سلمان عبدالصمد
قانونی صلیب پر
معمول کے برخلاف اس کی آنکھ آج بہت جلد کھل گئی۔ لیکن کتنے بجے،اس کا صحیح علم توکسی کو نہیں تھا۔البتہ کوئی تین بجے لاعبہ پانی پینے کے لیے اٹھی تو اسے محسوس ہوا کہ بڑے بھائی سخاوت جا گ رہے ہیں۔ کمرے کے سامنے سے گزرتے ہوئے اس نے کن انکھیوں سے بھائی کے غمگین چہرے کو دیکھا۔ یکایک اسے اپنے قدموں میں بوجھل پن کا احساس ہوا۔ایک دفعہ ذہن میں آیا کہ بھیا کی پریشانی کے متعلق پوچھ لے لیکن وہ خاموشی سے واپس آکر اپنی بہنوں کے درمیان جہاں سوئی تھی، لیٹ گئی ۔ اس کی بھی نیند اب غائب تھی۔ صبح تک دونوں بھائی بہن اپنے اپنے بستر پر الٹتے پلٹتے رہے۔
ہر روز کی طرح بھائی آج بھی صبح صبح مسجد نکل گئے بلکہ اور دِنوں کی بہ نسبت کچھ پہلے ہی۔ یہاں تک کہ اذان بھی نہیںہوئی تھی۔
لاعبہ نماز کے لیے اپنے بستر سے کھڑی ہو ہی رہی تھی کہ بھائی واپس بھی آگئے۔ بلند میناروں سے اللہ اکبر کی صدا گونج رہی تھی اوران کے ہونٹوں پر بدبداہٹ تھی۔ وہ علی الفور بستر پر دراز ہوگئے —–’’میں،میں اب مسلمان نہیں۔ مسجد سے واپس آگیا—- اب میں کافر ہوں، کافر—– پوری دنیا میں مسلمانوں کا کوئی نہیں،اب یہاں بھی کوئی نہیں—–‘‘ سرہانے دیوار الماری پر قرآن رکھا تھا۔ سخاوت کے سرد جسم پر ایک معمولی سی چادر تھی، جس پر جابجا سراخ تھے۔ صبح کی دھندلکی روشنی میں یہ سوراخ دھبے کی مانند نظر آرہے تھے، جیسے کسی نے مٹ میلی چادرپر پانی چھڑک دیا ہو ۔ مذکورہ جملے اس کی زبان سے ایسے ادا ہورہے تھے، جیسے بعد نمازِ صبح کوئی ذکر واذکار میں مشغول ہو ۔
ادھر لاعبہ بھی حد درجہ پریشان تھی ۔ معمول کے برخلاف مسجد سے بھائی کی واپسی پر وہ متفکر تھی۔
رفتہ رفتہ سورج کی روشنی سے پورا علاقہ روشن ہونے لگا تھا۔ اس وقت اسے محسوس ہوا کہ جب اہل زمین سو جاتے ہیں تو شاید سورج بھی اپنی روشنی کا منہ بند کرلیتا ہے اوربنی نوع انسانی کے حرکت میں آ تے ہی اسے روشنی بہم پہنچانے لگتا ہے۔ گویا تگ ودو اور مزاحمت کے بغیر فطرت بھی خوش نما اور مفید نہیں۔
رئیسہ کی شادی ہونے والی تھی۔اس لیے اس کے دونوں بھائی سخاوت اور لیاقت ہر ممکن کوشش کررہے تھے کہ تمام تر انتظامات وقت پر ہوجائے۔ کیوں کہ رئیسہ سے بڑی نفیسہ اب لڑکے والوں کی نظرالتفات سے محروم ہوچکی تھی۔ پھر رئیسہ کے بعد لاعبہ اور الفیہ کی شادی کا معاملہ درپیش تھا۔ والدین کے انتقال کے بعد دونوں بھائی انتہائی مشکل حالات سے گزر رہے تھے۔
سخاوت نے کئی ثروت مندوں سے اس معاملے میں رابطہ کیا۔ ایسے اداروں کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا جوملک میں اسلامی بینکنگ نظام کے لیے تگ ودو کررہے تھے۔ دوسری طرف چھوٹے بھائی لیاقت نے بھی کئی ایک قابل ذکر ثروت مند معلموں کے پاس اپناقصۂ الم بیان کیا۔کئی ایک کو برقی خطوط بھی ارسال کیے ۔ ایک خط کچھ یوں بھی تھا :
’’جناب اعظم!
