محمد رکن الدین
ڈاکٹر خواجہ محمد اکرام الدین سینٹر آف انڈین لینگویجز، اسکول آف لینگویج، لٹریچر اینڈ کلچر اسٹڈیز، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں اردو کے پروفیسر ہیں۔ اردو زبان و ادب کی خدما ت کے حوالے سے وہ بین الاقوامی شہرت کے حامل ہیں۔تقریباً 23کتابوں کے مصنف / مرتب ہیں ۔ ان کی چند کتابوں کے کئی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ان کی متعدد کتابیں ہندستان اور بیرون ممالک یونیورسٹیز میں شامل نصاب ہیں۔ پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین کوان کی علمی و ادبی کارکردگی کے عوض کئی ملکی اور بین الاقوامی اعزازات و انعامات مل چکے ہیں۔جن میں جاپان، ڈنمارک، جرمنی اور ترکی کے علاوہ ہندستان کے مختلف علمی وادبی اداروں کے نام شامل ہیں۔
’’مشاہدات‘‘پروفیسر خواجہ محمد اکر ام الدین کی تازہ تصنیف سفرنامہ ہے۔ یہ سفرنامہ’ براؤن بک پبلی کیشنز ، نئی دہلی ‘ نے شائع کیا ہے۔اس سفرنامہ میں’’پاکستان کتنا دور کتنا پاس،قسطنطنیہ کی حسین وادیاں،جاپان کا یادگار سفر،امریکہ نامہ،حافظ وسعدی کے ملک میں،یوروپ کے اسفار کی ناقابل فراموش یادیں،جنت نظیر جزیرۂ موریشس،مصر سرزمین انبیاء واولیاء،یوروپ ادبی قافلہ،ہرات شہر اولیا اور امام بخاری کے ملک میں چند روز‘‘شامل ہیں۔سفرنامہ کاانتساب ’’دیار غیر میں اردو کی شمع روشن کرنے والوں کے نام‘‘ کیا گیا ہے۔پروفیسر خواجہ اکرام ایک جہاں دیدہ شخصیت کا نام ہے۔ اردو زبان وادب کی تدریس اور فروغ و استحکام کے لیے مختلف ممالک کا اسفار کرتے رہتے ہیں۔ ’’مشاہدات‘‘ کی تحریک بھی اسی علمی، ادبی، تہذیبی اور ثقافتی دورے کی وجہ سے ملی۔اردو زبان کی یہ خوش قسمتی ہے کہ اس زبان میں مہجری ادب معتدبہ تعداد میں موجود ہے۔ پروفیسر خواجہ اکرام اردو کے مہجری سرمائے کے لیے عملی طور پر کام کررہے ہیں۔ دیار غیر کی درسگاہوں میں اردو زبان وادب کی تدریس اور مہجری ادبا و شعرا سے باہمی تعاون کے لیے ہمیشہ متحرک رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ’’مشاہدات‘‘ میں صرف سفری روداد ہی نہیںبلکہ ان ممالک کی تہذیبی، تاریخی، علمی اور ادبی صورت حال سے بہت حد تک واقفیت ہوتی ہے۔ جدید و قدیم روایات کے حامل ’’مشاہدات‘‘ میں یورپ، امریکہ، افریقہ اور وسط ایشیائی ممالک کے بہت سارے اہم مشاہدات و تجربات روپوش ہیں جو ایک سفرنامہ نگار ہی بیان کرسکتا ہے۔ یوروپ کے چھوٹے چھوٹے ممالک کا ذکر کسی جادونگری سے کم نہیں معلوم ہوتا کہ کیسے انسان نے خود کو مشینوں کا غلام بنادیا ہے۔ یورپ وامریکہ کی تہذیبی اور تمدنی زندگی کی بھی بہترین عکاسی اس سفرنامے کی سب سے اہم خصوصیات ہیں۔ مصر کی علمی اور ادبی درسگاہیں، قرآنی آیات کی روشنی میں مصر کی تاریخی مقامات کاذکر، ماریشس کے جزیروں کی دلفریباں، ازبکستان کی سرسبز وادیوں کے احوال و کوائف، صحاح ستہ کے اہم مصنف امام بخاری کی تربت پر حاضری، ایران کی داستان، جاپان کی ترقی کاراز ’’مشاہدات‘‘ میں موجود ہے جس کا مطالعہ یقیناً معلومات میں اضافے کا باعث تو ہے ہی ساتھ ہی مذکورہ ممالک کی سیر کے لیے ایک بہترین تحفہ بھی ہے جو تجربات کے ساتھ بے شمار آسانیاں فراہم کرنے میں اہم معاون ہے۔ امید ہے کہ دیار غیر میں اردو کی ترویج واشاعت اور جدید آلات سے لیس ممالک کو سمجھنے میں پروفیسرخواجہ اکرام کا یہ سفر نامہ عہد حاضر میں سب سے منفرد اور جداگا نہ ثابت ہوگا۔
پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’’مشاہدات‘ میرے ان غیر ملکی اسفار کا مجموعہ ہے جسے میں نے ہر سفر کے اختتام پر لکھا جو مختلف جرائد و رسائل اور اخبارات میں شائع بھی ہوئے۔ میرے ویب سائٹ پر بھی یہ سفر نامے موجود ہیں۔ اب ان سفر ناموں کو ایک مجموعے کی شکل میں قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔الحمد اللہ دنیا کے بڑے ممالک کا سفر اردو زبان و ادب کے حوالے سے ہوا۔اس لیے ان سفر ناموں میں ان ممالک کی تہذیبی و ثقافتی زندگی کے علاوہ ان ممالک میں اردو کی صورت حال کا خصوصی ذکر ہے۔‘‘۔(مشاہدات، پیش لفظ)
مزید لکھتے ہیں:
’’اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ میں اردو زبان کی تدریس سے وابستہ ہوں اور اسی حوالے سے میرے سفر ہوئے۔ان اسفار کے دوران مجھے اندازہ ہوا کہ اردو زبان کی مقبولیت کیا ہے اور اردو زبان نے تہذیبی طور پر کتنے ممالک کا سفر کیا ہے۔بعض ممالک ایسے ہیں جہاں اسکول کی سطح سے یونیورسٹی کی سطح تک اردو پڑھائی جاتی ہے اور اکثر ممالک ایسے ہیں جہاں بی۔اے کی سطح سے پی۔ایچ۔ ڈی کی سطح تک کی تعلیم ہوتی ہے۔ یہ ہم اردو والوں کے لیے فال نیک ہے کہ اردو کی تعلیم وتدریس دنیا کے کئی ممالک میں ہورہی ہے۔ کچھ ممالک ایسے ہیں جن کے بارے میں لوگ بہت کم جانتے ہیں۔ وہاں کے احباب کی بھی برصغیر میں آمد و رفت بہت کم ہے۔ اس لیے بہت سے لوگوں کو ہم جانتے تک نہیں۔ حالانکہ ان کی خدمات ایسی ہیں کہ نہ صرف ان کا اعتراف کیا جانا چاہیے بلکہ ان کی حوصلہ افزائی بھی ہونی چاہیے۔ میں نے محسوس کیا کہ ربط و اشتراک اور باہمی تعاون سے ہی ہم اپنی زبان اور تہذیب کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔ ان اسفار کے بعد جن اردو کے اساتذہ اور طلبہ و طالبات سے میری ملاقاتیں ہوئیں وہ وقتی ملاقات نہیں رہیں بلکہ آج بھی ان سے رابطے ہیں اور باہمی تعاون کا سلسلہ جاری ساری ہے۔
