اپیا، بابرہ شریف، مسٹر بشواش اور ایرک سیگل
(نوٹ: کچھ واقعات اور مقام حقیقی ہیں، باقی سب خیالی)
اپیا نے ناک سکوڑ کر دوپٹہ کے کونے سے آنکھیں رگڑیں ، پردہ سیمیں پر نوجوان غلام محی الدین جہازی سائز ہونٹوں اور بڑی بڑی آنکھوں سے نِیر بہا رہے تھے اور بستر مرگ پر جیٹ واشنگ پاؤڈر والی لڑکی بابرہ شریف آخری ہچکیاں لے رہی تھی، مہدی حسن کی لازوال آواز “ یہ دُنیا رہے نہ رہے میرے ہمدم، کہانی محبت کی زندہ رہے گی” گاتے ہوئے گُونج رہی تھی اور بلا تخصیص عُمر اور لباس ، نسوانی ہچکیاں آنسو اور دبی دبی “ ہائے” کی سرگوشیاں ائیرکنڈیشنڈ سینما ہال کی ٹھنڈک کو گرماتے ہوئے بہہ رہی تھیں، اپیا یہ فلم تیسری بار دیکھنے آئی تھیں، ڈھاکہ یونیورسٹی کی گریجویٹ اپیا، بس کچھ سال پہلے چارٹرڈ طیارے میں ابا اور امی کے ساتھ کراچی پہنچی تھیں اور لیاری کی بہار کالونی میں ایک اسی گز کے پلاٹ پر بنے مناسب سے گھر میں رہنا شروع کیا تھا، ابا مشرقی پاکستان پولیس میں تھے اور سید پور کیمپ میں پہنچتے پہنچتے ایک ہاتھ گنوا چکے تھے، خاندان کے باقی لوگ ٹکڑوں میں پہنچ رہے تھے ، خوش قسمتی سے زیادہ تر گورنمنٹ ملازمین اور تعلیم یافتہ تھے تو بہ نسبت باقی بِہاری مہاجرین کے سامان زندگی جلد بن رہا تھا، اپیا کو بھی رونق اسلام کالج میں فرسٹ ائیر جغرافیہ پڑھانے کی نوکری ملُ چکی تھی، گھر میں امی آبا اور اپیا ہی تھیں ، ان کو اپیا اس لئے کہا جاتا تھا کہ چچا زاد اور خالہ زاد بہن بھائی سب ان سے چھوٹے تھے، چار پانچ برس پہلے جو قیامت مشرقی پاکستان پر گزری، اپیا کو صحیح معنوں میں اپیا کہنے والے اب جانے کہاں کہاں تھے، انیسو پچھتر کا اواخر تھا! کراچی ڈھاکہ کا نعمُالبدل کبھی نہ ہو سکتا تھا، دنیا کی کوئی چیز اس چیز کا نعم البدل نہیں ہو سکتی جس سے آپ کو محبت ہو! ڈھاکہ کیا چھُوٹا اپیا کا دل گویا ٹوٹ سا گیا! اب رشتہ دار اور نئے مہاجرین لاکھ کراچی کی کشادہ سڑکوں، اپنی زبان ، بڑے گھروں کی تعریف کریں اسے اب بھی ارمنی ٹولے کا اوپری منزلٗ کا ایک کمرے کا گھر اور تارا مسجد سے آنے والی موذن کی آواز اور ہر گھنٹے ارمنی چرچ کے گھنٹے کی گُونج ، یہ ابا کی خوشقسمتی تھی کہ رجر باغ کی پولیس لائنز میں گھر دستیاب نہ تھا اور ڈھاکہ پولیس کمشنر امی کے دور کے رشتہ دار تھے جنہوں نے تنخواہ میں اکوموڈیشن الاونس اتنا بڑھایا کہ ابا نے ارمنی ٹولے میں ایک کمرہ کا سستا گھر ایک سابقہ مجرم اور ابا کے موجودہ دوست سے امی کے زیور ، تعلق اور بچت سے سستا خرید لیا! کاغذات میں اکوموڈیشن الاونس کرائے کے نام پر ملتا جو امی اپیا کے زیور کے لئے بچاتیں اور خریدتیں، گرچہ ارمنی ٹولہ کی اچھی خاصی آبادی کرسچن تھی اور کچھ گلیاں نیک نام نہیں تھیں مگر اپیا کو اپنا محلہ ، اسکا رنگا رنگ ماحول اور آزادی پسند تھی، گرچہ امی ساڑھی پر کامدار برقعہ اوڑھتیں لیکن اپیا پر ایسی کوئی قید نہیں تھی، گھر کا نچلا حصہ سات کمروں اور تالاب والا گھر تھا جسمیں بابو شوگھندو بشواش، انکی بیگم اور دو معذور بیٹے سائمن اور رمن رہتے ، ایک نن باقاعدگی سے ہر اتوار چرچ کے بعد ان بچوں پر جھاڑ پھونک کرنے آتی، تالاب جسے امی عیسائیوں کی تلیا کہتیں میں بھولا، پبدا اور چتول مچھلیاں اپنی موت کی آمد سے بے پرواہ مٹکتی جھٹکتی پھرتیں، نن کی تواضع کیلئے بابو بشواش جو بہت رحمدل اور نیک اور حسین آدمی تھے، جانے کس طرح منٹوں میں دو چار مچھلیاں ہتھیالے جال سے نکال کر فرش پر پھڑپھڑانے دیتے اور وہیں اپنے ہاتھوں سے کٹار مار انکی بوٹیاں کرتے اور بیگم بشواش تلیا کے کنارے کبھی بُور اور کبھی کچی کیریوں اور کبھی آم سے لدے درخت کے نیچے ملازم ظفرول کی مدد سے لکڑی کے چولہے پر سرسوں کے تیل میں پانچ پُورن چھٹکا کر مچھلی بناتیں! اندر گھر کے کچن میں ماچھ ماس نہ بنتا کہ مسز بشواش کے اماں ابا یا دادا پردادا قحط کال کے دنوں میں برہمن سے عیسائی ہوئے تھے! گرچہ بنگالی برہمنوں نے صدیوں سے مچھلی خود پر حلال رکھی تھی! امی انکے ہاں کاآیا کچھ نہ کھاتیں لیکن اپیا کو مسز بشواش کے ہاتھوں کی کچوریاں پسند تھیں اور اس سے بھی زیادہ مسٹر بشواش ۔نوجوانی سے ہی اپیا ان پر بے طرح فدا تھیں جس کا ظاہر ہے اپیا کے علاوہ کسی کو نہ پتہ تھا! اس وقت بھی غلام محی الدین کی صورت وہ شوگھندو بشواش کو دیکھ رہی تھیں اور بستر مرگ پر خود کو! ہر بار اس منظر میں خود کو مرتا دیکھ کر اور غلام محی الدین کی جوابی موت پر وہ جی بھر کر روتیں! میرا نام ہے محبت کی ایک اور اہمیت بھی تھی اپیا کیلئے! اپیا “ ایڈن موہیلا کالج”عظیم پور کی طالبہ رہ چکی تھیں! انگلش جغرافیہ اور ایجوکیشن میں بڑے اچھے نمبروں سے پاس ہوئی تھیں لیکن چونکہ فطرتاً بہت منکسر تھیں کبھی خود سے اپنے کالج اور اعلیٰ نمبروں کا چرچا نہیں کرتیں تھیں، صبح سویرے پشتینی سائیکل رکشہ والے بابو موہیر جو ابا کی دگنی عمر کے تھے لینے آتے، اور سہ پہر کو چھوڑنے! چونکہ پڑھنے لکھنے میں طاق تھیں تو بہت سی سینئر لڑکیاں انکے مضامین لکھنے سے فائدہ اٹھاتیں! اور انکے یونیورسٹی پہنچنے پر بھی رابطہ میں تھیں، پیسے لے کر اپنے ہم مکتبوں کو علم میں مدد کرنے کی روایت بہت عام نہیں تھی، البتہ کبھی کبھار اپیا مدد کے عیوض کوئی ایسی کتاب پڑھنے کیلئے مانگ لیتی تھیں جو کالج کی لائیبریری میں نہ ہو اور کسی ہم مکتب کی ذاتی لائیبریری میں یا شہر کی دور دراز لائیبریری میں ہو! ان دنوں شہر کی تقریباً ہر انگریزی دان لڑکی جنہیں اپیا جانتی تھیں ایرک سیگل کے ناول’’ لو اسٹوری‘‘پڑھ کر گویا قریب المرگ حد تک عشق اور شادی کے لئے آمادہ تھیں، اپیا نئے ادیبوں کو کم پڑھتی تھیں انکا سارا انگریزی ادب نصاب یا پھر جین آسٹن تک محدود تھا، مگر اس ناول کا اتنا چرچا سُنا کہ دل چاہا کہ ضرور پڑھیں، مگر مسئلہ یہ تھا کہ ڈھاکہ یونیورسٹی کے لائیبریرن اس وقت ایک پکے جماعت اسلامی کے فولور تھے اور یہ کتاب منگوائی نہیں گئی تھی، ایڈن کالج کی لائیبریرین اور انتظامیہ کو اس کتاب پر کوئی اعتراض نہ تھا بلکہ اپیا کی دوست نے بتایا تھا کہ انگلش لٹریچر کی ٹیچر نے تو یہ تک کہا تھا کہ شادی شدہ جوڑے کی محبت کی داستان پر پابندی لگانے کے بجائے اسے ترویج دینا چاہیے اور رومیو جیولیٹ پر پابندی ہو تو بات سمجھ آئے! ان دنوں ڈھاکہ بلکہ پورے مشرقی پاکستان پر خوف اور بے چینی کے سائے تھے، اپیا اب روزانہ یونیورسٹی بھی نہیں جا پا رہی تھیں ، لیکن اپیا کی ایڈن کالج کی ایک دوست جو دھان منڈی میں رہتی تھی نے رقعہ بھجوایا تھا کہ اگلے ہفتے تک وہ ناول ختم کر لے گی لیکن شہر کے حالات ایسے ہیں کہ وہ گھر سے نکل نہیں پائے گی، کسی کو بھیج کر کتاب منگوا لی جائے! اپیا نے بابو موہیر کو بلوایا کہ انہیں بھیج کر کتاب منگوا لے لیکن انہوں نے آنے سے انکار کر دیا ، بنگلہ اور اردو بولنے والوں کے درمیان ہونے والی ذاتی سرد مہری کا یہ پہلا واقعہ تھا جو اپیا نے محسوس کیا، ابا اور امی کو حکومتی رشتہ داروں نے وارننگ سائنز بھیجنے شروع کر دئیے۔ ابا کو اپنے ساتھی بنگالی دوستوں سے دشمنی کی بو آنے لگی تھی، اپیا گویا گھر میں بند تھیں اور کھانا پکانے میں امی کی مدد کے علاوہ اگر کچھ تھا تو آل انڈیا ریڈیو اور ریڈیو پاکستان کی اردو سروس سننا یا پھر بیگم بشواش کی قسمت پر رشک کرنا کہ کتنے حسین آدمی ملے ( بقول شخصے بیگم بشواش کم رو تھیں اور مسٹر بشواش نے چرچ کے اصرار پر یہ شادی کی تھی کہ شاید مسز بشواش کسی مسلمان بنگالی کے ساتھ بھاگنے کیلئے پر تول رہی تھیں ، رشتہ نہ ہونے کی وجہ سے )۔ ایسی حالت میں جب شہر خوفزدہ ، اور گھر میں کرنے کو بہت کم کام تھا تو اپیا کو اس ناول پڑھنے کی خواہش نے بہت ستانا شروع کردیا تھا! ابا بھی پڑھنے کے رسیا تھے لیکن تقریبا” ہر بہاری مڈل کلاس خاندان کی طرح انکے گھر بھی اردو رسائل اور کتابیں تھیں، اپیا گھر میں واحد تھیں جو بنگلہ فرفر بولتیں بھی تھیں اور لکھتی پڑھتیں بھی تھیں، ابا کی بنگلہ صرف اپنے کام کے حد تک بول چال والی تھی اور اماں بھی سبزی گوشت خریدنے اور کسی حد تک بنگلہ نغمے سمجھ آجائیں والی بنگلہ پر قدرت رکھتیں تھیں، اپیانے گھر میں موجود ہر لکھی چیز کو دوبارہ پڑھنا شروع کیا! گھر میں اتنی جگہ تھی ہی کہاں کہ کوئی کتب خانہ ہوتا، بیس پچیس مذہبی کتابیں رسائل، اور اپیا کے ٹرنک کے اوپر انکے خریدے گئے فلمی اور ادبی جریدے ( سیکنڈ ہینڈ) اور چند انگریزی اور اردو ناولز اور نصابی کتابیں ، ایک آدھ بنگلہ کتاب بھی تھی، جیسے شرت چندر چیٹرجی کی “پرانیتا” کہ بنگلہ پڑھنا جانتے اور جوان ہوتے ہوئے اس کتاب کا نہ ہونا شاید اس عہد میں کسی بھی بنگالی یا بنگال میں رہنے والے کیلئے مشکل تھا۔۔ پرانیتا کو غالباً” دسویں بار پڑھتے ہوئے اور ہمیشہ کی طرح ناول کے کردار شیکھر میں مسٹر بشواش کو تصور کرتے ہوئے اچانک اسے خیال آیا کہ وہ مسٹر بشواش سے کہہ کر دیکھے، وہ بنگالی ہیں اور کرسچن بھی ، دھان منڈی سے ناول لے آئیں گے، پھر خیال آیا کہ کیا سوچیں گے کہ میں “ لو سٹوری” نامی ناول پڑھنا چاہ رہی ہوں! اسی تذبذب میں اپیا بس گلی کا ایک چکر لگانے کے خیال سے سیڑھیاں اتری، سیڑھیاں اترتے ہی مسٹر بشواش کے گھر کی بوگن ویلا کی باڑھ تھی، کاسنی پھولوں سے اٹی، اور بیل کے تنوں کو موڑ کر بل دار چُٹیا سا ایک ننھا منا دروازہ گلی کے اس جانب کیلئے تھا، گھر کا داخلی دروازہ ایک بڑا سا پھاٹک تھا جو بیک وقت ڈی سی رے روڈ اور ارمنی ٹولہ روڈ کے کارنر پر کھلتا تھا اور جہاں ان دنوں مشرقی پاکستان آرٹلری کا ایک دستہ تعینات تھا اور اس بات سے محلے کے اکثر بنگالی خاندان ( مسلمان اور ہندو جو کہ یہاں اکثریت میں نہیں تھے) سخت ناراض تھے کہ مسٹر بشواش نے انہیں چوکی بنانے کی اجازت دی جبکہ مسٹر بشواش کا کہنا تھا کہ اول ان سے اجازت نہیں مانگی گئی اور دوئم ایمرجنسی میں سرکار کچھ بھی کر سکتی ہے! ایک اچھے کرسچن کی طرح مسٹر بشواش چلچلاتی دھوپ اور نم گرمی میں مغربی پاکستان سے آئے لمبے تڑنگے جوانوں کو خاموشی سے پانی، ناریل پانی، جامن اور کھانا پینا پوچھتے رہتے۔۔ اپیا آخری سیڑھی پر تھیں کہ امی کی آواز آئی