السلام علیکم
۔۔۔بات دراصل یہ ہے کہ یکم اپریل کو میری دوسری بہن کی شادی ہے۔ گھر پر مجھے غیر معمولی رقم دینا لازمی ہے جو بھائیوں کے حصے میں طے ہوئی ہے۔
مجھے اسکالر شپ کے نام پر کچھ رقم ملتی ہے ،مگر بینکنگ نظام کی خرابی کی وجہ سے گزشتہ نوماہ سے نہیں آ ئی۔ اس لیے ایک درجن سے زائد باحیثیت معلموں سے قرض کی درخواست کی اورسو د پر رقم لینے کی کوشش بھی۔
مخلص اعلی! زندگی بھر مجھے احسان مند رہنے کا مو قع ضرور دیجیے ۔
امید کہ مزاج گرامی بعافیت ہوگا اور میری امید بھی برآئے گی ۔
آپ کا مخدوم
لیاقت
نزد مسجد بیت اللہ ، سندھ ، پاکستان۔ ‘‘
لیاقت اور سخاوت کی بہنوں میں لاعبہ سب سے زیادہ حساس تھی۔ بھائیوں کے حالات کو بڑی گیرائی سے سمجھتی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ بھائیوں سے ان تمام معاملات پر گفتگو کر نا زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے اور بہنوں کے سامنے بات کرنا تواور بھی زیادہ خطرناک —– اس لیے ان دنوںوہ اپنی زود حسی سے کچھ زیادہ پریشان رہتی تھی۔ اسے خوف تھا کہ ماجرۂ زندگی باعث ہلاکت نہ ہوجائے۔ چناںچہ اس نے پریشانی کے عالم میں جلدی سے موبائل اٹھا یا اور روپیش کو میسیج کردیا ۔
’’ہیلو روپیش کیسے ہو ۔۔۔‘‘اور وہ اس کے جواب کا انتظار کرنے لگی۔
لیکن کہیں نہ کہیں اسے لگ رہا تھا کہ روپیش رپلائی نہیں کرے گا۔ کیوں کہ چند مہینے پہلے ہمارے درمیان ہونے والی تلخ کلامی کا اثر اس کے دل میں ابھی باقی ہوگا۔
اسی سوچ سے لت پت ہوکر اس نے سابقہ میسیجز پڑھنا شروع کردیا کہ روپیش کو اپنے ملک کے متعلق میرا کون ساجملہ انتہائی نا گوار گزرا یا کس لفظی میزائل نے ہماری دوستی پاش پا ش کردی۔ پھر یکایک وہ سوچنے لگی کہ میں ہی کیوں قصوروار —–روپیش نے بھی تو میرے ملک کو ادھیڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ پھر لاعبہ کو وہ جملے بھی یاد آئے جو اپنائیت میں ڈوبے ہوئے تھے۔ ایک دن بات کچھ یوں ہوئی تھی:
’’لاعبہ! مجھ سے دوستی پر خائف کیوں ہو ۔ کیاسر حد ہماری دوستی میں حائل ہے۔۔۔۔‘‘
’’ہاں روپیش ، مجھے تو ایسا ہی لگتا ہے۔ ‘‘لاعبہ کی انگلیوں سے اچھل کریہ جملہ روپیش تک پہنچ گیا۔
’’۔۔۔۔ تمھاری سوچ ایسی ہے تو غلط ہے۔ ۔۔۔لاعبہ ہم اور تم الگ الگ بسنے کے بعد سب کچھ شاید بھول گئے۔ ہماری بنیاد خون پر ہے اور خون سر سے اونچا ہوگیا ہے۔جو ہوگیا،اس کی تلافی تو ممکن نہیں۔ لیکن اب کچھ کیا جا ناچاہیے۔ سب سے آسان یہ ہے کہ جالیوںسے اوپر بہنے والے خون پر سفینۂ الفت چلا دی جائے۔۔۔ ؟‘‘
’’روپیش، بات تو تمھاری قابل قدر ہے ۔ ‘‘
’’ہا ں لاعبہ ۔۔۔سرحدوں پر الفت کی کشتیاں چلیں گی تو ایک دن ہم کسی بڑی کوشش میں بھی کامیاب ہوسکتے ہیں۔ کوئی بعید نہیں کہ خون کا دریا سوکھ جائے اور زمین پر کھینچی ہوئی سرحد کی لکیریں بھی دھندلی نظرآئیں—- ‘‘
میسیج دیکھتے دیکھتے لاعبہ کی نگاہ ایسے لنکس اور تصاویر پر جم گئی ، جن کے متعلق ان کے درمیان کبھی گرما گرم بحث بھی ہوئی تھی۔
