You are currently viewing فکر تونسوی نمبروں کا اشاریہ

فکر تونسوی نمبروں کا اشاریہ

فکر تونسوی نمبروں کا اشاریہ

ڈاکٹرامتیاز وحید
شعبہ اردو، کلکتہ یونیورسٹی

فکر تونسوی (1988۔1918) اپنی خلاقانہ ذہنیت اور اس کی کرشمہ سامانیوں کے سبب اردو کے فکاہی ادب میں ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھے جائیں گے۔فکر تونسوی کی تحریروں کا امتیازی وصف ان کی فکر مندی، وسیع المشربی اور بھرپور طنزیہ ُاپج ہے،جومعاشرتی کمیوں، حکومتی کوتاہیوں، حق تلفی اور ناانصافی کے خلاف ضرب کاری کا حکم رکھتی ہیں۔مرورِایام کے باوجود ان کے فکاہیہ کالم ’پیاز کے چھلکے‘ کی چبھن اور اس کا تحفظ ابھی بھی قاری کے ذہنوں میں باقی ہے۔پچیس برس سے زائد عرصے پر محیط ان کے مستقل شایع ہونے والے ہزارہا کالم میں سماج، نظام حکومت، انسانی دکھ درد، غربت و افلاس، تنگ نظری، صلح اورامن و آشتی،ہندو مسلم یگانگت جیسے وسیع و ہمہ گیر موضوعات کا احاطہکیا گیا ہے۔ان کے یہاں مزاح سے زیادہ طنز کی بالیدہ صورت ملتی ہے۔سیاسی طنز میں خاص کر وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ کثرت سے لکھنے کے باوجودان کی تحریریں تازگی کے حسن سے مملو ہیں۔ حیات و کائنات کی کلفتوں کے گرد طرب و نشاط کی گل پاشی فکر کا جزو ایمان ہے؛اسی جذبے نے انھیں تا عمر نارسائیوں کے خلاف بر سر پے کار رکھا۔
اس حقیقت کے باوجود کہ فکر تونسوی نے اردو طنز وظرافت کو غیر معمولی طور پر ثروت مند بنایا اور تمام تر مصلحتوں سے اوپر اٹھ کربڑی بے باکی سے موجودہ نظام کے نقائص کے خلاف سراپا احتجاج بنے رہے،ان پر اہل علم طبقے نے کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ دانش گاہوں میں بھی ان کے فکر اور فن کے حوالے سے کوئی قابل التفات کارنامہ ہنوز سامنے نہیں آیا۔ فکر کے انتقال (21/ستمبر 1988)کے بعد البتہ انھیں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے اردو کے تین رسالوں نے ان پر گوشے اور خصوصی نمبر شائع کیے۔ اترپردیش اردو اکادمی نے اپنے دوماہی ترجمان ’اکادمی‘ میں دو مضامین شائع کیے۔’بیسویں صدی‘نے فکر کے حیات اور کارناموں پرمشتمل ان کے شایانِ شان ایک وقیع کتاب ترتیب دی اورماہنامہ ’نیادور‘، لکھنؤ نے اپنے یادِ رفتگاں نمبر،حصہ اوّل میں معاصر اردو ادب کے جیّد اہل قلم خواجہ احمد عباس، راجندرسنگھ بیدی،سیّد صباح الدین عبدالرحمٰن اور احمد جمال پاشا کے ساتھ فکر تونسوی پر بھی ایک گوشے کا اہتمام کیا۔یہ اشاریہ انہی اردو رسائل کے مشمولات کے احاطے پر مبنی ہے۔ان میں فکریات کے قابلِ ذکر رنگ کسی نہ کسی صورت میں موجود ہیں۔فکر ادب میں شاعری کی راہ سے داخل ہوئے تھے لہٰذا چند مضامین ان کے شاعرانہ رنگ اور ان کے پہلے شعری مجموعے ’ہیولے‘ کے حوالے سے بھی دیکھا جاسکتا ہے تاہم بنیادی طور پر وہ طنز و مزاح کے مردِ میدان تھے۔ بیسویں صدی کی فہرست میں ’فن‘ کے تحت شامل قتیل شفائی اورنیاز حیدر کے مضامین اندرون صفحات دستیاب نہیں ہیں۔
رسائل کے اندراج میں الفا بائی ترتیب پیش نظر ہے۔ زیر نظر اشاریہ کے مندرجات کی ترتیب وہی رکھی گئی ہے جو ان رسالوں میں ملحوظ رکھی گئی ہے تاکہ فکر کے کسی قابل ذکر پہلو کی تلاش میں قاری کو سہولت ہو۔توقع ہے کہ فکریات کے مطالعے میں یہ اشاریہ اساسی اہمیت کا حامل ہوگا۔
اکادمی(دو ماہی)،لکھنو، جلد: ۷، شمارہ: ۵، مارچ۔اپریل ۸۸۹۱
مدیر:محمود الٰہی
مندرجات:
۱۔فکر کی یاد میں، پروفیسر محمد حسن،
ص ص:۹۲۔۵۳
۲۔میرایار:فکرتونسوی، دلیپ سنگھ،
ص ص:۶۳۔۰۴
بیسویں صدی،(فکر تونسوی:حیات اور کارنامے)پبلی کیشنز،پرائیویٹ لمیٹڈ، ۳۸۵۳، نیتاجی سبھاش مارگ، نئی دہلی، پہلا ایڈیشن ۸۸۹۱
مرتبہ:ڈاکٹر شمع افروز زیدی
مندرجات:
(۱) شخصیت
۱۔اردو کا ایک درویش، بیباک طنز نگار، میرزا ادیبؔ،
ص ص:۳۲۔۴۲
۲۔فکرتونسوی،نریش کمار شادؔ،
ص ص:۵۲۔۷۲
۳۔فکر تونسوی:ایک چمتکار، بلونت گارگی
ص ص:۸۲۔۱۳
۴۔باتیں فکر بھائی کی،ظفرؔ پیامی
ص ص:۲۳۔۸۳
۵۔مہاگیانی، کشمیری لال ذاکرؔ
ص ص:۹۳۔۴۴
۶۔مُلّا دو پیازہ، خواجہ عبدالغفور
ص ص:۵۴۔۷۴
۷۔فکر یاروں کا یار تھا، نہ رہا، اوم کرشن راحتؔ
ص ص:۸۴۔۹۴
۸۔ارے تیرے کی، شکیل اعجاز
ص ص:۰۵۔۴۵
۹۔پیاز کے چھلکے کا بادشاہ، یوگندر بالی
ص ص:۵۵۔۶۵
۰۱۔ میرے پیارے اورنیارے پاپا، رانی آہوجہ
ص ص:۷۵۔۸۵
۱۱۔میرے والد صاحب، پھول کمار
ص ص:۹۵۔۲۶