ان ممالک کے احباب سے مل کر اندازہ ہواکہ کوئی ایسا پلیٹ فارم ہونا چاہیے جس کے ذریعے ہم ایک دوسرے کو جان سکیںاور علمی تعاون پیش کر سکیں۔ اسی مقصد سے اپنے اسکالرس کے ساتھ مل کر ’’ ورلڈ اردو ایسوسی ایشن ‘‘ نامی تنظیم بنائی تاکہ دور دراز ممالک میں بیٹھے احباب جو اردو کی خدمت کر رہے ہیں ، ان سے باہمی تعاون ممکن ہوسکے۔ سچائی یہ ہے کہ موجود ہ عہد میں کسی بھی زبان کے ثروت مند ہونے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ اس میں مہجری ادب کا معیار و منہاج کیا ہے۔ ہمیں ان مہجری ادیبوں کا شکریہ ادا کرنا چاہیے جو دیار غیر میں رہ کر بھی اپنی تہذیب ا ور زبان سے وابستہ اور منسلک ہیں اور اردو ادب کے سرمائے میں بیش قیمت اضافہ کررہے ہیں۔ ان سفرناموں میں ان تمام احباب کی خدمات کا بھی اجمالاً ذکر درا صل ان کی خدمات کا اعتراف بھی ہے۔‘‘(مشاہدات، پیش لفظ)
’’مشاہدات‘‘ کا عملی نمونہ ’’ورلڈ اردو ایسوسی ایشن کا قیام ہے۔پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین ورلڈ اردو ایسو سی ایشن کے چئیر مین ہیں جو ایک غیر سرکاری خود مختار ادارہ ہے۔اس ادارے کا مقصد دنیا کے مختلف گوشوں میں موجود اردو کے اساتذہ /ادیبوں / شاعروں/ فکشن نگاروں/صحافیوں/ طلبہ وطالبات اور قلم کاروں سے رابطہ و اشتراک اور باہمی تعاون، نئی نسل کے ادیبوں اور قلم کارو ں کی حوصلہ افزائی،اردو تدریس کے فروغ کے لیے ممکنہ وسائل کی فراہمی کی کوشش،اردو کے مہجری ادیبوں کی کتابوں کی اشاعت،اردو کی نئی کتابوں پرتبصرے اور اس کی رسائی کے امکانات کی تلاش اور مہجری ادیبوں پر مبنی انسائیکلو پیڈیا کی تیاری ہے۔پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین ’مشاہدات ‘ کی وجہ تصنیف پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’میں نے اس کے علاوہ اپنے ملک کے کئی شہروں کے سفر نامے بھی لکھے ہیں۔ لیکن وہ اس میں شامل نہیں ہیں کیونکہ وہ خالصتاً تفریحی نوعیت کے سفر تھے۔ اسی طرح حرمین شریفین کی زیارت کا شرف بھی اللہ نے عطا کیا جو صرف زیارت کے مقصد سے تھا۔ اس سفر میں میری پوری فیملی ساتھ تھی اور چالیس دن کا قیام مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں رہا۔ مگر آج تک اس کا سفر نامہ نہیں لکھ سکا۔ اس متبرک سرزمین کے کن پہلوؤں پر کیا لکھوں ؟ یہ آج تک سمجھ نہیں سکا۔ کئی بار کچھ لکھا بھی لیکن مکمل نہیں کرسکا کیونکہ یہ مقدس سرزمین عبادت و عقیدت کی سرزمین ہے اور اس کی زیارت دنیا میں سب سے بڑی زیارت ہے۔ اللہ نے ہمیں آنکھیں دی ہیں اور ان آنکھوں نے اگر مکہ و مدینہ کا دیدار کر لیا تو اس سے بڑھ کر اور کوئی نعمت نہیں۔اب اس کو ضبط تحریر میں لانا میرے بس کا نہیں اس لیے یہ اس متبرک سفر کی کوئی روداد اس میں شامل نہیں۔ان سفرناموں کو کئی بار سوچا کہ کتابی صورت دے دوں مگر تنگیٔ وقت کے سبب ممکن نہیں ہوسکا۔ عالمی سطح پر جس وبائی مرض کے سبب پوری دنیا قرنطینہ میں محصور ہے۔ ایسے میں آن لائن تدریس کے بعد جو وقت بچا ، ان فرصت کے لمحات میں یہ کتاب مکمل ہوسکی۔‘‘(مشاہدات، پیش لفظ)