’’کہاں جا رہیں ہیں! “
’’ذرا ہوا خوری کر لیں، دل اوب رہا ہے گھر میں‘‘
’’ مت جائیے، ہر طرف دشمن گھات لگائے ہے، خبریں نہیں سنیں، کیسے مار کاٹ شروع کر دئیے ہیں یہ بنگالی لوگ۔‘‘
’’ امی سب ٹھیک ہے ہم بس بیگم بشواش سے ہی مل لیں گے اور پاکستانی فوجی کھڑا ہے نا نُکڑ پر، کُچھ نہیں ہوگا ہمیں۔‘‘
اپیا گلی کی طرف جانے کی بجائے مسٹر بشواش کے گھر باڑھ سے داخل ہو گئیں! مسز بشواش سے انکی اچھی علیک سلیک تھی۔۔ تالاب کے کنارے ملازم عورت کپڑے پٹخا رہی تھی، مسٹر بشواش جُوٹ کے بیوپاری تھے، کم عمری میں ہی کافی خوشحال تھے، سات کمروں کا گھر، اور کافی زمین تھی، اوپر والا حصہ جہاں اپیا کا گھر تھا کسی زمانے میں سٹوریج ہوتا تھا ، سنا تھا وہاں بھوت پریت کا شبہ تھا اسلئے مسٹر بشواش کی والدہ نے گھر سے علیحدہ کر کے وہ کمرہ پچاس ساٹھ سال پہلے ہی بیچ دیا تھا! ابا اور امی کی طرح اپیا چند معاملوں میں کٹر وہابی تھیں اور یہ وہ معاملہ تھا کہ اللہ کے سوا انہیں کسی اور غیر مرئی وجود پر یقین نہیں تھا، البتہ مسز بشواش کو پورا بقول انکے بشواش تھا کہ انکے دونوں بچوں کے معذور ہونے میں ان بھوت پریتوں کا کوئی عمل دخل ہے جنہیں اوپری سٹور روم سے بیدخل کیا گیا تھا، گرچہ ہر بار اپیا انہیں مذاقاً بتاتیں کہ اوپری منزل پر سب سے بڑا بھوت وہ خود ہیں لیکن مسز بشواش اپیا اور انکی فیملی سے اس طرح ملتیں جیسے انکے پاس جنوں اور بھوتوں کو قابو کرنے کا کوئی عمل یا گُر ہے! مسٹر بشواش سے کبھی براہ راست بات نہ ہوتی تو اپیا کو یہ معلوم نہ تھا کہ وہ کتنے ضعیفالاعتقاد ہیں، آج جب اہیا انکے آنگن میں داخل ہوئیں اور ملازمہ سے مسز بشواش کے بارے میں پوچھا ہی تھا کہ اندر سے مسٹر بشواش سامنے آگئے، گندمی رنگت، ستواں ناک، گٹھا ہوا جسم ، بھرے بھرے ہونٹ اور وہ آنکھیں، اپیا نے خود کو ایک شادی شدہ مرد کے حسن پر اپنے اس طرح ریجھنے کو معاف کردیا تھا کیونکہ سوائے ریجھنے کے اپیا کے پاس کوئی اور منصوبہ نہیں تھا! اسے معلوم تھا کہ امی اور ابا راجشاہی کے ایک رشتے دار کے ہاں اسکی بات چلا رہے تھے، لڑکا مقابلے کے امتحان میں دوسری بار جا رہا تھا اور حالات بہتر ہونے پر اسے دیکھنے آنے والا تھا، وہ اس ان دیکھے لڑکے کا تصور بھی یوں کرتیں کہ مسٹر بشواش کی جھلک اس میں ہو۔
’’میگن گھر پر نہیں ہے، لیکن جلد آ جائیں گی ، چرچ گئی ہیں ، آپ کو ان سے کوئی کام ہے۔‘‘
مسٹر بشواش کی بنگلہ بہت میٹھی تھی، ررہی لہجہ جو کُشتیا اور ندیا ضلع میں عام تھا اور ڈھکیا ونگیا بنگلہ سے الگ تھا۔
’’آپ انگریزی ناول پڑھتے ہیں۔‘‘
اپیا میں اتنی ہمت جانے کہاں سے آ گئی
’’جی‘‘
’’چونکہ حالات کی وجہ سے میں کہیں جا نہیں پا رہی تو سوچا کسی سے ایک ناول جو میں پڑھنا چاہ رہی ہوں منگوا لوں ۔‘‘
’’کون سا ناول ؟ آپ میرے کتب خانے سے بھی جو کتاب لینا چاہیں لے لیں، میں بھی ان دنوں بازار نہیں جا رہا کہ دنگے بڑھ رہے ہیں! چاہیں تو ڈرائیور کو بھیج کر زینت سے منگوا لیں، انکے ہاں اچھا کلیکشن ہے۔‘‘
’’نہیں زینت تو بہت مہنگا دکان ہے، ہماری اک دوست ہے دھان منڈی میں اسکے پاس ہے وہ ناول۔‘‘
’’ نام‘‘
’’جی نام ہے۔۔۔ لو اسٹوری‘‘
لمحے کی جھجھک کے بعد اپیا نے کہا:
’’ اوہ ایرک سیگل ، عجیب بات ہے، ہمیں بھی کسی نے یہ ناول سجیسٹ کیا تھا۔‘‘
ابھی بات ہو ہی رہی تھی کہ مسز بشواش دو ملازمین اور بچوں کے ساتھ سڑک والے پھاٹک سے اندر داخل ہوئیں، اپیا کچھ دیر وہاں رہیں ، مسٹر بشواش کا کتب خانہ دیکھا لیکن کوئی کتاب نہیں لی، مسٹر بشواش بوگن ویلا کی پیچاں بیل کے قریب ہی تھے جب اپیا واپس جا رہی تھیں، ڈھاکہ کا سورج کچھ افسردہ لیکن تمازت سے بھرپور تھا، مسٹر بشواش کے شیو زدہ چہرے پر پسینے کے قطرے تھے۔۔
’’وہ اپنی دوست کا پتہ دیتی جائیں، ڈرائیور نے بتایا کہ دھان منڈی ، نیو مارکیٹ ہر جگہ چیک پوسٹ بہت ہیں ، دنگے بھی ہیں اور ہر چیز چیک ہوتی ہے۔‘‘
اپیا نے پتہ دیدیا لیکن یہ کہہ کر کہ کسی کی جان خطرے میں نہ ڈالیں، ( مسٹر بشواش کے ڈرائیور بہاری تھے) حالات بگڑتے ہیں اور ٹھیک ہو جاتے ہیں وہ ناول کیلئے انتظار کر لے گی ۔
’’جان کا خطرہ اب سب کو ہے ، اور مال اور عزت کا بھی، ہمیں بھی بس کچھ دنوں پہلے اندازہ ہوا ہے کہ شہر کا ہر حصہ ناکہ بند ہے، سبزی گوشت کیلئے تو نکلنا ہوگا ہی میں ظفرول کے ساتھ خود جاؤں گا ۔‘‘
اپیا جی کہہ کر اوپر چلی آئیں۔۔ ایک عجیب سی سرخوشی کے ساتھ، اللہ میاں نے یا تو حسین اور خوش اخلاق مرد کم بنائے ہیں یا اسے کم ملے ہیں، اپیا بہت زیادہ دعاوں پر یقین نہیں کرتی تھیں کہ انہیں اللہ پر پورا یقین تھا کہ جو انکے لئے بہتر ہے انہیں وہی ملے گا! لیکن اس لمحے جب مسٹر بشواش پلٹے تو انکی پسینے سے بھیگے ڈھکیا ململ کے سفید کرتے سے جھانکتی جلد دیکھ کر انکا دل ڈگمگایا “ اللہ ہمیں مسٹر بشواش۔۔۔” لیکن اسی وقت خود پر قابو پاکر وہ اوپر چلی آئیں، اپیا کیا جانتی تھیں کہ اس گھر میں یہ انکی آخری رات تھی ۔ اپیا نے اوپر آکر امی اور اپنے لئے چائے اونٹھی، امی کروندوں کی بھجیا بنا چُکی تھیں اور کچھ دیر میں ابا کے آنے سے پہلے اپیا کو صرف چاول ابالنے تھے ، اپیا نے چاول کے ڈبے کھنگالے
’’امی گوبندو بھوگ کا ڈبہ خالی ہے، صرف تھوڑا سا کالیجیرا ہے۔‘‘
’’ تمہارے ابا کو کب سے کہہ دئیے ہیں، کہہ رہے تھے گوبندو کلکتہ سے آتا ہے اور آ نہیں رہا، آج کہیں سے کالا بازار سے ملا تو لے آئیں گے! تم کالیجیرا ہی بنا لو، دال بھی سب ختم ہو رہا ہے، ہمُ دُلیا سبزی لینے گئے تھے، خالی عیسائی لوگ کا ٹھیلا تھا ، بنگالی ایک نہ تھا، کتنا مہنگا ملا ، ہمُ نے دھنیا پتی بسواس صاحب کی بیگم سے پوچھ کر انکے احاطے سے توڑ لیا اور کلمہُ پڑھ کر اچھے سے دھو دئے ہیں۔‘‘
اپیا نے گھاسلیٹ کے چُولہے کی بتیاں صحیح کیں اور چاول بھگوئے، جو کھڑکی مسٹر بشواش کی تلّیا کی طرف کھلتی تھی اپیانے دونوں پٹ کھول کر نیچے دیکھا! مسٹر بشواش پھاٹک کی جانب منہ کئے کسی سے بات کر رہے تھے! خزاں کا موسم تھا لیکن ہوا میں نوکیلی گرم چُبھن اور سیلن اب بھی تھی! بوگن ویلا بلکہ ڈھاکہ میں ہر درخت پر بہار ہی رہتی تھی، زمین ہی ایسی تھی ، ہری بھری، اپیا اب بھی مسٹر بشواش کو دیکھ رہی تھیں کہ دروازہ دھڑام سے کھُلا اور مُنے ماموں داخل ہوئے ۔
’’بجیا کہاں ہیں؟‘‘ ان کے چہرے پر بارہ بج رہے تھے۔
امی اندر کمرے سے باہر آئیں ۔
’’ شیطان کے کان بہرے! یہ کس طرح سانس پھول رہی ہے۔‘‘
’’بجیا اور اپیا، جو ہاتھ میں سمیٹ سکو لے کر نکلو، دلہا بھائی ہسپتال میں ہیں اور شہر کے حالات اچھے نہیں، بڑکی بھیا نے آپ دونوں کو فورا لے کر آنے کا کہا ہے، شہر میں کرفیو لگ رہا ہے۔‘‘
منے ماموں دنیا کی وہ مخلوق تھے کہ اگر بم پھٹا ہو تو کہیں گے کہ پھلجڑی چلی ہے، انکے منہ سے یہ سب سن کر امی تو چکرا کر گر پڑیں، اپیا نے دس پندرہ منٹ میں جو ان سے اگلوایا تو پتہ چلا کہ ابا کے تھانے کے سب بنگالی افسر اور سپاہیوں نے گویا بلوائیوں شانتی اور مکتی باہنی کے لونڈوں کو جوائن کر لیا، فائرنگ میں ابا کے کاندھے پر چوٹ آئی ہے، بڑکے بھیا امی کے چچازاد بھائی اور میمن سنگھ میں اسسٹنٹ کمشنر تھے، نہ کی کوئی گنجائش نہ تھی، امی نے گھر کے کونے کھدرے کھنگالنے شروع کئے لیکن باہر سائرن بجنے لگا
’’ بجیا جلدی کریں۔‘‘ امی اس ڈر سے کہ زیور ایک ساتھ کبھی چوری نہ ہو گھر کے کونے کھدروں میں رکھتی تھیں ایسی ہڑبڑ تھی کہ اپیا نے بس جانے کس سوچ میں اپنی اسناد کا لفافہ اور ایک اٹیچی میں جو ہاتھ آیا ڈالا۔۔
’’منے ماموں واپس کب تک آئیں گے؟‘‘
’’نہیں معلوم۔‘‘
’’اچھا ایک چابی مسٹر بشواش کے ہاں رکھوائیں ، انہیں بتا تو دیں۔‘‘
’’بالکل نہیں ، بنگالی ہیں چپکے سے نکل لیں بڑکے بھیا نے یہی کہا تھا۔‘‘
’’عیسائی ہیں یہ ، انہیں ۔۔‘‘
’’مگر بنگالی ہیں، اس وقت ہندو مسلم عیسائی بدھ سب بنگالی ہیں اور یا پھر ہم ہیں، اب چلیں ۔‘‘
اپیا سے رہا نہ گیا جب تک بھیا امی کو انکی پوٹلیوں، اشکوں ، ایک ٹرنک کے ساتھ پاکستان آرٹلری کی بکتر بند میں بٹھا رہے تھے اپیا دوڑ کر مسٹر بشواش کے احاطے میں داخل ہوئی، سہ پہر اب پہر بدل رہی تھی، اوطاق پذیرائی کا دروازہ کھلا تھا اور دیوار پر مصلوب یسوع مسیح اور صلیب، کسی پرانے چرچ سے لائی گئی یہ مورت اپیا نے ہمیشہ دیکھی تھی، ایک بے تعلقی سے لیکن وہ آج بے دھڑک اندر چلی گئی ، دنوں فلج زدہ گُنگ اور بہرے بچے وہیل چئیر پر مصلوب تھے، بیگم بشواش آہٹ سن کر آئیں۔
’’کیا ہوا روشن آرا؟‘‘
یہ مسز بشواش ہی تھیں جو اپیا کو انکے پورے نام سے بُلاتی تھیں۔
’’مسٹر بشواش کہاں ہیں؟‘‘
’’باہر گئے ہیں، گاڑی لے کر دھان منڈی تک، دیر ہو گئی کیاکام ہے؟‘‘
اپیا کی نظر مصلوب عیسیٰ مسیح نذرتھ کے لعل پر پڑی، یہ مجسمہ وہ قریب دس برس سے دیکھ رہی تھی لیکن آج اسنے مسیح کی آنکھوں سے نکلتے سنگ مرمر کے جمے ہوئے آنسو دیکھے۔
’’یہ آپ نے کیا مجسمہ میں اضافہ کروایا ہے، یہ حضرت عیسیٰ کی آنکھوں سے گرتے آنسو۔‘‘
مسز بشواش نے حیرت اور افسوس سے اپیا کو دیکھا ۔
’’ ہم خداوند خدا کی مورتی میں تبدیلی نہیں کرتے یہ آنسو ہمیشہ سے ہیں۔‘‘
ہمیشہ کہتے ہوئے مسز بشواش کی آواز میں قریب دو ڈھائی ہزار کا سفر تھا۔۔
پھر اس کے بعد جو ہوا وہ ڈراؤنا خواب تھا، گرچہ اپیاکا خاندان خوشقسمت ترین خاندان تھا کہ ستمبر میں ہی ایک چارٹرڈ طیارے میں بہت سے پنجابی اور پشتون افسران اور انکے اہلخانہ کے ساتھ وہ تن کے کپڑوں اور بچے کچھی زیور کے ساتھ کراچی اترے ، ابا ایک ہاتھ کھو چکے تھے اور جلد ہی انکی پنشن اور گھر بھی مل گیا! اپیا اب تک یعنی چار پانچ سال تک ایک شاک میں تھیں، ان لاکھوں مہاجرین کی طرح جو تاریخ انسانی کی بذریعہ ہوائی جہاز سب سے بڑے evacuation سے گزرے تھے اور لاکھوں جو پیدل ہزاروں میل کا سفر طے کر کے آئے تھے، اور ان میں سے ہر ایک نے انسانیت کو مصلوب ہوتے دیکھا تھا!
