ڈاکٹر اسماء ناہید ، حیدرآباد
سرسید احمد خاں اور علی گڑھ تحریک
علی گڑھ تحریک کے روح رواں سرسید احمد خاں اپنے عہد کے بڑے مجتہد، مصلح اور مدبر تھے، قومی بیداری کے ضمن میں ان کے کارہائے نمایاں تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز کرتے ہیں۔ انہوںنے انقلاب 1857ء کے بعد قوم کو ذہنی انحطاط اور بے عمل کے دلدل سے نکالنے کے لیے سب سے پہلے قوم کی حالت کا تجزیہ کیا اور یہ احساس دلایا کہ وہ عمل کی طرف راغب ہو۔ یہ الفاظ دیگر انہوںنے قوم کو زمانے کی رفتار کے پیش نظر اس کے قدم بہ قدم چلنے کا گر سکھایا۔
1857ء کے انقلاب کے بعد ہی اردو زبان کے شاعروں اور ادیبوں میں پہلی بار ’’زندگی اور ادب‘‘ کے باہمی رشتے کو سمجھنے اور اس کی نوعیت پر سنجیدگی کے ساتھ غور و فکر کرنے کی ضرورت کا احساس پیدا ہوا اور ادب جو اہل ذوق کی تسکین اور دل بستگی کا سامان مہیا کرنے کا محض ایک ذریعہ بن کر رہ گیا تھا۔ قوم کی ذہنی بیداری اور اس کی تشکیل و تعمیر کے خصوص میں ایک اہم کردار ادا کرنے کے قابل ہوگیا۔ اس زبردست تغیر کا واضح ترین نقش ’’علی گڑھ تحریک کی شکل میں نمودار ہوا۔ یہ تحریک بلاشبہ اردو کی سب سے پہلی اور شعوری تحریک تھی جس کی اساس ’’ادب اور زندگی‘‘ کے باہمی رشتے کے ادراک پر قائم تھی۔
بقول آل احمد سرورؔ:
’’ایک محدود سیاسی یا تعلیمی تحریک نہیں تھی، یہ ایک جامع ذہنی تحریک تھی جس کا مقصد تہذیب کا ایک نیا تصور دینا تھا اور سماج میں ایک بڑا انقلاب لانا تھا، اس انقلابی تصور کے لیے انہوںنے مغربی فکر و تحریر سے پورا فائدہ اٹھایا اور اس سے بہت کچھ اخذ کیا۔ سرسید کی تحریک کو سرتا سروقتی مصلحت یا ضرورت کی آواز سمجھنا حق تلفی ہوگی۔‘‘
اس تحریک نے ملک و قوم کی زندگی پر اپنے ان مٹ نقوش ہی نہیں چھوڑے بلکہ اسے سمت و رفتار بھی عطا کی۔ تحریک کو سمت اور رفتار دینے والوں میں سرسید احمد خاں، خواجہ الطاف حسین حالی، شبلی نعمانی، نذیر احمد، محسن الملک، ذکااللہ، وقار الملک اور چراغ علی وغیرہ بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔
اردو زبان و ادب کی تاریخ میں سرسید احمد خان کی خدمات کبھی فراموش نہیں کی جاسکتی۔ ان کے رسالہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کی خدمات بھی بڑی زبردست رہی ہیں۔ انہوں نے اسلوب اور موضوع کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کردیا۔ مقفّٰی اور مسجع نثر نگاری کے مقبول عام انداز کو ترک کرکے خیالات کو وضاحت کے ساتھ سیدھے سادے انداز میں بیان کرنے کی ایک نئی روایت قائم کی۔ ویسے اس روایت کی جڑیں وہابی تحریک کے ادب اور پھر فورٹ ولیم کالج کے نثر نگاروں کے علاوہ مرزا غالب کے خطوط میں بھی دکھائی دیتی ہیں۔ سرسید احمد خاں نے نہ صرف یہ کہ جدید نثر کا ایک واضح اور قطعی تصور دیا بلکہ ایسے موضوعات پر بھی قلم اٹھایا جن پر اس سے پہلے کچھ نہ لکھا گیا تھا۔ اردو ادب کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا جب ’’کسی شخص نے مغربی ادب اور مغربی خیالات کا حوالہ دیا‘‘
