You are currently viewing راشدالخیری کے ناولوں میں عورت کی ترجمانی

راشدالخیری کے ناولوں میں عورت کی ترجمانی

راشدالخیری کے ناولوں میں عورت کی ترجمانی

 زیب النساء

ریسرچ اسکالر،جواہر لعل نہرو یونیورسٹی نئی دلی

راشدالخیری ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے وہ بیک وقت خطیب،ناول نگار،افسانہ نگار،صحافی ،تعلیم اور تربیت نسواںکے شیدائی تھے اسی لئے ان کی تمام تر کوششوں کامحور طبقہ ¿ اناث کی اصلاح و تربیت اور ان کے حقوق کی بازیافت تھا۔ اس حقیقت سے کسی کو بھی انکار نہیں ہوسکتا کہ ا نیسویں صدی ہندوستانیوں کے لئے جدو جہد آزادی اور اصلاحی تحریک کی صدی مانی جاتی ہے۔کیونکہ اس صدی میں بھی سابقہ دور کی مستورات کی طرح خواتین زندگی کی ہر سطح پر استحصال کا شکا رنظر آتی ہےں۔دراصل نسل انسانی کے آغاز میںعورت سماج میں ایک آزاد اور بااختیار فرد کی حیثیت رکھتی تھی ،اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اس کے گھریلوکام کاج کو اتنی ہی اہمیت حاصل تھی جتنی کہ مردکی محنت ومشقت کو اہمیت دی جاتی تھی نیز اس وقت کی تہذیب مادری تہذیب تھی اور نسل ووراثت باپ کی بجائے ماں سے چلتی تھی ،لیکن انسانی سماج جیسے جیسے ترقی کی منزلیں طے کرتا گیا عورت کی خود مختاری اور اہمیت میں بھی کمی ہوتی گئی آخر کارجب جاگیردارانہ نظام کو واستحکام حاصل ہوا اور مرد کا مکمل اقتدار قائم ہوا رفتہ رفتہ پدری خاندان کی بنیاد قائم ہوگئی اور اب نسل ووراثت ماں کی بجائے باپ سے چلنے لگی ،عورت کی مالکانہ حیثیت ختم ہوگئی اور اسے دھیرے دھیرے خادمہ ،کنیز اور طوائف کے درجے تک پہنچا دیا گیا۔جب ہم راشدالخیری کی عہد کی خواتین کی حیثیت کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس دورمیں بھی سماج میںعورت کوکوئی قدرو منزلت حاصل ہے نہ کنبے میں کوئی وقعت۔ایک عورت ہونے کی وجہ سے اس کا کام صر ف شوہر پرستی اور گھر میں مقید رہ کر میاں کے ہر جائز وناجائز فیصلے پر سر خم تسلیم کرنا تھا اور بس۔مرد چاہے تو اپنی مرضی کے مطابق کئی کئی شادیاں رچا سکتا تھا لیکن ایک لڑکی اگر کم عمری میں بھی بیوہ ہوجائے تو اسے دوسری شادی کے بارے میں سوچنا بھی گناہ عظیم سمجھا جاتا تھااور تارک الدنیا ہو کرگھٹن کی محدود دزندگی گزارنا اس کا مقدر بن جاتا تھا۔ہندوو ¿ں کے یہاں تو یہ رواج عام تھا کہ بیوی اپنے شوہر کے ساتھ ہی جل کرختم ہوجائے،البتہ اس بیوہ کا اگر بڑا لڑکا ہے تو اس کی کفالت کر سکتا تھالیکن اس مرحلہ میں بھی سماج اسے عزت کی زندگی بسر کرنے کا حق چھین لیتا تھا، مگرمسلمانوں کے یہاں بیواو ¿ں کے لئے جل کر مرنے کا رواج تھانہ ہی عزت کی زندگی بسر کرنے کی گنجائش البتہ! ان کے پا س ہر دن اور ہر لمحہ گھٹ گھٹ کر مرنے کے سوا کوئی چارہ ہی باقی نہ تھا۔ہندو عورتیں وراثت سے محروم تھیں،مسلم عورتوں کو وراثت تو ملتی تھی لیکن مردوں کے مقابلے میں آدھا۔مسلم عورتیں طلاق کے نام سے بھی کانپتی تھیں اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ معاشی اعتبار سے کمزور تھیںاور مردوں کی رحم وکرم پرزندگی گزارتی تھیں۔