مسٹر بشواش دھان منڈی سے واپس آئے یا نہیں!؟ اپیا نے کئی خط بھیجے لیکن کوئی جواب نہ آیا ، اپیا جانتی تھیں کہ دونوں ملکوں میں ڈاک بھی کئی مراحل سے گزر رہی تھی، پرائوریٹی ڈاک نوے ہزار سے زیادہ جنگی قیدیوں کی تھی جو ہندوستان کے طول وعرض میں جیلوں میں اپنے اس مقدر کے منتظر تھے جو انہوں نے نہیں لکھا تھا، ان لاکھوں ریپ ہونے والی بنگالی عورتوں اور ذبح ہونے والے لاکھوں اردو سپیکنگ بہاریوں کی طرح ۔ ہمارا مقدر کون لکھتا ہے!؟ اپیا کے لئے اب یہ زندگی کا سب سے بڑا سوال تھا، جس مقابلے کے امتحان کے بعد رشتہ لانے والے راجشاہی کے جوان کو آنا تھا، اسے اسکے لمبے بالوں سے باندھ کر درخت پر لٹکایا تھا اور سر سے خون رسنے سے اسکی موت ہوئی تھی، یہ بات اسکی ماں نے اپیا کے گلے رو رو کر کہی تھی “ فیشن چلا تھا ہم کتنا کئے لمبا بال عورت لوگ رکھتا ہے مگر کہین رہے کہ اماں فیسن ہے، سب لڑکا لوگ جو مقابلے کا امتحان دے رہا ہے رکھ رہا ہے امتحان پر کٹوا دیں گے، ہمارا بچہ روشن آرا “ اپیا کی آنکھ سے ایک آنسو بھی نہ بہا ۔
ارمنی ٹولہ کے کسی بہاری خاندان سے ملاقات بھی نہ ہوئی کہ وہ پوچھتیں کہ مسٹر بشواش کیسے ہیں؟ کیا اس دن وہ واپس آئے ( کہ اپیا جانتی تھیں کہ وہ دن ڈھاکہ کا ایک خُونی ترین دن تھا، بلا تخصیص رنگ و نسل و مذہب اور بنگالیوں کو چُن چُن کر گولیاں مار کا نشان عبرت بنانے کا سر عام آغاز بھی اسی دن ہوا تھا،)۔کراچی ہجرت گویا زندگی بچانے کی وجہ سے کی گئی تھی، اسکے پیچھے کوئی نظریہ کوئی خواب کوئی نصب العین نہیں تھا، وہ آنے والے مہاجرین میں اندر تک اتر جانے والے خوف کو انکی زندگی میں لالچ کی صورت ابلتا دیکھ رہی تھیں! یہ شہر چوبیس سال بعد ایک بار پھر لاکھوں بے خانماں لوگوں کو پناہ دینے کیلئے آمادہ تھا! یہاں پہلے ہی لاکھوں لوگ تھے، آنے والے بہت کچھ چھوڑ کر آئے تھے اور چاہے ایک الماری یا ایک دیگچہ چھوٹا ہو ، یہاں جلد سے جلد سب کچھ چاہئے تھا تاکہ اندر کچھ اطمینان ہو کہ روحانی دیوالیہ پن تو اللہ میاں دیکھ لیں گے، مادی طور پر تو کچھ ہو جس پر فخر کیا جائے۔ اپیا ، ابا اور امی بہار کالونی کے گھر ، پنشن اور اپیا کی نوکری سے ہونے والی آمدنی سے مطمئن تھے! ان کا دل اب بھی ڈھاکہ میں ہی تھا اور پہلے بھی زندگی بھیڑ چال اور سیاست سے الگ ہی گزری تھی، نانا دادا پٹنہ اور گیا سے مہاجرت کرکے مشرقی پاکستان یوں گئے تھے کہ سرکاری نوکریوں میں مسلمانوں سے تفریق شروع ہو چکی تھی، مشرقی پاکستان میں مواقع زیادہ تھے۔ خیر اس دوسری ہجرت کا سانحہ وجود کو ایسا لگا تھا کہ امی ابا نے کبھی پلٹ کر اپیا کی شادی کی بات بھی نہ کی اور نہ ہی اپیا کا ایسا ارادہ تھا، ہاں رشتہ دار ہر طرف سے سی ایس ایس افسر، لیکچرار، دکاندار، رنڈوے، ہر طرح کا رشتہ لاتے ، امی ابا اور اپیا دیکھتے اور اپیا کے نہ کرنے پر امی ابا کا کوئی اصرار بھی نہ ہوتا! اپیا ہر رشتے کی شکل و شبیہ میں مسٹر بشواش کی جھلک ڈھونڈھتیں، جو ظاہر ہے کہاں سے آتی؟، تفریح کیلئے اپیا اور امی مہینے میں ایک آدھ بار فلم دیکھنے چلے جاتے! پاکستانی اردو فلمیں ڈھاکہ میں بھی دیکھنے جاتے تھے تو ماضی سے جُڑے رہنے کا یہ ایک اچھا مصرف تھا!
پھر ایک دن فلمی اخبار نگار میں پڑھا کہ ایرک سیگل کے ناول لو اسٹوری پر فلمساز شباب کیرانوی نے نئے اداکار وں کے ساتھ ایک فلم بنائی ہے! پہلے تو اپیا کو لگا کہ وہ خواب دیکھ رہی ہیں، وہ ناول، مسٹر بشواش سے اس ناول کی درخواست ، انکا جانا، اور پھر یہ سب کچھ! یہاں آکر اپیا نے نہ وہ ناول ڈھونڈنے کی کوشش کی اور نہ چاہا کہ وہ اسے پڑھیں! لیکن اس ایک خبر نے اپیا کو مظطرب کردیا! اپیا ہر دکھ سکھ کو خاموشی سے گزار دینے والوں میں سے تھیں! ہجرت اور ارمنی ٹولہ کا وہ گھر چھوٹنے کے بعد دنیا اور اس کی چیزوں سے دل نہ لگے کی سعی بھی کرتی تھیں! لیکن بنت آدم و حوا تھیں! خبر پڑھ کر دل کو گویا پنکھے لگ گئے! امی سے چلنے کا کہا لیکن امی صرف زیبا اور صبیحہ خانم ، نیر سلطانہ ، ندیم ، رحمان اور محمد علی کی فلموں کیلئے تیار ہوتی تھیں، غلام محی الدین ، بابرہ شریف ، یہ بھی کوئی نام تھے “ کالج سے کسی سہیلی کو لے جاؤ”۔ اپیا نے زیادہ دوستیاں نہیں کی تھیں لیکن جغرافیہ کی ہی سینئر لیکچرر جو حیدرآباد دکن کی تھیں تیار ہو گئیں ، پہلے شو سے پہلے کی رات اپیانے عجیب بے چینی میں گُزاری! آنکھ بند ہوتی اور ارمنی ٹولہ، بوگن ویلا، مسٹر بشواش کی پسینے میں تربتر کُرتا اور یسوع مسیح کے مجسمے کی آنکھ کے آنسو!
یہ اتفاق ہی تھا کہ فلم میں بابرہ شریف کا نام روشی تھا! اپیا نے یہ جاننے کی کبھی کوشش نہ کی کہ فلم کس حد تک ایرک سیگل کی کہانی کے قریب ہے، پہلے شو میں گرچہ سب ہی رو رہے تھے لیکن اپیا کی تو ہچکیاں ہی لگ گئی تھیں۔ اس دن کے بعد آج تیسرے ہفتے یہ تیسری بار تھی کہ اپیا چہکو پہکو رو رہی تھیں! بمبینو، اسٹار، افشاں، ریگل بس وہ ہر سینما کے پاس سے گزرتی گئیں! انکی خواہش تھی کہ وہ سینما گھر میں تنہا ہوں اور آنکھ بند کر لیں ! اور وہ جملہ ’’ روشی کو کینسر ہے‘‘ جب سنیں تو وہ خود کو بستر مرگ پر مسٹر بشواش کی باہوں میں دیکھیں۔
ماخذ
عالمی افسانہ میلہ 2024
افسانہ نمبر -22
*********
رشتوں کے پیوند ( پریت کرے دُکھ ہوئے )
“ُمونگ پھلی میں دانہ نہیں ۔۔ ہم تمہارے نانا نہیں۔۔۔”
“ تو ایسا کریں آپ دلؔی چلے جائیے۔۔ اور وہاں سے ہمارے لئے بِلّی لیتےآئیے۔”
“ آپ نے غور سے نہیں سُنا، ہم تمہارے نانا نہیں، جو نانا ہوں گے وہ دلی سے بنا بتائے ہی بلی لے آئیں گے۔”
“ آپ جھوٹے ہیں۔”
“ اللہ میاں تو سچے ہیں نا۔۔۔۔”
“ اللہ میاں تب سچے ہوں گے جب بلی بچے دے گی، جب بلی ہی نہیں تو بچے کہاں، اسلئے اللہ میاں سچے کہاں۔”
کچھ دیر کے لئے کمرے میں گھمبیر خاموشی سی چھا گئی۔۔ یہ تیسرا ماہ تھا۔۔ جب سینیٹوریم کے اس حسین صحرائی کاٹج میں پہنچے تھے تو شارو لتا سریواستو اور عظیم الدین قدوائی کو لگا تھا کہ بس معمولی سی دق ہے ، قدرت نے نوبیاہتاؤں کو موقع دیا ہے ایک ایڈونچر کا۔۔ کتنی تگ و دو کے بعد تو شادی ہوئی تھی، بھلا ہو کہ دونوں خانوادے گنگا جمنی تہذیب کے امین تھے، لڑ ے بگڑے بھی مگر تہذیب سے، اور جب عظیم بھائی نے سچی مچی والی خودکشی کی کوشش کی تو دونوں خانوادے جو کم از کم ایک صدی سے ایک دوسرے کو جانتے تھے بڑے شرمندہ ہوئے، ہندو مسلم شادی کیا نئی بات تھی؟ اعلی اور ادنی طبقے میں تو ہر روز کی بات تھی یہ درمیانی یا شارو لتا کی نانی کی زبان میں “ متوسط مدھ ورگیہ” طبقہ ہی خود کو عذاب میں رکھتا ہے۔۔ عظیم میاں کی پوسٹنگ ہوئی تھی فلسطین میں، صرف بارہ دن تھے، یہ لو مندر میں ایک طرح کا گندھرو وواہ ہوا اور گھر میں تایا ابو جو منشی فاضل بھی تھے انہوں نے نکاح پڑھوایا۔۔ فسادی پھو پھی نے پوچھا “ انہوں نے دلہن نے شہادت تو پڑھ لی، اب نام بھی بدلیں، میں کہوں عائشہ “۔۔ شارو لتا کی ہنسی نکل گئی اسے اپنی انگلش کی ٹیچر عائشہ یاد آئیں جو بہت فربہ اور نیند آلودہ رہتی تھیں۔ “ نہ بھئی اتنا حسین نام ہے شارو لتا، اور تمہارا نام کونسا باقاعدہ اسلامی ہے مشتری خانم۔۔ عربی میں سیارہ اور فارسی میں گاہک” تایا ابو بہت وضع دار لیکن کمپیشن کا دریا انسان تھے۔۔” ہم تو یوں ہی انہیں پیار سے چڑیا کہتے ہیں، چڑیا تو نہ مسلمان ہوتی ہے نہ ہندو “ عظیم بھائی کی اماں نے شارو لتا کی بلائیں لیتے ہوئے کہا۔۔ بس ہفتے بھر دعوتیں اور بھاگ دوڑ۔۔علی گڑھ میں سب کو بائے کہہ کر آنسو روکے ٹرینیں بدلتے بمبئی۔۔ صرف ایک رات ہوٹل میں رکے اور ہم آغوشی ہوئی۔۔ شارو لتا نے پوچھا۔۔” فلسطین میں ہم کیا کریں گے؟‘‘
“ تُم دن بھر حیفا کی سڑکیں ناپنا اور ہم حیفا کے نقشے بنائیں گے۔”
عظیم بھائی علی گڑھ کے واحد ولایت پلٹ گریجویٹ تھے جنہوں نے جیوگرافی کے ساتھ کارٹو گرافی کی تعلیم لی تھی اور سمجھیں آئی سی ایس میں ہاتھوں ہاتھ لئے گئے اور فورا ہی بطور نان کمیشنڈ آفیسر برٹش فوج میں۔۔ یہ پچھلی صدی کے اشرافیہ کا وہ طبقہ تھا جو برطانیہ کے غصب کو مسلمانوں مغلوں کے غصب کے برابر سمجھتے تھے اور جانتے تھے کہ ملکوں کے غصب ہوتے رہتے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔۔
بمبئی سے جونہی سٹیمر چلا شارو لتا کی طبیعت خراب ہوئی، الٹیاں ، پھر خون کی اُلٹیاں، سٹیمر کے بنگالی ڈاکٹر نے ویکسینیشن کے سرٹیفیکٹ دیکھے، لال بخار نہیں تھا۔۔ شاید پہلی بار سمندر کا سفر ہے اسکا اثر ہے؟؟۔۔ چند گھنٹوں میں شارو لتا نے الٹیاں کر خون تھوک تھوک پورا کیبن رنگ دیا۔۔ عظیم میاں کے ہاتھ پاؤں پھولے، پہلا اسٹاپ کراچی تھا جہاں معائنہ طبی سب کا ہونا تھا بحری جہاز میں بیٹھنے سے پہلے۔۔ ایک بہت ہی ملائم چہرے والے آئرش ڈاکٹر نے دو گھنٹوں میں ہی ٹی بی تشخیص کی، مزید سفر بلکل منع، عظیم بھائی نے ریزیڈنٹ کراچی برٹش فوج سے رابطہ کیا، فلسطین سے بے تار برقی میسیج آیا کہ جوائننگ ضروری ہے ( کیونکہ اگلے چند برسوں میں بہت سی نقشے بازیاں ہونے تھیں جو اگلی ایک صدی میں اس خطے کو بازار کشت و خوں بنانے والی تھیں) اسلئے کراچی کے سینیٹوریم میں بطور برٹش فوجی مراعات کے ساتھ بیگم کو سفر کے قابل بنائیے اور اگلے ماہ کے جہاز سے آجائیے۔۔ ایک خطیر رقم کا لفافہ برٹش فوجی نے سیلوٹ مار کر دیا ( عظیم بھائی نے خود کو بہت عظیم محسوس کیا)۔
اوجھا سینی ٹوریم کراچی شہر سے پچیس تیس میل دور صفورا گوٹھ کی پر فضا پہاڑی ٹیلوں پر بنا ایک بے انتہا حسین اور پُر آسائش سینی ٹوریم تھا۔۔ اس وقت جنگ جہانی دوئم کی وجہ سے پورا سینیٹوریم پولش یہودی مہاجر جنہیں کنسٹریشن کیمپوں سے بچایا گیا تھا، امریکن فوجی اور جنگی قیدیوں کیلئے مستعار لیا گیا تھا لیکن چند وارڈز ( کاٹیجز) ایمرجنسی کیلئے رکھے تھے، اگر عظیم بھائی کا برٹش فوج سے کنیکشن نہ ہوتا تو ایسی سہولت نہ ملتی۔۔ کراچی ڈاک یارڈ سے جو بحیرہ عرب کے حسین ساحلوں پر تھا ، سے صفورا گوٹھ تک کا سفر گھنٹے بھر سے زیادہ تھا۔۔۔ صدیوں پرانےلکشمی نارائن مندر کا کلش دور سے نظر آرہا تھا ۔۔ شارو لتا نے سر جھکا کر پرنام کیا۔۔ کیا خوش قسمتی ہے، اترتے ہی لکشمی نارائن کے گھر کے درشن ہوئے اب سب اچھا ہوگا ۔۔
ڈیملر ایک خاموش طبع بلوچ سپاہی چلا رہا تھا جسکی ہندی اردو واجبی تھی، شارو لتا نے عظیم میاں کے کاندھے پر سر رکھ باہر دیکھنا شروع کیا۔۔ اف کتنا حسین شہر ہے، اور کتنا تازہ دم۔۔ تار کول کی سڑکوں کو مہتر اور مہترانیاں پانی سے یوں دھو رہے تھے گویا شیشہ چمکا رہے ہوں، بندر روڈ کے اطراف کولونیل طرز کی ماڈرن عمارات۔۔ شکرام، کاریں، اونٹ گاڑی ، ٹرام ( جو شارو لتا نے پہلی بار دیکھی تھی اور چلا کر کہا تھا رام جی۔۔ اونٹ ۔۔۔ اور بلوچ ڈرائیور نے گھبرا کر گاڑی روک دی تھی ) بھور کے وقت چلے تھے۔۔مندروں اور گرجاؤں کی گھنٹیاں گویا ایک پاکیزہ سی جلترنگ بجا رہی تھیں، ساڑھیاں، فراکیں، آبو ( کچھی سندھی آغاخانی عورتوں کا لمبا فراک)، سکرٹ بلاوز ، اسکول یونیفارم ، اکا دکا شلوار قمیص پہنے بچیوں لڑکیوں اور عورتوں کے غول۔۔ پینٹ شرٹ، بو شرٹ ٹائی، سوٹ، پاجامہ کرتا، پگڑ ، سجی ہوئی ٹوپی،کیپا، نیکر شرٹ۔۔۔پہنے بچے، لڑکے اور مرد ( گھوڑا گاڑی اور اونٹ گاڑی چلانے والوں نے دس گز والی گھیردار شلواریں پہنی تھیں)۔۔ گُرو مندر کے قریب پہنچ کر شارو لتا کی طبیعت پھر خراب ہوئی، بلوچ ڈرائیور فوج میں اردلی تھا، گاڑی گھمائی اور بزرٹا لائنز کے گیریسن پہنچے، یہاں بھی ایک آئرش ڈاکٹر تھا، ایک انجکشن دیا اور جالی دار ماسک، طبیعت سنبھلی، شارو لتا کو بھوک لگ رہی تھی، گیریسن میں بہت ہی فارمل کھانا تھا “ مجھے پھل دلوادیں اور اگر کہیں سے نمکین بسکٹ ملیں”۔۔ عظیم بھائی نے گیریسن والوں سے معذرت کی کہ دلہن کھانا باہر کھائیں گی