علی گڑھ تحریک ہی کے ہاتھوں اردو شاعری بھی انقلابی تبدیلیوں سے روشناس ہوئی اور ساتھ ہی ساتھ محمد حسین آزاد کا بویا ہوا بیج بھی برگ و بار لایا۔ اردو شاعری میں اس تغیر کا اولین واضح نقش ’’نظم اور کلام موزوں‘‘ سے متعلق محمد حسین آزاد کا وہ لکچر قرار دیا جاسکتا ہے جو انہوں نے 1867ء میں لاہور کی ایک انجمن پنجاب کے ایک جلسہ میں دیا تھا۔ آزادؔ کا یہ لکچر اردو شاعری کی شعری تنقید میں نئی منزلوں کے لیے نشان راہ کا درجہ رکھتا ہے۔ اردو شاعری کی اصلاح کا خیال پہلے پہل آزادؔ ہی کے ذہن میں پیدا ہوا اور انہوںنے مروجہ روایتی اور تقلیدی شاعری کی کم مائیگی اور بے بضاعتی کو محسوس کرتے ہوئے اس کے خلاف نہ صرف آواز اٹھائی بلکہ کرنل ہالرائیڈ، ناظم سرشتۂ تعلیم پنجاب کے تعاون سے ’’انجمن پنجاب‘‘ کے زیر اہتمام جدید طرز کے ایک مشاعرے کی بنیاد ڈالی۔ اس مشاعرے سے مصرعہ طرح دیئے جانے والے فرسودہ طریقے کو ترک کرکے شاعری کے لیے موضوعات منتخب کئے جانے کی نئی روایت کا آغاز ہوا۔ انجمن پنجاب ہی کی تحریک نے خواجہ الطاف حسین حالیؔ کو نظم گوئی کی طرف راغب کیا جہاں سے انہیں ادب کے ایک نئے تصور کی راہ ملی۔
اس سے پہلے اردو ادب میں شاعری ہی کو مرکزیت حاصل تھی اور ادب کی نمائندگی کا شرف بھی اسی کو حاصل تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ 1857ء سے پہلے میر تقی میرؔ، مرزا غالبؔ اور میر انیس جیسے عظیم شاعر پیدا ہوچکے تھے۔ تاہم شاعری زیادہ تر فرد ہی کا طواف کرتی نظر آتی تھی۔ نئے شعور کی جھلک تو کہیں کہیں اس میں مل جاتی تھی۔ لیکن نئے شعور سے اس کی آشنائی ابھی تک نہیں ہوئی تھی۔ زندگی کی مادی ضرورتوں نے اس پر اپنے اثرات تو ڈالے تھے لیکن ان اثرات کو اس نے اتنی شدت کے ساتھ محسوس نہیں کیا تھا اور اجتماعی زندگی اور اس کے معاملات و مسائل کی طرف اس کی نظر نہیں گئی۔ 1857ء کے بعد اردو ادب نے سرسید کے زمانے میں پہلی دفعہ مادی دنیا میں آنکھ کھولی۔
بقول شمس العلماء مولانا شبلیؔ نعمانی:
’’سرسید کے جس قدر کارنامے ہیں اگرچہ ۔۔۔۔۔ اور اصلاح کی حیثیت سے ہر جگہ نظر آتی ہیں لیکن جو چیزیں خصوصیت کے ساتھ ان کی اصلاح کی بدولت ذرہ سے آفتاب بن گئیں ان میں اردو لٹریچر بھی ہے۔ سرسید ہی کی بدولت اردو اس قابل ہوئی کہ عشق و عاشقی کے دائرہ سے نکل کر ملکی، سیاسی، اخلاقی، تاریخی ہر قسم کے مضامین اس زور و اثر، وسعت و جامعیت، سادگی اور صفائی سے ادا کرسکتی ہے کہ خود اس کے استاد یعنی فارسی زبان کو آج تک یہ بات نصیب نہیں۔‘‘