مقالہ میںسماج میں ہندو اور مسلم عورت نہیں بلکہ مسلم متوسط طبقہ کی عورت کی ترجمانی پر گفتگو کرنا مقصود ہے ۔راشدالخیری ایک متوسط طبقہ میں پیدا ہوئے اورپلے بڑھے۔ وہ اس طبقہ کی عورتوں کی مظلومیت ،معاشرے اور کنبے میں ان کی بے وقعتی کے وہ خودشاہد تھے ۔لہذاوہ انھیں پستی سے نکال کرسماج میں بلندمقام عطا کرنا چاہتے تھے۔وہ ایک دور اندیش اور مستقبل شناس انسان تھے اس ضمن میںجب انھوں نے اپنی قوم کی حالت کا تجزیہ کیاتو بہت جلد اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ انیسویں صدی کے ابتدائی دور کی اصلاحی تحریکات کے باوجودسماج میں عورت کی کوئی وقعت نہیںجس کا وہ مستحق ہیں۔راشدالخیری خواتین کو ان کا وہ بنیادی حقوق دلانا چاہتے تھے جو اسلام نے انھیں عطا کیا ہے۔انھوں نے عورتوںکی پستی، زبوں حالی کو دیکھ کو اندازہ لگالیا کہ تعلیم کے بغیر کوئی بھی طاقت اس پستی سے انھیں نہیں نکال نکال سکتی۔ لہذاخواتین کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھ کر اس کا مداوا کرنے کی سعی کی اورنہ صرف اپنے ناولوں بلکہ تمام ادبی تخلیقات کا موضوع طبقہ ¿ نسواں کی زندگی اور اس کے مسائل کو بنایا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ:

”مرے سامنے صرف مسلمان عورت ہے“

سرسید نے ملک کی معاشرتی اورتعلیمی زندگی میں بہت مثبت رول ادا کیا لیکن بد قسمتی سے ان کوششوں میں تعلیم نسواں کی اہمیت وافادیت کی طرف خاص توجہ نہیں دی گئی،جب کہ اصلاح معاشرہ کے لیے ”تعلیم مرداں“ کے ساتھ” تعلیم نسواں“کا ہونا ضروری تھا،کیونکہ اس دور میں عورت کی اکثریت نہ صرف جاہل تھی بلکہ فرسودہ خیالات وعقائد اورجاہلانہ وباطلانہ رسم ورواج کی بیڑیوں میں جکڑی ہوئی تھی۔سر سید نے اپنی قوم کی فلاح وبہبود کے لیے تعلیمی بیداری اور اصلاح معاشرت پر تو خصوصی توجہ دی لیکن اس کے لیے وہ روایتی تعلیم کو ناکافی اور بیکار تصور کرتے تھے۔لہذا وہ اپنی قوم کی اصلاح ودرستی کے لیے جدید تعلیم کے حق میں تھے اور اسی اصلاح و درستی کا جیتا جاگتا نمونہ” علی گڑھ مسلم یونیور سٹی“ ہمارے سامنے موجود ہے ۔سرسید کی یہ اصلاحی تحریک جس کا نصب العین تعلیمی بیداری تھی ،صرف مردوں کے لیے ہی نہیں تھی بلکہ ان کے نزدیک تعلیم کا جو تصور تھا عمومی نوعیت کا تھالیکن واضح طور پر تعلیم نسواں کے حق میں انھوں نے اظہار خیال نہیں کیا ہے۔انھیں اس با ت کا بخوبی اندازہ تھا کہ ہمارے سماج کی عورتیں مردوں کی تابع ہیںاسی لیے ان کا کہنا تھا کہ جب ہمارے سماج کے مرد تعلیم یافتہ ہوجائیں گے تو عورتیں بھی تعلیم یافتہ ہوجائیںگی۔ تعلیم نسواں کے متعلق انھوں نے ایک جگہ خود ہی لکھا ہے :

”مسلمان عورتوں کی تعلیم اس وقت تک نہ ہوگی جب تک کہ اس قوم کے اکثر مرد پورے تعلیم یافتہ نہ ہوجائیںگے۔اگر ہندوستان کے مسلمانوں کی شوسل حالت پر غور کیا جائے تو اس وقت جو حالت مسلمان عورتوں کی ہے وہ میری روئے میں خانگی خوشی کی خاطرکافی ہے۔جب کہ مسلمانوں کی موجودہ نسل بخوبی تعلیم وتربیت یافتہ ہوجائے گی تومسلمان مسلمان عورتوں کی تعلیم پر اس کا ضرور بالضرور ایک زبردست ”خفیہ اثرپہنچے گا“