“ ہماری اماؤں نانیوں نے جو توشے بھر بھر نہ خراب ہونے والی غذا بنائی ہے وہ دیکھیں”
“ نہیں ہمیں یہاں کی کسی دکان لے جئیے”
گُرو مندر پر دیپ چند اوجھا روڈ پر گاڑی روکی گئی ( کچھ دہائیوں بعد اسکا نام نئے ملک کے ناعاقبت اندیش مالک “ بزنس ریکارڈر روڈ “ رکھیں گے، یہاںُ احسان فراموشی سے ملکوں کی بنیادیں رکھی جاتی ہیں؟ )
“ ارے ہم جہاں جاتے ہیں اس جگہہ کا نامُ بھی اوجھا سے ہے ۔“
“ جی اوجھا سینی ٹوریم۔ “
“ اور اس سڑک کا نام بھی۔”
بلوچ ڈرائیور نے معلومات میں اضافہ کیا کہ یہ صاحب ٹھٹھہ کے مارواڑی بنئیے سیٹھ اور حکیم تھے، بہت مخیر تھے، کراچی میں بزنس اور رہائش تھی۔بعد میں سینی ٹوریم میں کئی ماہ رہ کر پتہ چلا کہ یہ اوجھا خاندان بہت دین پرور تھا، اوجھا صاحب لاولد مرے اور لاکھوں ( جو آج میں کروڑوں ہوگا) دان کر گئے، ٹی بی سے مرے تھے تو وفادار بھائی سُکھ رام داس اوجھا جو خود آیورویدک حکیم اور لکھ پتی بزنس مین تھے نے ٹی بی کے علاج کیلئے ایک عالیشان شفا خانہ بنانے کا ارادہ کیا زمیں کا ٹکڑا خریدا اور اثر و رسوخ سے حکومت سے کئی ایکڑ وقف کی مد میں لئے۔۔ ، کلکتہ کے لکھ پتی یہودی تاجر سر ڈیوڈ سیسُون نے الیکٹرسٹی اسٹیشن چیریٹی میں بنا کر دیا ( جو کہ بہت مہنگا کام تھا۔۔) بہت سے پارسی اور میمن سیٹھ بھی خیرات صدقہ لے آئے۔ وائسرائے ہند Lord Victor Hope Linlithgow سے رابطہ کیا کہ سُکھ رام داس بنئیے تھے اور گورا شاہی کے آشیرواد کی برکات سے بھی واقف تھے، وائسرائے لارڈ وکٹر ہوپ ( مارشیس دوئم آف لنلتھگو) ایک لو پروفائل اسکاٹش نژاد وائسرائے ہند تھے جنہوں نے اپنی اہلیہ محترمہ ڈورین مآد ہوپ ( خطاب مارشینس دوئم آف لنلتھگو) سے اوجھا سینیٹوریم کا ۱۹۴۲میں افتتاح کروایا۔۔۔( یہ وہی صاحب اور صاحبہ تھیں جنکی تین پٹاخہ بیٹیاں “ ہوپ سسٹرز “تھیں جنہیں انکے پیٹھ پیچھے اشرافیہ سرکلز میں فینٹ ہوپ، لٹل ہوپ اور نو ہوپ کہا جاتا تھا۔۔۔ اتفاق دیکھئے کہ لارڈ لنلتھگو ہندوستان پر بطور وائسرائے سب سے لمبی مدت رہے لیکن مجال ہے جو انہیں کوئی جانتا یا یاد کرتا ہو، تاریخ میں زندہ رہنے کیلئے آپکو یا تو بہت برا ہونا پڑتا ہے یا بہت اچھا، خاموشی سے طوعاً و کرہاً کام کرنے والوں کی تاریخ میں بھلا کیا حیثیت، ؟خیر انکے ابا لارڈ لنلتھگو مارشیس اوّل بھی وائسرائے ہند تھے اور یہ وہ موصوف تھے جنہوں نے بلکل قانونی طور پر ڈھائی ملین پاؤنڈ کا ہندستانی چوری شدہ سونا بینک کے ذریعے دستخط کے ساتھ برطانیہ منتقل کیا تھا ،اس قانونی چوری کا ریکارڈ اب تک ہے، خیر انکو بھی بہت لوگ نہیں جانتے کہ علی الاعلان قانونی چوری بھی کوئی ایسی تاریخی بات نہیں۔۔ یہ الگ بات کہ اسکے بعد دنیا کی بہترین اکانومی ہندستان و بنگالہ کا جو پلیتھن نکلا۔۔۔ خیر انکے ابا نے لاکھوں پاؤنڈ سے سندھ اور باقی ہند میں ڈیم اور پل بھی بنوائے تھے، یہ بھی کوئی قابل ذکر بات نہیں۔۔ وائسرائے ہو تو کچھ تو کرنا ہی تھا۔۔اچھا چلیں پھر شارو لتا کی طرف)۔
شارو لتا نے گُرو مندر کی ایک بیکری سے پیٹیس کھایا ، ڈرائیور ساتھ والی پھلوں کی دکان سے تازہ سنگتروں کا جوس لے آیا، شارو لتا اور عظیم میاں نے چہل قدمی شروع کی، بیکری ایک ایرانی نژاد زرتشتی کی تھی، حضرت زرتشت کی خیالی تصویر جس کے گرد سورج کا ہالہ تھا اور فریم پر ہار ڈلا تھا، جُوس کی دُکان کراچی کے شنواری تیلی یہودی کی تھی، حضرت موسٰی کی خیالی تصویر اور اسپر موتیا کا ہار۔۔ سڑک کے سامنے “ حظیرہ قدس بہائیان کراچی” تھا۔۔۔ شارو لتا جانتی تھی کہ یہ بھی ایک نوزائیدہ مذہب ہے۔۔۔جوفلہرسٹ سکول کے چرچ کی گھنٹیاں بھی بج رہی تھیں کہ ہر صبح بچوں کی اسمبلی کے بعد مناجات ہوتی ہے، حضرت عیسٰی کی خیالی شبیہہ صلیب پر لٹکی تھی ( صلیب پر کون نہیں لٹکا؟)۔۔۔ پانچ منٹ کی چہل قدمی کے بعد ایک حسین درختوں سے لدے بریٹو روڈ پر مُڑے تو سامنے آغاخانی جماعتخانے کی وسیع و پرشکوہ عمارت تھی( یہ شیعہ اسماعیلیت کے ہندستان میں لاکھوں پیروکاروں کا ایک مرکز تھا، ایسے مراکز پورے ہندستان میں سینکڑوں تھے، اس وقت انکے امام سلطان محمد شاہ آغاخان سوئم تھے جن کا شجرہ حضرت علی سے ملتا تھا، یہ الگ بات کے انکے صاحبزادے پرنس علی ذرا سے جِگ لو تھے اور اس وقت برطانوی ہائی کلاس سوشلائٹ جواین بار برا کو انکے برطانوی ممبر آف پارلیمنٹ میاں سے طلاق دلوا شادی کرکے مشرف بہ اسلام کر کے پرنسس تاج الدولہ بنا چکے اور انکے بطن سے مستقبل کے امام بھی پیدا کرواچکے، خیر چند سالوں میں تاج الدولہ ان سے طلاق لے کر دوبارہ جواین بار برا ہو جائیں گی اور وسکاؤنٹ سیمور بیری سے تیس سال خفیہ دوستی کے بعد انیسو چھیاسی میں شادی کریں گی اور انیسو پچانوے میں قریب نوے برس کی ہوکر مر جائیں گی، پرنس علی انہیں طلاق دے کر دھڑلے سے ہالی ووڈ کی ریٹا ہیورتھ سے شادی کرکے غرب کی باقی گلیمرس حسیناؤں کو مایوس کریں گے ، پاکستان کے یو این اے میں ایمبیسڈر بنیں گے لیکن بس چار سال بعد ۱۹۴۹ میں پیرس کی سڑکوں پر تیز رفتاری کرتے ہوئے ہلاک ہو جائیں گے ۔۔ بھئی لیکن ہمیں کیا اس وقت تو وہ زندہ ہیں اور پاکستان بھی نہیں بنا اور شارو لتا اور عظیم بھائی مٹر گشتی کر رہے ہیں ) پیڈرو ڈیسوزا روڈ سے مڑ کر خراماں خراماں پانچ سات منٹ کی واک چمپا کی زہریلی اور مدھماتی خوشبوؤں کے سائے میں کی، صحرائی اور سمندری ہوا کا عجیب امتزاج تھا “ اے لو یہاں تو ہنومان جی کا مندر بھی ہے” شارو لتا نے فوراً ہاتھ جوڑے۔۔ دروازے پر پروہت چھڑکاؤ کر رہا تھا، شارو لتا کو پرنام کرتے دیکھ مسکرایا، یوپی والوں کا سبز لمبا غرارہ، ننھی سی بروکیڈ کی قمیض اور پکے گوٹے کا طوطیا رنگ کا چار گز کا دوپٹہ یا اوڑھنی، شکل سے تو میاں بھائی محمڈن لگتی ہے لیکن ماتھے پر بھنووں کے بیچ تازہ کُم کُم کا گول ٹیکہ اور سندر والی مانگ اور گلے میں لٹکتا بھاری سونے کا منگل سوتر، اس سے کیا ہوتا ہے کہ محمڈن ہے یا سناتنی، یا آریا سماجی، بجرنگ بلی کو پرنام کیا اور انکی اور رام جی کی خیالی تصاویر کے سامنے سکے بھی رکھے۔۔ دو قدم چلے تھے کہ تانگہ سٹینڈ تھا۔۔ دھلے دھلائے، مغرور اور ہینڈسم سُرخ و سفید پوست گھوڑے لاپرواہی سے جُتے کھڑے تھے۔۔ سامنے نمائش کی سڑک پر دو رویہ املتاس اور ہار سنگھار کے درخت تھے، بائیں ہاتھ گُرو مندر کی جانب سے غالبا کسی مسجد سے بہت سے داڑھی والے مسلمانوں کا جتھہ سا آرہا تھا۔۔ سب کسی بات پر ہنس رہے تھے۔۔ سڑک صاف کرنے والی مہترانی ان سب کو دیکھ کر ایک طرف ہو گئی ( میگھوار ذات، چھو گئی تو مسلمانوں کا وضو اور ہندوؤں کا دھرم بھرشٹ جو ہوتا)، شارو لتا ان باتوں پر یقین نہ رکھتی تھی، ان تمام تصاویر اور مورتیاں کی طرح جن پر ہار پھول دیکھے تھے کی طرح انسانی نظریات بھی خیالی تھے۔۔مہترانی سے حال احوال پوچھا، مہترانی لکشمی کی زبان گجراتی تھی ( دولت کی دیوی لکشمی اچھوت تھی اور جھاڑو لگا رہی تھی، شارو کتا نے سوچا اور سر جھٹکا) کچھ سمجھ نہ آیا بس یہ پتہ چلا کہ یہ لکشمی بھی نو بیاہتا ہے، بتاتے ہوئے چہرہ گلال ہو گیا۔۔ شارو لتا نے ایک لمبی محبت بھری سانس کھینچی “ کیسا اندر پرستھ سا شانت شہر ہے، ہر آدمی، عمارت، سڑک، خوشبو۔۔ عظیم آپ ابھی اپنا تبادلہ یہیں کر لیجے۔۔ ہمیں اس شہر سے پریم ہو چلا اب ہم ساری زندگی یہیں رہیں گے۔”
عظیم میاں ہنس دئیے۔۔ عورت ذات بھی کیا ہے، ایک نظر میں جو بھا جائے تو چاہے اجنبی ہو یا کچھ اور ساری عمر کا پلان کر لیتی ہیں اور اگر ہو پائے تو رہ بھی پاتی ہیں۔۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد پورا ہندستان آئرش، جرمن، ڈچ، روسی، برمی، سیامی عورات سے بھرا پڑ رہا تھا، کیسے فوجی سپاہیوں سے لے کر ڈپلومیٹس اور رائٹرز ، شاعروں تک سب کے ساتھ عشق کے عیوض آگئیں۔۔ دورافتادہ پہاڑوں میں بھی رہیں، پان کھائے غرارے پہنے اردو ہندی پنجابی پشتو سیکھی۔۔ یہ عورت ذات۔۔
“ اچھا ٹھیک ہے، پہلے علاج تو کروا لیجئیے۔۔ دیر ہو رہی ہے ۔“
سہ پہر تک سینیٹوریم پہنچے۔۔ کاٹج بہت حسین ملا۔۔ رات تک ریزیڈنٹ آسٹرین ڈاکٹر ( جو بس چند ماہ کیلئے یہاں تھا ) اور بذات خود سُکھ رام داس جو آیورویدک وید تھے نے تشخیص کی۔۔ ٹی بی اس سے کہیں زیادہ تھی جتنا وہ سمجھے تھے مگر دو ماہ طاقتور دواؤں سے ٹھیک ہو جائیں گی کہا، متعدی مرض ہے اسلئیے کاٹج کے ساتھ ایک کمرہ عظیم میاں کو دیا اور بہت سے جھلی دار ماسک اوران کے لئے بھی بچاؤ کی دوائیں بھی۔۔ شارو لتا بہت مضبوط تھیں لیکن عظیم میاں گھبرا گئے “ آپ کے اور اپنے بابو جی کو بلواتے ہیں۔”
“ ارے نہیں، پریشان ہو جائیں گے اور ہم دونوں کی امائیں اللہ نہ کرے دم نکل جائے گا۔۔ ٹیلیگرام کر دیں کہ کچھ ماہ بوجوہ کراچی رک رہے ہیں۔”
“ بوجوہ کی وجہ کیا بتلائیں؟ “
“ ما ہ و عُسل۔۔ ہنی مُون” دونوں کھلکھلا دئیے۔۔ ٹیلیگرام بھی ہو گیا۔۔ اور دوسرے دن سے دواؤں کا دور بھی۔۔ انگریزی دوائیں بہت بھاری تھیں بقول وید جی۔۔ تو انکا اثر کم کرنے کیلئے آیور ویدک دوائیں بھی شروع کییں۔۔ افاقہ ہونے لگا لیکن دواؤں کی وجہ سے شارو لتا کا وزن گرنے لگا، نقاہت اور کمزوری مگر پھر بھی چڑیا کی طرح یہاں وہاں اڑتی پھرتیں۔۔ یہودی مہاجرین جو اگلے سفر کے منتظر تھے ان سے دوستی بھی کی، کنسنٹریشن کیمپ کا سنا تھا لیکن یہاں اسپر کوئی بات نہ کرتا تھا سوائے کبھی کبھار نرس برتھا کے۔۔ وہ پولش یہودی تھی اور پیشے سے نرس۔۔ کنسنٹریشن کیمپس میں ٹی بی عام تھی، اسکی جان نرس ہونے کی وجہ سے بچی تھی لیکن شاید گھر کا کوئی اور فرد نہُ بچا تھا۔۔ انگریزی اچھی بول لیتی تھی کہ ایک سال کیمپ سے نکل کر برطانیہ میں بھی رہی تھی۔۔ فیصلہ کیا تھا کہ ارض اقدس جائے گی تو یہاں بھیج دی گئی تھی جب تک ارض اقدس اگلا گروپ لینے کیلئے تیار ہو( صہیونیت ۔۔۔) شارو لتا سے عمر میں اک آدھ سال بڑی ہوگی مگر جثہ بہت بڑا تھا۔۔ کہتی تھی کیمپ میں ڈھانچہ بن گئی تھی کھانا ملا تو بہت ہی کھا لیا۔۔ گوری رنگت، نارنجی سنہرے بال۔۔ لمبی یہودی ناک۔۔بھرا بھرا سینہ۔۔ شارو لتا کو بہت اچھی لگی اور اسکا خیال بھی رکھتی ۔۔ شام کو شارو باہر کیرتھر کے پہاڑوں کی سیر پر چلی جاتی ( سینیٹوریم کے احاطے میں ہی)۔۔مقامی سندھی عورتوں سے اشاروں کی زبان میں بات کرتی، اور جا بجا ایستادہ بیری کے درختوں سے ٹپکے ہوئے بیر جمع کرکے عظیم کیلئے لے کر آتی کہ سندھ کے بیر بہت مختلف اور ذائقے میں لذیذ تھے، اکبار اسنے زردی مائل نارنجی بیر دھو کر برتھا کو بھی دئیے تھے جو اسنے کھاتے ہی قے کر دئیے تھے “ یہ تو فاقوں میں بھی نہ کھائیں جائیں “ عظیم بھائی نے جواباً دس بارہ مٹھی میں لے کر مزے مزے سے کھا کر برتھا کو چِڑایا تھا۔
عظیم بھائی کو ملیر گیریسن میں ہفتے میں چار دن جانا ہوتا۔۔ کام فلسطین سے یہاں بھیجا گیا تھا لیکن کیا کام تھا عظیم بھائی کسی کو نہیں بتاتے تھے کہ بتانا منع تھا۔۔آفیشل سیکریسی۔۔ کبھی کبھار رات کو چپکے سے عظیم میاں شارو لتا کے بستر پر آجاتے
“ اور جو آپکو بھی دق ہو گئی تو؟؟؟”
“ اور جو دوری سے دق ہو گئی تو” عظیم میاں کہتے تو وہ کھلکھلا اٹھتی۔۔۔
