غزل
عشرت معین سیما ، برلن
حسن کی عکس سے توقیر بھی ہو سکتی ہے
مجھ سے بہتر مری تصویر بھی ہوسکتی ہے
رت جگے پھیل گئے آنکھ میں سرخی بن کر
یہ مرے خواب کی تعبیر بھی ہوسکتی ہے
کہہ رہے ہو کسی پازیب کی جھنکار جسے
وہ کسی پاؤں کی زنجیر بھی ہوسکتی ہے
عمر رفتہ کے یہ آثار چھپانے کے لیے
خستہ جاں پھر تری تعمیر بھی ہوسکتی ہے
خالی ہاتھوں کو یوں حسرت سے نہ دیکھو سیما
ان لکیروں ہی میں تقدیر بھی ہوسکتی ہے