شاعرہ: ناہیدؔ ورک
اصل نام: ناہید ورک
تخلص: ناہیدؔ
پیدائش: پاکستان
سکونت: مشی گن،ریاستہائے متحدہ امریکہ
غزلیں
یہ خاموشی میری طاقت ہو سکتی ہے
لیکن اس سے کبھی تو وحشت ہو سکتی ہے
میرے لیے جو ذرا بھی، وقت نہیں مل پاتا
اس شکوے کی مجھ کو اجازت ہو سکتی ہے؟
یہ نسبت ہی بے معنی جب ٹھہری ہے تو
کیسے ہم میں تم میں محبت ہو سکتی ہے
تنہائی بھری خاموشی کی خیر ہو اے دل
لا محدود اب ہجر کی مدت ہو سکتی ہے
دھیان سے باہر آؤں تجھے امکان میں لاؤں
میرے یقیں کی بس یہ صورت ہو سکتی ہے
تیرے ہوتے ہوئے بھی خالی ہاتھ رہی ہوں
کیا اس سے بڑھ کر بھی اذیت ہو سکتی ہے؟
اپنے قیام و سجود پہ میں حیران ہوں ناہیدؔ
دل نہ جُڑے تو، کیسے عبادت ہو سکتی ہے
******
میں تو سمجھی مِرا کوئی نہیں دوست
اُس سے بڑھ کر مِلا کوئی نہیں دوست
تُو مُرادوں بھرا جزیرہ ہے
تجھ سے ہہتر دُعا کوئی نہیں دوست
تیری باتیں خدا سے کرتی ہوں
اور تو رتجگا کوئی نہیں دوست
کتنی شفّاف ہیں تری آنکھیں
دوسرا آئنہ کوئی نہیں دوست
بے طلب ہی لپیٹ لیتی ہے
خامشی کا سِرا کوئی نہیں دوست
میں محبت کے بُت بناتی ہوں
سانس لیتا ہُوا، کوئی نہیں دوست
اِس کو جھیلا ہے، جانتی ہوں میں
ہجر جیسا خلا کوئی نہیں دوست
******
اب کہاں اُس کی ضرورت ہے ہمیں
اب اکیلے پن کی عادت ہے ہمیں
سانس لیتی ایک خوشبو ہے جسے
وِرد کرنے کی اجازت ہے ہمیں
دل جزیرے پر ہے اُس کی روشنی
اِک ستارے سے محبت ہے ہمیں
اب ذرا سرگوشیوں میں بات ہو
مہرباں لہجے کی عادت ہے ہمیں
ہم تحیّر کھول دیں گے آنکھ سے
اب میسّر تیری قُربت ہے ہمیں
دیکھئے جا کر کہاں رُکتے ہیں اب
تیری قُربت سے تو ہجرت ہے ہمیں
پھر اُسی چوکھٹ کی دل کو ہے تڑپ
پھر اُسی در پر سکونت ہے ہمیں
ماخذ
از: گیلی چپ،ناہید ورک،۲۰۱۲
******
اَن کہے، اَن سُنے دلاسے ہیں
دل کے دل سے عجیب وعدے ہیں
میرے خوابوں کی خیر ہو یا رب
میری آںکھوں کے یہ خزانے ہیں
بن رہا ہے خیال کا چہرہ
ہم تصوّر میں اُن کے بیٹھے ہیں
زندگی کیا ہے بے بسی کیا ہے
اُن کی آنکھوں سے ہم یہ سمجھے ہیں
خوش گمانی بھی کیسی عادت ہے
وہ ہمارے تھے، وہ ہمارے ہیں
اتنا کافی نہیں تسلّی کو؟
جو بچے ہیں وہ رنگ میرے ہیں
انحرافی نہیں ہیں ہم ناہیدؔ
عشق نسبت سے اب بھی اُن کے ہیں
******
مجھ سے اس گھر کی اُداسی نہیں دیکھی جاتی
جالے بُنتی ہوئی مکڑی نہیں دیکھی جاتی
کس طرَح تجھ کو بتاؤں، ترے ہونے کی کمی
گھر کے ہر طاق پہ بیٹھی نہیں دیکھی جاتی
گھر کا ہر کونہ چمک اُٹھتا تھا تیرے دم سے
صحن میں اب جمی کائی نہیں دیکھی جاتی
موتیے سے تری خوشبو نہیں آتی ہے اب
اور مُرجھائی چنبیلی، نہیں دیکھی جاتی
گھر کی چوکھٹ بھی سُناتی ہے وچھوڑے کے دکھ
مجھ سے یہ ہجر کی ماری نہیں دیکھی جاتی