سکھرام داس جی نے انگریزی اور ہندی کتابوں اور میگزینز کا انبار لگا دیا تھا کہ بٹیا بور نہ ہوں۔۔ کیونکہ سینیٹوریم فی الحال برٹش فوج کے زیر استعمال تھا تو قانونا فوجی قانون کے ماتحت تھا۔۔ سکھرام داس ورنہ عام دنوں میں مریضوں کے لئے باہر سے نٹ، بھانڈ جوکر بلوا کر شو بھی کرواتے تھے۔۔ شارو لتا نے ایک میگزین میں دیکھا کہ کراچی بندر روڈ اسٹار سینما ایک ہندی فلم “ پراتما” دکھا رہا ہے، دلیپ کُمار اور سورنُ لتا ۔۔ اف دلیپ کمار۔۔ شارو لتا کا دل مچل گیا۔
“ لے کر چلئے نا، ہم میٹنی شو دیکھیں گے۔”
“ ہمارا کام ہے اُس دن۔”
“ سنیوار کو بھی کام۔۔ ہم ہنی مون نہیں منا رہے کیا؟”
“ شام کو آکر کئی بار ہنی مون منائیں گے۔”
“ نر لج، نا، ہم تو اس فلم کو میٹنی شو میں ہی دیکھیں گے، کتنا زمانہ ہوا فلم نہیں دیکھا۔”
“ کتنا اونچا آواز سے آپ ریڈیو تو سنتی ہیں، پرسوں رات ہی میکبیتھ سنا پورا دو گھنٹا۔”
“ لیکن فلم دیکھنا الگ ہے۔”
یہ بحث سینی ٹوریم کے وسیع باغیچے کے ایک بنچ پر ہو رہی تھی جسکی پُشت پر سُکھرام داس جی کی آیورویدک دواؤں کی فارمیسی تھی۔۔جو تقریباً بند ہی رہتی تھی کہ جب سے سینیٹوریم فوج کے ہاتھ تھا مریض یہاں کم تھے۔۔ زیادہ تر وسط شہر کے ہسپتالوں میں تھے جہاں سکھرام داس جی کے کئی اور مطب تھے۔۔ اسوقت وہ ہوادان اور روشن دان چیک کرنے آئے تھے۔۔ شارو لتا اور عظیم میاں کے مکالمے کانوں میں پڑے تو سُکھرام داس جی مُسکرائے ، خود انکی بیٹیاں یاد آئیں جو دور دراز جیسلمیر بیاہ گئی تھیں۔۔
“ بیٹا، اگر میٹنی شو دیکھنا ہے تو میں جانکی کو کہوں گا، وہ ساتھ چلی جائے گی، اور کمار بھی، دونوں پاگل ہیں دلیپ کا ہر فلم دیکھنے کیلئے”
جانکی اور کمار سکھرام داس جی کے بھانجا اور بھانجی تھے جو ایڈمنسٹریشن میں انکا ہاتھ بٹاتے تھے۔۔ شارو لتا دونوں سے مل چکی تھی ۔۔ بہت ہنس مکھ تھے اور آتے جاتے چوری سے گھر کی بنی مٹھائیاں شارو لتا کیلئے سمگل کر دیتے تھے ( سینی ٹوریم میں باہر کا بنا کھانا آنے کی ممانعت تھی)
“ دیکھا اگر آپ نہیں تو ہمارے چچا سُکھرام جی ہیں “ شارو لتا کھل اُٹھی۔
کُچھ دیر میں برتھا ڈاکٹر کا پرچہ اور نوید مسرت لائی کے شارو لتا کے نئے ٹیسٹس کے مطابق دق اب اس حالت میں ہے کہ متعدی نہیں سمجھیں جا رہی ہے، سفر کی ممانعت ختم۔۔ ( برتھا نے یہ خبر بہت غیر جذباتی ہوئے سُنائی۔۔اسکے جانے کے بعد شارو لتا اور عظیم میاں نے خوشی سے ہُرّا کہا ۔۔ سب کتنا اچھا ہو گیا۔۔ بیماری کے بہانے اس پراسرار شہر اور اتنے اچھے لوگوں سے مل لئیے۔۔ لیکن کیا یہ شہر چھوڑنا پڑے گا اف۔۔ علی گڑھ چھوڑتے اتنا دکھ نہ ہوا۔۔ شارو لتا نے سر جھٹکا)۔
وہ ہفتے کا ویسا ہی عام دن تھے جیسے اکتوبر میں کراچی میں ہفتے کے عام دن ہوا کرتے تھے ( دن سب عام ہوتے ہیں واقعات اور حادثات انہیں خاص بناتے ہیں) جانکی اور کُمار تیار ہو کر آگئے تھے، عظیم بھائی اپنے ننھے سے کمرے میں تیار ہو رہے تھے۔۔ شارو لتا نے ٹن کے سوٹ کیس کو کھولا اور سارے کپڑے پھیلا دئیے “ جنکی تم بتاؤ کیا پہنوں” اگلا آدھا گھنٹہ جانکی کی آہ اوہ میں گُزرا کیونکہ سندھی کپڑے اور فیشن یوپی سی پی کی بھڑک دار زردوزی اور تنوع کے لحاظ سے الگ تھے۔۔ جانکی نے جامنی ساڑھی پر ہاتھ رکھا۔۔ پلو پر مُقیش کا کام تھا ، بلاؤز دودھیا سفید تھا لیکن انگریزی بلاؤز اسٹائل
“ ہائے دیا، اب ہم کٹ بلاؤز پہن کر جائیں گے، یہ تو رات کا لباس ہے، دوپہر میں اچھا لگے گا؟”
“ پورے کراچی حیدرآباد ٹھٹھہ، سکھر سے سیٹھوں کی بیٹیاں آئیں گی، ایسی ساڑھی کسی نے نہیں پہنی ہوگی، ایسا سٹائل کے لوگ سورن لتا کو پردے پر چھوڑ آپکو دیکھیں گے” جانکی نے ٹھیٹھ سندھی لہجے والی ہندی میں کہا۔۔شارو لتا مسکرائی ۔۔جلدی جلدی تیار ہوئی، جانکی نے بالوں کا جُوڑا بنایا ۔۔ عظیم بھائی خدا حافظ کہنے آئے
“ ارے یہ آپکے ماما جی نے نہیں بتایا کہ یہ مریض ہیں، ان سے دور رہتے ہیں “
جانکی ہنس دی، جہاں دوستی اور محبت ہو وہاں سکھرام داس جی قوانین کی پرواہ نہیں کرتے
“ اور یہ آپ تو شعلہ جوالہ بن گئیں” عظیم میاں نے شارو لتا کو دیکھ مسکرا کر کہا
“ وہ تو ہم ویسے بھی ہیں، لیکن نیا لباس شنیوار کو پہن لیا، ہمارے کے ہاں کبھی نہیں پہنتے”
“ تمہارے کے ہاں مسلمانوں سے شادی بھی نہیں کرتے ، تم نے کر لی، یہ سب خرافات ہیں” عظیم بھائی اولڈ سپائس کولون میں مہکتے خدا حافظ کہہ گئے۔۔
نکلتے ہوئے شارو لتا نے کہا
“ برتھا کو بھی دکھا دوں کیسی لگ رہی ہوں”
“ آج ان کا شنیوار ہے۔۔ وہ کسی سے نہیں ملتی” کمار نے کہا
شارو لتا کو یاد آیا۔۔ ہر شکروار کی شام سے شنیوار کی شام تک برتھا اپنے کمرے میں بند رہتی تورات یا جانے کیا پڑھتی، بجلی جلانے اور بند کرنے بھی کوئی اور جاتا، شکروار کے دن ہی کھانا بنا لیتی تھی۔۔” تو انکے ہاں بھی مہاراج شنی کی دشا سے ڈرتے ہیں” شارو لتا نے سوچا۔۔ یہ کیا بیچارا سنیوار کا دن، مہاراج شنی نے اسے کیوں دوشِت کیا؟ ؟
سُکھرام جی کی شیورلیٹ ڈیلیکس تیار تھی بمعہ ڈرائیور لیکن سڑک پر آتے ہی جانکی نے ڈرائیونگ کی “ ماما کو نہیں بتانا” جانکی نے تیز آواز میں ریڈیو بجانا شروع کیا ۔۔ اُف۔۔ “ ویرا لِن” کا وی ول میٹ اگین بج رہا تھا۔۔
So will you please say hello
To the folks that I know,
Tell them I won’t be long.
They’ll be happy to know
That as you saw me go,
I was singing this song.
We’ll meet again,
Don’t know where, don’t know when,
But I know we’ll meet again,
Some sunny day.
کُمار ، جانکی اور شارو لتا ساتھ ساتھ گاتے گئے۔۔ اور جانکی پیچھے مُڑ مُڑ کر ہمنواؤں کو دیکھ بھی رہی تھی اور اچانک دھماکہ سا۔۔۔ دھماکہ شدید تھا لیکن نقصان زیادہ نہیں ہوا تھا، بڑی مضبوط گاڑی تھی، بس چلاتے ہوئے وہیل لڑکھڑا یا اور دو رویہ سڑک کے پتھر سے سبزی منڈی کے سامنے ٹائر لگا اور پنکچر ہو گیا۔۔ جانکی لرز گئی لیکن ڈرائیور اور کمار نے سنبھالا۔۔ قریب ہی ایک سنتری اور بہت سے لوگ مدد کو آئے ۔۔ سُکھرام داس کو کون نہیں جانتا تھا۔۔ چھٹی کے دن وہ شہر والے گھر اور مندر ہوتے تھے۔۔ کمار نے کہا چپکے سے گھر چلے جاتے ہیں آرام سے بتائیں گے۔۔ میٹنی کا پلان چوپٹ ہوا، سنتری بھلا مانس تھا ( اور یہ بھی تھا کہ سکھرام داس جی کا پریوار جو تھا) ، سرکاری گاڑی میں شارو لتا واپس سینی ٹوریم پہنچی، چونکہ فوج کا راج تھا تو باہر ہی اتری۔۔ “ یہ لو، قسمت میں شاید پریتما فلم انکے ساتھ ہی دیکھنا تھا”۔۔ گیٹ پر کھڑے گورے فوجی نے اچٹتی نظر سے دیکھا اور جانے دیا۔۔ شارو لتا نے دیکھا ۔۔ کیکر اور کیکٹس کے درختوں کی باڑھ کتنی حسین تھی۔۔ پتھر کی دیواریں بھلا کیوں بنائیں، اگر میں اپنا گھر یہیں کراچی میں بنواؤں گی تو ایسی ہی کیکر اور کیکٹس کی باڑھ ہوگی، موذی جانور دور رہیں گے اور دیوار کی دیوار۔۔۔سینما دیکھنے کے دوران کھانے پینے کے لئے جانکی کئی پکوان لائی تھی، سب شارو لتا کو ساتھ لانے پڑے۔۔ سامنے برتھا کے کاٹج کی پگڈنڈی تھی۔۔ سارے مہاجر یہودی اسی طرف تھے” آج تو وہ کچھ پکائے گی نہیں اور ہم کہاں یہ سندھی پکوان کھائیں گے، کچھ رکھ لیتے ہیں باقی برتھا اور یہ سب جو یہودی ہیں وہ لے لیں۔۔ آج کا دن انکے آرام کا دن ہے”
شارو لتا برتھا کے کاٹج پہنچی، ننھے سے برامدے میں پاؤں رکھا تو صحرائی نم گرم ہوا کے ساتھ “ اولڈ سپائس “کولون کا مدھماتا جھونکا نتھنوں سے ٹکرایا۔۔ “ یہ کیا ، برتھا مردانہ خوشبو پہنتی ہے”۔۔ آگے بڑھی تو ایک عجیب سا خیال دل میں آیا۔۔ “ ہو سکتا ہے وہ اپنے کسی مرد دوست کے ساتھ ہو، واپس پلٹو”۔۔ عین اسی وقت خیاط فلک نے نئی ٹوپی سینا شروع کی۔۔ ہوا کا جھونکا تیز تھا اور برتھا کے کاٹج کی کھڑکھی کا پٹ ذرا سا کھلا۔۔ شارو لتا آگے بڑھی۔۔ جھری سے اندر دیکھا۔۔ عظیم بھائی برتھا کے بڑے بڑے پستانوں میں شاید اپنی اماں ڈھونڈھ رہے تھے ( بقول سگمنڈ فرائڈ)۔۔۔
برتھا کے کاٹج سے اپنے کاٹج تک کا سفر علی گڑھ سے کراچی تک کے سفر سے لمبا اور بوجھل تھا۔۔
شارو لتا کپڑے تبدیل کئے بغیر گویا بستر پر ڈھ گئی ( مجھ میں کیا کمی تھی؟ روایتوں سے گُندھا آنے والا ہندستانی ناری کے ذہن میں آنے والا پہلا خیال۔۔۔ اگر مرد ہوتا تو عورت اور اسکے عاشق کو مار دینے کا خیال آتا کہ بے راہرو روایات نے مرد کو یہ بتایا تھا کہ اس میں کبھی کوئی کمی ہو ہی نہیں سکتی۔۔ شارو لتا ایموشنلی ایک دم انٹیلیجنٹ ہو گئی۔۔ ہم میں کوئی کمی نہیں تھی۔۔)
گھنٹے دو گھنٹے میں دھلے دھلائے عظیم کمرے میں آئے تو شارو لتا کو نیم بیہوش پایا۔۔ ڈاکٹر آئے۔۔ گاڑی کے ایکسیڈنٹ کی خبر پہنچ گئی تھی ۔۔ سب کو لگا حادثے سے گھبرا گئی ہیں ۔۔ رات تک تپ بڑھ گیا۔۔ دوسری صبح الٹیاں شروع ہوئیں، انہیں کاٹج سے پرے آئسولیٹڈ وارڈ میں لے جایا گیا۔۔عظیم بھائی بھی بس دن میں ایک آدھ بار کچھ دیر کیلئے جالیدار پہن کر آسکتے تھے۔۔ ہفتے بھر میں جو ٹیسٹ ہوئے تو پتہ چلا کہ دق جسے سمجھا تھا جا چکی تھی دونوں پھیپھڑوں کو پکڑ چُکی۔۔۔ شارو لتا کو مصنوعی تنفس دیدیا گیا۔۔ بات نہیں کر سکتی تھیں۔۔ سکھرام داس جی کو اشاروں اور کچھ لکھ کر بابو جی ( شارو لتا کے ابا) کا اتا پتا دیا۔۔ عظیم بھائی کے ہاتھ پاؤں پھولے ہوئے تھے۔۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔۔ برتھا بھی کہہ رہی تھی کہ شاید پچھلے ٹیسٹس غلط ہوں، ہفتے بھر میں بیماری اتنی نہیں پھیلتی ( شارو لتا نے یہ سنا اور دل میں ہنسی۔۔ اسکی نانی کائستھوں میں بیاہ کر آئی تھی مگر جین دھرم کی تھیں، دالان ، باغ میں کسی درخت کو کاٹنے نہ دیتی تھیں کہ جاندار ہے، کہتی تھیں بس درخت سے پیار کرنا چھوڑ دو، خودبخود مر جائے گا۔۔ اور ایسا ہی ہوتا تھا۔۔ شارو لتا نے اپنی آنکھوں سے پُر بہار آکاس بیل کو سوکھتے دیکھا تھا۔۔ امی اور نانی بس اسکے پاس سے گزرتے ہوئے کہتی تھیں۔۔ ہمیں تم سے اب پریم نہیں۔۔ اسوقت شارو لتا نے سوچا تھا۔۔ عجب اندھ وشواسی ہیں، ضرور بابو جی نے چپکے سے کوئی کیمیکل جڑوں میں ڈالا ہوگا تاکہ نانی اور ماں کا بھرم رہ جائے۔۔)
تین دن بعد عین تین ماہ کراچی میں آئے شارو لتا نے خاموشی سے جان دیدی۔۔ اسی صبح علی گڑھ سے عظیم بھائی کے ابا، تایا اور شارو لتا کی ماں جی اور بابو جی بھی آئے۔۔ کیماڑی کے شمشان گھاٹ جو مسان کہلاتا تھا وہاں کریا کرم ہوا۔۔۔ آٹھویں دن استھیاں لئے ماں اور باقی سب لکشمی نارائن کے اسی مندر گئے جسے اترتے ہی شارو لتا نے دیکھ کر خوش بختی سمجھا تھا۔۔۔ سکھرام داس جی نے بتایا تھا کہ بٹیا نے ٹوٹی پھوٹی سانسوں میں بتایا تھا کہ استھیاں کراچی کے ساگر میں بھیجیں۔۔ گنگا میں نہیں۔۔۔ مندر کی سمندر میں جاتی سیڑھیوں پر سب بیٹھے تھے۔۔ برتھا مندر کے دروازے پر تھی ( کیسا عجیب پراسرار ملک ہے یہ۔۔ انسان کو جلا کر ایک لوٹے میں بند کرکے پانی میں بہا دیتے ہیں۔۔ اسے کنسنٹریشن کیمپ کے گیس چیمبر یا آئے اور اس نے زور سے جھرجھری لی)۔
ماخذ
عالمی افسانہ میلہ2023
افسانہ نمبر 6
*********
مکّھی چُوس
(نوٹ: کچھ کردار مرکب ہیں)
