You are currently viewing مجتبیٰ حسین کی موت برصغیر میں مزاح کی موت ہے

مجتبیٰ حسین کی موت برصغیر میں مزاح کی موت ہے

مجتبیٰ حسین کی موت برصغیر میں مزاح کی موت ہے

پروفیسر عتیق اللہ

سابق صدر شعبۂ اردو، دہلی یونیورسٹی، دہلی

مجتبیٰ حسین کے انتقال کی دلدوز خبر کیا آئی میں سناٹے میں رہ گیا۔ ان کے چاہنے والوں کی پوری ایک فوج ہے اس کا کیا حال ہوا ہوگا، اس کا مجھے علم نہیں۔ کافی دنوں پہلے سے ان کی علالت کے بارے میں اطلاعات ملتی رہیں۔ بیماریاں جس طرح ان پر ٹوٹ پڑی تھیں اور جنھوں نے انھیں بے حد کمزور کردیا تھا انھیں بھی ان کی موت کی خبر سن کر تکلیف ہوئی ہوگی۔ ایک عام انسان بہت پہلے ہمت ہار چکا ہوتا۔ وہ مضبوط قوتِ ارادی کے مالک تھے اور بقول ان کے اپنے ”ذہن سے زندہ“ ہوں۔ وہ بیماریوں کے دام میں پھنسے ہوئے تھے لیکن ان کا ذہن ہی نہیں قلم بھی زندہ تھا۔ میرا خیال ہے مزاح نگار صرف دوسر وں کے لیے ہوتا ہے۔ مجتبیٰ حسین دوسروں کے لیے لکھتے رہے اور آخری دم تک لکھتے رہے اور انھوں نے اپنے معیار سے کبھی سمجھوتا نہیں کیا۔ دہلی میں وارد ہوئے تو وہ اپنے ساتھ جو سرمایہ لے کر آئے تھے اس میں شرافت، اخلاق مندی، اخلاص و مروّت اور ایک جانِ جاں سوز اور ایک دلِ دلگداز ان کی گٹھری میں تھا، جسے سنبھالتے سنبھالتے وہ دہلی میں بوڑھے ہوگئے۔ یہ بڑھاپا صرف ان کی سند تک محدود تھا۔ کہتے تھے یار! سبکدوشی نے بڑھاپے پر مہر لگا دی۔ ورنہ میں تو اپنی ملازمت کے آخری دن تک اپنے آپ کو جوان ہی سمجھتا رہا۔ مجھے اب پتہ چلا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد یکایک بہت سے لوگوں سے زندگی یا زندگی سے وہ خفا کیوں ہوجاتے ہیں لیکن مجتبیٰ مرحوم حوصلہ کب ہارنے والے تھے۔ ان میں وہی تازہ دمی بہت جلد عود کر آئی اور اس ’تازہ دمی کا داروٗ‘ حیدرآباد میں دستیاب تھا سو اپنی وہی گٹھری اٹھائی جس میں شرافت، اخلاص، جانسوزی و دلگدازی تھی اور سیدھے اپنی ’یادوں کے جہاں آباد‘ یعنی حیدرآباد کی راہ لی۔

