You are currently viewing اسکینڈی نیویا میں اردو زبان و ادب

اسکینڈی نیویا میں اردو زبان و ادب

اسکینڈی نیویا میں اردو زبان و ادب

محمد رکن الدین

ڈائرکٹر ورلڈ اردو ایسوسی ایشن

         اردو کی نئی بستیوں میں اسکینڈی نیویا کے متعدد علاقے شامل ہیں جن میں سوئڈن، ڈنمارک اور ناروے قابل ذکر ہیں۔ ان ممالک میں اردو زبان وادب کی صورت حال بہت بہتر ہے۔ گو کہ اردو زبان وادب کے لکھاری برصغیرکے مصنفین ہی ہیں لیکن کچھ ادارے ایسے بھی ہیں جہاں اردو زبان کی تعلیم کا باضابطہ انتظام ہے۔اس سلسلے کی ایک اہم کڑی ’اوسلو یونیورسٹی، ناروے‘ ہے۔ اوسلو یونیورسٹی کے شعبۂ مشرقی علوم میں اردو زبان بھی عربی، فارسی، ہندی اور سنسکرت کے ساتھ پڑھائی جاتی ہے، مگر اس شعبے کے استاد برصغیر کے بجائے ’ناروے‘ ہی سے تعلق رکھتے ہیں۔اس طرح یہ شعبہ اردو زبان کے طلبہ و طالبات کے ساتھ اپنے لیے استاد بھی منتخب کرنے کا کام کرر ہا ہے۔آج کل مشرقی علوم کے شعبے سے پروفیسر فن میتھس اور کنوت کرسچیا نسن وابستہ ہیں۔

         فن میتھیس: ناروے کی اسلو یونیورسٹی میں اردو زبان وادب کے استاد ہیں۔اردو روانی سے بولتے ہیں اور اردو آسانی سے لکھ لیتے ہیں۔فن میتھیس نسلاً ڈینش ہیں مگر اردو سمیت کئی مشرقی زبانوں پر عبور رکھتے ہیں۔فن میتھیس نے احمد فراز اور جمیل عالی کی شاعری کے نارویجن زبان میں خوب صورت تراجم کیے ہیں۔

         کنوت کرسچیانسن: کنوت بھی نارویجن طلبہ کو اردو پڑھاتے ہیں۔ اردو زبان وادب سے انہیں دلی لگاؤ ہے۔ انہوں نے ناروے میں اردو کے فروغ کے لیے گراں قدر تدریسی خدمات انجام دی ہیں۔ کنوت کرسچیانسن نے اردو سے نارویجن زبان میں تراجم کے قابل قدر کام کیے ہیں۔ان کے کاموں میں ’فیض احمد فیض‘ کے تراجم کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا ہے۔

         ناروے کی فہرست میں یہ دو شخصیات اردو تدریس کے حوالے سے اہم مقام رکھتی ہیں اور ہری چرن چاولہ تخلیق کار کی حیثیت سے ناروے کی نمائندگی کرتے رہے۔ان کی تصنیفات میں ’عکس اور آئینے، دل داغ اور دنیا، ریت، سمندر اور جھاگ، آتے جاتے موسموں کا سچ، البم(ہری چرن چاولہ کے افسانے)‘ افسانوں کے علاوہ ناول کی فہرست کچھ اس طرح ہے:’درندے(المیہ تقسیم پر)، چراغ کے زخم(ہندوستان اور ناروے کے پس منظر میں)، بھٹکے ہوئے لوگ، دوہری ہجرت کی داستان‘ وغیرہ کے علاوہ بچوں کے لیے کہانیاں اور متعدد تصانیف تراجم کی شکل میں آپ کی یادگار ہیں۔

         سویڈن یورپ کا ایک اہم ملک ہے جس کی آبادی تقریباً ایک کروڑ نفوس پر مشتمل ہے۔ ایک کروڑ میں سے تقریباً 25فیصد آبادی برصغیرکے متعدد ممالک کے مہاجرین پر مشتمل ہے۔ اس ملک کی مادری زبان سویڈش ہے۔یہاں پانچ زبانوں کواقلیتی زبان کا درجہ حاصل ہے، جن میں سامی، فنش، مکلی، یدیش اور رونامی زبانیں شامل ہیں۔ البتہ غیر دفتری زبانوں میں اردو زبان کو اولیت حاصل ہے۔