تیرے سینے سے لپٹ کر مجھے رونا ہے ماں
رنج سہتی میں اکیلی نہیں دیکھی جاتی
******
جستجوئے “میں” مکمل ہونے کو ہے
یوں صفر میں اب عدم حل ہونے کو ہے
میں ہتھیلی پر جزیرے دیکھتی ہوں
اب مری مشکل مسلسل ہونے کو ہے
جس کسی کی خواب گہ روشن ہے تجھ سے
اُس کی بھی آنکھوں میں جل تھل ہونے کو ہے
میری جانب کرنے والا ہے رُخ اپنا
یعنی خاص الخاص اک پل ہونے کو ہے
کہہ رہی ہے میرے اشکوں کی روانی
آج ہونا تھا جو، وہ کل ہونے کو ہے
پہلے جنگل کاٹ کر بستی بسائی
اب وہ بستی پھر سے جنگل ہونے کو ہے
رقصِ وحشت کب تلک جاری رہے گا
گُنگ دھرتی اب تو دلدل ہونے کو ہے
اک گھڑی بھر کا تماشا ہے یہ دنیا
کب بھلا اس کا تسلسل ہونے کو ہے
خواب میں، بانہوں کو کھولے ماں کھڑی تھی
کیا سفر میرا مکمل ہونے کو ہے؟
******
زندگی شاعری ہے بحث نہ کر
ُسخِن معنوی ہے بحث نہ کر
یوں غلط رنگ گفتگو کو نہ دے
بات احساس کی ہے، بحث نہ کر
سبز شاخوں سے جھانکتی خوشبو
روح کی دلکشی ہے، بحث نہ کر
گر ترے ساتھ ہے تو رحمت جان
دوستی قیمتی ہے، بحث نہ کر
شِب غم کی یہ راگنی ناہیؔد
ُتو سمجھ بانسری ہے، بحث نہ کر
******
کسی کو سوچنے سے سج گئے ہیں
چہار اطراف ُاجالے سچ گئے ہیں
کسی نے کیا محبت پینٹ کی ہے؟
در و دیوار سارے سج گئے ہیں
کسی کے دھیان میں کھوئی ہوئی تھی
سبھی مصرعے غزل کے سج گئے ہیں
یہ دیکھو، بند ُمٹھی کھولتے ہی
ہتھیلی پر بھی سپنے سج گئے ہیں
جہاں خواہش بھری آںکھیں رکھی تھیں
وہاں پر اب ُاجالے سج گئے ہیں
******
سوچ کراس کو مسکرا دینا
شاعری گر نہیں تو پھر کیا ہے؟
خامشی سے بھری ہوئی آنکھیں
گفتنی گر نہیں تو پھر کیا ہے؟
بے دھیانی میں بھی خیال ُاس کا
زندگی گر نہیں تو پھر کیا ہے؟
******
سونے کی تاروں سے کاڑھی، مخمل کی یہ شال مبارک
مجھ کو تیرے زیور گہنے، اور پوشاک بھی الل مبارک
ہنستی آںکھیں، روشن چہرہ، ِکھلتی رنگت، دھیمہ لہجہ
اپنے خال و خد میں مجھ کو تیرے خد و خال مبارک
میں تیرے رکھ رکھاؤ والی، میں تیری ُخو سبھاؤ والی
تیری ذات کی پرتوں جیسا مجھ کو میرا حال مبارک
دل ہی دل میں باتیں کرنا تیری ُچپ سے سیکھا میں نے
رمز بھری اس خاموشی کا، میٹھا سا، ُسر تال مبارک
صندوقوں کو کھول کے بیٹھی، مہکی جاؤں بہکی جاؤں
ُسّچے جذبوں والے سارے، کھیس، رضائی، تھال مبارک
ُچپکے ُچپکے میرے آنسو دل میں گرتے رہتے ہیں اب
سینت کے رّکھے تیرے دکھ سکھ اور بھیگا رومال مبارک
عینک اور چادر میں بالکل تیرے جیسی لگتی ہوں میں
تیرے جیسا مجھ کو اماں، ملبوِس خوش حال مبارک
******
ماخذ
ناہید ورک کی فیس بک وال سے
******
یادوں کی منڈیروں سے جھانکتے ہوئے لمحے
اوڑھ کر ترا چہرہ بولتے ہوئے لمحے
کرتے رہتے ہیں اکثر مجھ سے گفتگو تیری
سوئی سوئی آنکھوں میں جاگتے ہوئے لمحے