میں 1976 سے ان کا تعاقب کرتا رہا، ان کو پڑھتا رہا، سنتا رہا، ان کے کردار میں شمّہ برابر تبدیلی نہیں پائی۔ دہلی میں جہاں دوچار ادیب اکٹھا ہوئے سمجھ لیجیے ہر اس ادیب اور اس کی تحریر کی وہ چیرپھاڑ کی جاتی ہے کہ غیبت  مانو شرم سے پانی پانی ہونے لگتی ہیں۔ میں نے خود بارہا پانی کی دھار کو دریا اور دریا کو سمندر ہوتا ہوا دیکھا ہے۔ مجتبیٰ مرحوم ایسے مواقع پر بھی کمالِ ہوشیاری کے ساتھ اپنی ’عصمت‘ بچا لیتے تھے۔ مجتبیٰ حسین کو ادبی سیاست اور بالخصوص دہلی کے ادیبوں کی محفلوں، نشست گاہوں، کافی ہاؤس، ٹی ہاؤس وغیرہ کی صحبتوں کا بھی بخوبی علم تھا۔ جہاں بحث ومباحثہ ہی نہیں بال کی کھال نکالنے میں طاق حضرات کی بے لگامی کی کوئی حد نہیں تھی۔ اِس کو گرایا، اُس کو اٹھایا، اِس کو پٹخا اُس کو کچلا۔ ہر بیٹھک ایک اکھاڑے سے کم نہیں تھی۔ لیکن مجتبیٰ لطیفوں کی پھلجھڑیاں چھوڑتے رہتے، مجال ہے کبھی کسی کے لیے کوئی نازیبا لفظ بھی استعمال کیا ہو۔ یہ تھا ان کا کردار۔ ایک دن میں نے  پوچھا”جب حیدرآباد کو آپ ذرّہ برابر نہیں بھولے تو حیدرآباد کو چھوڑنے کی آپ نے ہمت کیسے کرلی۔ چلیے روزگار آپ کو کھینچ لایا، لیکن حیدرآباد اور اہلِ حیدرآباد نے آپ کو کیسے چھوڑ دیا“ فرمانے لگے ”عتیق صاحب، کچھ سوچا کچھ نہیں سوچا۔ اہل خانہ کے علاوہ احباب میں بھی یہ بحث کا موضوع تھا۔ کوئی حق میں تھا کوئی حق میں نہیں تھا۔ میں نے کوئی اعلیٰ تعلیم تو پائی نہ تھی اور نہ اسکالر تھا کہ کسی یونیورسٹی میں تقرر ہوتا۔ غنیمت یہی سمجھا کہ سرکاری پکی نوکری ہے ابھی تو چلے جاتے ہیں، بعد میں دیکھا جائے گا۔“ اور پھر مجتبیٰ مرحوم نے دلی آباد کرلیا لیکن حیدرآباد کہاں چھوٹنے والا تھا، اسے بھی اپنی یادداشت کے نہاں خانے کے مرکز میں رکھا۔

دہلی میں اچھے اچھے جغادریوں سے پالا پڑا۔ان کو گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے اور ہواؤں کا رخ دیکھ کر اپنا قبلہ بدلتے، ہماشما کے دَر پر پیشانیاں گھسٹتے اور اپنی کمر توڑتے ہوئے دیکھا لیکن مجتبیٰ سے میمنہ بھی خوش اور میسرہ بھی خوش۔ ہنسی میں ٹالنا انھیں خوب آتا تھا۔ انھوں نے سمجھ لیا تھا کہ دنیا کی سب سے قیمتی چیز ہنسی ہے، ہنسی اگر قائم ہے زندگی قائم ہے، وہ حیدرآباد سے ’ہنسی‘ کی تربیت لے کر آئے تھے۔ ایک دن ہم نے ان سے پوچھ لیا کہ ’مجتبیٰ صاحب یہ بات تو سمجھ میں آئی کہ آپ حیدرآباد سے ہنسی کی باقاعدہ تربیت لے کر آئے تھے، لیکن اس تربیت گاہ کا نام و پتہ ہمیں بھی بتا دیں؛ کہنے لگے ارے بھائی آپ کتنے معصوم ہیں، آپ کا تو اورنگ آباد سے بھی رشتہ ہے، اتنی سی بات بھی نہیں معلوم۔ میں شرمندہ ہونے لگا تو انھوں نے یک لخت اپنا پینترا بدلا اور یوں گویا ہوئے، جانِ من حیدرآباد جس کا نام ہے وہ پورا شہر کا شہر ہنسی کی تربیت گاہ ہے لیکن افسوس اب وہ تربیت گاہ صرف ہمارے ذہنوں اور کتابوں میں ہے۔ جیسے دہلی میں دہلی کہاں اسے تو اب آثارالصنادید میں ڈھونڈنا پڑے گا، پرانی دلی کی گلیوں میں شاید کہیں مل جائے اور میں اپنی گفتگو کوادھورا چھوڑ کر دلی کو دلی کی گلیوں میں ڈھونڈنے نکل گیا۔ تب ہی سے میں اس کی تلاش میں سرگرداں ہوں۔ مجتبیٰ مرحوم بھی دلی میں رہے لیکن دلی سے دور۔ دلی آنے سے پہلے بھی دلی دورتھی اور دلی سے جانے کے بعد بھی دلی دور ہی رہی، لیکن ان یادداشت کدے میں اس نے اپنا ایک مستقل مسکن بنا لیا تھا، جو ان کی گفتگو، ان کی تحریروں میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتا رہا۔