لاعبہ نے روپیش کو ایک لنک بھیج کر کہا تھا کہ اس سے اپنی فوج کی خونخواری کا اندازہ لگاؤ۔ اسی لنک کے جواب میں روپیش نے بھی چند ایسی تصاویر اسے بھیج دیںجو لاعبہ کی ملکی فوج سے متعلق تھیں۔ کبھی کبھی سرحدی تنازعات پر ان کے درمیان گرما گرما بحث ہوجاتی تھی، مگر روپیش اکثر لاعبہ کے گھریلو معاملات میں بھی دل چسپی لیتا تھا۔ ذاتی تذکروں کے وقت دونوں انتہائی قربت محسوس کرتے تھے۔ لاعبہ کہتی بھی تھی کہ میرے تمھارے خون میں کوئی مماثلت نہیں،اس کے باوجود —–
روپیش نے تو ایک دن حد ہی کردی کہ لہولہان اپنی انگلیوں کی تصویر بھیج کر لاعبہ سے کہہ دیاکہ اپنے خون سے میرے خون کی رنگت ملا لینا —–
زود حس لاعبہ کو آج اسی روپیش کی یاد ستارہی تھی۔ کیوں کہ اس کے دونوں بھائی ان دنوں بہت پریشان تھے۔ وہ اپنے دکھ درد کے متعلق اس سے بات کرنا چاہتی تھی۔ سیاسی معاملات پر ختم ہونے والی دوستی کی تجدید کرنا چاہ رہی تھی۔
دوسری طرف سخاوت اور لیاقت نے آج بھی کئی رشتے داروں سے ناکام ملاقات کی ۔ شام میں جب وہ گھر واپس ہوئے تو بہنوں سے ان کا چہرہ دیکھا نہیں جارہا تھا۔ ناقابل بیان مایوسی ان کے چہروں سے عیاں تھی۔ لاعبہ کو ایسا محسوس ہورہا تھا کہ سخاوت کی پیشانی کی لکیروں میں ڈراؤنے قصے پیوست ہیں۔دماغ کی نس تن گئی ہے۔ سانس دھونکی کی طرح چل رہی ہے۔ ان کی زبان سے نکلنے والے جملے قنوطیت کے شہ پارے ہیں ۔ آنکھ کے پپوٹوںپر بے بسی کا پہاڑ رکھا ہوا ہے۔
رات کھانے کے بعد بھائی اور بہن اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔ لاعبہ کی نظروں میں بھائی سخاوت کا چہرہ گردش کررہا تھا۔ رات گہرے سناٹے میں ڈوبنے لگی تھی اور دور کہیں منعقد ہونے والے اسلامی جلسے سے کسی مقرر کی آواز آرہی تھی۔ناجائز کاروبار کا موضوع مولانا کی زبان پر رقص کررہا تھا—– ادھر روپیش نے بھی لاعبہ کا کوئی جواب نہیں دیا تھا۔
اس وقت لاعبہ اچھی طرح جانتی تھی کہ میری طرح بھائی کی آنکھوں میں بھی ابھی نیند نہیں ہوگی۔ اس لیے وہ دبے پاؤں ان کے کمرے میں چلی گئی اور گم صم بیٹھ گئی۔
دونوں کے پاس ہزارداستانیں تھیں مگر زبانیں گنگ تھیںاور ان کی آنکھیں اپنی اپنی کہانیاں سنارہی تھیں—-اسی درمیان لاعبہ نے بڑی ہمت جٹائی اور بھائی سے بات چیت شروع کر دی ۔ ہوتے ہوتے وہ دونوں آج صبح کے واقعے تک پہنچ گئے۔
’’معمول کے برخلاف آج آپ مسجد سے پہلے کیوں چلے آئے ، وہ بھی اذان سے پہلے —- ‘‘
’’—- لاعبہ ۔۔۔۔ میں ۔۔۔میں ۔۔کافر۔۔۔کافر۔۔‘‘
’’نہیں بھیا ، ایسا نہ بولیں —-‘‘
’’کیوں نہیں —–اب یہاں شاید جینے کی کوئی صورت نہیں ‘‘
’’بھیا ملک اپنا ہے ، اپنا ہی رہے گا۔۔۔ آپ کافر نہیں ہیں ۔۔‘‘
’’ہوں میں کافر ہوں ، کافر —–کفر سے ہی شاید میرے مسئلے کا حل نکلے ۔‘‘
’’ایسا نہیں ہے بھیا ۔۔۔‘‘
’’نہیں لاعبہ۔۔۔تم سے چھپانا ،کیا۔ دیکھو،رئیسہ کی شادی کے سلسلے میں رشتے داروں نے اپنائیت کا ثبوت نہیں دیا۔ اس لیے اس کی شادی دوسری جگہ ہورہی ہے اور یہاں تعاون تو دور اب قرض بھی ناممکن۔ چار ناچار اس مقدس سرزمین پر ایک ایسے فرد کے پاس گیا جن کے یہاں جانا شاید بہت معیوب ہو۔جائز لین دین کے لیے ان سے بھی بڑی منت و سماجت کی۔یہاں تک کہ سود—– انھوں نے جواب دیا —– ’’دوسرے مذاہب کے ماننے والوں سے ہی میرا کاروبار جائز ہے۔میں مسلمان ہوں اور کسی مسلمان کو ایسی رقم دوں، اللہ کی پناہ—-!‘‘
