ڈاکٹر مہوش نور
اصل نام: صفیہ صدیقی
قلمی نام: صفیہ صدیقی
پیدائش : 1935 ،بریلی
وفات: 28 نومبر2012 ،لندن
صفیہ کا آبائی وطن قصبہ نگرام ضلع لکھنؤ تھا ان کے داد نگرام کے ایک محلے مولویانہ میں رہتے تھے ۔صفیہ رائے بریلی میں1935 میں پیدا ہوئیں۔رائے بریلی میں صفیہ خاتون کی نانہال تھی۔جب وہ سات سال کی تھیں تو باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا اور یتیمی کو نانا کے پیار بھرے دست شفقت کا سہارا ملا اور وہ رائے بریلی آگئیں۔کچھ دنوں کے بعد وہ پھو پھی کے پاس شملہ چلی گئیں۔
ابھی وہ اس نئے ماحول کو سمجھ بھی نہیں پائی تھیں کہ ملک تقسیم ہو گیا اور چاروں طرف قتل و غارت گری کا بازار گرم ہو گیا۔ان کا خاندان کسی طرح جان بچاکر کالکا کیمپ پہنچا اور وہاں سے لاہور،لاہور سے راولپنڈی جہاں ان کے پھو پھا کا تقرر ہوا تھا۔
اس موت کے مناظر کی تفصیل صفیہ آٹھ سال کی عمر میں شاید کسی کو نہ بتا سکتی ہوں لیکن ان کے اندر جو لاواپک رہا تھا جب وہ افسانوں کی شکل میں کاغذ پر بکھرنے لگے تو ان کے افسانوں میں آگ کے شرارے کی جلن کا احساس خوشبو کی طرح چاروں طرف پھیل گیا۔صفیہ کے گھر کا ماحول مذہبی تھا۔ خاندان میں شعرو شاعری اور علم و ادب کا چرچا تھا ۔1961میں لندن آئیں او1973میں پاکستان چلی گئیں۔
بچوں کی پڑھائی سے متعلق پریشانیاں سامنے آنے لگیں تو لندن واپس آگئیں۔لندن آنے سے پہلے کہانیاں لکھا کرتی تھیں لیکن لندن آنے کے بعد ان کا تخلیقی کام بند ہوگیا۔1971 میں روزنامہ‘‘جنگ’’میں کام کرنا شروع کیا۔وہاں کے ماحول نے صفیہ کو دوبارہ لکھنے کی طرف راغب کیا اور پھر صفیہ نے مختصر افسانے لکھے،تراجم کیے،صحافیانہ انٹرویو لیے،مضامین لکھے۔یہیں سے ان کی ادبی زندگی کا آغاز ہوا ور لوگ انہیں اب صفیہ صدیقی کے نام سے جاننے لگے۔انہوں نے ”راوی”(بریڈ فورڈ) میں بھی کالم لکھا۔ان کے افسانے مشہور ہونے لگے اور اس طرح انہوں نے اپنی ساری توجہ لکھنے لکھانے پر مرکوز کر دی۔ان کی تصنیفات درج ذیل ہیں:
صفیہ نے انگریزی میں ایک کہانی ان سرچ آف اے چائلڈ ہوڈلکھی،عصمت چغتائی کے افسانے ”چوتھی کا جوڑا” کا انگریزی میں ترجمہ کیا،صفیہ صدیقی کے افسانوں کا پہلا مجموعہ”پہلی نسل کا گناہ”1990 دہلی،دوسرا مجموعہ”چاند کی تلاش”1994 لاہور،تیسرا مجموعہ”چھوٹی سی بات”کراچی ہے،صفیہ نے رالف رسل کے مضمون”اردواینڈآئی” کاترجمہ ”میں اوراردو”کے نام سے کیا ہے۔کتابی شکل میں اس ترجمے کا نام”یاداشتیں” ہیں۔اردو افسانے میں صفیہ صدیقی کا نام ایک سنجیدہ اور معتبر نام بن گیا ہے۔
اردو کی یہ معروف افسانہ نگار 28 نومبر 2012 لندن میں انتقال کر گئیں۔وہ لمبے عرصے سے عارضہ قلب میں مبتلا تھیں۔