کرونا وائرس نے جس طرح پوری دنیا کو گھروں میں مقید کررکھا ہے، اس کے منفی اثرات تو بے شمار ہیں تاہم مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ اس طرح کی دل چسپ تحریریں لگاتار سامنے آرہی ہیں۔مشاہدات میں درج معلومات بہت دل چسپ ہیں ۔ یہاں چند ممالک کے اسفار پر مشتمل کچھ اقتباسات درج کیے جاتے ہیں ۔ جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مشاہدات کس قدر دل چسپ اور معلوماتی سفر نامہ ہے۔ایک اقتباس’ پاکستان کتنا دور کتنا پاس‘سے ملاحظہ کریں:
’’شام ہوتے ہی ہم پشاور کے تاریخی شہر میں موجود تھے۔بچپن میں ہم نے کئی کہانیاں پڑھی تھیں جو پشاور اور سرحد کے علاقوں سے متعلق تھیں۔ اس لیے اس شہر کو دیکھنے کا زیادہ اشتیاق تھا۔یو ں بھی صوبہ سرحد تاریخی اعتبار سے برصغیر میں کافی اہمیت کا حامل ہے۔اس لیے ہمارا پروگرام یہ تھا کہ صبح کوشہر کے گرد ونواح میں بھی جائیں گے۔مگر حالات کی نزاکتوں کے سبب نہ ہم جاسکے اور نہ ہمیں جانے دیا گیا۔ صبح ہوتے ہی ڈاکٹر درانی ہمارے گیسٹ ہاؤس میں موجود تھے۔ ان کے ہمراہ ہم لوگ پشاوریونیورسٹی کے وسیع و عریض علاقے کو دیکھنے نکل پڑے۔ انتہائی خوبصورت عمارتیں اور باغات کے درمیان ہاسٹلس اور ہر جانب ہرے بھرے میدان ۔قدیم طرز کی تعلیمی عمارتیں اور صفائی کا خاص اہتمام دیکھ کر ہم لوگ بہت متاثر ہوئے۔سب سے پہلے آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ گئے اورشعبے کے ڈین سے ملاقات ہوئی ان کی ضیافت کے بعد جب ہمیں رخصت ملی تو شعبے کے کلاس روم دیکھنے کا موقع ملا۔ خوشی ہوئی تمام کلاس روم میں ہر طرح کی جدید تکنالوجی موجود ہے۔اس کے بعد پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر عظمت حیات خان صاحب سے ملاقات ہوئی۔انتہائی خنداں پیشانی سے انھوں نے ہمارا استقبال کیا اور پْر تکلف قہوے کے بعد اپنی بیش قیمت کتابیں پیش کیں اور شام کی چائے کے لیے گھر پر مدعو کیا۔ حالانکہ وقت کم تھا مگر پٹھانوں کی مہمان نوازی کے ڈر سے لا محالہ جانا ہی پڑا۔ چونکہ دن بھر ہم لوگ ادھر ادھر گھومتے رہے اس لیے دوپہر کا کھانا نہیں کھایا تھا۔ شام چار بجے شاید ان کے گھر پہنچے۔شاندار روایتی طرز کی کوٹھی ، وسیع دالان اور درون خانہ باغ جو مختلف طرح کے پھولوں سے سجا ہوا تھا۔ گھر کے مین دروازے پر دستک دیتے ہی کئی خادم دوڑے ہوئے آئے اور دروازہ بڑے احترام سے کھولا۔ روایتی انداز میں ہمارا استقبال کیا۔شام سہانی تھی اس لیے صحن میں ہمارے بیٹھنے کے لیے سلیقے سے میز ، کرسیاں لگائی گئی تھیں۔ مکان دیکھ کر اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ کسی جاگیردار یا رئیس کا روایتی مکان ہے۔ کچھ ہی دیر میں اندر سے عظمت صاحب تشریف لائے ۔ والہانہ استقبال کیا۔ گفتگو شروع ہوئی ہم لوگوں نے پشاور شہر نہ دیکھ پانے کا گلہ کیا۔ انھو ں نے حالات کی ستم ظریفی بتائی۔ اتنے میں کئی خادم طشت پر کئی اقسام کے شربت لے کے آئے۔ ہم نے تازے پھلوں کے شربت سے خود کو ترو تازہ کیا۔ اتنے میں دسترخوان سمیٹ دیا گیا۔ مجھے حیرت بھی ہوئی۔ لیکن فوراً بعد دوسرا دسترخوان لگا اور اب کئی طرح کے تازے پھل ہمارے لیے پیش کیے گئے۔ پھل واقعی میٹھے تھے اور ہمیں بھوک بھی لگی تھی اس لیے خوب سیر ہوکر ہم نے کھایا۔ اس کے بعد وہی عمل دہرایا گیا۔ دسترخوان سے سارے سامان اٹھا لیے گئے۔ کچھ ہی دیر میں اب طرح طرح کے پکوڑے سامنے تھے۔ پھلوں سے سیر ہوچکے تھے اس لیے زیادہ پکوڑے نہیں کھائے گئے۔ خیر صاحب ہم لوگوں کو کسی نے یہاں کی روایا ت کے بارے میں بتایا نہیں تھا اس لیے لاعلمی میں اپنا پیٹ بھر چکے تھے۔ اب کیادیکھتے ہیں کہ خادم کئی اقسام کے کباب دسترخوان پر سجا رہے تھے۔ خوشبو اس کے ذائقے کی گو۱ہی دے رہے تھے اور ہم نادانی کر چکے تھے۔ کھانے کی جگہ باقی نہیں تھی مگر صاحب جس اخلاص اور اصرار سے عظمت صاحب پیش آئے کہ کچھ نہ کچھ کھانا ہی پڑا۔ پہلی دفعہ چپلی کباب کا نام سنا۔ حیرت ہوئی کہ کباب کو چپل سے کیا نسبت ،لیکن جب اس کا سائز دیکھا تو اس کے نام کی مناسبت سمجھ میں آئی۔ مگر کبابوں کے ساتھ انصاف نہ کرنے کا ملال آج تک ہے۔ چائے اور قہوہ کے بعد انھوں نے بڑی محبت اور حسرت سے ہمیں رخصت کیا اور دوبارہ پشاور آنے کی دعوت دی۔‘‘(مشاہدات24-25)
سفرنامہ نگار نے پوری کتاب میں قاری کے لیے معلومات کا خزانہ چھپا رکھا ہے۔ ’پاکستان کتنا دور کتنا پاس ‘کا عنوان تو غیر معمولی ہے ہی ساتھ ہی ایک ملک سے دوسرے ملک کی ہجرت کا کرب بھی اس سفرنامہ میں جابجا دیکھنے کو مل جاتا ہے۔’قسطنطنیہ کی حسین وادیاں اور اس کی تاریخی وتہذیبی وراثتیں‘ قسطنطنیہ کا نام اب استنبول ہے۔
تربتِ ایوب انصاری سے آتی ہے صدا
اے مسلماں!ملت اسلام کا دل ہے یہ شہر
اس تاریخی اور غیرمعمولی اہمیت کا شہر یعنی استنبول کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین لکھتے ہیں:
’’قسطنطنیہ جسے استنبول کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دنیا کے چند بڑے شہروں میں اس کا شمار ہے۔اسے مسجدوں کا شہربھی کہاجاتاہے کیونکہ ہرجگہ کچھ ہی فاصلے پرشاندار مسجدیں ہیں۔ مسجدوں کی اتنی تعداد کے بعد بھی کوئی مسجد نمازیوں سے خالی نہیں رہتی۔ان مساجد کا طرز تعمیر بھی بالکل مختلف ہے۔ اس طرح کی مسجدیں ہم نے پہلی بار دیکھیں۔ان تمام مساجد کا آرکی ٹیکٹ ایک جیسا ہے۔ ایک بڑا گنبد اور اس کے ارد گرد متعدد چھوٹے گنبد۔ یہ عثمانی دور کے مشہور آرکی ٹیکٹ “سنان” کی ایجاد ہے۔ اس طرز تعمیر کا مقصد یہ تھا کہ امام یا خطیب کی آواز گنبدوں سے ٹکراتی ہوئی دور تک چلی جائے۔ جب لاوؤڈ اسپیکر ایجاد نہیں ہوا تھا۔ اس وقت مسلمان انجینئروں نے اس انداز سے اس کی تعمیر کی تھی کہ دور کے سامعین تک امام کی آواز پہنچ جائے۔یہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔اس شہر کو پہاڑوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ شہر سات پہاڑوں کے حلقے میں واقع ہے۔ بحر اسود، بحیرہ مرمرہ اورآبنائے باسفورس یہ تین سمندر اس شہر کے حْسن میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔یہ دنیا کا واحد شہر ہے جس کا نصف حصہ یوروپ اور نصف ایشیا میں ہے۔ یہ شہر عظیم اسلامی تاریخ کا روشن باب بھی ہے۔اس شہر کو قدرت نے حسن کی دلفریبیاں عطا کی ہیں۔ ظاہری حسن کے علاوہ یہ روحانی فیوض و برکات سے بھی مالا مال ہے۔ میزبان رسول حضرت ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا مزار مبارک بھی اسی شہر میں ہے۔ حرمین شریفین کے بعد ترکی میں یہ مقام سب سے اہم اور متبرک سمجھا جاتا ہے۔اس کے علاوہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم، خلفائے راشدین اور خاندان اہل بیت کے مقدس تبرکات کے علاوہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصائے مبارک ، حضرت یوسف علیہ السلا م کی پگڑی اور قرآن کریم کے کئی نادر نسخے یہاں موجود ہیں۔دنیا میں سب سے بڑے گنبد کی مسجد بھی یہیں موجود ہے۔ ترکی کو یہ اعجاز بھی حاصل ہے کہ دنیا بھر میں تصوف اور صوفیانہ روایات کے حوالے سے سب سے زیادہ پڑھے اور سمجھے جانے والے مولاناروم کا مزار مبار ک بھی یہیں ہے ۔اس شہر کی مختصر تاریخ یہ ہے کہ’’ قسطنطنیہ ۳۳۰ء سے۳۹۵ء تک رومی سلطنت اور ۳۹۵ء سے۱۴۵۳ء تک بازنطینی سلطنت کا دارالحکومت رہا اور ۱۴۵۳ء میں فتح قسطنطنیہ (قسطنطنیہ ۲۹ مئی ۱۴۵۳ء کو سلطنت عثمانیہ کے ہاتھوں فتح ہوا۔ صدیوں تک مسلم حکمرانوں کی کوشش کے باوجود دنیا کے اس عظیم الشان شہر کی فتح عثمانی سلطان محمد ثانی کے حصے میں آئی جو فتح کے بعد سلطان محمد فاتح کہلائے)کے بعد سے۱۹۳۲ء تک سلطنت عثمانیہ کا دارالخلافہ رہا۔ فتح قسطنطنیہ کے بعد سلطان محمد فاتح نے اس شہر کا نام اسلام بول رکھا ( جس کا مطلب ہے اسلام کا بول بالا )جو کہ آہستہ آہستہ استنبول میں تبدیل ہو گیا۔ شہر یورپ اور ایشیا کے سنگم پر شاخ زریں اور بحیرہ ٔمرمرہ کے کنارے واقع ہے اور قرون وسطی میں یورپ کا سب سے بڑا اور امیر ترین شہر تھا۔ اس زمانے میں قسطنطنیہ کو شہروں کی ملکہ کہا جاتا تھا۔‘‘( بحوالہ اردو ویکیپیڈیا) یہ شہر آج بھی ترقی یافتہ اور خوشحال ہے۔ فی کس مجموعی ملکی پیداور بارہ ہزار امریکی ڈالر ہے۔2010 ء کے لیے استنبو ل کو یوروپ کا مشترکہ تہذیبی دارالحکومت منتخب کیاگیا ہے۔ یہ واحد مسلم ملک ہے جو ناٹو کا رکن بھی ہے اور یوروپی یونین میں شامل ہونے کی دعویداری بھی رکھتا ہے۔یہ ملک اس لیے بھی مثالی ہے کہ اپنے تمام انتشار پر قابو پا کر ترقی کی جانب تیزی سے گامزن ہے۔‘‘(مشاہدات، 30-31)
