شاہدہ احمد:لندن، برطانیہ

ڈاکٹر مہوش نور

اصل نام: شاہدہ احمد

قلمی نام: شاہدہ احمد

پیدائش: 20 نومبر1949، الہ آباد

موجودہ سکونت: لندن

شاہدہ احمد20 نومبر1949 کو الہ آباد میں پیدا ہوئیں۔انہوں نے 1975میں پنجاب یونیورسٹی،لاہور سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی ۔مسکراہٹ،خوش مزاجی شاہدہ کی شخصیت کا خاصہ ہے۔ہر حالت میں ان کے لب تبسم کے موتی بکھیرتے رہتے ہیں۔ان کے متبسم ہونٹ اور خوش مزاجی کا اندازہ سید عاشور کاظمی کے اس قول سے لگایا جا سکتا ہے:

‘‘لوگوں نے شاہدہ احمد کو اس وقت بھی دیکھا ہے جب وہ صحت مند تھیں۔اچھلتی کودتی ادبی محفلوں میں آتیں،خود بھی ہنستیں،دوسروں کو بھی ہنساتیں،……اور پھر لوگوں نے اس شاہدہ احمد کو بھی دیکھا جب وہ بیمار ہوئیں اور پہیوں والی کرسی پر بیٹھ کر ادبی محفلوں میں آنے لگیں۔مگر ہونٹوں پر تبسم کی وہی چاندنی۔آنکھوں میں عزم و ہمت کی وہی چمک……پیشانی پر کامرانی کے چاند سورج۔کوئی محسوس تو کرے کہ شاہدہ کو کوئی دکھ ہے…اس کیفیت میں بھی شاہدہ لکھ رہی ہیں۔ادب سے اپنی وابستگی نبھا رہی ہیں اور دنیا کے دکھی اور معذور لوگوں کی خدمت کر رہی ہیں۔انہیں جینے کا چلن سکھا رہی ہیں۔’’(9)

1967 میں ان کی تحریریں شائع ہونے لگی تھیں۔1970 میں شائع ہونے والا ان کا پہلا ناول ہی شاہدہ کی پہچان بن گئی۔لندن میں1983 میں ‘‘برطانیہ میں اردو کے منتخب افسانے ’’کے نام سے افسانوں کا ایک مجموعہ مرتب کیا جس میں گیارہ مقامی افسانہ نگاروں کے افسانے شامل ہیں۔1977 سے1985 تک شاہدہ نے بی بی سی اردو سروس میں بحیثیت براڈ کاسٹر کام کیا۔1978 میں ‘‘برگ گل’’کے نام سے لندن میں ایک ادبی انجمن بنائی۔1986 میں پاکستان چلی گئیں اور کراچی سے معذور لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے ماہنا‘‘آدرش’’کا اجرا کیا۔1989 تک اس جریدے کی مدیر رہیں۔شاہدہ پھر لندن واپس آگئیں۔

پاکستان میں قیام کے دوران ‘‘جسمانی طور پر معذور بالغوں ’’کی انجمن اے.پی.ایچ.اے. کی نائب صدر رہیں۔شاہدہ کو معذور لوگوں کے لیے خدمات انجام دینے کے سلسلے میں ایک انعام حکومت سندھ کی طرف سے اور دوسرا ‘‘ماں عائشہ’’ سنٹر کراچی کی طرف سے مل چکا ہے۔ان مصروفیات کے باوجود شاہدہ کا رشتہ اردو ادب سے نہیں ٹوٹا۔وہ برابر افسانے لکھتی رہیں۔شاہدہ ڈراموں میں بھی حصہ لیتی ہیں۔

ان کے افسانوں کا مجموعہ‘‘بھنور میں چراغ’’1992، دوسرا مجموعہ‘‘صدائے کشمیر’’(ڈرامہ ) اور افسانوں کا دوسرا مجموعہ ‘‘ہجرتوں کے بھنور’’2000 میں شائع ہوا۔شاہدہ آج کل اپنی سوانح حیات لکھ رہی ہیں۔اس فعال، متحرک مصنفہ نے اردو ادب کو بھی بہت کچھ دیا ہے۔شاہدہ احمد کے افسانوں کو پڑھنے کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ ان کے یہاں موضوعات،انداز بیان اورموادمیں تنوع ہے۔

ہر افسانہ ایک نیا رنگ لے کر ابھرا ہے۔سماجی اور معاشرتی احوال و کوائف کی گویا ایک خوب صورت داستان شاہدہ کے افسانوں میں موجود ہے۔ اس موجودگی نے نئی سوچ و فکر و جنم دیا ہے۔ جس سے نئی نسل استفادہ کر رہی ہے۔ امید ہے کہ شاہدہ ملک و بیرون ملک کے تجربات سے اردو افسانے کے کینوس میں اضافہ کریں گی۔

Leave a Reply