جواد کو افسوس ہوا، پچھلے ہفتے شمع کو میکے سے لینے گیا تھا، چچی کی عادت سے بچپن سے ہی واقف تھے، کبھی زندگی بھر اور ساس بنیں تو اسکے بعد تو بلکل نہیں ، کبھی نہ چچی سے نہ شمع سے ایسی بات کہی تھی جو بد تہذیبی کے زُمرے میں آتی ہو، لیکن مصداق ہونی شُدنی، ہر جمعرات کی رات شمع میکے آتی ، اور پیر کو جواد واپس لے آتا، چھ سال سے یہی طریق تھا، جواد موٹر سائیکل پر مارٹن کوارٹرز سے باتھ آئی لینڈ لے جاتے ہوئے ہمیشہ سوچتا کہ کسی طرح بس اب ایک کار خریدوں گا، دھوئیں اور اکثر گرمی سے عجب گت بنتی، شمع نے کبھی تقاضا نہیں کیا تھا، حالانکہ چچا کے ہاں گاڑی ڈرائیور کے ساتھ بڑی ہوئی تھیں، بچپن سے پتہ تھا کہ جواد سے شادی ہوگی، بہت مزیدار اور کھلکھلاہٹ سے بھرپور محبت تھی، پھر شادی ہوئی، اب رشتے دار تو رشتے دار ہی ہوتے ہیں، چچی کے بارے میں سب جانتے تھے لیکن سب کو سوائے جواد ، اور جواد کے امی ابا اور بھابھی کے، سب کو یہ یقین تھا کہ اپنی بیٹی کے لئے چچا جہیز میں کار تو ضرور دیں گے اور چچی کم از کم اس معاملے میں اپنی بچی کا خیال رکھیں گی، لیکن چچی چچی تھیں، بری۔۔ تایا تائی یعنی جواد کے ہاں سے جواد کے خاندان کی استطاعت سے زیادہ تھی، لیکن جب جہیز دکھایا گیا تو چچی نے اپنے مخصوص پاٹ دار آواز میں کہا کہ شادی شرعی ہوگی، جہیز غیر اسلامی ہے، شمع کے سات جوڑۓ اور جواد میاں کا ایک سوٹ اچکن وغیرہ اور بس ہلکا سا سونے کا سیٹ، نہ جواد کو بُرا لگا نہ اسکے گھر والوں کو ، چچا کھسیائے سے تھے جانے کیسے چپکے سے جواد کے جیب میں پچیس ہزار بظاہر منہ دکھائی کے مد میں دئیے جو جواد نے شمع کے ہاتھ پر رکھ دئیے کہ ہنی مون ان پیسوں سے ہوگا۔ شمع لمحے بھر کو جھجھکی اور کہا “ مجھے لگا تھا ابو کم از کمُ کار کی مالیت کی منہ دکھائی دینگے، یقینا امی سے چھپ کر مگر ۔۔”
“ جب سے پیدا ہوا ہوں تب سے منہ دیکھا ہے میرا ، یہ بھی میری چھ ماہ کی تنخواہ ہے، کار تو میں اپنے پیسوں سے ہی لوں گا” یوں بات آئی گئی ہوئی، کار چھ سال تک نہ لے پائے جواد میاں اور چچی نے ہمیشہ شمع کو موٹر سائیکل سے دھوئیں مٹی میں اترتے دیکھ کر کبھی بھی کچھ نہ کہا! چچی تھیں ہی ایسیں، بقول جواد کے ابو، خود چچا چچی کی بے حد کنجوسی سے کئی سال تک جُز بُز رہے، وہ ایسی کیوں تھیں یہ نہ سمجھ پائے، مرشد آباد سے چچی چھ سات برس کی عمر میں اپنے ابا اماں کے ساتھ پاکستان بننے کے فورا بعد آئی تھیں ، اکلوتی بیٹی تھیں، ابا گورنمنٹ ملازم تھے لیکن فراخی تھی، چچا کا خاندان جانتا تھا انہیں کہ دور پار سے رشتہ داری تھی، بس یہ بتایا گیا تھا کہ سلیقہ شعار ہیں، اور اکثر مرشد آبادی روہیلہ اور قزلباش خاندانوں کی طرح کھلی رنگت عمدہ قد کاٹھ ہے اور سی بی کالج کنٹومنٹ سے انٹرمیڈیٹ کر کے ہر اچھی ہندستانی ( یا پاکستانی ) لڑکی کی طرح امور خانہ داری میں اپنا وقت بتاتی ہیں اور کرو شیہ اور طباخی میں بہت ماہر ہیں، چچا نے دیکھا تو نہ طباخی کا سوچا اور نہ کرو شیہ اتنی حسین ( خود چچا کی ایک آنکھ میں سرمئی پھولا تھا، لیکن اسکی کس کو پرواہ تھی سوائے چچا کے)، لیکن شادی کے بعد آہستہ آہستہ یہ بات سب پر عیاں ہوتی گئی کہ چچی ہاتھ کھینچ کر رکھتی ہیں، کچھ برسوں بعد یہ مہذب جملہ “ چچی کنجوس ہیں” میں بدلا اور اسکے کچھ سالوں بعد انکی شہرت ہی یہ بن گئی اور “ مکھی چُوس” جیسے لفظ بھی کہے جانے لگے، ظاہر ہے انکی غیر موجودگی میں۔ اتفاق اور اچھا ہی تھا کہ چچا کی پوسٹنگ یہاں وہاں ہوتی رہتی تو چچی کبھی جواد کی امی کی طرح سسرال میں نہیں رہیں، لیکن چچا اور انکا خاندان جو گرچہ حاتمُ طائی نہ تھا لیکن کنجوس لفظ سے کافی دور تھا، چچی کی اس عادت سے پہلے نالاں اور پھر عادی ہو گئے! ننھیال والے بھی کھل کر مذاق مذاق میں چچی کو کچھ کہتے لیکن چچی تو لفظوں کے استعمال میں بھی کنجوس تھیں، ایک بار جواد کی امی یعنی چچی کی جٹھانی اور چچی کے کزن کی بیوی نے اچھے مُوڈ میں کہا کہ بیبی، کب سے بس گھر میں اور باہر صرف دو ساڑھی ہی پہنتی ہو، ذرا میاں سے ضد کرکے نئی ساڑھیاں لو ( جواد کی امی کو اچھی طرح یاد تھا کہ بنارسی اور بالوچر کی کئی ساڑھیاں جہیز اور بری میں دی گئی تھیں ، اور انہوں نے پوچھ بھی لیا ) جواب ملا “ وہ ہم نے شمع کے جہیز کے لئے رکھی ہیں، یہ تو بہت کہتے ہیں بلکہ لے بھی آتے ہیں، ہمارا دل نہیں مانتا، جب تک پوشاک خراب نہ ہو اسے کیوں بدلیں، دین نے ہمیں سادگی سکھائی ہے” چچی ہمیشہ اپنی کنجوسی کو دین کی آڑ دے دیتیں، اور پھر یہ بھی تھا کہ ان میں غیبت، سازش، دیکھا دیکھی، عیب جوئی وغیرہ جیسی کوئی عادت بد نہ تھی تو کہنے والے بھی چپ ہو جاتے کہُ چلو یہ جانیں اور انکے میاں بچے۔ چچا کی جہد الگ تھی، چچی کے حُسن اور اپنے ابا کی روایت کے مطابق پہلی رات ہی وعدہ کر لیا کہ ساری تنخواہ آپکے ہاتھ پر رکھوں گا اور آپ سے مہینے کے اخراجات لوں گا، جوابا” اقرار ہوا کہ ہمُ آپ سے کبھی اپنے لئے کبھی پیسے کپڑے گہنے کا تقاضا نہ کریں گے۔۔۔ یوں چچا کے ہاتھ پاؤں کٹ گئے، تنخواہ بینک میں آتی تھی تو جوائنٹ اکاؤنٹ کھلا، کچھ ماہ بعد ہی چچا کو لگا کہ چچی باقاعدہ بینک سٹیٹمنٹ پڑھتی ہیں اور ایک کاپی الگ رکھتی ہیں، پوچھتی کم تھیں کہ یہ پیسے کہاں خرچ کئے لیکن انتظام ایسا کرتی تھیں کہ چچا کو ہچکچاہٹ ہوتی، جیسے چچا دوستوں کے ساتھ ہر ماہ سینما جاتے، دوست زیادہ تر جونئیر تھے تو ٹکٹ کے پیسے وہ ہی دیتے، چچی نے سن کر بس یہ کہا کہ پہلے آپ تنہا تھے اب گھر دار ہیں اولاد بھی آ رہی ہے، یہی پیسہ خیرات ہو تو برکت ہو ، ایک دن جھنجھلا کر کہا اچھا ہمُ خیرات سمجھ کر ہی کرتے ہیں تو جواب ملا “ لہو و لعب پر کب سے خیرات جائز ہے، باقی آپ کی مرضی”، چچا ایک دو سال میں اس جملے “ باقی آپ کی مرضی” سے باقاعدہ خوف کھانے لگے، اور طوعاً و کرہاً چچی کی عادت یا مرض کے عادی ہو گئے ، شمع پیدا ہوئیں ، بڑی ہوئیں، کزنز دوستوں میں ملنا جُلنا ہوا تو انہوں نے بھی کافی ہاہا کار کی لیکن چچی کی خصاصت وہ خصوصیت تھی جو دن بدن پختہ ہوتی تھی، گھر میں ہمیشہ سوئم درجہ کا باسمتی آتا جو ٹوٹا ہوتا، بڑے قرینے سے چھانتیں، ٹوٹے چاولوں کی کھچڑی اور ثابت کی بریانی پلاؤ، اور سچ یہ تھا کہ کئی بار لوگ پوچھتے کہ بہت خوشبودار چاول ہیں بریانی کے کہاں سے لیتی ہیں؟ کہ سچ تھا کہ فیکٹریوں میں اول درجے کے باسمتی اگر پالش اور ہیٹنگ میں کچھ کچے ہوجاتے تو وہ درجہ سوئم بن کر بکتے! چچا کو بغیر چھلکے جھینگے اب دوسروں کے ہاں دعوتوں میں یا ریستورانوں میں ملتے، کیونکہ وہ ہمیشہ چِکڑی جھینگا ، ننھا منا سا لیتیں اور چھلکوں کے ساتھ پکاتیں کہ سارا ذائقہ اور طاقت تو چھلکوں میں ہے، تربوز کے چھلکوں کی بھی سبزی بنتی، پودوں پیڑوں کی کھاد کچن کی آلائش سے بنتی، شمع جوانی تک چچی کے کپڑے پہنتی رہیں جو وہ کاٹ چھانٹ کر سی دیتیں، لیکن پھر شمع جیب خرچ اور چچا کی خفیہ مدد سے اپنی مرضی کا خریدنے لگیں! چچی زیادہ چخ چخ نہیں کرتی تھیں، بس جو انکے اختیار میں تھا اسپر کوئی کمپرومائز نہ ہوتا، گھر میں ہر طرف اندھیرا ہوتا کہ جہاں بیٹھے ہیں وہیں کی لائٹ جلے، چچا اور شمع آتے جاتے روشنی کرتے اور چچی آتے جاتے بجھا دیتیں، یہ نہ کہتیں کہ کس نے لائٹ جلائی وغیرہ۔کسی فوتگی، سوئم چہلم شادی میں جانا ہوتا تو اس دن گھر میں کھانا نہ پکتا، یہ چچا چچی کی جوانی کے دن کا واقعہ ہے جب شمع گود میں تھی، چچا کے ایک دور پار کے چچا کا سوئم تھا، گھر آکر نہا کر کہا “ چلیں کھانا کھا لیں”، چچی نے بتایا کہ کھانا نہیں بنایا کہ سوئم میں جا رہے ہیں” آپ بھی یعنی حد کرتی ہیں! میں ہی بھول گیا تھا، خیر کچھ پھل وغیرہ کھا لوں گا مگر قول دیجئے کہ میرے سوئم میں دس طرح کا کھانا پکے گا، یہ ہم جتنی اموات میں کھا کر آتے ہیں انکا بدلہ دیجئے گا۔”
“ شیطان کے کان بہرے! اور یہ سوگ میں کھانا کتنا پکتا اور ضائع ہوتا ہے! یہ روایت ہی بُری ہے، میرے سوئم میں ایسی خرافات نہ کیجئے گا۔”
“ تو پھر ہم سوئم چہلم پر نہ کھا کر اس خرافات کو ختم کرتے ہیں۔”
“ ہم نہ کھائیں اور سوگواروں کا دل اور دکھائیں! جو بنا ہے وہ ضائع بھی ہو، دیکھتے نہیں کتنا زیاں ہوتا ہے کھانے کا۔”
چچی بحث نہیں کرتی تھیں، اور نہ ہی اپنی روّش بدلتی تھیں پھر یہ بھی ہوا کہ چچا کی زندگی میں کچھ ایسے مرحلے آئے کہ انکے بعد چچا نے چچی کی خصاصت پر نہ سوچا اور نہُ کہا، پہلی بار چچا کی والدہ کے کینسر کی تشخیص اور انہیں لندن بغرض علاج بھیجنا، بڑے بھیا یعنی جواد کے ابا سفید پوشی کی انتہاؤں پر تھے، علاج اور رہائش کی رقم کا سُن کر سب سُن سے ہو گئے، چچا کی بہنوں کے شوہروں نے سچائی سے جو کر سکتے تھے کیا، بہنوں نے اپنا زیور لا کر رکھ دیا! چچی چپ رہیں ، گھر واپسی پر چچا کو کہا۔
“ آپ نے کچھ نہیں کہا! سب کی نظریں آپ پر تھیں۔”
“ میں نے سوچا کہ جب پرویڈٹ فنڈ کی پیشگی ادائیگی ہو نے کی تصدیق ہو تو کہوں ورنہ صرف وعدہ ہوگا۔”
“ پرویڈٹ فنڈ کیوں لیں گے، سیونگ اکاؤنٹ اور بانڈز دیکھیں۔”
چچا کو یاد آیا شادی کے بعد سے جب سے جوائنٹ اکاؤنٹ کیا کہ خدانخواستہ اگر مر گئے تو بیگم بیوروکریسی سے ہراساں نہ ہوں تب سے صرف پے سلپ ہی دیکھتے تھے، بینک جانا ، تنخواہ نکالنا اور نئے اکاؤنٹ کھلوانا وغیرہ چچی ہی کرتیں، چچا نے گویا معاشی حساب داری سے سنیاس ہی لے لیا تھا کہ بلوں کی ادائگی راشن خریدنا ، کپڑے لتے، لین دین ( لین دین جو چچی کم کرتیں اور جب بھی کرتیں چچا کو شرمندگی ہوتی اسلئے وہ اپنے جیب خرچ سے الگ سے وہ خفت مٹاتے) ۔ وہ زمانہ سیونگز بُکس کا زمانہ تھا، چچا نے دیکھا تو انکے ہوش اڑ گئے اتنی رقم! اگر چچی پر یقین نہ ہوتا ضرور وہ سمجھتے کہ کہیں بڑا ڈاکہ ڈالا گیا ہے! چچا نے دوسرے دن کا انتظار بھی نہیں کیا، سب کو فون کر کے کہا کہ اگر ٹکٹ ویزہ کی بھاگ دوڑ وہ کر لیں تو ہسپتال سے بات اور سب اخراجات وہ کر لیں گے! جنے کیوں اسکی نوبت نہ آئی کہ چچا کی امی ویزہ کے لوازامات کے دوران ہی انتقال کر گئیں! انکے سوئم اور چہلم پر چچا نے اپنے جیب خرچ سے معمولی تعاون کیا کہ چچی نے صاف کہہ دیا تھا کہ یہ سب بدعت ہے، بہن بھائیوں کو سمجھا دیں، اب وہ کیا سمجھاتے! خیر اسکے بعد ڈیفنس میں ایک عالیشان پلاٹ اور گھر کی تعمیر ہوئی! گھر والے یعنی چچا کے بہن بھائی اور باقی تو خوش ہوئے، دفتر میں بات انکوائری تک پہنچی کے اتنا پیسہ کہاں سے آیا! چچی نے سارے قانونی بہی کھاتے بیس برس کے سامنے رکھے، بمعہ ٹھیکیداروں کا بیان کے تین ماہ کی کنسٹرکشن کے دوران چھتری ، پاندان اور واٹر کولر لئے یہ محترمہ ہمارے سر پر بیٹھی رہیں، پاک کالونی کی اندرونی گلیوں سے ماربل کے ٹکڑے خود خریدے، سیمنٹ کی ہر بوری ہر دن چیک کرتی تھیں وغیرہ! تو چچا بہت دنوں تک جوان مرغے کی طرح اکڑ کر چلتے رہے اور بیگم ہو تو ایسی کی تہنیت سمیٹتے رہے! خیر، چچی کی کنجوسی اب ایک ایسی صفت تھی جو انکی ذات سے الگ نہیں ہو سکتی تھی، اور اس دن جواد جب شمع کو لینے پہنچا تو صبح سے سہ پہر تک بہت کچھ ہوا تھا، صبح کا ناشتہ مس ہوا، راستے میں بائیک پنکچر ہوئی، آفس میں بجلی نہیں تھی، گرمی میں ہوٹل سے منگوایا مصالحے دار کھانا کھایا نہیں گیا، سوچا چچا کے گھر جا کر شمع سے کہہ کر اور کچھ نہیں انڈوں کا سینڈوچ بنوا لے گا، پہنچا تو شمع بازار گئی تھی، چچی نے سلام علیک کر کے پنکھے والے کمرے میں بٹھایا ( ائیر کنڈیشنر والا کمرہ شاذ ہی کھلتا تھا)، پانی دے کر چچی بیٹھیں، جواد بھوک، گرمی اور جھنجھلاہٹ میں تھا، چچی نے گھر والوں کا پوچھا اور پھر یہ کہہ کر کہ عصر کی نماز چھوٹ گئی وہ پڑھنے جا رہی ہیں۔۔ جواد واقعتاً بھوک سے بے حال تھا، اتنی ہمت نہیں تھی کہ موٹر سائیکل پر اس امرا کے محلے میں کھانے کی دکان ڈھونڈھے ، قریب ترین جیب کی اجازت کے ساتھ والی دکانیں تین تلوار کے قریب تھیں اور جواد میاں پر گرمی اور بھوک کا غلبہ تھا، بعد میں غور کیا تو جواد کو لگا یہ ایسا ہی کوئی کمزور لمحہ تھا جسکے بارے میں اساطیر بھرے پڑے ہیں کہ کیسے انسان اپنی عزت نفس ایک لمحہ کی لغزش سے کھوتا ہے!