استنبول کی پوری تاریخ اس اقتباس میں درج ہے۔ سفرنامہ نگار نے استنبول کو کئی نقطۂ نظر سے دیکھا ہے۔قسطنطنیہ ، اسلام کا بول بالا، استنبول اور استنبول سے انقرہ تک کا سیاسی اور تہذیبی سفر کیا ہے جو کہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ حضرت ایوب انصاری، مولانا روم کے ساتھ اس میوزیم کا ذکر بھی اس سفرنامے کا روشن باب ہے جس میں اسلامی تاریخ کی کی یادگاریں موجود ہیں۔عثمانی دور کے مشہور آرکی ٹیکٹ “سنان‘‘ کا ذکر بھی دل چسپی سے خالی نہیں ہے۔ استنبول کو مسجدوں کا شہر بھی کہاجاتا ہے۔ قدرت نے اس سر زمین کو بہت ثروت مند بنایا ہے۔اس شہر کو پہاڑوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے ۔ یہ شہر سات پہاڑوں کے حلقے میں واقع ہے۔ بحر اسود، بحیرہ مرمرہ اورآبنائے باسفورس یہ تین سمندر اس شہر کے حْسن میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔یہ دنیا کا واحد شہر ہے جس کا نصف حصہ یوروپ اور نصف ایشیا میں ہے۔ یہ شہر عظیم اسلامی تاریخ کا روشن باب بھی ہے۔پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین نے اس سفرنامہ میں استنبول، ترکی تمام خصوصیات کو بہت ہی دل چسپ انداز میں بیان کیا ہے جو ان کی خداد صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔تاریخی اور تہذیبی اعتبار سے ترکی کی روداد بھی اس سفرنامے کا ایک اہم حصہ ہے۔ ترکی میں اردو زبان وادب کی تعلیم و تدریس پر بھی ایک اہم حصہ موجود ہے۔ ترکی کی تین اہم اور بڑی یونیورسٹیوں میں اردو زبان وادب کی تعلیم وتدریس کا اہتمام ہے۔امید ہے کہ ترکی میں اردو تدریس کے اس سلسلے میں اضافہ ہوتا رہے گا۔اسی طرح دیگر سفرنامے مثلاً’’ جاپان کا یادگار سفر،امریکہ نامہ ،حافظ و سعدی کے ملک میں، یوروپ کے اسفار کی ناقابل فراموش یادیں، جنت نظیر جزیرۂ موریشس ،مصر سر زمین انبیا، یوروپ ادبی قافلہ ،ہرات شہر اولیا اورامام بخاری کے ملک میں چند روز‘‘اس سفرنامے کی اہمیت میں چار چاند لگاتے ہیں۔مذکورہ تما م سفرنامے کی حیثیت علمی و ادبی ہیں۔غیرممالک میں اردو ادب کی موجودہ صورت حال کے ساتھ سیاسی، سماجی، تہذیبی اور ثقافتی تناظر میں بھی ’مشاہدات ‘منفرد حیثیت کی حامل ہے۔ پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین کے سفرنامے یقینا اردو دنیا کے لیے ایک بیش بہا ادبی تحفہ ہے۔ اردو کی نئی بستیوں کی سمت و رفتار کے تعین میں بھی یہ سفرنامے اہم رول ادا کررہا ہے۔ امید ہے کہ برصغیر سے باہر اردو دنیا کی سرگرمیوں سے واقفیت کے لیے ارباب حل و عقد اس سفرنامے سے استفادہ کریں گے ۔