مختصر تعارف
نام : فوزیہ مغل
تاریخ و مقام پیدائش : 26 دسمبر ، 1975 لاہور
مقیم فرینکفرٹ جرمنی
اضافِ ادب : غزل،نظم،افسانہ،کالم،مضمون،سفر نامہ
طبع شدہ: (1) بھرم ، شاعر ی ۔ (2) بُلھا عاشقی ؒ، نثر و نظم۔ریسرچ ورک
(3) نشانِ حیدر کی کہانی نانی ااماں کی زبانی ۔نثر
(4) اللہ پا کستان نثر (5)مائین کنارے، افسانہ ، ڈرامہ
نبی ﷺ کا قصیدہ ۔ مرتب۔۔’’ ماں تیری عظمت کو سلام‘‘ مرتب
زیرِ ترتیب: (6)امیرِ شہر ، نثر ۔۔(7) مرشدی ، نثر
چیف ایڈیٹر: دبستانِ اُردو فرینکفرٹ
چیئرپرسن: ’’ پیس اینڈ ایجوکیشن فائونڈیشن ‘‘
چیئرپرسن مغل پبلشنگ ہائوس لاہور
اعزازات: (U,R,I) امن ایوارڈ (۲۰۰۵)
شری راجیو گاندھی ایوارڈ (۲۰۰۶) بھارت
سلطان باہو ایوارڈ (۲۰۰۶)
بلھے شاہ ایوارڈ (۲۰۰۷)
سی ایم ایس ایوارڈ (۲۰۰۷)
***
فوزیہ مغل کی غزلیں
واسطہ ہم سے تو پہلے ہی وہ کم رکھتے ہیں
وہ ہمی ہیں جو محبت کا بھرم رکھتے ہیں
کھول دیں بھید ہمارے نہ کسی دن آنکھیں
اس لیے جان کے ہم آنکھوں کو نم رکھتے ہیں
میں ادا بند نہیں ، پر یہ سنا ہے میں نے
وہ ادا خاص ہے جو میرے صنم رکھتے ہیں
بانٹتے رہتے ہیں مُسکانیں ہم اپنی سب میں
اور چھُپا کر دلِ ہمدرد میں غم رکھتے ہیں
دیکھ لیتے ہیں بُلا کر اُنہیں چاہیں جس دم
کم سے کم اتنا تو ہم آنکھوں میں دم رکھتے ہیں
ہو نہ جائے کہیں ناراض مرا وعدہ شکن
فوزیہؔ اس کے لیے سر کو بھی خم رکھتے ہیں
کوئی دل بھی نفرت سے خالی نہیں ہے
خدا تیری دُنیا مثالی نہیں ہے
اذانوں کی رسمیں ادا ہو رہی ہے
مگر ان میں جوشِ بلالیؓ نہیں ہے
میرے عہد کے عالموں کی نہ پوچھو
کوئی بھی تو انِ میں غزالیؓ نہیں ہے
چمن جو محبت کا سوکھا پڑا ہے
یہ وہ باغ ہے جس کا مالی نہیں ہے
حقیقت ہے رنگِ سخن میں نمایاں
میری شاعری تو خیالی نہیں ہے
٭٭٭
گفتار میں وہ اپنی بے باک ہو گیا ہے
جیسے کہ ہر کمی سے وہ پاک ہو گیا ہے
آنکھوں کی پتلیوں میں ٹھہرا وہی ہے منظر
جس سے کہ دل ہمارا صد چاک ہو گیا ہے
رکھنا پڑے گا پھر بھی ہم کو بھرم وفا کا
مانا کہ جلتے جلتے دل خاک ہو گیا ہے
رکھوں میں کیسے آخر زخموں پہ اپنے مرہم
ہر غم میرے بدن کی پوشاک ہو گیا ہے
کہنے کو ہم سے بچھڑا اک شخص فوزیہ، پر
ماحول کیوں یہ سارا نمناک ہو گیا ہے
تم سے مل کر یہ لگا خود سے ملاقات ہوئی
آج یہ بابِ محبت میں نئی بات ہوئی
اب نہ پہلی سی توجّہ نہ وہ پہلا سا سلوک
ختم اب جیسے ہر اک رسمِ مراعات ہوئی
چَھٹ گئے سر سے مرے رنج و الم کے بادل
رات بھر آنکھوں سے اشکوں کی وہ برسات ہوئی
ہم مسافر تھے رہِ عشق کے یا خانہ بدوش
دن کہیں ہم نے گزار ا تو کہیں رات ہوئی
ہم سے انسانوں کی اس عالمِ ہستی میں بھلا
کس کو معلوم ہے کیسے بسر اوقات ہوئی
آخری وقت میں وہ آئے ہیں پُرسش کو مری
فصلِ جاں سوکھ گئی اپنی تو برسات ہوئی
فوزیہؔ مل ہی گئی منزلِ مقصود ہمیں
