You are currently viewing غزل و نظم : امجد مرزا امجد،لندن
امجد مرزا امجد ، لندن

غزل و نظم : امجد مرزا امجد،لندن

غزل

(1)

جب بھی دیس کو واپس جاؤں آنکھ میں آنسو آئے

ذہن میں ماضی کو لوٹاؤں آنکھ میں آنسو آئے

اپنے شہر کے گونگے بہرے لوگوں کو میں اپنے

جب بھی دل کی بات سناؤں آنکھ میں آنسو آئے

قدم قدم پر دھوکے باز ہیں پیار جتاتے ہیں

ان کے راز سمجھ نہ پاؤں آنکھ میں آنسو آئے

یہ مسکانیں جھوٹی خوشیاں کب تک بانٹوں میں

کس کو دل کے زخم دکھاؤں آنکھ میں آنسو آئے

کوئی نہ میرے آنسو پونچھے گلے نہ کوئی لگائے

کس سے اب میں آس لگاؤں آنکھ میں آنسو آئے

درد میں ڈوبا کیسے لکھوں دنیا کا افسانہ

امجدؔ جب بھی قلم اٹھاؤں آنکھ میں آنسو آئے

(انتخاب : ہوائے موسم دل)

*****

(2)

معراج محبت

محبت ایک جذبہ ہے ، محبت دل میں ہوتی ہے

محبت جس کو کہتے ہیں ، وہ ہی انمول موتی ہے

محبت ہی کا جذبہ ہے ، جو خالق سے ملاتا ہے

محبت ہی کے جذبے سے بشر معراج پاتا ہے

محبت آدمیت کو  سبق  دیتی ہے  الفت کا

محبت نام ہے صدق و وفا ، مہر و مروت کا

چراغ معرفت دل میں دل میں جلاتی ہے محبت ہی

بچھڑ جائیں تو  آپس میں ملاتی ہے محبت ہی

محبت گر نہ ہو دل میں ، وہ انساں ہو نہیں سکتا

محبت کے بنا ایماں بھی ایماں ہو نہیں سکتا

نہ تھا دل کو سکوں ہر دم ، کمی محسوس ہوتی تھی

ہنسی کے ساتھ آنکھوں میں نمی محسوس ہوتی تھی

(انتخاب: سوز حیات،امجد مرزا امجد)

*****

(3)

امتحان وقت کا

زلزلوں کا سلسلہ

ہو قبول جب دعا

آستاں سے سر اٹھا

خامشی کا دبدبہ

شور کو دبا گیا!

کچھ خطا تو کچھ سزا

نصف نصف ہے مزا

ایک کیف بے خودی

عشق نے یہی دیا

آتشیں خیال کو

آنسوؤں کا آسرا

(انتخاب : ہوائے موسم دل)

*****

(4)

اب موت بھی تو سستی نہیں ہے

(اخبار میں کسی غریب اور بے بس عورت کے گھریلو حالات پڑھ کر متاثر ہو کر لکھی ہوئی نظم!!!)

ترے نام سے ابتدا کر رہی ہوں

ترے در پہ اک التجا کر رہی ہوں

نہ گھر ہے،نہ در ہے،نہ ہے کوئی اپنا

بکھرنے کو ہے میری زیست کا میری سپنا

ابھی میرے بچوں کی ہےعمر  کچی

ہمیں ہے فقط اک ترا ہی سہارا

خدارا،خدارا ،خدارا ، خدارا

یہ مانا کہ تیری رضا بھی اٹل ہے

یہ مانا کہ اک دن قضا بھی اٹل ہے

مری یہ دعا ہے کہ اے میرے مالک!

مرا سائیں سر سے ابھی مت اٹھانا

علاج اس کا کرنے کا یارا نہیں ہے

معالج کی فیسوں کا چارہ نہیں ہے

دوائی خریدوں،

تو کیسے خریدوں

بہت نا سمجھ ہیں ابھی میرے بچے

نہیں دیکھ سکتی انہیں میں بلکتے

مگر ماسوا اس کے چارا ہی کیا ہے

مجھے اے خدا ! بس ترا آسرا ہے

تو دے حوصلہ میرے لخت جگر کو

مرے ننھے منے سے لعل و گہر کو

زمانے کی نظروں سے نظریں ملائے

کمائی وہ محنت کی گھر لے کے آئے

اور۔۔۔۔۔۔۔ایک ایک قطرے سے دریا بنائے

کروں وہ ، جو دنیا نہ کر پائی تیری

میں دفن و کفن بھر کا سامان کر لوں

مرے سر کا سائیں ہے  تیری امانت

رضا ہے تری گر ، اٹھا لینا اس کو

کہ اب موت بھی تو کوئی سستی نہیں ہے

(انتخاب: سوز حیات،امجد مرزا امجد)

*****

(5)

“’’تجھے کیا سناؤں میں دلربا جو ترے بنا مرا حال ہے

 تری اک نگاہ کی بات ہے مری زندگی کا سوال ہے

نہیں یاد کیا تجھے جان من وہ جو عہد باندھے تھے پیار کے

تیری یاد قلب کی ہے تڑپ تری یاد درد کا جال ہے

 وہ جو آگ تھی تیرے پیار کی وہ بھڑک رہی ہے ابھی تلک

 مری جان! تیری نگاہ کا یہ بس ایک ادنیٰ کمال ہے

 ترے ہجر میں ہے جو بے کلی مجھے کر گئی ہے وہ جاں بلب

مجھے سب گوارا اذیتیں مگر آرزوئے وصال ہے

 مری کیا مجال کہ لکھ سکے مرا یہ قلم تیری مدحتیں

 ترے پیار کی ہے یہ دین سب ترے عشق کا یہ کمال ہے

 سبھی رنگ قوس و قزح کے ہیں ترے حسن سادہ میں جلوہ گر

 جو ہے کہکشاں سے حسین تر وہ ترا ہی حسن و جمال ہے

(انتخاب : ہوائے موسم دل)

*****

امجد مرزا امجد،لندن

Leave a Reply