مہجری ادیبوں کی تخلیقی سرگرمیاں
محمد رکن الدین
برصغیرہندوپاک اوربنگلہ دیش کے علاوہ اردوجہاںجہاں بولی اورسمجھی جاتی ہے، ان ممالک کو اردوکی نئی بستیوں سے موسوم کیا جاتاہے۔برصغیر کے مختلف علاقوں میں اردو کی قدیم بستیاں سیکڑوں برس سے موجودہیں۔ یہاں کے باشندے تلاش معاش کے لیے نقل مکانی کے عمل سے دوچار ہوتے رہے ہیں۔ یہی نقل مکانی ان نئی بستیوں کی موجد ہیں جہاں وہ اپنی زبان و تہذیب کے ساتھ آباد ہوتے گیے۔ اردوزبان کی یہ خوش قسمتی ہے کہ ان بستیوں میں آباد لوگوں نے ابلاغ و ترسیل کے علاوہ اپنی تہذیب کو زندہ رکھنے کے لیے اپنی مادری یا علاقائی زبان کا استعمال کیا۔چناں چہ ان ممالک میں اردوکی نئی بستیاں آباد ہوگئیں۔مختلف ملکوں میں اردوکی نئی بستیاں توانااور مستحکم بن کر ابھر رہی ہیںاور ان ممالک کے لوگوں کو بھی اپنی جانب متوجہ کر رہی ہے جو کہ ایک خوش آئند اور اردوکی تابناک مستقبل کی ضامن ہے۔
اردوکی نئی بستیوں میں شعری اصناف کے بعد جن اصناف پر سب سے زیادہ خامہ فرسائی ہوئی وہ فکشن ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ چند دہائیوںسے افسانہ نگاروں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔ برطانیہ، جرمنی، ناروے، سوئیڈن، ڈنمارک، امریکہ، کینڈا، آسٹریلیا،ماریشس، مصر، ترکی، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین، عمان اورکویت میں اردوفکشن باضابطہ طور پر نہ صرف تخلیق کیے جارہے ہیں بلکہ ان کی ادبی حیثیت بھی دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ ایران، جاپان، ترکی، سوئزرلینڈ، چین، ازبکستان، آذربائیجان، انڈونیشیا، بلجیم وغیرہ کی دانش گاہوں میں اردو زبان وادب کی تعلیم دی جاتی ہے اور تصنیف و تراجم کے ذریعے اردو پر کام ہورہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان بستیوں میں موجود اردو حلقوں تک رسائی کے لیے برصغیر کے اردو دانشور فراخ دلی کا مظاہرہ کریں۔ مجھے یہ لکھنے میں کوئی تامل نہیں ہے کہ دیار غیر کا نام سنتے ہی ہند و پاک کے چند اسکالرروں کو پریشانی ہوجاتی ہے کہ آخر ان بستیوں میں تخلیق ہورہے ادبی فن پاروں کو کیوں اتنی اہمیت دی جائے۔ ایک صاحب کسی موقع پر راقم سے مہجری افسانے پر بات کرتے ہوئے کافی غصہ ہو رہے تھے کہ ’’ وہاں موجود افسانہ نگار صرف ہجرت پر گھڑیالی آنسو بہاتے ہیں، ہجرت کے علاوہ ان کے پاس لکھنے کو کچھ نہیں ہے‘‘۔ یہ ذہنیت ہندوستان میںموجود اردو اسکالر کی ہے۔ ابتدائی زمانوں سے ہی اردو فکشن کے موضوعات کسی نہ کسی واقعات و حادثات کی کہانی سے متعلق رہے ہیں۔ کبھی تعلیم نسواں، کبھی معاشرے میں صنف نازک کی موجودگی صرف تفنن طبع ، کبھی مسلم معاشرے کی خرابی، کبھی ہندوستانی معاشرے میں رائج بھید بھاؤ، کبھی سیاسی جبرو تشدد، کبھی غریب اورکسانوں کے استحصال، کبھی فسادات، کبھی تقسیم ہند وپاک ، کبھی ایمرجنسی تو کبھی ہجومی تشدد۔ بھلا اردو کی نئی بستیوں میں تخلیق شدہ افسانوں کے موضوعات پر ہی یہ سوال کیوں؟ ہمیں خود سے قائم کردہ فرسودہ نظریات، تعصبات اور اس حصار کو توڑنے کی ضرورت ہے جس میں ایک انسان ، دوسرے انسان کو محدود اور مجروح کرنے پر لگا ہوا ہے۔زبان واد ب سماج اور سرحدکے مابین پل ہے جسے گرا نا راستوں کو مسدود کرنا ہے ۔اردو کی نئی بستیوں میں اردو زبان وادب کے حوالے سے ہورہے کام قابل ستائش ہیں۔ ایک خاص طرح کی نظریات کے حامل افراد کی وجہ سے ان کے کارنامے کو سرد بستے میں ڈالنا انصاف پسند ادیب کے لیے کسی بھی صورت میں مناسب نہیں۔ ان ممالک میں مقیم زیادہ ترلوگوں کا ذریعۂ معاش اردونہیں ہے۔ بلکہ وہ ڈاکٹر، انجینئر، کاروباری اور دیگر پیشے سے وابستہ ہیں لیکن مادری زبان سے محبت ، لگاؤ اور ایک تہذیبی تعلق نے دیار غیر میں بھی ایک بستی آباد کردیا ہے۔ ان ممالک میں لوگ اردوزبان میں اپنی تخلیقات پیش کررہے ہیں۔ بے شمار ادبا و شعرا ہمیشہ اخبارات،رسائل اور کتابوں کی شکل میں ہمیں اردو زبان وادب کا گلدستہ پیش کرتے رہتے ہیں جو کہ اردو کی مقبولیت اور توانائی کی دلیل ہے۔