You are currently viewing سائیں سُچَّا:سویڈن
سائیں سُچَّا:سویڈن

سائیں سُچَّا:سویڈن

ڈاکٹر مہوش نور

اصل نام:  مشتاق احمد

قلمی نام: سائیں سُچَّا

پیدائش: 12اپریل 1941ساہیوال ،پاکستان

موجودہ سکونت: سویڈن

سائیں سچا کی پیدائش 12اپریل 1941 میں ساہیوال پاکستان میں ہوئی۔ سائیں سچا کا اصلی نام مشتاق احمد اور قلمی نام سائیں سچا ہے۔اور وہ اپنے آپ کو سائیں سچا کے نام سے متعارف بھی کراتے ہیں۔ معاشی زندگی کو خوشگوار بنانے کے لیے سائیں سچا نے مزدور، ریسرچ، کیمسٹ، مستری، کتب فروش، فوٹوگرافر، ڈسک جوکی، کلپ ماسٹر، تاجر، ناشر اور ٹیکسی ڈرائیور کا کام کیا۔

اس کے علاوہ انہوں نے اچھی ملازمت بھی کی لیکن موصوف-82 80 سال کی عمر میں بھی ٹیکسی چلا رہے ہیں کیوں کہ  ان کا ماننا ہے ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھنا ،ہاتھ پیر نہ مارنا موت ہے۔ان کا یہ عمل جہاں قابل ذکر اور قابل تقلید ہے وہیں ان نوجوان نسل کے لیے ایک سبق ؛جو کسی کام کو اعلیٰ اور کمتر سمجھ کر کچھ نہ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔سائیں سچا جو لکھتے ہیں وہی کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں ۔

سائیں سچا کی پیدائش تو ساہیوال میں ہوئی مگر ان کے والد محلہ مزنگ شہرلاہور پاکستان میں رہتے تھے اور سائیں سچا کی زندگی کی 19بہاریں مزنگ میں ہی گزری۔1960 میں سائیں سچا برطانیہ آگیے اور 5سال کنگسٹن میں رہے۔ وہ کنگسٹن گزارے ان لمحوں کو اپنی زندگی کا اہم حصہ کہتے ہیں۔ 1965 میں برطانیہ سے سویڈن چلے گیے۔غیر ممالک کے متعلق ان کے خیالات کو سید عاشور کاظمی نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے

“وہ کہتے ہیں کہ یہاں جمہوریت، انسانیت اور جنسیات کو ایک نئے انداز سے دیکھا اور سیکھا کہ بے شرمی عریانیت میں نہیں ہے بلکہ اس غلاظت کا نام ہے جو ہم اپنے تن اور من میں مختلف پوشاکوں اور مختلف ڈھنگوں کے ذریعہ چھپاتے ہیں۔ جمہوریت صرف ڈبے میں مرچی ڈالنے کو نہیں کہاجاتا بلکہ اس علم کا نام ہے جو انسان کو ان کے فرائض اورحقوق سے واقفیت دلاکر اسے ایک بااخلاق اور ذمہ دار شخص بنانے کے بعد اسے صحیح اور غلط میں انتخاب کرنے کا شعور دیتاہے۔”

سائیں سچا نےسویڈن میں سکونت اختیار کرلی ہے اور نشرواشاعت کا کام بھی شروع کردیاہے۔ اچھی اور بہترین کتابیں بھی لکھی ہیں اور لکھنے کا یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔ مغرب کے سرمایہ دارانہ ماحول میں رہ کر بھی ان کی سوچ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

موصوف نے 1956 میں ایک افسانہ سے اپنے ادبی سفر کا آغاز کیا۔ان کی پہلی تصنیف 1985 میں منظر عام پر آئی۔اس دوران ان کے متعدد مضامین ،مقالے مختلف رسائل  میں شائع ہوتے رہے۔سائین سچا کو چار زبانوں پر مکمل عبور حاصل ہے؛جن میں اردو،پنجابی،سویڈش اور انگریزی ہیں۔موصوف نے فیض احمد فیض اور احمد فراز کے کلام کو انگریزی میں ترجمہ کیااور ساحرلدھیانوی کے کلام کو سویڈش زبان میں ترجمہ کیا۔ اب تک ان کی 13کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ ان کی تمام تصنیفات حسب ذیل ہیں

۔ The Roots of Misery(خلافت کی جڑیں):1985

۔ Manniskans Anropاحمد فراز کی شاعری کا سویڈش ترجمہ:1986

۔ Inte Ensam، فیض احمد کی شاعری کا سویڈش ترجمہ:1987

۔ Memory، انگریزی میں سات افسانے:1987

۔ Discourse with it، انگریزی میں سات افسانے:1987

۔ Mote Meddet، سویڈش میں سات افسانے:1988

۔Sorcery، ساحرلدھیانوی کی شاعری کا انگریزی ترجمہ:1989

۔ Search for Identity، سویڈن میں منعقد کانفرنس(جس میں اردو کے علاوہ ہندی اور پنجابی کے ان لکھاریوں نے شرکت کی جو اب ہندیاپاک میں نہیں رہتے) کی کارروائی اور ان ادیبوں کی نثر اور شاعری کا مجموعہ انگریزی ترجمے کے ساتھ:1991

۔ Broken Man، خالد سہیل کے ناول ٹوٹاہواآدمی کا انگریزی ترجمہ:1992

۔ چٹکیاں، افسانے اور مضامین:1994

۔ سوچیں (افسانے) سعید انجم کے ساتھ مشترکہ تخلیق:1996

۔ Reklektion، سویڈش میں اپنے پندرہ افسانوں کا ترجمہ:2000

۔ Reflection، انگریزی میں اپنے پندرہ افسانوں کا ترجمہ:2001

Leave a Reply