(۲)باتیں فکر تونسوی سے (انٹرویو) ڈاکٹر مظفرحنفی
ص ص:۳۶۔۲۷

(۳) فن
۱۔فکر اور طنز و مزاح،کرشن چندر،
ص ص:۵۷۔۶۷
۲۔فکر کی شاعری،کنھیا لعل کپور،
ص ص:۷۷۔۹۷
۳۔پیاز کا چھلکا:فکر تونسوی،ممتازمفتی،
ص ص:۰۸۔۷۸
۴۔ فکر:ایک دانشور،شفیق الرحمٰن
ص ص:۸۸۔۶۹
۵۔فکر تونسوی، ڈاکٹر وزیر آغا
ص ص:۷۹۔۹۹
۶۔فکر تونسوی: دھرتی کا باسی، پروفیسرگوپی چند نارنگ
ص ص:۰۰۱۔۴۰۱
۷۔فکر تونسوی کا مزاح،ڈاکٹر انور سدید
ص ص:۵۰۱۔۰۱۱
۸۔فکر: مقصد حیات کی خوشبو، دیویندر اسّر
ص ص:۱۱۱۔۳۱۱
۹۔نقش فریادی ہے، بلراج کومل
ص ص:۴۱۱۔۶۱۱
۰۱۔فکرمند طنز نگار، ڈاکٹر سلیم اختر
ص ص:۷۱۱۔۱۲۱
۱۱۔فکرتونسوی:تیزاب، طنز اور تازیانہ،ڈاکٹر سید حامد حسین
ص ص:۷۱۱۔۱۲۱
۲۱۔فکر کے مکتوباتی مخطوطے، یوسف ناظم
ص ص:۴۲۱۔۵۲۱
۳۱۔طنز و مزاح کا اکبر بادشاہ، دلیپ سنگھ
ص ص:۶۲۱۔۷۲۱
۴۱۔دودھ میں پیاز، کے۔کے۔کھلّر
ص ص:۸۲۱۔۳۳۱
۵۱۔فکر کی طنز و مزاح نگاری، ڈاکٹر اختر بستوی
ص ص:۴۳۱۔۶۳۱
۶۱۔طنز و مزاح میں فکر تونسوی کا حصّہ، محمد مشتاق شارق
ص ص:۷۳۱۔۸۳۱
۷۱۔لمحہئ موجود کا طنز نگار، انور ظہیر خاں
ص ص:۹۳۱۔۱۴۱
۸۱۔طنز و مزاح کا عظیم فنکار، محمد اعظم
ص ص:۲۴۱۔۷۴۱
۹۱۔فکر تونسوی بحیثیت شاعر، نم اعظمی
ص ص:۸۴۱۔۰۵۱

