا

تمام خلق کو اب بے وفا سمجھنے لگے

طبیعت ان سے پھری توخراب ہوکے پھری

طپاں ہے ہر گھڑی پھر یہ دل ناشاد کیا باعث

لبوں پر خود بخود آنے لگی فریاد کیا باعث

پہلے شعرمیں عشق کی تعریف کرتے ہوئے کہاگیا کہ پروانے شمع میںجل کر جب نور ہوجاتے ہیں تو وہ عشق کی منزل کو پالیتے ہیں۔ دوسرے شعر میں عشق کے آزار سے کبھی پیچھا نہ چھوٹنے کی طرف اشارہ ہے۔ تیسرے چوتھے اور پانچویں شعرمیں ایک مایوس عاشق کی کیفیت نمایاں ہے۔ چند ایسے اشعار ہیں جس میں دل کی کیفیت کو بیان کیاگیا ہے :

اس عشق میں پہلے مجھے ایسی نہ خبر تھی

میرا ہی لہو پینے کو پلتا ہے مرا دل

دیوانگی عشق سے جاتی رہی وہ آب

موتی کی سی جہاں میں تھی آبروے دل

کرتا ہوں ترے کوچے کے چلنے کا میں جب قصد

تب دو قدم آگے مرے چلتا ہے مرا دل

معشوق

حسن وعشق کے باب میں دوسرا اور سب سے اہم کردار معشوق کا ہے۔ عاشق معشوق کے وصل کا خواہاں ہے، اس کی ایک نظر کے لئے بے تاب ہے۔ غزل کا معشوق بھی عاشق کی طرح ایک فرد نہیں ہے بلکہ تمام معشوقوں کا نمائندہ ہے۔ یہی سبب ہے کہ وہ بہت زیادہ حسین وجمیل ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ظالم وجابر بھی ہے، جو روجفااس کی خاصیت ہے اور سنگدلی اس کی علامت ہے۔ وحیدؔ نے معشوق کی سنگدلی جور وجفا اور بے نیازی کے مضمون کوبھی خوب باندھا ہے اور ساتھ ساتھ اردو غزل کی روایت کے مطابق محبوب یا معشوق کی زلف، لب، مژگاں، رخسار، چشم، ابرو، دہن کمر اورعارض وغیرہ کو اپنا موضوع بنایا۔ مثالیں دیکھیے:

زلف وگیسو:

ہم جس کے تصور میں رہا کرتے ہیں دن رات

رخ بھی یہی تھا زلف چلیپا بھی یہی تھی

یاد آگیا ابرو کے قریں زلفوں کا آنا

آیا جو وحید ابر مہ نو کے برابر

نہیں ہوش وخرد کی برہمی سوداے گیسو میں

اندھیری رات میں یہ لٹ رہا ہے کارواں اپنا

دہن :

وقت سخن کھلا دہن یار اس طرح

جیسے کلی گلاب کی کوئی چٹک گئی

ہے نور تبسم دہن یار سے تا عرش

وہ دیکھیے پھر چشمہ کوثر سے اٹھی موج

رخ:

اب ترا جلوہ رخ دیکھ کے کیا دیکھوں گا

میری آنکھوں سے نہ جائے گی یہ حیرت ہرگز

چاند بدلی میں چھپ نہیں سکتا

رخ پہ زلفیں نہ یوں مری جاں چھوڑ

رخ روشن کا تصور جو یکایک آیا

رہ گئی ہجر کی شب نور کا تڑکا ہوکر

سرگوشی معشوق:

سنتے ہیں کہ پھر آپ میں آتا نہیں انساں

سرگوشی معشوق کا ہے راز قیامت

عارض:

یہ آنکھیں نرگسی،سنبل سی زلفیں، پھول سے عارض

تمہار ے گھر میںجب آتے ہیں کیا کیا دیکھتے ہیں ہم

گمان عارض رنگیں گلوں پہ ہوتا ہے

بہار جلوہ دکھاتی ہے بے نقاب ان کا

جلوۂ عارض نظر زیر نقاب آیا تو کیا

منہ پہ رکھ کر چاند دامان سحاب آیا تو کیا

نازوانداز:

شوخی ہے ستم چال غضب ناز قیامت

تیرا ہے مری جان ہر انداز قیامت

آفت ہے اک تو یوں ہی ترا آکے دیکھنا

پھراس پہ مسکرا کے یہ شرما کے دیکھنا

شادابی:

دیکھ لیتا جو تری شادابی

دھوپ سے پھول نہ کمھلا سکتا

مژگاں:

اس کی مژگاں کو دیکھنا تھا فقط

زخم تو خود جگر میں رکھا تھا

چشم:

یہ کس کی چشم سیہ مست کا خیال آیا

کہ لطف نشہ اٹھانے لگے خمار میں ہم

خوشبو:

کس گل کے پسینے کی اڑا لائی ہے خوشبو

ہر گام پہ گلزار میں کرتی ہے صبا رقص

کیا ہوئی وا پھر کسی کی زلف عنبر بیز آج

اے نسیم صبح یہ خوشبو ہے سودا خیز آج

رفتار:

برپا ہوا تھا اس کی ہی رفتار سے وحیدؔ

اس حشر کی قیامت کبریٰ ہے یادگار

بے حجابی:

وہ شب کو بے حجاب جو محفل میں آگئے

کیا نور تھا کہ شمع کو پروانہ کردی

اس طرح محبوب کے سراپا کا بیان وحیدؔ کے یہاں بڑی کثرت سے ملتا ہے۔ ان اشعار کے علاوہ اور بھی بہت سے اشعار ایسے مل جاتے ہیں جس میں وحیدؔ نے محبوب کے قدوقامت، لب ورخسار ،دہن، خوشبو، زلف وچشم، مژگاں اورمحبوب کی ادائوں کی تصویر کشی کی ہے۔ وہ نادر تشبیہوں اور استعماروں کے ذریعہ محبوب کے ایک ایک انگ کا جلوہ سو سورنگ سے دکھاتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان اشعار کی بھی کثر ت ہے جس میں محبوب کے کے جوروجفا اور اس کی سنگدلی کی طرف اشارہ کیاگیا ہے۔مثالیں :

احوال کسی نے مرے رونے کا کہا کیا

وہ دیکھ کے ہنستے تھے مجھے رات یہ تھا کیا

ہم پر تو جو ستم ہوئے الفت میں وہ ہوئے

تم تویہ کہہ کے چھوٹ گئے ہم نے کیا کیا

یوں تو معشوق زمانے میں کیا کیا جلاد

آج تک آدمی دیکھا نہیں تجھ سا جلاد

جوان کو منظور ہر طرح تھا کہ مجھ پہ ظاہر لال دل ہو

نظر نہ کی میں نے چشم تر پر تورخ پہ آنسو بہاکے مارا

فقط اظہار الفت سے ہوئے وہ جان کے دشمن

اسی قصے کو ان سے اور پیرائے میں کہنا تھا

رہ گئے ہیں کچھ ستم، کچھ ظلم ان کا ہوچکا

دیکھئے کیا کیا ابھی ہوتا ہے کیا کیا ہوچکا

تیری طرف اشارہ ہے چتون غضب نہ ڈھا

کہتا ہوں تجھ سے دیدۂ جاناں ستم نہ کر

آنکھوں سے مقابلہ ہے دل کا کیا فیصلہ ہوتا ہے دیکھیں

دو سحر کے حاکم ایک طرف سو ناز کا محکوم ایک طرف

جب کرچکے ہیں پردۂ گل میں ہزار ظلم

بے چین ہوکے شور عنادل ہوئے ہیں آپ

کتنے بھرے ہیں فتنے نظر میں

اس دم تو دیکھو ظالم کی صورت

یہی نہیں بلکہ شوخی دیکھئے کہ معشوق سرِ محفل آنکھ بھی دکھاتا ہے اور بات کرتے وقت گھورنے سے بھی دریغ نہیں کرتا :