ہجر کے جزیرے پر اب بھی سانس لیتے ہیں
تیرے وصل کا اِمکاں سوچتے ہوئے لمحے
ایک عمر تو مَیں نے یہ سنبھال کر رکّھے
پھر بکھر گئے مجھ سے ٹوٹتے ہوئے لمحے
کِرچی کِرچی یہ تیرا عکس چُنتے رہتے ہیں
لمحہ لمحہ یہ تجھ کو ڈھونڈتے ہوئے لمحے
کتنی خواہشیں دل میں پلتی ہیں مگر ناہیدؔ
ہاتھ ہی نہیں آتے بھاگتے ہوئے لمحے
ماخذ
شعری مجموعہ: گیلی چپ،ناہید ورک
******
آنکھوں میں پھیلے ہوئے ہیں جو نمی کے دائرے
سب ہیں تیری آرزو، تیری کمی کے دائرے
بھولنے کا اُس کو جب بھی مَیں ارادہ کرتی ہوں
بولنے لگتے ہیں مجھ میں بے بسی کے دائرے
اِک نمی آواز میں ہے اِک نمی پلکوں پہ ہے
اور اس میں تیرتے ہیں خامشی کے دائرے
بس مرے احساس کی دیوار گرتی ہی نہیں
ویسے تو ہر شے سے جھانکیں خستگی کے دائرے
مَیں رفاقت کی کہانی گر لکھوں تو کیا لکھوں
خامشی کے دائرے یا تیرگی کے دائرے
مُدّتوں کے بعد کی خوشبو نے مجھ سے گفتگو
مُدّتوں کے بعد مہکے زندگی کے دائرے
ماخذ
شعری مجموعہ: گیلی چپ،ناہید ورک
******
انتخاب کلام
تو میرا وقت کھا گیا سارا
میرا تجھ سے حساب بنتا ہے
***
زندگی کی بشارت ہے ناہید یہ
اس پہ ایمان لا،کر یقیں،عشق ہے
***
میرے خوابوں کی خیر ہو یا رب
میری آنکھوں کے یہ خزانے ہیں
***
تیری راہ میں رکھ کر اپنی شام کی آہٹ
دم بخود سی بیٹھی ہے میرے بام کی آہٹ
***
کیوں ٹھہر گئی دل میں اس قیام کی آہٹ
کیوں گزر نہیں جاتی اس مقام کی آہٹ
***
تیرے ہونے کا اعلان کرتی ہوئی
مجھ میں یہ خوشبوئے صندلیں عشق ہے
***
روح تک جس سے مہکی ہوئی ہے میری
اور وہ کچھ نہیں ،کچھ نہیں،عشق ہے
***
چاند جیسی چمکتی جبیں،عشق ہے
دل مکاں میں،ازل سے مکیں عشق ہے
***
اب کہاں اس کی ضرورت ہے ہمیں
اب اکیلے پن کی عادت ہے ہمیں
***
بول کیسے تجھے معافی دوں
تو ہمیشہ ہی بے وفا رہے گا
***
ایک پودے کی آبیاری کی
اور سمجھی سدا ہرا رہے گا
***
درد ہونٹوں میں جو دبا رہے گا
ہجر کا ذائقہ بنا رہےگا
***
میں تیرے خواب سے باہر نکل چکی ہوں تو پھر
یہ جا بجا تیری یادوں کے قافلے کیوں ہیں
***
میں سجدہ ریز بھی ہوں اور اشک بار بھی ہوں
کہ جانتا ہے تو،ہیں تجھ سے حاجتیں کیسی
***
منا لو اس کو وہ رب کریم ہے ناہید
وہی نہ راضی ہوا تو عبادتیں کیسی
***
میری ُچپ کا ترے تکُلم سے
جسم اور جان کا تعلق ہے
***
تمہارے کیا ہم غلام ہیں جو کہو وہ کر لیں
وہ ہر زمینی خدا کو للکارتا رہا ہے
***
تیرا ہونا بھی ضروری نہیں ہے زندگی میں
اور ایسا بھی نہیں تیری ضرورت نہیں ہے
***
میرے حصّے کی محبت اور کسی کو مِل رہی ہے
اس ذرا سی بات پر نم کر لوں آنکھیں؟ مت کیا کر
***
کسی کو باعثِ تسکین ہے یہ پتھر بھی
تُو اس کے لمس کے مرہم کو سارے زخم دکھا
***
ماخذ
ناہید ورک کی فیس بک وال سے