ڈاکٹر مہوش نور
اصل نام: شکیلہ رفیق
قلمی نام: شکیلہ رفیق
پیدائش: سیتا پور،یوپی (ہندوستان)
شکیلہ رفیق کی ولادت سیتا پور،یوپی (ہندوستان) میں ہوئی۔شکیلہ رفیق نے پی آئی پی کالونی کراچی سے میٹرک پاس کیا۔ کراچی کے سرسید کالج سے بی اے کیا۔ سب سے پہلی کہانی 1972 میں احساس کا جرم کے عنوان سے لکھی جو سانحۂ مشرقی پاکستان سے متاثر ہوکر لکھی تھی۔
ان کی دوسری کہانی درد کا ملاپ ہے جو نیا دور کراچی میں شائع ہوئی۔ ایسے بہت سے معیاری رسائل وجرائد ہیں جن میں ان کے افسانے شائع ہوچکے ہیں۔ علاوہ ازیں ان کے افسانوں کے ہندی، انگریزی، سندھی زبان میں تراجم بھی ہوئے ہیں۔ شکیلہ رفیق کی چار کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں جیسے
۔ درد ہے ساتھی اپنا، ایک ناولٹ،1975 میں شائع ہوا۔
۔کچھ دیر پہلے نیند سے (افسانوں کا مجموعہ)، 1985 میں شائع ہوا۔
۔ خوشبو کے جزیرے(افسانوں کا مجموعہ)، 1985 میں شائع ہوا۔
۔ قطار میں کھڑا آدمی(افسانوں کامجموعہ)، 1998 میں شائع ہوا۔
۔ ریموٹ مجھے دو اس کے علاوہ انھوں نے اپنی سوانح کو قلم بند کرنا شروع کردیا ہے اور اندازہ ہے کہ سوانح نگاری کے میدان میں بھی وہ ضرور کوئی ندرت پیدا کریں گی۔
افسانہ نگاری کے علاوہ شکیلہ رفیق نے شاعری میں بھی اپنے فکر اور فن کو با کمال انداز میں پیش کیا ہے۔انہوں نے کچھ غزلیں اور چند نظمیں بھی قلم بند کی ہیں،ان غزلوں اور نظموں میں ان کی سوچ ،ان کی فکر اور ان کی شخصیت کے مختلف رنگ جا بجا بکھرے نظر آتے ہیں۔ان کی شاعری میں رومانویت بھی ہے،روحانیت بھی اورمشرقی عورتوں کے دکھ ۔درد کی روداد بھی۔شکیلہ رفیق کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے
ستارو!چال کیسی چل رہے ہو
وہ میرے پاس تنہا آگیا ہے
علامت عشق کی شاید یہی ہے
اسے بننا سنورنا آ گیا ہے
—
مرا رستہ نہیں روکےگا دریا
مجھے پانی پہ چلنا آ گیا ہے
—
جی میں آتا ہے حجابوں سے میں نکلوں لیکن
کیا کروں مجھ کو زمانے کا خیال آتا ہے
ڈاکٹر خالدسہیل اپنے مضمون”شکیلہ رفیق اور شاعری کی پگڈنڈی”میں لکھتے ہیں
شکیلہ رفیق ایک طویل عرصے سے اردو افسانہ نگاری کی شاہراہ پر چل رہی تھیں پھر نہ جانے ان کے جی میں کیا آئی کہ وہ افسانوں کی شاہراہ چھوڑ کر شاعری کی پگڈنڈی پر چل پڑیں۔شکیلہ رفیق اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ محبت مختلف کیفیات کانام ہے کبھی ہجر،کبھی وصال،کبھی قربتیں،کبھی دوریاں،کبھی عنایتیں،کبھی شکایتیں۔وہ ان کیفیات کو اپنی شاعری میں اس طرح پیش کرتی ہیں
وہ میرا ہے بھی اور نہیں بھی ہے
بے یقینی بھی ہے یقیں بھی ہے
مل بھی جاتا ہے کھو بھی جاتا ہے
دور ہے اور یہیں کہیں بھی ہے