 انگریزوں نے حکومت مسلمانوں سے چھینی تھی اسی لیے ظلم وتشدد کا شکارزیادہ تر مسلمان ہوئے ۔۷۵۸۱ءکا انقلاب کی ناکامی کے بعدمسلمانوں کی زندگی ہر سطح پر پامال ہو چکی تھی اور اس پامالی سے ابھرنے کا ایک ہی راستہ تھا اور وہ اصلاحی و درستی کا راستہ تھا، لیکن اس راستہ کو آسان بنانے میںمیں مردوعورت دونوں کو ہمسفر بن کرطے کرنا ضروری تھا لیکن اس وقت کے پدری سماج کو عورت کو اپنے ساتھ ساتھ لے کرچلنا ناقابل برداشت تھااسی لیے سماج کی یہ نصف آبادی اس بھیڑ میں دب کر رہ گئی کیونکہ سماج مرد اور عورت دونوں سے مل کر بنتا ہے لہذا ایک اچھا معاشرہ کے لیے ضروری ہے کہ مرد اور عورت دونوں کو برابری کا حق ملے اگر سماج کا ایک حصہ عدم مساوات کا شکار ہوجائے تو وہ سماج صحت مند اور اچھا کبھی نہیں بن سکتااور مسلم سماج عدم مساوات کا ہی شکار تھاجس کی وجہ سے اس قوم کا آدھا جسم آپاہج ہو کر طرح طرح کی پریشانیوں میں مبتلا ہوچکا تھاجس کا سامنا کرنا ناممکن تو لیکن مشکل ضرور ہوگیاتھا۔

 سر سید کے رفقا میں سب سے پہلے نذیر احمد نے اس قوم کی مرض کی تشخیص کرنے کے بعد ”تعلیم نسواں“ کی اہمیت کو محسوس کیااور اس نتیجے پر پہنچے کہ تعلیم ہی ایک واحد ذریعہ ہے جو اس مرض سے نجات دلا سکتا ہے۔وہ عورتوں کو معاشرتی نظام کا ایک حصہ سمجھتے اس لیے انھوں نے اپنے ناولوں میںخواتین کی تعلیم وتربیت اور ان کی اصلاح کی طرف خاص توجہ دی ۔کیونکہ انقلاب کے فوراً بعد کا زمانہ زندگی کے ہر سطح پر زوال پذیر ی کا زمانہ تھااس وقت کے ہر ادیب ومفکر قوم کو اس زوال آمادہ زندگی سے نجات دلانے کی فکر میں اس بات پر متفق تھے کہ قوم کے اندر تعلیمی بیداری اور معاشرتی اصلاح ودرستی پر دھیان دینا ضروری ہے ۔ بعض مفکرین نے اس بات کی کھل کر حمایت کی اور بعض نے اس کی مخالفت بھی کی لیکن نذیر احمدنے تعلیم نسواں کی طرف سنجیدگی سے توجہ دی اور اس حوالے سے انھوں نے اپنی کتاب ”مراةالعروس “ بھی لکھی ہے جسے اردو کا پہلا ناول ہونے کا شرف حاصل ہے ۔چونکہ ر اشدالخیری نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز نذیر احمد کی نگرانی میں کی تھی لہذا انھوں نے نذیر احمد کے طرز تحریر کا تتبع کرتے ہوئے انھیں اپنا فکری وفنی رہنما بنایا اور اسی جدو جہد میں اپنی پوری زندگی وقف کردی۔