شکر ہے گردشِ ایام کو بھی مات ہوئی
۷
نہ میں خیال میں تیرے نہ میں گمان میں ہوں
یقین دل کو نہیں ہے کہ اس جہاں میں ہوں
خدایا رکھئے گا دنیا میں سرفراز مجھے
میں پہلے عشق کے پہلے ہی امتحان میں ہوں
وہ جس کو دیکھ کے بچے بھی سارے چھوڑ گے
میں ایک ٹوٹا کھلونا کسی دوکان میں ہوں
یہ اور بات نہ چھت ہے نہ اس میں دروازے
خدا کا شکر ہے اپنے ہی میں مکان میں ہوں
بڑا طویل سفر تھا یہ زندگی کا میری
فرشتوں سونے دو مجھ کو کہ میں تھکان میں ہوں
اب اُن سے کیا کہوں فوزیہؔ کہ میں تو اب بھی
کبھی میں ناںتو کبھی ہاں کے درمیان میں ہوں
–٭–
نظم ۔ راکھی
یونہی دیکھوں جو راکھی کو تو یہ رنگین ڈورا ہے
جو دیکھوں غور سے اس کو تو ہے زنجیر لوہے کی
جو بڑھ کر قید کر لیتی ہے آفت اپنے بھائی کی
مصیبت کی حقیقت کیا ہے!
مصیبت آنہیں سکتی!
مصیبت کانپ جاتی ہے!
جو راکھی دیکھ لیتی ہے
کسی بھائی کے ہاتھ میں
راکھی کے دھاگے میں
بہن نے پیار باندھا ہے
اتہاس میں راکھی ہے رشتہ بھائی بہنوں کا
حوالہ اس میں پوشیدہ ہے صدیوں کے رشتوں کا
بندھا ہے پیار اس میں بہن کا
اور اس کے پُرکھوں کا
راکھی!
نبھانا لاج راکھی کی مر ے بھیّا
بہن کا مان رکھ لینا !
بندھا کرہاتھ میں راکھی بہن سے
ہر کوئی بھائی
بہن کے سُکھ کے واسطے
تیار ہوجاتا ہے مرنے کو
مگر بھیّا!!
تمہاری زندگی تو
بہن کو دل سے پیاری ہے!
سلامت تم رہو
بھگوان سے بنتی ہماری ہے
جو چاہو ، نیگ ،تم دینا
تو مجھ کو یہ وچن دیدو
نہ اٹھے پھر کوئی دیوار نفرت کی
بہن بھائی کے آنگن میں
نہیں ’بیوپار ‘ کچھ اس میں
یہ اک ’بیوہار ‘ ہے بھیّا
نہیں ہے کچّا یہ ڈورا
ترا اعتبار ہے بھیّا
–٭–
نظم۔ منزل
میں رنگوںمیں ہوںکبھی برش میں
کبھی کینوس پہ سجی ہوں میں
میں قوسِ قزاح ہوںحروف کی
الفاظ کی اک لڑی ہوں میں
مجھے خود بھی اپنا پتا نہیں
میں کہاںنہیں اور کہاں ہوں میں
اب تلاش کرنے سے فائدہ !
میں جو مل بھی جائوں تو کیا بھلا
پھر بھی ایک خلش سی ہے
تیری جستجو صبح شام ہے
یہ جو خواہشیں ہیں فضول سی
اک عمر سے مرے ساتھ ہیں
جو میں دامن ان سے چھڑا سکوں
تو سکوں تصوّف میں پاسکو
مگر شفاف پردے تصوّف کے ہیں
مجھے کس طرح سے چھپائیں گے
مجھے قید کرنا محال ہے
میں مگن ہوں اپنی ہی ذات میں
کون و مکاں سے بے خبر
مجھے آرزو تھی کبھی ملے
کوئی رازداں کوئی ہم نوا
مگر کبھی کوئی ایسا ملا نہیں
جہاں روسکوں کبھی رکھ کے سر
جو ملا وہ اپنا ہی کاندھا ہے
جہاں روتی ہوں میں جھکا کے سر
میں مہیب رات کا پہر ہوں
نہیں سحر میرے نصیب میں
یہ سحر تیری ہے تُو رکھ اسے
میں تو سحر سے بہت دُور ہوں
میں نہ ہاتھ اب کبھی آئوں گی
مجھے ڈھونڈنا بھی فضول ہے
یہ جو راستے ہیں چہار سو
لے جائیں گے مجھے کو بہ کو
بہت منزلیں ہیں یہاں وہاں
میری منزل ان میں
کوئی نہیں
ہاں میری منزل نہیں کوئی
میں تو اپنی منزل آپ ہوں !
٭٭٭
***