“ چچی اجازت ہو تو کچن سے کچھ لے کر کھا لوں، بھوک لگ رہی ہے۔”
جواد نے جانے کیسے یہ اور پھر اسکے بعد سب کچھ کہا
“ ارے، میں سمجھی دوپہر گزر چکی تم کھا کر آئے ہوگے! ہم نے گرمی کی وجہ سے آم کا رس اور چاول کھائے، میں دیکھتی ہوں شاید کچھ ہو ، پھل تو ضرور ہونگے۔”
چچی گئیں اور پلیٹ میں تین خربوزے کی پھانکیں اور دوسرے ہاتھ میں چھاچھ کا گلاس، شیشے سے چھاچھ میں موجود دہی کا تناسب جھلک رہا تھا۔
“ یہ لیجئے، بس شمع آتی ہونگی، پہلے چھاچھ پی لیں اور پندرہ منٹ بعد خربوزہ، ورنہ ہیضے کا خدشہ ہے! چاول بہت کم بچے تھے اور آم کا رس بھی ختم ہو گیا پہلے پتہ ہوتا تو بازار سے زیادہ لے آتی۔”
“ پہلے کیسے پتہ ہوتا چچی” جواد چھاچھ اور خربوزے کی تین پھانکیں دیکھ کر اس جذبہ کے زیر اثر آگئے جو رشتوں کی نیو تک جھلسا دیتا ہے “ غُصّہ۔”
“اتنے بڑے گھر میں داماد کو اس گرمی میں بٹھانے کے لئے یہ گرم کمرہ اور تواضع کیلئے خربوزے کی پھانک اور چھاچھ! آپ نے حاتم طائی کی قبر پر ایک نہیں کئی لاتیں مار دیں ۔“
یہ کہہ کر جواد کو لگا کہ کچھ غلط ہو گیا! چچی کے چہرے پر کوئی رنگ نہ آیا نہ گیا۔
“ میں پنکھا تیز کر دیتی ہوں اور نماز کے بعد جلد سے کچھ بنا دیتی ہوں” یہ کہہ کر وہ چلی گئیں اور انہو ں نے جواد کا “ زحمت مت کیجئے اب بھوک مر گئی” نہ سُنا! اسی دوران شمع آگئی، شاید اتفاق ہی تھا کہ وہ بازار سے فالودے کا ایک بڑا سا گلاس لائی تھی “ بڑی گرمی ہے جواد، سوچا تمہارے لئے بھی لوں جلد پی لو ورنہ امی کہیں گی ہمیں بتاتیں ہم گھر میں بنا لیتے ۔“
جواد نے فالودہ زہر مار کیا ، چچی آئیں، اسے فالودہ کھاتے دیکھ انہوں نے بنا کچھ کہے کچھ بنانے کا اردہ ترک کیا لیکن زبردستی شمع کو خربوزے کی تین پھانکیں کھلائیں کہ فرج میں دوبارہ نہیں رکھیں گی خراب ہو جائیں گی، “ جواد میاں کیلئے چھاچھ رکھی تھی، چلو تمہارے ابا آئیں گے تو پی لیں گے۔”
واپسی پر جواد نے کوشش کی کہ شمع کو اپنی بدتمیزی بتائے لیکن ہمت نہیں ہوئی! رات کو ہمت جُٹا کر جب بتایا تو شمع نے کہا “ اچھا، خیر امی ایسی باتوں کا برا نہیں منائیں گی” یہ کہتے ہوئے جواد کو شمع کے چہرے پر ویسی ہی بے تعلقی حالات نظر آئی جو چچی کے چہرے پر اسکی بدتمیزی کے بعد تھی۔ اور پھر اگلے ہفتہ ہی چچی کے اچانک پٹ سے گر جانے اور برین ہیمرج اور انتقال کی خبر ملی! شمع بتا چکی تھی کہ امی کے خاندان میں ہائی بلڈ پریشر جینیاتی ہے اور امی کو دوائیں بھی دلوائی گئی تھیں مگر دوائیں کھانے کا کام انہی کا تھا! موت کے بعد جب دواؤں کا بستہ دیکھا گیا تو ہر گولی آدھی اور چو تھائی تھی، یعنی وہ دوا کھاتیں تھیں لیکن وہ بھی کفایت سے! چچی کے سوئم کے لئے چچا جو بظاہر گم سم تھے بھتیجوں بھانجوں کے ساتھ بیٹھے! شمع سب کو بتا چکی تھیں کہ امی کی وصیت تھی کہ سوئم میں کھانا نہ ہوگا! چچا نے جب یہ کہا کہ “ کل کا ہم انتظام کر چکے” تو سب سمجھ گئے! خاندان دونوں طرف سے کافی بڑا تھا! پھر دوست احباب، تایا اور باقی گھر والوں نے شمع سے مشورہ کرکے صرف سموسوں ، نیاز والا حلوہ اور چائے کا چچا کو بتائے بغیر انتظام کر لیا کہ کچھ بھی ہو، لوگ کم از کم کچھ تو کھا کر جائیں، چچا اگر ناراض ہوئے تو کہہ دیں گے کہ چچی کی وصیت کھانا نہ دینے کی تھی، تواضع اور مہمانداری پرسگان کا تو منع نہ تھا۔
اور پھر یہ ہوا کہ جب شمع جو چچا کے ساتھ ہی تھی، اور بڑی پھوپھو ، صبح تڑکے آوازیں سن کر اٹھیں۔
بڑے سے لان اور گلی میں قناتیں لگ رہی تھیں اور بڑی بڑی گاڑیوں سے دیغیں اتر رہی تھیں!
واپسی پر قریبی رشتہ داروں کے علاوہ سب نے آپس میں حیرت اور بد گوئی کی “ ایسا کوئی کرتا ہے! سوئم تھا یا بارات کا کھانا، قورمہ، بریانی، متنجن، رس ملائی ، قلفی، تین طرح کے حلوے، کوکا کولا ، فانٹا اور سیون آپ یہاں تک کہ۔ پاکولا بھی، اور ہر پرسہ دار کو واپسی پر بریانی اور حلوے کا ایک پیکٹ! لگتا ہے میاں بیگم کی موت پر بولا گئے ! کمٗ از کم داماد اور بیٹی اور بڑے بھائی تو ایسی حرکت سے باز رکھتے، توبہ توبہ موت کا گھر تھا یا شادی کا۔”
ماخذ
شہزاد علی کی فیس بک وال سے
*********
سوتیلی ماں
( نوٹ: کچھ نام اور واقعات اور عمارتیں سچی ہیں باقی اگر کچھ بچتا ہے تو وہ شاید تخیل ہے)
بچہ اتنا بھی بچہ نہیں تھا کہ اصل بات نہ سمجھ پائے ، جب ندیمُ نے اسکے سوال کے جواب میں یہ کہا کہ :
“ باجی کو موسیقی کا شوق ہے۔” تو بچے نے وہ سب سمجھ لیا جو دس گیارہ برس کی عُمر میں سمجھ آسکتا تھا! اور یوں بھی یہ بچہ خاصا بے ضرر اور غیر مُتجسس مگر ذہین بچہ تھا، اسے خاک فرق نہیں پڑتا تھا اگر ندیم کی بہن کو موسیقی کا شوق تھا یا وہ فُل ٹائم خاندانی طوائف تھیں! فلموں میں جو گلیمر دیکھا تھا نیپئر روڈ کا یہ فلیٹ اس کا انتہائی اینٹی کلائمیکس تھا! دونوں بچے ہدایتکار وزیر علی کی فلم “ سہارے” کے سٹاف آرٹسٹ بچے تھے، اسکول کی چھٹیاں تھیں، بچہ ( یعنی شہریار) پہلے ہی شبنم اور نشو بیگم کو دیکھ کر بہت رنجیدہ تھا، شبنم کس قدر سانولی بلکہ سیاہ رو تھیں اور نشو بیگم اور شبنم کے چہرے پر کس قدر غازہ لگایا جاتا تھا اور کیمرے کی سراونڈنگ لائٹس کتنی تکلیف دہ تھیں۔
تو شہریار اور ندیم کی دوستی یوں ہوئی کہ انٹرنیشنل سٹوڈیو فیڈرل بی ایریا جو اس وقت یعنی اوائل ۱۹۸۰ میں شہر پار تھا سے گاڑی ( سوزوکی پکٗ اپ) پرانے شہر سے بچوں کو لینے آتی تھی اور شہریار نیپئر روڈ پولیس تھانے کی پولیس لائینز میں اپنی مظلوم سوتیلی امی اور انتہائی abusive باپ کے ساتھ رہتا تھا ( اور جوابا” سوتیلی امی کا سارا غصہ گیارہ سالہ شہریار پر نکلتا، اور اسکی پٹائی دیکھ کر ابا کو بن ماں کا بچہ کی لائن یاد آتی اور وہ سوتیلی ماں کی مزید پٹائی کرتا اور کچھ دنوں بعد سوتیلی ماں وہ پٹائی شہریار کو لوٹاتیں اور پھر۔۔۔ تو یہ سلسلہ یوں چلتا) ۔ ندیمُ مین نیپئر روڈ پر رہائش پذیر تھا، بس شہریار کو پتہ تھا کہ پولیس لائینز سے صرف ایک سڑک دور یہ سڑک اور اسکے اطراف کی گلیوں میں جانا منع تھا! چونکہ جانا منع تھا اسلئے وہ بلخصوص جاتا، اسکول کے بعد یا شام کو بہانے بہانے سے، پھر وہاں ایک ایسی دکان بھی تھی جس کا نام “ رازدار کاردار برادرز بک شاپ اور لائبریری “ تھی جہاں سے اشتیاق احمد کے جاسوسی ناول کرائے پر ملتے تھے، اور ایک دن اسنے پورے ایک ماہ کی سیونگز یعنی دو روپے دے کر تین دن کے لئے “ لذت سنگ” نامی سرخ حاشیوں والی کتاب کرائے پر لی تھی جو صرف بالغان کے لئے تھی لیکن میمن دکاندار کو “ روکڑے” سے مطلب تھا یا اسے پتہ ہی نہیں تھا کہ منٹؤ کی گھاٹن لڑکی کے جسم کی خوشبو ( یا بُو) کے بارے میں پڑھنے کے لئے کسی عُمر کا تعّین ضروری ہے! اس دکان پر ہر طرح کے فلمی رسالے بھی دستیاب تھے، اور دکان کی ساتھ والی گلی میں “ کُمار” سینما تھا جہاں جہازی سائز کے ہورڈنگز پر جہازی سائز کی جسامت والی ہیروئینز کی پشتو اور کبھی کبھار انگریزی فلموں کی نمائش ہوتی تھی! ندیم سے دوستی ہونے کا یہ فائدہ تھا کہ اب اسے یہ ڈر نہیں تھا کہ اسے کمار سینما، موسیقی محل، بُلبل ہزار داستان، شکیلہ جمیلہ منزل اور آس پاس کی عمارات کے پاس مٹر گشتی کرتے پولیس لائینز کا کوئی محلے دار نہ دیکھ لے! ندیم کے گھر کی پچھلی گیلری سے نیپئر روڈ کی عقبی گلی جیمز ٹیریس کا کچھ حصہ اور سڑک کی رونق کا نظارہ ہوتا! ندیم بہت خوب صورت بچہ تھا! اسکی امی اور بہن اسے بہت نفاست سے تیار کرتیں! اسکا ہیر سٹائل بھی بہت ماڈرن تھا اور فلم کی شُوٹنگ میں سب ایکسٹراز میں خوش شکل ہونے کی وجہ سے اسے اگلی صف میں جگہ ملتی ، شہریار بھی کوئی کم رو نہیں تھا لیکن اسکی فنشنگ اور گرومنگ ویسی نہیں تھی، یہ سوتیلی ماں کا بڑکپن تھا یا اس سے جان چھڑوانے کی سبیل، فلم کی شوٹنگ کیلئے اجازت اور اسکے کپڑے استری کر کے تیار رکھتی، موسم گرما کی چھٹیاں تھیں، شہریار کو ندیم اب واپسی پر ( جو کبھی کبھار رات ایک یا دو بجے ہوتی) اپنے ہاں لے آتا ( ابا کو پتہ تھا کہ ندیم کہاں رہتا ہے اور ندیم کی امی کو جب شہریار نے ابا کا نام بتایا تھا انہوں نے مسکرا کر کہا تھا اچھا کیپٹن صاحب کے صاحبزادے ہو، شہریار کو صاحبزادہ سُننا بہت اچھا لگا تھا)۔ رات کو ندیم کے گھر کی کیمسٹری بدل جاتی ، اسکے اپنے گھر امی نو بجے کی خبروں کے وقت کھانا تیار کرتیں ، اگر ابا آچکے ہوتے تو کھانا کھاتے ہوئے اباسیاستدانوں کو گالیاں کھلاتے اور امی بڑبڑاتیں کہ کھاتے وقت سکون کی ضرورت ہوتی ہے نہ خبریں دیکھنی چاہئیں نہ گندی باتیں کرنی چاہئیں ،اس بات پر امی کو بھی چند گالیاں ملتیں، شہریار خاموشی سے کھانا کھاتا اور اگر ابا بھول کر اس سے کوئی بات کرتے تو یہی کہ پڑھائی کیسی ہے، دن کا کھانا کھایا تھا، وغیرہ! سردیوں میں فرق صرف یہ ہوتا کہ یا تو ابا لی مارکیٹ والے حلوائی سے گاجر کا حلوہ لاتے یا امی رات کو محلے میں تازہ گجک کی آواز لگانے والے سے خستہ گجک اور گرما گرم راکھ میں بجھی مونگ پھلیاں خریدتیں ، جسکا کچھ بچا ہوا حصہ (اگر بچتا تو )اسکے اسکول کے ناشتہ دان میں جاتا۔ زیادہ سے زیادہ دس بجے گھر میں اندھیرا ہوتا! ابا گھر پر ہوں تو گیلری میں شراب کی بوتل اور باہر سے آئی تکہ بوٹیاں کھائی جاتیں، لیکن ندیم کے ہاں تو رات اپنے معنی بدل لیتی ، اسے اپنی ماں یاد نہیں تھی اور ابا نے ہمیشہ امی کو اسکی سوتیلی امی کہا تھا ، اسلئے دماغ میں یہ رشتہ بیٹھ گیا تھا گرچہ اسے سوتیلی امی اور محلے کی باقی امیوں میں زیادہ فرق نظر نہیں آتا تھا، اتنی ہی بدمزاج اور کھانے پینے کا خیال رکھنے والی ۔ ابا کو وہ وقتا فوقتا آیات قرآنی کا حوالہ دیتیں کہ دن کام کیلئے اور رات آرام کیلئے بنی ہے، ابا اسے تو چیلنج نہ کرتے لیکن ہُنکار بھر کر کہتے “ جب دُنیا انسان بن جائے گی تو رات کو سو جائے گی، رات کے الگ کام ہوتے ہیں”! ندیم کے گھر کی راتیں دیکھ کر شہریار کو ابا کی بات پر یقین آیا ( اسے ابا کی زیادہ تر باتوں پر یقین نہیں تھا)۔ ندیم کا گھر یا فلیٹ ایک بہت تاریک سیڑھیوں والی بلڈنگ میں تھا، شکیلہ جمیلہ بلڈنگ کے ساتھ یہ بیسویں صدی کے اوائل میں بنی عمارت اپنی معمولی سی شان و شوکت جو اس دور کی محرابی اور کاسٹ آئرن کی گیلریوں اور اطالوی، برطانوی اور انڈین امتزاج کی کم خرچ سے بنائی بلڈنگز کا خاصہ تھی اب اس ٹچز میں سے بہت کمُ بچا تھا، پانچ منزلہ عمارت کے پہلے فلور کے دونوں دو دو کمروں کے فلیٹ ندیم کی امی بانو باجی اور ماموں فیاض کے تھے، تاریک اور پان کی پچکاریوں سے اٹی سیڑھیوں کے برعکس فلیٹ اندر سے مناسب حالت میں تھے، ایک کمرہ ندیم کی باجی کا تھا اور دونوں فلیٹس کی درمیانی دیوار ہٹا کر ایک بڑا سا ہال تھا جہاں رات کو سازندے آجاتے اور فجر کی اذان سے پہلے بوتل کے جن کی طرح کسی بوتل میں واپس چلے جاتے! سوائے عید مبارک خان کے جو بے حد بوڑھے اور بانو باجی کی امی کے عہد کی یادگار تھے، انکی کوئی خاص عزت نہیں کی جاتی تھی، دن میں انکا کام ندیم کو اسکول لانا لے جانا اور اسکا خیال رکھنا تھا، وہ وہیں ہال میں ایک صوفے کے پیچھے تکیہ اور چادر لے کر سوتے تھے! ندیم کا کمرہ دراصل دوسرے فلیٹ کے کچن کو کمرے میں تبدیل کر کے بنایا گیا تھا، پورے گھر کا ایک ننھا منا کچن تھا جس میں شہریار نے صرف چائے بنتے یا باہر سے آئے کھانے کو گرم ہوتا دیکھا تھا، رات بھر ہال سے ندیم کی بہن ثروت کی نغمہ سرائی ( کبھی کبھار کچھ اور حسین لڑکیوں کی بھی جن کے بہت عجیب سے نام تھے، ببلی باجی، ڈولی باجی، گوگی باجی) اور کبھی کبھار انڈین اور پاکستانی نغمے سٹیریو پر اور طبلے اور گھنگھروؤں کی تھاپ! بانو باجی یعنی ندیم کی نانی درازقد، سفید پوست اور ہر وقت بنی ٹھنی رہتی تھیں! ندیم سے ہی پتہ چلا تھا کہ انکی پرنانی بھی زندہ ہیں اور مُلتان میں انکی نانی کی بڑی بہن کے ساتھ رہتی ہیں! ندیم کی باجی ثروت شہریار کو بہت خوش شکل نہیں لگتی تھیں، گہری رنگت، گول ناک اور چھوٹی چھوٹی آنکھیں، وہ خوش اخلاق بھی نہیں تھی، لیکن رات کو تیار ہونے کے بعد شہریار کو وہ مناسب لگتیں، اسنے کئی بار ندیم کے منہ سے سنا تھا کہ امی کہتی ہیں کہ اگر ندیم لڑکی ہوتا تو پوری دنیا اسکے قدموں میں ہوتی! ندیم میں نزاکت بھی تھی لیکن شہریار کو وہ پسند تھا، فلم سہارے کے کچھ bullies لڑکے اسے تنگ کرتے تھے اور شہریار گویا ندیم کا محافظ بن جاتا! ندیم عموما چپ رہتا لیکن شہریار سے ملکر وہ اچانک بے حد باتونی ہو جاتا! اسے اپنے نیپئر روڈ کی رہائش اور سماجی حیثیت کا کچھ کچھ اندازہ تھا، کیونکہ اسکی امی نے اسےُکہہ رکھا تھا کہ اسکول میں وہ گھر کا پتہ جوڑیا بازار بتائے! یہ جھوٹ ہر جھوٹ کی طرح اپنی الگ الگ ڈھنٹھلیں نکالتا رہتا تھا، شہریار کو ندیم کی مجمع میں خاموش رہنا اور اسکی رہائش کے بارے میں جواب نہ دینا یا “ رامسوامی روڈ سے آگے” کہنا اسی جھوٹ کی ڈنٹھلیں معلوم ہوتیں ( یہ شہریار کو تیس برس بعد ندیم کے بارے میں سوچتے ہوئے احساس ہوا، تب تک شہریار خود ایک سیلف ڈکلئیرڈ فیلئیر اور الکوحلک تھا اور ماضی کو کریدنا اسکا دن کرنا تھا)۔ چونکہ ندیم کو شہریار سے کسی ججمنٹ کی توقع نہیں تھی وہ اکثر کھُل کر اس سے بات کرتا مثلاً
“ میں بڑا ہوکر انجینئر بنوں گا اور شادی کر کے پاکستان سے باہر جاؤں گا! باجی کے انکل دوست سنگا پور کی تصویریں دکھاتے ہیں، میں وہاں رہوں گا۔”
“ اور امی اور باجی کا خیال کون رکھے گا ( شہریار کو اپنی لا ولد والدہ سے وقتاً فوقتاً یہ التجا ملتی رہتی تھی کہ شہری تو بڑا ہوکر میرا خیال رکھے گا نا، تیرا باپ تو تیسری شادی کرے گا ضرور، میرا دنیا میں اب کوئی نہیں ہے)
“ وہ اپنا خیال خود کریں گی، بلکہ بڑی باجی ( ندیم نانی کو بڑی باجی کہتا تھا) ہر وقت باجی کو بتاتی رہتی ہیں کہ میں باجی کی ذمہ داری ہوں جیسے فیاض ماموں ان کی۔”
شہریار کو ندیم کی منطق زیادہ سمجھ نہیں آتی لیکن وہ دیکھتا تھا کہ ندیم کی نانی کس طرح فیاض ماموں کا خیال رکھتیں لیکن یہ خیال ہر لحاظ سے ثروت کے خیال رکھنے سے کم تھا، فیاض ماموں کو شہریار نے مہمانوں کو لانا، انکی خاطر تواضع کرنا اور فجر سے پہلے ہال کے کارپٹ سے پیسے اٹھا اور گن کر بڑی باجی کو دیکھتے اور پھر سازندوں اور فیاض میں تقسیم کرتے دیکھا تھا، لیکن کبھی کبھار “ میرا بھائی ، تیرا گھر بس جائے “ “ تجھے کیسیٹس کی دکان انشاللہ اس سال کھلوا دوں گی” وغیرہ کہتے سنا تھا ۔ ندیم نے بتایا تھا کہ انکی برادری ( یہ لفظ وہ کثرت سے استعمال کرتا تھا) میں لڑکوں کی شادیاں صرف سازندوں کی بیٹیوں سے ہوتی ہے اور وہ برقعہ پہنتی ہیں اور کھانا پکاتی ہیں لیکن موسیقی اور محفل ( ایک اور ندیم کا بکثرت استعمال ہونے والا لفظ) نہیں کرتیں، میں تو کسی پڑھی لکھی لڑکی سے شادی کروں گا۔”
“اچھا” شہریار کو ندیم کے مسقبل کے بارے میں اتنے پختہ ارادے دیکھ کر رشک آتا، جب ندیم اس سے پوچھتا تو پہلے تو وہ ٹال مٹول کرتا اور پھر کچھ بھی کہہ دیتا جیسے ڈاکٹر بنوں گا یا انجینئر ، ایک بار شاید انکی گفتگو ثروت کے کانوں میں پڑی۔
“ کپتان کا بیٹا پولیس والا ہی بنے گا” ثروت نے کہا، پہلے تو اسے اپنے ابا کا اتنا معروف ہونا پسند نہیں تھا ( اس خوف سے کہ ابا کی شہرت کہیں بھی اچھی نہیں تھی) پھر اسے ثروت بھی پسند نہیں تھی ( اور نہ ثروت کو وہ پسند تھا، ایسا کیوں تھا دونوں کو اسکی وجہ نہیں معلوم تھی، پچیس سال بعد جب شہریار اور اسکی بیوی میں علیحدگی ہوئی تو اسے بتایا گیا کہ دونوں کی انرجی فیلڈ ایک دوسرے کیلئے موزوں نہیں تھی، شاید ثروت اور اسکے درمیان بھی ایسا ہو، شہریار نے سوچا تھا)۔ندیم کو بھی ثروت وقتا” فوقتا” بری لگتی بلخصوص گھر میں آنے جانے والی پڑوسنوں یا سازندوں کے کمنٹس سن کر “ ہائے بانو، جو یہ لڑکی ہوتا سات پشتوں کی میراث پکی” اور بانو باجی کے ایسے فقرے “ وہ چھمیا ہے نہ ملتان والی جسکی ثوبیہ فلموں میں چن چاڑھنے گئی ہے عطائی، آپا ( بانو باجی کی امی یعنی ندیم کی نانی ) کے ساتھ آئی تھی، آپا کو کنجر ہونا آج تک نہیں آیا میں نے منع کیا تھا تب بھی بتا دیا، سارے آثار لڑکی کے تھے، واپس گئی اور میرا میٹھا کھانے سے دل خراب، پتہ چل گیا کہ بیٹا ہے۔”
ندیم ان جملوں پر تاؤ محلے کے باکسنگ کلب میں شہریار کو لے کر جاکر پیڈ پر گھونسوں سے نکالتا ( شاید) باکسنگ کلب کے بار تھڑے پر ندیم کے محلے کے لڑکے ہوتے ندیم سوائے امتیاز نامی ایک لڑکے سے کسی سے کلام نہیں کرتا، ندیم گویا محلے کا برگر بچہ تھا۔
“ یہ سب زنانے بنیں گے، مجھے ان سے دور رہنا ہے ورنہ ایسی عادتیں لگ جاتی ہیں۔”
“اور امتیاز؟”
“ نہیں وہ سازندہ بنے گا، خاندانی ہے۔”
شہریار کو ندیم کی اصطلاحات خاندانی، عطائی، ڈیرہ دار، خانگی ککھ سمجھ نہ آتیں۔
قریب پچیس چھبیس برس بعد جب شہریار ندیم کو ڈھونڈھتا اس محلے میں آیا تو اسکی ملاقات امتیاز سے ہوئی، اسکی مینُ نیپئر روڈ پر ایک انٹرنیٹ کیفے کی دکان تھی ( شہریار بائیس برس کینیڈا رہ کر، آیا تھا سوتیلی امی کے انتقال پر، جنکا شہریار نے کینیڈا امیگریشن بھی کروایا تھا لیکن وہ کراچی نہ چھوڑتی تھیں ، کلفٹن میں ایک مکان اور ایک کرسچن گوانیز خادمہ رکھی تھی کہ مسلمان خادمین پر اسے اور امی دونوں کو اعتبار نہ تھا، ابا کب کے ایک پولیس مقابلے میں مر چکے تھے اور امی نے بتایا تھا کہ تیرے اس بازار والے دوست کی ماں آئی تھی تعزیت پر، میں نے ندیم کا پتہ مانگا کہ شہریار کو دوں تو بات گول کر گئی)۔ امتیاز جب اسے پہچان گیا تو بہت تپاک سے ملا، چائے بوتل کے لوازمات ، اس سے پہلے کہ شہریار کچھ پوچھتا امتیاز نے ندیم کے بارے میں بات شروع کردی ۔
“ دیمے کا پتہ تو چلا ہوگا ۔“
“ نہیں، آخری بار جب میں اس سے ملنے آیا تو اسنے ملنے سے انکار کر دیا تھا، اس بات کو بھی تیس سال ہو گئے ہونگے، میرے ابا نے اسکی بہن پر فائرنگ کی تھی۔”
“ ہاں کیپٹن صاحب نشے میں تھے، کچھ نہیں ہوا تھا، ثروت نے کافی عرصے اسکے بعد بھی راج کیا، فائرنگ ہو اور کوئی مرے نا تو یہاں مشہوری ہوتی ہے۔”
“ ہاں لیکن ندیم ناراض تھا۔”
“ دیما ناراض نہیں ہوگا اسکے گھر والوں نے ملنے نہیں دیا، تم لوگ بھی تو پولیس لائنز چھوڑ گئے۔”
“ ہاں ابا کی معطلی ہوئی تو چھ سال دینہ گاؤں چلے گئے، خط بھی لکھے جواب نہیں آیا وہ انٹرنیٹ والا زمانہ نہیں تھا۔”
“ خط بھی بانو باجی نے پھاڑ دئے ہونگے، دیما بہت یاد کرتا تھا۔”
پھر اسنے جو بتایا اسکا لُب لباب یہ تھا کہ ندیم کو اسکے کالج کے زمانے میں ڈی جے کالج میں کسی سانگھڑ کے زمیندار نے اغوا کر لیا تھا اور بقول امتیاز بانو باجی کو اتنے پیسے دئیے تھے کہ ان لوگوں نے کلفٹن میں گھر بنا لیا تھا، ندیم آٹھ دس بعد زمیندار یا اسکے بیٹے کی موت کے بعد واپس آیا لیکن بہت خوش نہیں تھا، شکل صورت زنانہ تھی اور سانگھڑ میں رہ کر اب اطوار بھی وہی تھے، ماں اور بہن کی شکل سے نفرت تھی یہیں بازار میں ایک کمرہ لے کر فوٹو گرافی اور دھندہ بھی کرتا تھا، ایڈز میں مر گیا۔ امتیاز نے یہ کہہ کر شہریار کا حال اور جاب پوچھی، شہریار کو لگا اس خبر کے بعد ایک بہت لمبا وقفہ ہونا چاہئے۔
واپسی پر وہ اس کچرے سے اٹے، خاک زدہ محلے اور لوگوں سے بے پرواہ چلتا گیا، بلبل ہزار داستان بلڈنگ کے طغرے پر پان کی پچکاری تھی۔
“ یہاں شمیم آرا خالہ، زیبا خالہ اور بابرہ باجی رہتی تھیں۔”
ندیمُ کی بات کو بانو باجی نے حسد یا رشک سے اڑا کر کہا تھا “ پُتلی بائی نہ شمیم آرا۔”
شہریار کو لگا زندگی آج اسکی سوتیلی ماں ہے، ایسا رشتہ جو نہ ہو، جو اسنے اپنی سوتیلی ماں میں کبھی نہ دیکھا تھا۔
ماخذ
شہزاد علی کی فیس بک وال سے