میں ہی نہیں ہمارے اکثر معاصرین کو یہ شکایت ہے اور بجاہے کہ ہم آہستہ آہستہ ہنسنا اور مسکرانا بھولتے جارہے ہیں۔ ہنسی ایک فطری عمل وردّ عمل کا نام ہے، لیکن ہمارا معاملہ یہ ہے کہ اب ہمیں ہنسی کی بات پر بھی دوسرے کو گدگدی چلاکے ہنسانا پڑتا ہے۔ جس قوم کے روز مرہ سے ہنسی کا عنصر ہی غائب ہونے لگے تو اسے شانزوفرینیا جیسے نفسیاتی عارضے سے کوئی نہیں بچاسکتا۔ جہاں تک میرا سوال ہے، میں یہ سوچ سوچ کر اکثر بہت ملول ہوجاتا ہوں کہ ہم میں اس قدر غم وغصہ کیوں بھرا ہوا ہے۔ ہم ذرا ذرا سی اہم اور غیراہم، متعلق اور غیرمتعلق باتوں کا جواب لاتوں سے کیوں دینا چاہتے ہیں۔ایک ذرا سادھکا لگتا ہے اور تمام معافیوں اور معذرتوں کے جواب میں ہمیں ایک آدھ تھپڑ نہیں توگالیوں کاسامنا ضرور کرنا پڑتا ہے۔ مجھے تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ وہ قیمتی نعمت جسے عرف عام میں حسِّ مزاح یا Sense of humourکہاجاتا ہے، ہم اُس سے محروم ہوچکے ہیں۔ آئرنی یہ کہ ہمیں اس محرومی کاکوئی احساس بھی نہیں ہے کیونکہ حسِّ مزاح کی محرومی کے معنی میرے نزدیک بے حسی ہی کے ہیں۔ جو قوم حسِّ مزاح کو گنوا بیٹھتی ہے اس کا کردارعجلت پسندی، ہٹ دھرمی، ناعاقبت اندیشی، تشکیک،خود رائی اور بے رحمی جیسے خاصّوں کا تابع مہمل بن کر رہ جاتاہے۔ مجتبیٰ حسین ہنسی بانٹنے کی ایک تحریک تھے، جس میں انھوں نے کبھی بخل سے کام نہیں لیا۔ حالات کتنے بھی دِگرگوں ہوں، سیاست کتنی بھی زہرافشاں ہو۔لوگ کتنے بھی جذبہ و احساس سے عاری ہوتے جارہے ہوں۔ ان کے قلم کو تو بس ایک ہی زبان میں گفتگو کرنا آتا ہے اور وہ ہے ”ہنسی“۔