سرسید نے اردو زبان میں جو باتیں پیدا کیں اس کو وہ مختصراً ’’تہذیب الاخلاق‘‘ میں بیان کرتے ہیں۔ ایک مقام پر انہوں نے خود لکھا ہے کہ
’’جہاں تک ہم سے ہوسکا ہم نے اردو زبان کے علم و ادب کی ترقی میں اپنے ان ناچیز پرچوں کے ذریعہ سے کوشش کی مضمون کے ادا کا ایک سیدھا اور صاف طریقہ اختیار کیا۔ رنگین عبارت سے جو تشبیہات و استعارات خیالی سے بھری ہوئی ہیں اور جس کی شوکت صرف لفظوں ہی لفظوں میں رہتی ہے اور دل پر اس کا کچھ اثر نہیں ہوتا۔ پرہیز کیا۔ اس میں کوشش کی کہ جو کچھ لطف جو مضمون کے ادا میں ہو جو اپنے دل میں ہو وہی دوسرے کے دل میں پڑے تاکہ دل سے نکلے اور دل میں بیٹھے۔‘‘
سرسید کی انشا پردازی کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ ہر قسم کے مختلف مضامین پر کچھ نہ کچھ بلکہ بہت کچھ لکھا ہے اور جس مضمون کو لکھا ہے اس درجے پہنچا دیا ہے کہ اس سے بڑھ کر ناممکن ہے۔ سرسید نے اخلاق، معاشرت، پالیٹکس، مناظر قدرت وغیرہ سب پر لکھا ہے اور جو کچھ لکھا ہے مثال کے بعض بعض مضامین کے جستہ جستہ فقرے نقل کرتے ہیں۔
مضمون ’’امید کی خوشی‘‘ پر سرسید احمد خاں امید کو مخاطب کرکے یوں کہتے ہیں ۔ چند فقرے ملاحظہ ہوں :
’’دیکھ ناداں بے بس بچہ گہواراہ میں سوتا ہے۔ اس کی مصیبت زدہ ماں اپنے دھندھے میں لگی ہوئی ہے اور اس گہوارہ کی ڈوری بھی ہلاتی جاتی ہے ہاتھ کام میں اور دل بچہ میں ہے اور زبان سے اس کو یوں لوری دیتی ہے ’سورہ میرے بچے سورہ، اے اپنے باپ کی مورت اور میرے دل کی ٹھنڈک سورہ، اے میرے دل کے کونپل سورہ، بڑھ اور پھل پھول، تجھ پر کبھی خزاں نہ آئے، تیری ٹینی میں کبھی کوئی خار نہ پھوٹے، کوئی کٹھن گھڑی تجھ کو نہ آئے۔‘‘
ان چند فقروں میں سرسید نے نیچر کی تصویر کھینچی ہے اور اس میں کس قدر درد و اثر پیدا کیا ہے۔ سرسید کی تحریروں میں جابجا ظرافت اور شوقی بھی ہوتی ہے لیکن نہایت تہذیب اور لطافت کے ساتھ مولوی علی بخش خاں صاحب مرحوم جو سرسید کے رد میں رسالے لکھا کرتے تھے حرمین شریفین گئے وہاں سے سرسید کی تکفیر کا فتویٰ لائے۔ اس پر سرسید ایک موقع پر تہذیب الاخلاق میں لکھتے ہیں :
’’جو صاحب ہماری تکفیر کا فتویٰ لینے کو مکہ معظمہ تشریف لے گئے تھے اور ہماری تکفیر کی بدولت ان کو حج اکبر نصیب ہوا ان کے لائے ہوئے فتوئوں کو دیکھنے کے ہم بھی مشتاق ہیں۔
سبحان اللہ ! ہمارا کفر بھی کیا کفر ہے کہ کسی کو حاجی اور کسی کو کافر اور کسی کو مسلمان بناتا ہے۔‘‘
