You are currently viewing علامہ اقبال کی شاعری میں پیغامِ انسانیت

علامہ اقبال کی شاعری میں پیغامِ انسانیت

                                                                                                        علامہ اقبال کی شاعری میں پیغامِ انسانیت

مقالہ نگار: ۔ سکینہ اختر، کشمیر

علامہ اقبال کی شاعری مختلف گوشوں سے مالا مال ہے ۔ اور ان کی شاعری میں پیغامِ انسانیت کے حوالے سے بات کرنا بہت مشکل کام ہے ۔ علامہ اقبال کی شاعری میں تصورِ انسانیت کا درس پوری عالم کے لئے جلوہ افروز ہے ۔ مگر عصرِ حاضر میں اقبال کے ناداں پر ستاروں نے انھیں شاعر کم اور مسلمان زیادہ قرار دیا ہے اور انھیں خالص مذہبی نام سے پکارا گیا ہے ۔ اگرچہ ان کے کلام میں تصوف کے شعلے چمک رہے ہیں ،دوسری طرف ان کی شاعری جس نے پوری انسانیت کو چونکا دیا ہے جسے نظر انداز کرنا ناممکن امر ہے ۔ اقبال۔ کی شاعری وطن پرستی، انسان دوستی اور تاریخ کا ایک گلدستہ ہے جس نے بلا مذہب و ملت پوری عالمِ انسانیت کو چونکا دیا ہے ۔ جس میں اقبال صرف مسلمانوں سے ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت سے خطاب کرتے ہیں ۔ یہ بات جاننے کی اشد ضرورت ہے کہ اقبال کے دل میں ایک عام انسان کے لئے کتنی محبت ہے اگرچہ ان کے عہد میں پورا ہندوستان انگریزوں کے زیرِ نگیں تھا بلکہ ان کے عہد میں ہندو اور مسلمان کے درمیان انگریزوں کی طرف سے بوئے ہوئے نفرت اور تفریق کے بیج پودے کی شکل اختیار کرچکے تھے ۔ اسی دوران اقبال۔ جہاں ایک طرف اپنی شاعری کو قرآنی تفسیرکا رنگ دے رہے تھے دوسری طرف خاک ِ ہند کو بچانے کے لئے اپنی ایڑیاں رگڑ رہے تھے جس کی مثال یوں ہے ۔

اے وطن کی مٹی مجھے ایڑیاں رگڑنے تو دے
مجھے یقین ہے کہ چشمہ یہیں سے نکلے گا

اقبال کی شاعری میں جہاں اسلامی تعلیم کا رجحان کثرت سے ملتا ہے وہیں رام کا ذکر بھی ملتا ہے اقبال۔ نے ایک نظم رام کے نام بھی لکھی ہے جس میں وہ رام کو’’امام ہند‘‘ کے نام سے پکارتے ہیں ۔ اس طرح یہ بات واضع ہوجاتی ہے کہ اقبال۔ کی شاعری مسلمانوں تک ہی محدود نہیں بلکہ پورے عالمِ انسانیت کے لئے ایک اہم تحفہ ہے ۔ اقبال۔ جہاں علم و دانش کا جنڈہ گھاڑتے ہیں وہیں غریبوں اور مزدوروں کو بیدار کرنے کی مہم اپنی شاعری کے ذریعے چلاتے ہیں ۔

اٹھو! میری دینا کے غریبوں کو جگادو
کاخ امرا کے درو دیوار ہلادو
جس کھیت سے دہقان کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو

اقبال نے امت ِ مسلمہ کو فرقہ پرستی سے ہٹ کر ایک جٹ ہونے کا پیغام دیا ہے وہیں نوع انسان سے محبت اور بھائی چارگی کی تلقین بھی کی ہے ۔

یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتاءو مسلمان بھی ہو
فرقہ پرستی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں
ہوس نے ٹکڑے ٹکڑے کردیا ہے نوع انسان کو
اخوت کی زبان ہوجا، محبت کی زبان ہوجا