پھر یہی عادت کسی دن وجہ گستاخی نہ ہو

اب نہ دیکھو اس نظر سے آنکھ دکھلانے کے بعد

حال سچ کہنے پر ترچھی نگاہ

اتنی سیدھی بات کا الٹا جواب

معشوق سے سوال کرتے ہیں :

آپ آگ لگاتے ہیں اگر دل میں کسی کے

کیا یہ بھی ہے پھر اس کوبجھاتے نہیں صاحب

اس مضمون کے دوتین اور دلچسپ شعر دیکھیے:

دل کو روندے ہوئے پانو کے تلے جاتے ہیں

ان سے کہہ دو کوئی آگے جو چلے جاتے ہیں

جفا و ظلم ہو یا اب شکایتیں ہوں وحیدؔ

غرض وہ مجھ پہ عنایت زیادہ کرتے ہیں

تھرّا کے رہ گیا میں ادھر سرسے پائوں تک

کی اس نے دفعتاً جو نظر سر سے پائوں تک

زخم دل پر آفریں اے جنبش ابروے یار

اب توخالی کوئی تیرا وار جاتا ہی نہیں

یہ کس نے جنبش ابرو سے کار تیغ لیا

کہ ایک خلق کو سینہ فگار دیکھتے ہیں

اب دیکھنا ہے اور ستم ان کا اے وحید

آنکھوں نے سحر کردیا کاجل کے رنگ کو

اس کے ساتھ ہی ساتھ اس عشق سے متعلق تمام واقعات اور کیفیات کو پیش کرتے ہوئے غزل کا شاعر چند مفروضے بھی قائم کرلیتا ہے۔ یہ مفروضے بظاہر بڑے عجیب معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن اگر مخصوص تہذیبی اور سماجی پس منظر کو سامنے رکھ کر دیکھاجائے تو وہ عجیب نہیں معلوم ہوتے۔ مثال کے طور پر غزل کا شاعر گل وبلبل، شمع وپرانہ، قفس وآشیانہ، چمن، گل چیں اور صبا وغیرہ کا تذکرہ کرتا ہے۔ اس کے خیال میں بلبل، گل سے والہانہ محبت کرتی ہے۔ جب گل پر شباب آتا ہے تو وہ اس کے دیدار کے لئے آتی ہے۔ ہجر وفراق کی کیفیت سے دوچار رہنا ان کی قسمت میں لکھاہوتا ہے ۔ یہی صورت حال شمع اور پروانے کے ساتھ ہے۔ شمع کا انداز محبوبی اور طرز دلربائی پروانے کا دل موہ لیتا ہے۔ جہاں جس جگہ جس محفل میں وہ اس کونظر آتی ہے وہ اس کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ اس کا طواف کرتا ہے اور یہ سلسلہ تادمِ زیست قائم رہتا ہے لیکن بالآخر وہ اس کے قدموں میں جل کر جان دے دیتا ہے اور اس طرح اس کے عشق کی تکمیل ہوجاتی ہے لیکن وصل میسر نہیں آتاپروانہ کا عشق شمع کی روشنی میں جل جانے کا ہی نام ہے۔ اور اس کی عظمت ،بڑائی اور بلندی کا راز اسی میں مضمرہے۔ اسی طرح غزل کا شاعر چمن کا ذکر کرتا ہے جس میںگل وبلبل کی محبت پروان چڑھتی ہے۔چمن کے ساتھ صیاد کی شخصیت کو بھی سامنے لاتا ہے۔ صیاد بلبل آشیانے سے کہیں دور لے جاکر قید کرلیتا ہے۔ بلبل کے آشیانے پر بجلی گرتی ہے اور وہ جل کر راکھ ہوجاتا ہے۔ اس طرح کے نجانے کتنے تصورات ہیںجو غزل میں ملتے ہیں اور اس میں شک نہیں کہ غزل میں ان تصورات نے بڑا کام کیا ہے ان کے سہارے غزل کے دامن میںبڑی وسعت پیدا ہوئی ہے۔ نئے نئے مضامین سامنے آئے ہیں۔ شاعرایک بات سے دوسری بات اس طرح نکالتا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ چونکہ ان مفروضات سے یہ ثابت ہے کہ معشوق کا وصل عاشق کی قسمت میں نہیں۔ اسی طرح ہجر اس کا مقدر ہے۔ ہجر اور حرماں نصیبی کو غزل کی شعریات میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ وحید نے بھی ہجر ووصل کے مضمون کو بڑی خوبصورتی سے اپنے اشعار میں باندھا ہے۔ چند مثالیں دیکھیے:

ہجر :

ہجر میں جو دل طپاں سے ہوا

وہ زمیں سے نہ آسماں سے ہوا

بھردیں گے وحید اشکوں سے ہم ہجرمیں رو کر

خالی جو ہمیں عمر کا پیمانہ ملے گا

مشہور گو بہت تھی شب اولین گور

ہوتی ہے ہجر یار کی بھی رات اک عذاب

دل کا ہے اک تو فرقت ساقی میں اور رنگ

لائی ہے سرپہ اور بھی برسات اک عذاب

نہ کچھ پوچھئے ہجر میں دل کی صورت

تڑپتا ہے ہر وقت بسمل کی صورت

بیداری فراق جو ہو تیری یاد میں

تو وہ بھی مثل خواب زلیخا ہے یادگار

جان آئی ہے ہونٹوںپہ محبت میں کئی بار

ہم مر کے بچے ہیں تری فرقت میں کئی بار

کھل گئی دیکھئے ساون کی بھی فرقت میں جھڑی

دیدۂ تر ہی نے طوفان اٹھایا آخر

شب فرقت مری جب ہے جہاں میں باقی

ہونے دے گا نہ فلک صبح قیامت ہرگز

کیا جی کو ہجر یار میں ترسا رہی ہے یاس

دیکھو جدھر اٹھا کے نظر چھار ہی ہے یاس

ہجر ساقی میں ہے شہرہ بزم عشرت کا غلط

میں لگاتا اپنے منہ سے ساغر صہبا غلط

فرقت کی شب میں اس کا جہاں سامنا ہوا

شب بھر طبیعت اپنی بجھاتی ہے اور شمع

رونا ہے اک تو ہجر کا یونہی تمام شب

آنسو بہا بہا کے رلاتی ہے اور شمع

مجھ کو ہے اپنی مصیبت میں کہاں اس کا خیال

شام فرقت کی سیاہی یاددلاتی ہے زلف

غضب ہیں قہر ہیں آفت ہیں صد مہ ہائے فراق

خدا کسی کو نہ دے دردِ لادوائے فراق

یہ امتحان محبت سے بھی زیادہ ہے سخت

خدا وہ دن نہ کرے مجھ کو آزمائے فراق

ہجر میں جب کوئی مونس ہے نہ غم خوار کوئی

سچ تو ہے کس سے کس حال دل زار کوئی

نہیں ہے اور تو دل کی خبر کچھ تیری فرقت میں

مگر پھوڑا سا اک دکھتا ہوا پہلو میں پاتا ہوں

آسماں نے خوب بدلے وصل جاناں کے لئے

کردیا مخصوص مجھ کو روز ہجراں کے

لئے تری فرقت میں جب مجھ کو اکیلا دیکھ پاتی ہے

شب غم اک بلا بن کر اندھیرے میں ڈراتی ہے

وحید نے ہجر کے مضمون کو بڑی خوبصورتی سے اشعارکے قالب میں ڈھالا ہے کہیں ہجر میں اشکوں سے عمر کے پیمانہ کو بھرنے کی بات کی ہے تو کہیں شبِ ہجر کو ایسا عذاب قرار دیا ہے جو قبر کے عذاب سے کہیںبڑھ کر ہے، کبھی ہجر میں دل بسمل کی طرح تڑپتا ہے ، کبھی ہونٹوں پہ جان آجاتی ہے مرتے مرتے بچتے ہیں۔ کہیں ہجر میں شمع کی صورت آنسو بہانے کو ساون کی جھڑی سے تشبیہہ دی گئی ہے۔ کہیں فراقِ یار کو سب سے بڑا امتحان کہاگیا ہے۔ اور فرقت میں دل پھوڑے کے مانند دکھتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اس طرح وصل کے مضمون کو بھی بحسن وخوبی شعر میں پرویاگیا ہے۔ لیکن ہجر کے اشعارکے مقابلے وصل کے اشعار کم ہی نظر آتے ہیں۔ چنداشعار بطور نمونہ دیکھیے:

وصل :

ایسا زمانہ رنج کا بھولا وصال میں

یہ بھی خبر نہیں کہ ہوا تھا کہاں بگاڑ

پیش نظر ہے عرش سے تا فرش ایک نور

روزِ وصال ارض وسما کا تو دیکھ رنگ

گئے یہ جان سے اپنی وصال یار میں ہم

کہ مثل قافلہ یوں لٹے بہار میں ہم

اور حد تویہ ہے کہ وصل اگر میسر آبھی جاتا ہے تو اتنا لمبا عرصہ جو محبوب کی فرقت میں گزرا ہے وہ یاد آنے لگتا ہے:

جو ہو وصال تو یادِ فراقِ یار آئے

خزاں کے دن بھی نہ بھولیں اگر بہار آئے

یعنی کہیں نہ کہیں ان دنوں کی یاد آہی جاتی ہے۔ اور بہار میں بھی خزاں کا سا ماحول بن جاتا ہے یا پھر دوسرے معنی یہ کہ اگر عاشق کو وصل نصیب ہو بھی گیا تو وہ اس عرصہ کو یاد کرتا ہے جب محبوب اس کے پاس نہیں ہوگا یہ سوچ کربہار کا موسم بھی خزاں سا معلوم ہوتا ہے ۔ ایک دوسرے شعر میں اسی طرح کا مضمون ہے:

اثر کر گئی تلخی ہجر جب

وہ باتوں میں اب قند گھولے تو کیا

یعنی جب ہجر کے وہ تلخ ترین دن گزر گئے۔ اتنا طویل، کربناک اور تلخ عرصہ میں نے کاٹ لیا۔ اس کے بعد اب وہ مل گئے ہیںاور ملنے کے بعد وہ میٹھی میٹھی باتیں کررہے ہیں لیکن اب اس کا کیا فائدہ۔ اب میںتوان کے فراق کا عادی ہوگیا ہوں۔وہ تلخی رگوںمیں رچ بس گئی ہے جس کی وجہ سے مٹھاس محسوس ہی نہیں ہورہی ہے۔

رقیب:

اردوغزل کے حسن وعشق کے باب میں اور سب سے اہم کردار رقیب کاہے۔ یہ کردار بڑی وسعت کا حامل ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کے احاطے میں اغیار، ناصح، محتسب اور حاکم سے لے کر تمام مخالفین، بلکہ پوری دنیا اس میں شامل ہے۔ یہ موضوع ہر شاعر کے یہاںموجود ہے۔قنوطی سے قنوطی شاعر بھی اس سے اپنا دامن نہیں بچاسکتااوریہ مضامین غزل میں عجیب بھی نہیں معلوم ہوتے کیونکہ غزل رندوں کی صنف سخن ہونے کی وجہ سے خود اپنے مزاج میں بھی ایک رندی کی کیفیت رکھتی ہے۔ غزل کی اسی رند مزاجی نے ان موضوعات کو غزل کے لئے مناسب بنادیا۔اور وقت کے ساتھ ساتھ وہ اس کی شعریات کا حصہ بن گئے۔ غزل میں ان موضوعات کا محرک وہی عشقیہ ماحول ہے جس سے غزل عبارت ہے اس عشقیہ ماحول نے غزل کو عقل وشعور کے بجائے جذبات واحساسات کا ترجمان بنایا ہے۔ اسی لئے غزل میں عقل سے زیادہ جذبات کی باتیں ہوتی ہیں۔ جنون اوردیوانگی کا تذکرہ ہوتا ہے۔ غرضیکہ غزل کی مجموعی فضا صرف ایک چیز سے وابستگی کے خیال کو عام کرتی ہے۔ اوریہ خیال ہے عشق اور معاملات عشق سے دلچسپی اور ان معاملات سے یہ دلچسپی اس قدر بڑھتی ہے کہ اگر کوئی اس راہ میں حائل ہو تو غزل کی فضا اس کوبرداشت نہیںکرسکتی۔ اس صورت میں وہ افراد جو عقل کا درس دیتے ہیں اور عشق ومعاملات ِ عشق کی مذمت کرتے ہیں، اس راہ پر چلنے والوں کو روکنا چاہتے ہیں غزل میں ان کا مذاق اڑایاجاتا ہے ان پر پھبتیا ں کسی جاتی ہیں۔غزل میں یہ افراد ناصح اور واعظ کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔ ناصح اورواعظ عشق اور معاملات عشق کی مذمت کرتا ہے۔ عاشق کو ناصح کی نصیحت آمیز باتیں بالکل نہیں بھاتیں۔ چنانچہ ناصح اور واعظ کا مذاق اڑانا اوران کو رسوا کرناعاشق کاشیوہ ہے۔ ایسے مواقع پرغزل میں شگفتگی اور شوخی کا ماحول پیدا ہوجاتا ہے۔ اس موضوع سے متعلق ابتدا سے آج تک عمدہ سے عمدہ اشعار غزل کے مختلف شاعروں کے یہاں ملتے ہیں۔ مثلاً :

میر:

عام حکم شراب کرتا ہوں

محتسب کو کباب کرتا ہوں

یوں بھی سر چڑھتا ہے اے ناصح کوئی مجھ سے کہ ہائے

ایسے دیوانے کو سمجھاتے ہیں سمجھانے کی طرح

ناصح کو خبر کیا ہے لذت سے غم دل کی

ہے حق بہ طرف اس کے چکھے تو مزہ جانے

وہ پھری پلکیں اگر کھپ گئیں جی میں وہیں

رخنے پڑجائیںگے واعظ ترے ایمان کے بیچ

واعظ شہر تنک آب ہے مانند حباب

ٹک ہوا لگتی ہے اس کو تو ابھر جاتا ہے

غالب :

حضرت ناصح گر آئیں دیدہ ودل فرشِ راہ

کوئی مجھ کو یہ تو سمجھا دو کہ سمجھائیں گے کیا

واعظ نہ تم پیو نہ کسی کو پلا سکو

کیا بات ہے تمہاری شراب طہور کی

کہاں میخانے کا دروازہ غالبؔ اورکہاں واعظؔ

پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے

یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دو ست ناصح

کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا

مومن :

ذکر اغیار سے ہوا معلوم

حرف ناصح برا نہیں ہوتا

شرم کی بات نہیں ہے یہ اثر ہو کیونکر

نہ میں مومن ہوں نہ تو پیر مغاں اے واعظ

لگ جائے شاید آنکھ کو دم شب فراق

ناصح ہی کو لے آؤ اگر افسانہ خواں نہیں

یہ کون کہے اس سے کی ترک وفا میں نے

کر تو ہی ذرا ناصح پیغامبری اتنی

داغ :

اگرچہ بادہ کشی تھی گناہ اے زاہد

جو تجھ سے چھین کے پیتا تو کچھ عذاب نہ تھا

ناصح کا جی چلا تھا ہماری طرح مگر

الفت کی دیکھ دیکھ کے رفتار رہ گئے

ترا پیرہن میری باتوں سے ناصح

مرا ہی گریباں ہوا چاہتا ہے

ناصح کی گفتگو سے ہوئیں بدگمانیاں

ایسا نہ ہو رقیب کا درپردہ یار ہو

زاہد مزہ تو جب ہے عذاب وثواب کا

دوزخ میں بادہ کش نہ ہوں جنت میں تو نہ ہو

امیرمینائی:

باتیں ناصح کی سنیں یار کے نظارے کئے

آنکھیں جنت میں رہیں کان جہنم میں رہے

تیری مسجد میں واعظ خاص ہیں اوقات رحمت کے

ہمارے میکدے میں رات دن رحمت برستی ہے

جگر:

یہ ہے میکدہ یہاں رند ہیں یہاں سب کا ساقی امام ہے

یہ حرم نہیں ہے اے شیخ جی، یہاں پارسائی حرام ہے

جو ذرا سی پی کے بہک گیا اسے میکدے سے نکال دو

یہاں تنگ دل کا گزرنہیں یہاں اہل ظرف کا کام ہے

یہ جناب شیخ کا فلسفہ ہے عجیب سارے جہان سے

جو وہاں پیو تو حلا ل ہے جو یہاں پیو تو حرام ہے

ناصح کم نگاہ سے کون یہ کہہ کے سر کھپائے

راز شکستگی سمجھ، رنگ شکستگی نہ دیکھ

واعظ نہ ڈرا مجھ کو قیامت کی سحر سے

دیکھی ہے ان آنکھوں نے قیامت کی سحر بھی

اصغر:

زاہد نے مرا حاصل ایماں نہیں دیکھا

رخ پر تری زلفوں کو پریشاں نہیں دیکھا

یہ خانقاہ نہیں پی جا ارے زاہد

یہ مے کدہ ہے یہاں احتراز رہنے دے

نیاز عشق کو سمجھا ہے کیا اے واعظ ناداں

ہزاروں بن گئے کعبے جبیں میں نے جہاں رکھ دی

یہ اشعار عشقیہ پس منظر رکھتے ہیں۔ ان کا محرک ایک عشقیہ ماحول ہی ہے۔ اس لئے یہ موضوعات غزل کی عام فضا سے نامانوس نہیں۔ ان کو اس فضا سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ موضوعات غزل کی روایت کا ایک لازمی جز و بن گئے ہیں اورحسن وعشق کے باب میں ان کی اہمیت کم نہیں۔بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ یہ موضوعات غز ل کی عشقیہ روایت کا ایک اہم حصہ ہیں۔ یہ عشقیہ فضا میں اور شدت پیدا کرتے ہیں۔اور ان کے باعث عشقیہ اقدار میں استواری اور ہمہ گیری پیدا ہوتی ہے۔ غزل کی اسی رندانہ کیفیت نے تصوراتی اعتبار سے مذہب سے برگشتگی کے خیال کو عام کیا اور ایسے افراد کو آڑے ہاتھوں لیا جو اس فضا کو پیدا کررہے تھے۔ تصوف نے اس میں کچھ اور شدت پیدا کی۔ کیونکہ تصوف میں ایسے لوگوں کے لئے بالکل جگہ نہیں ہے جو سر گشتۂ رسوم وقیود ہوں۔ جن کے پاس مذہب کی آڑ ہو، غزل نے ایسے افراد کے ’’کارِ دیگر‘‘ کو اچھی طرح بے نقاب کیا۔ شیخ اور زاہد وغیرہ ایسے ہی افراد کی علامتیں ہیں۔ غزل کا ایک خاصا حصہ اسی موضوع کے مختلف پہلوئوں کی ترجمانی پر مشتمل ہے۔ غزل کی اسی روایت کو مد نظر رکھتے ہوئے وحیدالہ آبادی نے بھی اس موضوع کو باندھا ہے ان کے یہاں بھی اسی مضمون کے کئی اچھے اشعار ملتے ہیں جس میں اس موضوع کے مختلف پہلوئوں اورگوشوں کی ترجمانی اور عکاسی کی گئی ہے۔ اشعار دیکھیے:

ہوتا ہے اس کا حضرت ناصح کوئی محل

ہر وقت سوجھتی ہے نصیحت کی آپ کو

جس وقت دیکھو حضرت واعظ یہی ہے ذکر

ایسی پڑی ہے دوزخ وجنت کی آپ کو

نہیں ہے دل پہ مرا اختیار اے ناصح

کسی کے ہاتھ سے مجبور ہوگیا ہوں میں

بنت عنب تو رندوں کو یونہی مباح تھی

زاہد نظر پڑا تو روا اور ہوگئی

گزرتی ہے جو اس کے عشق میں اے حضرت ناصح

یہ آکر آپ سے ساری زلیخا کون کہتا ہے

دل زاہدوں کا حوروں کے قصہ کی طر ف ہے

اب تذکرۂ حسن بشر وہ نہ سنیں گے

تم ان آنکھوں کی مستی تو دکھائو میرا ذمہ ہے

جو زاہد عمر بھر پھر نام لیں پرہیز گاری کا

واعظ اک وقت تھا اس کا بھی یہ موسم گل

فکرِ توبہ دمِ توبہ شکنی کیا ہوگی

جب ہوش میںنہیں تو سنے ناصحوں کی کون

ہنگام بیخودی ہے یہ بے فائدہ کی بحث

نورِ قدرت نہیں کیا حضرتِ واعظ اس میں

آپ ہی کہئے اگر آپ نے دیکھا ہے وہ رخ

سن سن کے اب تو آتے ہیں زاہد بھی وجد میں

کر اٹھتے ہیں جو نعرۂ مستانہ کوئی دم

آئی ہے جھومتی ہوئی کیا اس گھڑی گھٹا

زاہد بھی میکدہ میں ہیں ساون کے رنگ پر

یہ اشعار اس فضا کو پوری طرح پیش کردیتے ہیں جو غزل میں شیخ،زاہد اور واعظ سے متعلق معاملات کی ترجمانی سے پیدا ہوتی ہے۔ ان کو پیش کرنے کے انداز میں ایک شوخی اور شگفتگی کودخل ہے، لیکن یہ بھی نہیں کہاجاسکتا کہ یہ صرف تفنن طبع کے طو رپر پیش کیے گئے ہیں۔ان کے پیچھے بھی زندگی کے بعض گہرے حقائق ہیں۔ غزل ان حقائق کو پیش کرنے میں پیش پیش رہی ہے۔یہ بھی کہاجاسکتا ہے کہ غزل اس شوخی اور شگفتگی کو پیدا کرنے میں کچھ حدودسے باہر بھی گئی، لیکن انتہا پسندی کے ساتھ ساتھ اس میں ایک بانکپن بھی ہے۔ایک سوچ اور لچک کی کیفیت ضرور پیدا ہوگئی ہے۔اس نے غزل سے قنوطیت کی فضا میں بڑی حدتک اجالا کردیا۔ اس کے ذریعے غزل میں تنوع پیدا ہوا۔ اردو غزل طنز ومزاح او رشوخ وشگفتگی سے آشنا ہوئی اور اس میں تنوع اور وسعت پیدا ہوا۔ وحید الہ آبادی نے بھی اس مضمون کی روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کو بخوبی نبھایا ہے۔ اس سے ان کے کلام میں شوخی وظرافت کا عنصر پیدا ہوا اور ان کے مضامین میں وسعت پیدا ہوئی۔

اس طرح حسن وعشق کے باب میں تین اہم کردار عاشق، معشوق اور رقیب کے متعلق مضامین ہیں اور معشوق کے ہجر ووصال کی داستان ہے۔ رقیب کو بھی کھری کھوٹی سنائی گئی ہے تو وہیں شیخ زاہد اور ناصح پر بھی پھبتی کسی گئی ہے۔ اس باب میں کہیں سوز وگداز ہے تو کہیں طنز ومزاح۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ دیکھنے سے تویہ صرف ایک موضوع ہے لیکن اس میں کتنے مضامین ہیں شعرا کا تخیل کہاں کہاں جاپہنچتا۔ کس کس طرح بات سے بات نکلتی ہے۔اسے دیکھ کر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ موضوع خود ایک بحر بے کراں ہے جس کی وسعت کااندازہ ناممکن ہے۔

***

Leave a Reply