علی گڑھ تحریک کو سمت و رفتار دینے والوں میں سرسید کے بعد سب سے اہم شخصیت خواجہ الطاف حسین حالی کی ہے جنہوں نے اس تحریک میں شمولیت سے قبل محمد حسین آزادؔ کے ساتھ ’’انجمن پنجاب‘‘ کے جدید طرز کے مشاعروں میں بڑی سرگرمی دکھائی تھی اور حب وطن، مناظرہ، رحم و انصاف، برکھارت اور نشاط امید جیسی مثنویاں لکھ کر شاعری کے نئے رجحان کے فروغ میں حصہ لیا۔ ان کی یہ مثنویاں نئی شاعری کی راہ میں مشعلوں کی حیثیت رکھتی ہیں۔
حالیؔ نے زندگی کی مادی حقیقت اور اس حقیقت کے بدلتے ہوئے پہلوئوں کو نظرانداز نہیں کیا بلکہ ان کی اہمیت محسوس کرکے شاعری کا رخ خواب و خیال کی دنیا سے حقیقی دنیا کی طرف موڑ نے کی کامیاب سعی کی۔ اس ضمن میں شبلیؔ کی خدمات بھی فراموش نہیں کی جاسکتی۔
بقول سردار جعفری:
’’حالیؔ اور شبلیؔ کا بہت بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوںنے پہلی بار ادب اور تنقید کی بنیاد مادی حالات پر رکھی۔ انہوںنے بتایا کہ اب مادی حالات کے مطابق اپنا چولا بدلتا ہے اور مواد اور ہیئت دونوں میں تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں۔ شبلی نے تو تشبیہوں اور استعاروں کی تبدیلی کے بھی مادی اسباب دریافت کرنے کی کوشش کی (شعر العجم جلد چہارم) اس اعتبار سے حالیؔ کا مقدمہ ’’شعر و شاعری‘‘ اور شبلیؔ کی ’’شعر العجم‘‘ بہت بڑے کارنامے ہیں۔ ‘‘
اس دور کے قلم کاروں کی آنکھیں مسلمانوں کی عظمت رفتہ کے غم میں اشک بار نظر آتی ہیں۔ اس دور میں لکھی جانے والی سوانح عمریاں بھی قومی احیا کی تحریک ہی کا ایک حصہ ہیں کیوں کہ ان سوانح نگاری کے فن کو ایک خاص مقصد کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے علی گڑھ تحریک ایک اصلاحی تحریک بن کر وجود میں آئی اور اس تحریک کا مقصد عام لوگوں کی زندگی اور ان کے معاملات و مسائل پر خصوصی توجہ مرکوز کی۔ اس لیے اس کی اصلاح کے پیش نظر ایسا ادب تخلیق کرنا جو عام لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرسکے۔ عام زندگی کے مسائل اور اخلاقی اصلاح کی غرض سے جو ادبی تخلیق کار تھے ان میں چند اہم نام قابل ذکر ہیں جنہوں نے ادب میں عام زندگی کے مسائل اور اخلاقیات کو پیش نظر کیا۔ یہ لوگ ’’ادب برائے زنگی‘‘ کے قائل تھے۔ علی گڑھ تحریک کے قلم کاروں میں حالیؔ، شبلیؔ، نذیر احمدؔ، ذکا اللہ اور چراغ علی وغیرہ نے اس فن کو اپنے اپنے طور پر برتنے کی سعی کی ہے۔
سرسید کی اس علی گڑھ تحریک کے لیے یہ کہنا بجا نہ ہوگا کہ مجروح سلطان پوری کا یہ شعر پیش خدمت ہے:
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
****