جب تک انسان خود کو سدھار نے کی کوشش نہیں کر تا اللہ بھی اس کی مدد نہیں کرتا کچھ یہی صورت حال عہد راشدالخیری کی عورتوں کا بھی تھا،اسی لیے مسلم متوسط طبقہ کی عورتوں کی پستی اور خستہ حالی کی سبب راشدالخیری کے نزدیک ایک طرف خود خواتین کی غفلت اور لاپروائی ہے کیونکہ انھوں نے اپنے حالات کو سدھارنے اور حقوق وفرائض کوجاننے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی، تو دوسری طرف مرد سماج بھی اس سلسلے میں کچھ کم ذمے دار نہ تھے۔راشدالخیری محسن نسواں تھے اس لیے وہ انھیں سماج اور خاندان میں ان کا صحیح مقام دلانا چاہتے تھے۔ انھوں نے اپنے ناولوں میںطبقہ ¿ نسواںکے مختلف مسائل میں تعلیم وتربیت نسواں کو بنیادی موضوع بنایا ہے اور ان مسائل پر بحث کر کے مردوں کو اس کی جانب متوجہ کرانے کی کوشش کی۔راشدالخیری کے خیال میں مسلمانوں کی تمام تر ترقی کا انحصار لڑکیوں کی تعلیم وتربیت پر ہے کیونکہ جس قوم کی مائیں بلند خیال،عالی ہمت،شائستہ اور مہذب ہوںگی اس قوم کے بچے یقیناً اچھا معاشرہ تعمیر کرنے کے قابل ہوسکیںگے۔کیونکہ کہ” آغوش مادر دبستان اول “ہے۔بقول راشدالخیری :

”بچوں کا سب سے پہلا مدرسہ سمجھو،اتالیق سمجھو جو کچھ بھی ہے ماں کی ہے۔“

   انسان کو اخلاق وشرافت کا سبق سکھانے اور آئندہ نسل کو صحت مند اور مہذب بنانے کی تعلیم کسی بھی اعلیٰ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں نہیں بلکہ ’ ’آغوش مادر میں ہے “جہاں زندگی کے تمام پہلوو ¿ں کی اصلاح ہوسکتی ہے۔سماج کو سدھارنے کے لیے گھر سے زیادہ بہترکوئی اور جگہ ہو ہی نہیں سکتی اسی لیے راشدالخیری معاشی اور سماجی تعطل کو دورکرنے کے لیے ایک عورت کو مرکزی حیثیت قرار دیتے ہیں۔عہد راشدالخیری میں مردوں کی تعلیمی حالت ہی پست تھی لہذا اس وقت تعلیم نسواںکی آواز بلند کرناخطرے سے خالی نہ تھا،اس کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ تعلیم صرف کسب معاش کا وسیلہ سمجھا جاتا تھااس لیے تعلیم کی اجازت صرف مردوں کو ہی تھی اور عورتوں کو پردے کی سخت پابندی تھی وہ باہر نکل کر نے سے طرح علم حاصل کرنے سے قاصر تھیں۔

لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیاچہار دیواری کے اندر انھیں ان کا حق اور انصاف ملتا تھا؟تو اس کا سادہ اور آسان جواب ہے نہیں۔کیونکہ اگر ان حق اور انصاف ملتا تو ظاہر سی بات ہے سماج یا گھر اور خاندان میں ان کی اس طرح کی بے وقعتی اور بے بضاعتی کا منظر ہی ہمیںدیکھنے کو نہ ملتا۔لہذا اس طرح کے سخت اور دشوار کن ماحول میں بعض ترقی پسند نظریہ رکھنے والے حضرات تعلیم نسواںکے حامی تھے تو کچھ قدامت پرست لوگ تعلیم نسواں کے سخت مخالف۔چنانچہ اس معاملے میں راشدالخیری نے اس طرح کے الجھنوں اور جھگڑوں سے بچتے ہوئے حکمت عملی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تعلیم نسواں کا مذہبی جواز پیش کیا۔تعلیم کے متعلق اس طرح رقمطراز ہیں:

”ہمارے پیغمبر نے فرمایا ہے کہ علم ہر مسلمان مرد اور مسلمان عورت پر فرض ہے۔پیغمبر زادیاں اور پیغمبر صاحب کے زمانے کی عورتیں علم کا دریا تھیں۔یہ تو موٹی سی بات ہے کہ علم آدمی کو آدمی بنادیتا ہےمسلمان کتنے ذلیل ہوگئے یہ کیوں؟صرف اس وجہ سے کہ عورتیں جاہل ہیںاور گود ہی میں دنیا کے عیب بچوں میں پیدا کر دیتی ہیں“