بھائی سے گفتگوکے بعد لاعبہ حقیقتِ حال سے واقف ہوئی۔ وہ گذشتہ آدھی رات سے سو نہیں سکی تھی اور آج تو پوری رات کی نیند غائب تھی۔ اس نے تہہ کرلیاتھا کہ اگر روپیش کا رسپانس اچھا آئے گاتو اس سے گھریلو معاملات پر کھل کر گفتگو ہو گی۔ اچھے بول سے وہ ضرور نوازے گا۔ پھر وہ سوچنے لگتی کہ اگر اسے اپنے ملک کے متعلق کچھ سناؤں گی تو وہ اور بھی طنز کرے گا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مصیبت کی اس گھڑی میںوہ —–
لاعبہ کا ذہن کسی ایک نکتے پر نہیں ٹک رہا تھا ۔ رات کے تین بج رہے تھے ۔ بڑے انتظار کے بعد روپیش کا جواب آیاتھا ۔
’’ہلو لاعبہ ۔۔ ۔۔ کیسی ہو—– ‘‘
میسیج نے سوکھے دِیوں میں گھی کا کام کیا اور ناامیدی کا بیابان روشن نظر آنے لگا ۔شکوہ وشکایت کے بجائے دونوں احوال وکوائف میں الجھ گئے، جیسے ان کے درمیان گذشتہ دنوں کچھ ہوا ہی نہیں ۔
لاعبہ نے متاسفانہ لہجے میں گھر کی تھوڑی داستان الم سنائی، مگر بہت کچھ چھپا بھی گئی ۔ روپیش نے اس کا جواب کچھ الجھا الجھا سا دیا۔ وہ مزید کچھ سننے کی تاب نہیں رکھتا تھا۔اس لیے آف لائن ہوگیا مگر لاعبہ کا شک یقین میں تبدیل کہ روپیش نے مذہبی چال دکھا دی۔اس کے رویے پر وہ بہت دلبرداشتہ ہوئی۔ سکنڈوں میںکئی خیالات نے اسے اندر تک جھنجھوڑ دیا ۔ بالآخر اس کے متعلق اس نے سوچنا بھی چھوڑ دیا۔
لاعبہ کے کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ چاند کی ملگجی روشنی اس کے آنگن میں اتر رہی تھی۔ باہر خنکی کا احساس تھا،مگر لاعبہ کے بستر پر، بلکہ اس کے اندرون میںآتشی کیفیت برپا تھی۔بستر پر لیٹے لیٹے دھندلی نگاہوں سے بھائی کے کمرے کو دیکھ رہی تھی،جیسے وہ کوئی تازیانۂ عبرت ہو۔ دریں اثنا اس کے سینے پر رکھے ہوئے موبائل میں حرکت ہوئی —–
’’لاعبہ ڈیئر! تمھیں معلوم کہ میں کسی مدد سے قاصر ہوں۔رہے میرے والد تو وہ کچھ ایسا کاروبار کرتے ہیں، جس کی وضاحت کے بعد تمھاری نگاہ میںاور میری فیملی شاید مشکوک ہو جا ئے۔اس لیے اُس وقت میں نے تمھیں کچھ الجھا الجھا سا جواب دیا۔ شاید،تمھیں برالگا ہو۔
خیر،واقعہ یہ ہے کہ تمھارے دردناک مسائل سن کر میں بھی اب تک سو نہ سکا،بلکہ اسی وقت سے اپنے والد کے بیدار ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ صبح صبح میں نے پہلی دفعہ ان سے کسی پاکستانی دوست کا ڈرتے ڈرتے تذکرہ کیا اور تمھارے حالات سے بھی انھیں آگاہ کردیا۔انھوں نے سن کر فوراً کہا—- اپنے کاروبار کے لیے میں مسلمانوں کو غلط کاری میں کیوں مبتلا کروں،میں تو انھیں ہمیشہ بلامنفعت قرض دے دیا کرتاہوں —– لیکن افسوس !قانونی صلیب پر ہمارا ہاتھ معلق ہے اور سرحد پر واقع قربان گاہ میں سہمی ہوئی انسانیت کھڑی ہے ۔ ‘‘
شکریہ !
تمہارا روپیش
بنارس، بھارت۔ ‘‘
سلمان بھائی ! آپ کی تمام تحریروں کی طرح یہ تحریر بھی واقعی لاجواب ہے