         سویڈن میں موجود اردو کے لکھاریوں میں عارف محمود کسانہ،جمیل احسن،سائیں سچا اورپرویز پروازی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔عارف محمود کسانہ کی اب تک تین کتا بیں ’افکارِ تازہ،(بچوں کے لیے اسلامی معلومات پر مبنی) سبق آموز کہانیاں اور سبق آموز کہانیاں 2‘شائع ہوچکی ہیں۔ جمیل احسن جدید لب و لہجے کے معتبر شاعر ہیں۔ان کے اب تک پانچ شعری مجموعے’آسودگی،تشنہ مچھلی پانی میں، روح کا سمندر،لفظ پر رکھتے ہیں اور ہجرتوں کا سفر‘شائع ہوچکے ہیں۔ سائیں سچا نے سویڈن میں اردو اور سویڈش زبانوں میں تراجم پر بہت اہم کام کیا ہے۔ان کے تراجم کا خاصہ فیض اور فراز کی تخلیقات ہیں۔جو انھوں نے سویڈش زبان کے قالب میں ڈھال کر سویڈن میں فیض اور احمد فراز کو متعارف کرانے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ ان کے تراجم کی تعداد کچھ اس طرح ہیںManniskans Anrop ،(احمد فراز کی شاعری کا سویڈش ترجمہ)، Inte Ensam،(فیض احمد کی شاعری کا سویڈش ترجمہ) Sorcery(ساحر لدھیانوی کی شاعری کا انگریزی ترجمہ) Reklektion،(سویڈش زبان میں اپنے پندرہ افسانوں کا ترجمہ کیا) ان کے علاوہ انگریزی اور سویڈش میں متعدد افسانے اور ناول کے تراجم شامل ہیں۔سویڈن کے قلم کاروں میں تصانیف کے اعتبار سے سائیں سچا ایک کثیر التصانیف شخص ہیں، کیا ہی اچھا ہوتااگر ان کے قلمی رشحات ہمیں بھی دستیاب ہوپاتے تو کم از کم اسکینڈی نیویا کی فہرست سازی میں بہت آسانی ہوجاتی۔ڈاکٹر پرویز پروازی کی تصانیف میں ’سورج کے ساتھ ساتھ(جاپان کاسفر نامہ)،آکی مے(ناول، جو ہیرو شیما کی تباہی کے پس منظر میں لکھا گیا ہے، اس ناول کا جاپانی زبان میں بھی ترجمہ ہوا ہے)،خوب صورت جاپان اور میں (جاپانی ناول نگار کاوا باتا یاسو ناری کے نوبل لکچرکا ترجمہ) وغیرہ شامل ہیں۔

         اسکینڈی نیویا کا ایک اہم ملک ڈنمارک ہے۔ ڈنمارک میں اردو زبان کی شمع کس نے جلائی؟یہ کہنا مشکل ہے البتہ سب سے پہلے ڈنمارک میں شعری محفل کی بنیاد اقبال اختر نے رکھی۔ اقبال اختر نے ڈنمارک کی فضا کو اردو غزل کے آہنگ سے معطر کرتے ہوئے تخلیق کاروں کی رہنمائی بھی کی، آج ڈنمارک اور خصوصاً کوپن ہیگن میں اردو زبان کی کہکشاں میں اقبال اختر کا نام سب سے اوپر ہے۔ ڈنمارک میں موجود شعرا میں اقبال اختر، فواد کرامت، کامران اقبال اعظم، ابو طالب، صفدر علی آغااور صدف مرزا وغیرہ قابل ذکر ہیں جب کہ ادیبوں میں جناب نصر ملک سر فہرست ہیں جن کے تراجم اردو اور ڈینش کے درمیان ایک پل کا کام کر رہے ہیں۔ ان کی تصانیف میں ’طلسم شب(اسکینڈی نیویائی کہانیوں کا اردو میں پہلی بار ترجمہ)،دیوتاؤں کا زوال، قطب شمالی کی اساطیر(اردو زبان میں ترجمہ کیا گیا پہلا ڈینش ناول)،جدیدیت کے پجاری(ڈٖینش عصر ی کہانیاں)، آدھی صدی کے بعد (ڈاکٹر وزیر آغا، ڈینش زبان میں ترجمہ کی گئی اردو کی پہلی کتاب)،بانس کریسٹین آنڈرسن کی طلسماتی کہانیاں (ڈینش زبان سے براہِ راست پہلی بار اردو میں ترجمہ)، فیض احمد فیض کی منتخب نظمیں (پہلی بار ڈینش میں ترجمے)، اپنی لاڈلی ڈینش بچی کے نام مہاتما گاندھی کے محبت نامے‘ اور ’ڈینش اردو لغت‘وغیرہ نصر ملک کی تحقیقی و تنقیدی کاوشیں ہیں جو ان کی خداداد صلاحیتوں کی گواہ ہیں۔

Leave a Reply