عام طور پر اقبال کو ’’فلسفہ خودی‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے یہ تصور کافی نہیں بلکہ ان کی شاعری کے لامحدو دپہلوں نظر آتے ہیں ۔ زیادہ تر مقالہ نگار اور قارین ’’فلسفہ ‘‘ اور تصوف کے رجحانات تک محدود ہیں ۔ اس حلقہ سے باہر بھی جانک کردیکھنا چائیے کہ اقبال کی شاعری میں یہاں کی تہذیب و ثقافت بھی ہے ۔ سیاسی، سماجی، اور معاشی سرگرمیاں تا حال گردش کرتی نظر آرہی ہیں ۔ جن کی تصویر ان کی نظمیہ شاعری میں موجود ہے ۔ ’’بانگِ درا‘‘ میں بہت سی نظ میں اس کی پیروی کرتی ہیں ۔ نظم ’’تصویر درد‘‘ میں اقبال بڑے نرم لہجے میں اپنے دل کی آواز وطن پرستی کا سبق کچھ یوں بیاں کرتے ہیں ۔
وطن کی فکر کر ناداں ! مصیبت آنے والی ہے
تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
اسی طرح نظم ’’بچے کی دعا‘‘ میں جہاں وہ رب سے دعا مانگتے ہیں وہیں ایک چھوٹے سے بچے کے ذریعے عالمِ انسانیت کی کا درس بھی دیتے ہیں ۔ جو بچوں میں آپسی اتحاد، بھائی چارگی، اور انسان دوستی کا مکمل تقلبی درس ہے ۔
ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا
دردِ مندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا
اس کے علاوہ اقبال نے بچوں کی تعلیم کو دلچسپ بنانے اور انسان دوستی کو محفوظ رکھنے کے لئے ماں باپ کی عزت و احترام پر بیشتر نظ میں تحریر کی ہیں جن میں ’’پرندے کی فریاد‘‘ ’’ماں کا خواب‘‘ ’’ہمدردی‘‘ ’’ایک گائے اور بکری‘‘ ’’ایک پہاڑ اور گلہری‘‘ وغیرہ نظ میں ’’بانگِ درا‘‘ میں شامل ہیں ۔ اس طرح مذہب اور ادب کبھی نفرت ، عداوت اور اختلاف کو بڑھاوا نہیں دیتے بلکہ مذہب اور ادب دونوں آپس میں بھائی چارہ محبت کا پیغامِ انسانیت اور قومی یک جہتی کا وہ سبق دیتے ہیں جس میں عام انسان کی بلائی ہوتی ہے ۔ اقبال۔ نے اپنی شاعری کے ذریعے بہت سے الجھے ہوئے مسائل کا حل ڈھونڈا ہے ۔ یعنی جو الجھے ہوئے مسلے تھے انہیں آسان کرنے کی کوشش کی ہے انہوں نے مشرق و مغرب میں مسلم اور غیر مسلم پر علم کی علیاری اور قوم کی خطرنانی پر تنقید کی ہے ۔ آج کا علم کا بڑھتا ہوا رجحان جو انسان کو زیادہ تر خرابی اور ختم ہونے کی طرف لے جارہا ہے ۔ تمام ممالک اسی بھاگ دوڈ میں لگے ہوئے ہیں کہ کیسے زیادہ سے زیادہ مہلک ہتھیار بنائے جائیں تاکہ دوسرے ممالک کو دبا یا جائے تو اس قسم کے علم کی اقبال۔ نے کافی تنقید کی ہے ۔
محبت اور انسان دوستی کا سروران کی شاعری میں اس طرح گل مل گیا ہے جیسے دل کی دھڑکن جسم کے اندر پیوسط ہے اور ان کا جو محبت بھرا پیغام اس میں محبتِ رواداری اور انسان دوستی، یہ تینوں چیزیں جس انسان کے علم میں ہو وہ دنیا میں کامیاب انسان کہلانے کا قائل ہے ۔ چوں کہ اقبال۔ کے نزدیک انسان کائنات کی تخلیق کا عالمی ترین مظہر ہے اس کے فکر و عمل کی وسعتوں کا کوئی حساب نہیں اور انسانی تہذیب کی روح رواں اس بات کو قرار دیتے ہیں کہ انسان کا احترام کیا جائے انہوں نے کہا ۔

بر تراز گردوں مقام آدم است
اصل تہذیب احترام آدم است
یعنی میں انسان کے شاندار اور درخشاں مستقبل پر پختہ یقین رکھتا ہوں اور میرا عقیدہ ہے کہ انسان نظامِ کائنات میں ایک مستقل عنصر کی حیثیت حاصل کرنے کی صلاحیتوں سے بہرہ ور ہے ۔ اس طرح’’بالِ جبریل ‘‘ میں علامہ نے انسانوں کو زمین و آسمان میں بہت اہم مخلوق قرار دیا ہے ۔ اُن کے یہ شعر ملاحظہ ہو ۔

نہ تو ز میں کے لئے نہ آسماں کے لئے
جہاں ہے تیرے لئے تو نہیں جہاں کے لئے
اس طرح علامہ ایک منفرد عالمی شخصیت تھے ۔ جنہوں نے نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ پوری انسانیت کے لئے قرآن و احادیث کی روشنی میں اہم پیغام دیا ہے ۔ بلکہ دنیا کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں وہاں اقبال۔ کی فکر نظر آئے گی ۔ مصر میں لوگ اپنے آپ کا اقبال کا درویش کہتے ہیں ۔ ترکی میں انہیں مرشد رومی کے دوسرا درجہ حاصل ہے ۔ جبکہ بوسینا اور ایران کے لوگ بھی علامہ کے عاشق ہیں ۔ اس کے علاوہ علامہ اقبال۔ نے سیاست اور جمہوریت کی جس طرح تشریح کی ہے وہ بھی لاجواب ہے ۔ انہوں نے ’’رگ وید‘‘کے مشہور منتر کا جسے گابتری منتر کہتے ہیں ۔ ٓزاد ترجمہ کیا ہے اس کے علاوہ اقبال کو مشرقی اور مغربی تمام علوم پر دسترس حاصل تھی ۔
مختصراً ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ علامہ اقبال نے اپنے کلام میں جگہ جگہ ہ میں اس حقیقت کی توجہ دلائی ہے کہ قرآن پوری عالمِ انسانیت کی اصلاح کے لئے نازل ہوا مگر عصرِ حاضر کے اس پُرفتن دور میں جہاں انسانیت کی دجہیاں اُڑھائی جارہی ہیں ۔ علامہ کو خالص مذہبی پیرین پہنایا جارہا ہے ۔ سرکاری اسکولوں کو ان کے کلام سے محروم کیا جارہا ہے جس کا سب سے بڑا نقصان ہمارے نو نہار طلباء کا ہے ان کے ذہن سے درسِ انسانیت سے عاری ہوتا جارہا ہے اور ایسے تصورِ انسانیت کو درگور کرنے کے بجائے اسے بامِ عروج تک پہنچانا چایئے جو ہماری تہذیب و ثقافت کے لئے معاون ثابت ہوگا ۔

Leave a Reply