لیکن راشدالخیری طبقہ ¿ اناث کے لیے جس طرح کی تعلیم کو ضروری خیال کرتے ہیں اس کا لازمی عنصر مذہب ہے ۔کیونکہ عہد راشدالخیری میں جدیدمغربی تہذیب وتعلیم کا طوفان جس تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہاتھا اس سے لڑکیوں کا متا ¿ثر ہونا ناگزیراور مذہب سے بےگانگی یقینی امر تھااسی لیے راشدالخیری کو اس بات کا ڈر تھا کہ مغرب کی کورانہ تقلید اور مذہب سے بیگانگی گھریلو زندگی میں سخت انتشار برپا کرسکتی ہے لہذا وہ اس طرح کی مغربی تعلیم وتقلید سے بیزاری کااظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

”اگر تعلیم کا یہ منشا ہے کہ آدمی مذہب چھوڑ دے تو میں کہتا ہوں تعلیم گناہ اور سخت گناہ ہے۔“

اگر چہ راشدالخیری جدید مغربی تعلیم وتہذیب کو مسلمان خواتین کے لیے مہلک خیال کرتے ہیں لیکن اس سے یہ نتیجہ نہیں اخذ کرنا چاہیے کہ وہ مغرب کی ہر چیز کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیںبلکہ وہ مغربی علوم حاصل کرنے کے قائل ہیںاور اس بات پر بار بار زوربھی دیتے ہیںکہ مغرب کی خوبیاں لے لو لیکن اپنے جوہر نہ گنواو ¿۔راشدالخیر کا نصب العین تعلیم نسواں ’اصلاح نسواںاور حقوق نسواںتھالہذاوہ تعلیم نسواں کے حق میں ہیں اور ساتھ میں اس حقیقت کی بھی وضاحت کرتے ہیں کہ لڑکیوں کو تعلیم کے ساتھ اچھی تربیت بھی ملنی ضروری ہے کیونکہ تعلیم بغیر تربیت کے اچھے نتائج پیدا نہیں کر سکتی۔ شادی کے بعد لڑکیوں کی زندگی میں اور بھی بہت سے مراحل پیش آتے ہیںجہاں تعلیم کے ساتھ تربیت کا ہونا بھی لازمی امرہے لہذایہ ممکن نہیں کہ تعلیم یافتہ ہونے کے بعد بغیرتربیت کی یہ لڑکیاں مستقبل میں فرض شناس بیویاں اور ذی شعور مائیں بھی بن سکیںاس مسئلے کا اظہار کرتے ہوئے ایک جگہ لکھتے ہیں کہ:

”بچوں کی پرورش اور تربیت علاحدہ علاحدہ چیزیں ہیں۔تربیت بجائے خود ایک مشکل کام ہے ۔لیکن پرورش بھی اس سے کم مشکل نہیںہے ۔بہت سی مائیں صرف پرورش میں غلطیاں کرنے سے بچوں کو ملک عدم میں پہنچا دیتی ہیں۔“

عہد راشدالخیری میں مسلم سماج میں خواتین کو نہایت ہی پست سطح تک پہنچا دیا گیا تھااس کی زبوں حالی اور بے بسی کا راشدالخیری کو شدت سے احساس تھا، انھوں نے ان کی اس کسمپرسی اور بے بسی کو اس بے باکی کے ساتھ بیا ن کیا ہے کہ اس کی وضاحت کے لیے ایک مختصر مضمون نہیں بلکہ کتاب کی ضروت ہے جس میں تفصیلی بحث کی جائے تو بھی شاید کم پڑجائے۔ راشدالخیری طبقہ ¿ اناث کی اس حالت کا ذمے دار مردوں کو ٹھہراتے ہیںکیونکہ یہ ایک پدری سماج ہے اسی لیے وہ ان کی زندگی کا مقصد مردوں کی تابعداری قرار دیتے ہیںجنھوں نے ان کا جائز اوربنیادی حقوق جو انھیں اسلام نے عطا کیے بے رحمی سے غصب کر لیا۔راشدالخیری اسی حق تلفی کی شدت سے مخالفت کرتے ہیںاور مردوں کی توجہ بار بار اس امر کی طرف مبذول کراتے ہیں کہ ہماری قوم کی اصلاح وترقی اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک عورتوں کو ان کا جائز اور بنیادی حقوق واپس نہ کیا جائے جو انھیںاسلام نے عطا کیے ہیں۔انھوںنے اپنے اس تصور کا اظہار اس طرح کیا ہے:

”مسلمان اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتے جب تک مرد عورتوں کو ان کا جائز حقوق واپس نہ کردیں۔وہ حقوق جو ہادی ¿ برحق نے انھیں عطا کیے اور مردوں نے خود غرضی اور ہٹ دھرمی سے غصب کر لیے۔“

راشدالخیری کی ان تمام تر اصلاحی کوششوں کا مقصد حقوق نسواں کی حمایت تھا۔ان میں رضامندی کی شادی،خلع،بیوہ کا عقد ثانی،جہیز،پردہ اور کثرت ازدواج وغیرہ جیسے حقوق کے مسائل بھی ہیں۔راشدالخیری لڑکیوں کی شادی کی رضامندی پر خاص طور سے توجہ صرف کراتے ہیںکیونکہ شادی انسان کی پوری زندگی کا ایک اہم ترین فیصلہ کا نام ہے ،اور اس ایک غلط فیصلہ کی وجہ سے کئی زندگیاںتباہ و برباد ہوجاتی ہیںیہی وجہ ہے کہ مذہب نے نکاح کی پہلی شرط فریقین کی رضامندی کو قرار دیا ہے لیکن یہ پدری سماج خواتین کی اس آزادی کو بھی اپنا جاگیری حق سمجھ کر ان سے چھین لیالہذاراشدالخیری اس مسئلہ کا سب سے بڑا ذمہ دار لڑکی کے والدین کو ٹھہراتے ہیں۔راشدالخیری کا خیال ہے کہ جووالدین اپنی اولاد کے ساتھ ایسی حرکت کرتے ہیں وہ اچھی طرح سمجھ لیں کہ خود کی اولاد پر وہ بہت بڑا ظلم رکر رہے ہیںجس کا جواب انھیںآخرت میں دینا ہوگا۔یہ کیسے ماں باپ ہوتے ہیں جو اپنے جگر کے ٹکرے کو انجام سوچے بغیر کسی بھی ایرے غیرے کے ساتھ زندگی بھر کی بندھن میں باندھ دیتے ہیں اس ظالمانہ رویہ کو وہ سخت ناپسندیدگی کہ نظر سے دیکھتے ہیںعورتوں کے ساتھ اس ناانصافی پران کا درد اور طنز کا ملا جلااقتباس ملاحظہ ہو :

”زندگی کی کمائی بیٹے ہزار برس کی نیو بہو۔گھر کا کوڑا بیٹی۔جھاڑو دی نکال پھینکااس مجبوری اور بے بسی کو دیکھو جس کے سر چاہا چپیک دیا۔جہاں جی چاہا پٹخ دیا۔“

ظاہر سی بات ہے جہاں کہیں بھی جبراًاور نارضامندی کی شادیاں ہوںگی وہاں ازدواجی زندگی میں تلخی پیدا ہوسکتی ہے اورممکن ہے ایسے حالات میںفریقن کو ایک ساتھ زندگی گزارنے کا جواز باقی نہ رہ پائے لہذا ایسے میں طلاق اور خلع کے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں،لیکن عہدراشدالخیری میں مردان حالات میںطلاق کا استعمال تو خوب کرتے تھے،بیوی کی ذرا سی ناہلی پر اسے طلاق جیسی لعنت کی سخت سزا دی جاتی تھی،کبھی کبھار تو بیوی کی موجودگی میں بھی مذہب کا سہارا لے کر دو نہیں چار چار شادیاں رچا لیتے تھے ،جبکہ عام طور پر اس وقت مسلمانوں کی اقتصادی حالت ابتر تھی مردوں کے اس عمل کوبے شک ان کی نفس پروری کہا جا سکتا ہے لیکن راشدالخیری مردوں کے اس رد عمل کی وجہ کہیں نہ کہیںعورتوں کوبھی قصوروار ٹھہراتے ہیںکہ وہ اپنی ازدواجی زندگی کے فرائض سے غفلت برتتی ہیں اور مردوں کو دوسری شادی پر مجبور کرتی ہیں۔ ’شب زندگی‘میں انھوں نے وسیم دلہن کو ایسی عورتوں کی نمائندگی کرتے ہوئے دکھایا ہے ۔البتہ جہاں تک حق کی بات ہے عورت کو اپنی ازدواجی زندگی میں چاہے کتنی ہی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے وہ خلع کے حق سے محروم تھی جب کہ اسلام نے کسی ناموافقت کی بنا پر جس طرح مردوں کو طلاق کا حق دیا ہے اسی طرح عورت کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ شوہر کے جبرو تشدد سے نجات پانے کے لیے وہ خلع کا حق استعمال کر سکتی ہے۔ضروری نہیں کہ وہ اپنی مرضی کے خلاف پوری زندگی اسی کے ساتھ بیتانے پر مجبور کی جائے یہ سراسر ظلم اور ناانصافی ہے۔بقول راشدالخیری:

”جن ممالک میں خلع کا حق جو عورتوں کا جائز حق ہے ناجائز قرار دیا گیا ہے وہاں حقیقتاً عورتوں کی حالت قابل رحم ہے۔“

راشدالخیری مسلم سماج میںعورتوں کے دیگرحقوق کی پامالی کے ساتھ بیواو ¿ں کی سماج اور خاندان میں جس طرح کی بیچارگی اور بے وقعتی تھی اسے بھی وہ مردسماج کو مورد الزام قرار دیتے ہیںاور ان کو عقد ثانی کی حمایت کرتے ہیں۔کیونکہ اس عہد میں لڑکیوں کی کم عمری کی شادی کارواج عام تھا۔ اگرلڑکی اس عمر میں بیوہ ہوجاتی تو اسے دوسری شادی کی بالکل اجازت نہ تھی،بیوہ کو منحوسیت کا مہر لگا دیا جاتا تھا جس کی وجہ سے وہ شادی یا اس طرح کی خوشی کی تقریب میںشامل نہیں ہوسکتی تھیں،اس کے علاوہ نہ جانے انھیں کئی طرح کی لعن طعن سننا پڑتا تھا۔سماج یا خاندان والے عزت سے زندگی بسر کرنے کا حق چھین لیے تھے جس کی وجہ سے انھیںاپنی پوری زندگی اسی ذلت ورسوائی کے ساتھ گزارنا پڑتی تھی۔ جبکہ بیوی کے مرنے کے بعد مرد گرچہ پچاس سال کا ہو اسے دوسری شادی کرنے کی چھوٹ تھی ۔لہذا سماج میں اس طرح کی بے راہ روی کودیکھتے ہوئے راشدالخیری نے ”نوحہ ¿ زندگی“میں خاص طور سے بیواو ¿ں کی زندگی پر تفصیلی بحث کی ہے اور ناول کے دیباچہ میں لکھتے ہیں کہ :

”جس طرح مرد بیوی کے بعد نکاح ثانی کا حق رکھتا ہے اسی طرح عورت بھی ۔“

راشدالخیری کے دور میں ہندو رسم ورواج سے متا ¿ثر ہوکر مسلم طبقہ بھی لڑکیوں کو حق وراثت سے محروم کردیاجس کی وضاحت انھوں نے اپنا مختصر ناول”موو ¿دہ“میں کی ہے اور مسلم سماج کی اس کم ظرفی اور بھدی حرکتوں پر سخت تنقید اور خواتین کو ان کا حق واپس کرنے کی تلقین کی ہے ۔اصلاح معاشرت کے نام پر جہیز کے لین دین کو ایک مذموم ومسموم رسم قرار دیا جاتا ہے، کیونکہ معاشرے میں امیر وغریب ہر طبقے کے لوگ ہوتے ہیںجنھیںاس رسم ورواج کی وجہ سے کئی طرح کی دقتوں کا سامنا کر نا پڑ تاہے،لیکن میرے خیال میں جہیز کے لین دین کی خرابیوں کا تعلق زیادہ ترامیری غریبی پر محمول نہیں ہے البتہ!جبراًلین وین سے خواہ وہ امیر شخص ہو یا غریب دونوں کو مشکلیں پیش آسکتی ہیں اور موجودہ دور میں بھی ہمیں روز مرہ کی زندگی میں اکثروبیشترجبراً جہیز کے لین دین کے برے نتائج دیکھنے کو ملتے ہیں۔راشدالخیری نے جس طرح لڑکیوں کے حق وراثت کی حمایت کی ہے اسی طرح ان کے جہیز کے لیے بھی آواز بلند کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کو جہیز دینا نہ صرف ان کا حق ہے بلکہ سنت بنوی بھی ہے ۔یہ اقتباس ملاحظہ ہو:

”مسلمانوں میں جہیز رسم میں داخل نہیںاسوہ ¿ رسول ہےجہیز قطعاً اڑادینا یقیناً معصوم بچیوں کے ساتھ ایک قسم کی زیادتی ہوگی والدین اصلاح رسوم کی آڑ میں ایک پھوٹی کوڑی بیٹی کو نہ دیں تو یہ بھی ممکن ہے کہ مرد سنت نبوی کے بموجب شرع محمدی مہر پر مصر ہوںان حالت میں لڑکی کا کیا حشر ہوگاجو ادھر سے بھی گئی اور ادھر سے جہیز اس کا گیا۔مہر اس طرح گیاترکہ ¿ پدری پر تو رواج غالب ہی ہے۔“

لیکن راشدالخیری جس بے باکی کے ساتھ لڑکیوں کے جہیز کی تائید کرتے ہیںاسی طرح وہ اسراف کی سخت مخالف اور اعتدال کے قائل بھی ہیں۔

عہد راشدالخیری میں مسلم سماج میں عورتوں پر پردے کی سخت پابندی تھی ۔چہار دیواری سے باہر نکلنے کی انھیں اجازت نہ تھی، وہی چہار دیواری ان کی مکمل دنیا تھی ۔خواتین کوعلم وہنر سے بے بہرہ اور اور اقتصادی طور پر کمزور ہونے کی ایک وجہ یہ سخت گیر پردے کا رواج بھی ہے۔کیونکہ ان کی جوبھی تعلیم وتربیت ہوتی تھی وہ روایتی طور پر گھر کی بڑی بوڑھیوںکی نگرانی میںہوتی تھی اور تھوڑی بہت نماز ،روزے اور امور خانہ داری کی معلومات کو ہی کافی سمجھاجاتا تھا۔اگر وہ اس روایتی قسم کی تعلیم کے علاوہ گھر سے باہر نکل کر کوئی ہنر بھی سیکھ سکتیں تواس طرح سے وہ اقتصادی بدحالی کا شکار نہ ہونے کے علاوہ شاید مردوں کے ظلم و ستم کا بھی شکار نہ ہوپاتیں۔راشدالخیری نے خواتین کی بدحالی کا مشاہدہ بہت قریب سے کیا تھا اسی لیے وہ مسلم سماج کی دیگر جاہلانہ وباطلانہ رسم ورواج کی مخالفت کرنے کے ساتھ اس سخت گیر پردے کے رواج کو بھی مردوں کی نفس پرستی اور سنگ دلی قرار دیتے ہوئے رقمطراز ہیں:

”نفس پروری اور بے دردی کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہوگا کہ خدا فرمائے ”سیرو فی الارض“(زمین کی سیر کرو)اور مسلمان فرمائیں کہ اپنی آواز تک غیر مرد کو نہ سنائے اور پردے میں گھٹ گھٹ کرمرجائے۔“

درج بالاقتباسات سے سماجی ناہمواریاں اور ہماری معاشرت کے مضحک خیز پہلوو ¿ں کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح عورت استحصال کا شکار تھی۔ایک عورت جو حیات انسانی کے فروغ کا وسیلہ بھی ہے اور بحیثیت ماں، بیوی،بیٹی اور بہن بھی اس کی پیدائش پر خوشی کے اظہار کے بجائے اس کی ذات کو تمام مصیبتوں کی جڑ کہا جاتا ہے۔ اصلاح رسوم کے نام پر جہیز سے محروم،غلط رواجوں کے نام پر ترکہ ¿ پدری اور وراثت سے بے دخل، سسرال کی سازش کا شکارہو کر طلاق کی لعنت کو گلے کا طوق بنا کر، فطرت کی ستم ظریفی سے بیوہ ہوکر یہ بے اجرت خدمت کرتی ہے ،بے فیض محبت کرتی ہے۔راشدالخیری نے معاشرے میں پھیلے ہوئے اس طرح کے بے شمارریا کار رویوں کو اپنا مقصد بنایا اور نسوانی زندگی کی معاشی اور معاشرتی فلاح و بہبود کے لیے دردو غم میں ڈوبے ہوئے کئی افسانے اور کہانیاں تخلیق کیے جس کے سبب ان کو ’مصورغم’محسن نسواں‘اور’عورتوں کے سرسید‘ کہا جاتا ہے۔سید احتشام حسین راشدالخیری کے اس اچھوتے انداز بیان اور ادبی خدمات کا اعتراف کچھ اس طرح کرتے ہیں۔

Leave a Reply