(۴) کلامِ فکر

الف:نظمیں:]ص ص:۱۵۱۔۰۹۱[
معبود،مہاگیانی،اپنی پوجا، کُن، اجنبی مجسّمہ،تنہائی،مشورہ، اوّلین موت،سوئمبر،جینیس، ۷۴۹۱،حوّا کی بیٹی(ایک طویل نظم)،افسونِ انتظار، ناتمامی، شکنتلا،……اور ظلمت نے کہا، چھکڑے، دھواں،واپسی، تب اور اب،عمل‘ ردِّ عمل، خلوص، اخلاق،احتجاج،بلاوے،عوام، نیند، بغاوت،برہمچاری،وہی پرانی ریت،پچھتاوا، بیاہ،دو جواب، بے ٹھکانہ،ارتقا، ایک کہانی،مہرے، بچھڑا ہوا گھر،راستہ‘ راستہ،وہاں سے یہاں تک،جاؤ کہہ دو،مراجعت، زندانِ ہراس،پھر بھی۔
ب:غزلیں:]ص ص:۱۹۱۔۶۹۱[
اے مست رنگ و نگار و صورت!اگر تجھے اعتبار آئے/ ہارے ہوئے کھلاڑی پانسے بدل رہے ہیں /کہیں تو باقی ہے راز سرور و سوز ابھی/ان خاک کے ذرّوں پہ ہے دامانِ حرم تنگ/وہی تو غضب سے جیتا وہی میں ادب سے ہارا/شاید ہوں مرے نالہئ بیدار کے غمّاز/ اِک حوصلے کی جست باندازِ براہیم/خاک بت خانہ پہ ابھرے اہلِ مکتب کے صنم/تو پاس آنہیں سکتا، ترا گلا بھی نہیں /بخیہ گر حاضر نے حیلے تو کیے لاکھوں۔
(۵)غیر مطبوعہ نگارشات ]ص ص:۷۹۱۔۰۳۲[
اس دفتر میں (ص:۸۹۱)، دس روپے کا نوٹ(۳۰۲)، اپنی مخالفت میں (ص:۶۰۲)، اپنی حماقت میں (ص:۹۰۲)، الف سے یے تک (ص:۴۱۲)، ہندوستان کے غریب(ص:۹۲۲)
(۶)چھٹا دریا (تقسیمِ ہند کے موقع پر فسادات سے متعلق روزنامچہ)،جون ۸۴۹۱۔۸ نومبر،ص ص:۱۳۲۔۰۷۳
(۷)منتخب مضامین:(کل چار مضامین)]ص ص:۱۷۲۔۰۹۲[
شراب خانہ(ص:۲۷۲)،داتا نگری میں (ص:۶۷۲)،مفتی کا فن(ص:۷۸۲)،فکر نامہ(ص:۰۹۲)
(۸)فکر تونسوی کے خطوط]ص ص:۱۹۲۔۴۵۳[
(۱)مکتوب بنام ممتاز مفتی(تعداد:چھ)،ص ص:۲۶۲۔۵۹۲
(۲)مکتوب بنام قتیل شفائی(تعداد:پندرہ)،ص ص:۵۹۲۔۴۰۳
(۳)مکتوب بنام ہر چرن چاولہ (تعداد: سات)،ص ص:۴۰۳۔۸۰۳
(۴)مکتوب بنام راجندربھاٹیہ (تعداد:دو)،ص ص:۸۰۳۔۹۰۳
(۵)مکتوب بنام بھگوان داس اسیر (تعداد:آٹھ)،ص ص:۹۰۳۔۳۱۳
(۶)مکتوب بنام رام لعل (تعداد:پانچ)،ص ص:۳۱۳۔۶۱۳
(۷)مکتوب بنام اوم کرشن راحت (تعداد:چھ)،ص ص:۶۱۳۔۸۱۳
(۸)مکتوب بنام پروین عاطف (تعداد:ایک)،ص ص:۸۱۳۔۹۱۳
(۹)مکتوب بنام بھولاناتھ (تعداد:اڑتالیس)،ص ص:۹۱۳۔۹۳۳
(۰۱)مکتوب بنام یوسف ناظم (تعداد:گیارہ)،ص ص:۹۳۳۔۳۴۳
(۱۱)مکتوب بنام معشوق خاور (تعداد:دو)،ص:۳۴۳
(۲۱)مکتوب بنام محمد طفیل (تعداد:ایک)،ص:۳۴۳