ایک دن اپنی مزاح نگاری پر ایک مضمون لکھنے کے لیے مجھے فون کیا۔ مجھے معلوم تھا، انھوں نے کبھی کسی سے توقع کی اور نہ لکھنے کی فرمائش کی۔مجتبیٰ مرحوم کو شہرت کی ہوس تھی نہ دولت کی وہ اپنے فن میں جس مرتبے پر ہیں وہ کسی  کسی کو ہی نصیب ہوتا ہے۔ ان پر لکھنے کے معنی خود کو عزت بخشنے کے ہیں۔ مجھے شرمندگی کا احساس ہونے لگا کہ مجتبیٰ صاحب کو خود یاد دلانا پڑا۔ مجتبیٰ کو میں ہندوستان کا مشتاق احمد یوسفی کہتا ہوں۔ اس لیے نہیں کہ دونوں کے اندازِ مزاح میں کوئی مماثلت ہے۔ وجہِ اشتراک محض مزاح ہے۔ میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مزاح میں دونوں حضرات کی اپنی الگ ایک انفرادیت ہے جس کی بنیاد پر انھوں نے یہ بلند مرتبے پائے ہیں۔ مزاح نگار بہت حساس ہوتا ہے۔ اسے ہمیشہ آبگینوں کو ٹھیس لگنے کا خدشہ لگا رہتا ہے۔ وہ محض آئینہ برداری کا کام نہیں کرتا، اندرکی کھوٹ کو بھی انتہائی غیرمحسوس طریقے سے باہر نکال کر بھی دکھاتا ہے۔ چٹکی بھی لیتا ہے، لفظی کارٹون بھی بناتا ہے۔ دوسروں کو شہد میں ڈبو کر کڑوی گولی کھلاتا ہے اور خود کی پگڑی اچھالتے وقت کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتا۔ مزاح نگار دوسروں کے لیے کتنا ہی دردمند ہو خود کے لیے بڑا بے درد ہوتا ہے۔ مجتبیٰ کے مزاح میں یوں تو ہر رنگ موجود ہے لیکن  بچپن سے انھوں نے جن اخلاقی اقدار کے مابین پرورش پائی تھی اس نے کچھ حدیں بھی قائم کردی تھیں اور انھوں نے زندگی بھر ان حدوں کا پاس رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ مجتبیٰ ہی مہذب نہیں تھے ان کا مزاح بھی مہذب ہے۔ فن کار باہر سے کتنا ہی سنجیدہ، تصنع اور بناوٹ سے عاری ہو اندر سے اس کا چالاک ہونا ضروری ہے۔ اسے فکشن کو ’فیکٹ میں بدلنے‘ سیدھی سادی منطق کو ڈرامے کا روپ دینے، یا روپ کو بہروپ بنانے کا وہ آرٹ آنا چاہیے جو اس کی تیز فہمی، نکتہ سنجی، شگفتہ مزاجی، دانش افروزی، لطافت و ظرافت کا مظہر ہو۔ مجتبیٰ نے اپنے حدود میں یہ سارے کرتب دکھائے ہیں۔ کہیں کہیں طنز کی ہلکی سی آمیزش کرکے مزاح کو اور زیادہ آبدار بھی بنایا ہے۔ خاکوں میں جتنے تحفظ کے ساتھ ان کا قلم سانسیں گنتا ہوا چلتا ہے۔ انشائیوں اور انشائیوں سے زیادہ جاپان کے سفرنامے میں وہ اپنے قلم کو تھوڑا آزاد بھی چھوڑ دیتے ہیں، مجتبیٰ حسین بہت بڑے مزاح نگار ہیں۔ ان کے بعد یہ میدان سائیں سائیں کررہا ہے۔ یوں بھی ہمارے ادیبوں اور نقادوں نے مزاح کو تیسرے درجے کی چیز سمجھ رکھا ہے۔ جس طرح انسانی معاشرہ تتر بتر ہورہا ہے۔ نفرتوں کی تخم ریزی کی جارہی ہے۔ انسانیت کو مسخ کیا جارہا ہے۔ محبت، اخلاص، وحدتِ انسانی کا تصور سب ملیا میٹ ہوتے جارہے ہیں۔ طنز و مزاح کی شکم پروری کے لیے چاروں طرف غذا ہی غذا ہے۔ روز بروز اتنے چاک پیدا ہوتے جارہے ہیں۔ جسموں میں اتنی سوئیاں پیوست ہوتی جارہی ہیں۔ انسانی زندگی کو جس طور پر بے حرمت اور پامال کیا جارہا ہے۔ وہ محض تاریخ کا موضوع نہیں ہے۔ تاریخ واقعات کی کھتونی بن سکتی ہے۔ ادیب اس کے باطن کا سیاح ہوتا ہے۔ اردو میں ادب تو تخلیق ہورہا ہے۔ مزاح نگاروں کا قحط ہے۔ یہ وقت نئی نسل کو آواز دے رہا ہے کہ مزاح نگارکی اخذ کردہ تاریخ سب سے سچی اور مستند ہوتی ہے۔

ابھی تو میں یہی کہنے پر مجبور ہوں کہ مجتبیٰ حسین کی موت برصغیر میں مزاح کی موت ہے۔ دیکھتے ہیں اس خلا کی کیسے بھرپائی ہوتی ہے۔

Leave a Reply