(۳۱)مکتوب بنام غلام نبی کچلو (تعداد:دو)،ص:۴۴۳
(۴۱)مکتوب بنام مظفر حنفی (تعداد:ایک)،ص ص:۴۴۳۔۵۴۳
(۵۱)مکتوب بنام صہبا لکھنوی (تعداد:ایک)،ص:۵۴۳
(۶۱)مکتوب بنام مستور غزنوی (تعداد:ایک)، ص:۵۴۳
(۷۱)مکتوب بنام کے کے کے (تعداد:ایک)،ص ص:۶۴۳۔۷۴۳
(۸۱)مکتوب بنام مسٹر سرہندی (تعداد:ایک)، ص:۷۴۳
(۹۱)مکتوب بنام لم سلمے (تعداد:ایک)،ص ص:۷۴۳۔۸۴۳
(۰۱)مکتوب بنام صابری (تعداد:ایک)، ص:۸۴۳
(۱۲)مکتوب بنام مسز شردتا (تعداد:ایک)،ص ص:۹۴۳
(۲۲)مکتوب بنام شکیل اعجاز (تعداد:دو)،ص ص:۰۵۳۔۱۵۳
(۳۲)مکتوب بنام رحمٰن اکولوی (تعداد:دو)،ص ص:۱۵۳۔۲۵۳
(۴۲)مکتوب بنام ساحرہوشیارپوری (تعداد:چھ)،ص ص:۲۵۳۔۴۵۳
(۹)متفرقاتِ فکر:(کل نو مضامین)]ص ص:۵۵۳۔۵۷۳[
۱۔مجتبیٰ بھائی، فکر بھائی (خاکہ)
ص ص:۶۵۳۔۹۵۳
۲۔پندرہ اگست کا دن (یادداشت)
ص ص:۰۶۳۔۱۶۳
۳۔ممتاز مفتی کا خط (ایک تاثر)
ص ص:۲۶۳۔۳۶۳
۴۔، فکر تونسوی کا کچّا چِٹھّا
ص ص:۴۶۳۔۵۶۳
۵۔دیباچہ نگار نے کہا (دیباچہ)
ص ص:۶۶۳۔۷۶۳
۶۔میرے شب و روز(خود نوشت)
ص:۸۶۳
۷۔فکر کا انٹر ویو تونسوی سے (خودکلامی)
ص ص:۹۶۳۔۱۷۳
۸۔ میری شاعری (اظہار)
ص ص:۲۷۳۔۳۷۳
۹۔ مہمان اداریہ
ص ص:۴۷۳۔۵۷۳
نیا دور(یادِ رفتگاں نمبر)،حصہ اوّل،لکھنؤ، جلد:۳۴، شمارہ:۱تا ۶،اپریل تا ستمبر ۸۸۹۱
مدیر: امیر احمد صدیقی
گوشہئ فکر تونسوی بعنوان:ستم ظریفی تو کوئی دیکھے ہنسانے والا رُلاکے اٹھا
مندرجات:
۱۔فکر میرا یار،وامق جونپوری
ص ص:۷۵۱۔۳۶۱
۲۔فکر تونسوی کی یاد میں،مجتبیٰ حسین
ص ص:۴۶۱۔۹۶۱
۳۔فکر تونسوی کی طنز و مزاح نگاری، ڈاکٹر اختر بستوی
ص ص:۰۷۱۔۱۷۱
۴۔، فکرکا اندازِ فکر،امان اللہ خاں شیروانی
ص ص:۲۷۱۔۷۷۱
۴۔ فکرتونسوی:حیات اور خدمات،ڈاکٹر محمد اسمٰعیل فتح پوری
ص ص:۸۷۱۔۱۸۱
۶۔عوام کا ہمدرد: فکرتونسوی، مشتاق انجم
ص:۲۸۱۔۴۸۱
۷۔گھنے جنگلوں میں (نظم)، وقار ناصری
ص:۵۸۱

ماخذ
۱۔ اکادمی(دو ماہی)،لکھنو، مدیر: محمود الٰہی، جلد: ۷، شمارہ: ۵، مارچ۔اپریل ۸۸۹۱
۲۔ بیسویں صدی،(فکر تونسوی:حیات اور کارنامے)پبلی کیشنز،پرائیویٹ لمیٹڈ، ۳۸۵۳، نیتاجی سبھاش مارگ، نئی دہلی، پہلا ایڈیشن ۸۸۹۱
۳۔ نیا دور(یادِ رفتگاں نمبر)،حصہ اوّل،لکھنؤ، مدیر: امیر احمد صدیقی،جلد:۳۴، شمارہ:۱تا ۶، اپریل تا ستمبر ۸۸۹۱

Leave a Reply