You are currently viewing داستانِ صلح وجنگ میں حیات وموت کا فلسفہ پوشیدہ :دانشواران

داستانِ صلح وجنگ میں حیات وموت کا فلسفہ پوشیدہ :دانشواران

داستانِ صلح وجنگ میں حیات وموت کا فلسفہ پوشیدہ :دانشواران
درجنوں بیرون ملکی ادیبوں اور اسکالروں کا اجتماع، رزم اور بزم کے موضوعات پر تبادلہ خیال

ہندوستانی زبانوں کامرکز(جے این یو) اور ولڈ اردو ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام دو روزہ بین الاقوامی سیمینار کا انعقاد کیا گیا ۔ سیمینار کے پہلے دن ملک اور بیرون ممالک کے متعدد مہمانوں نے شرکت کی اور رزمیہ شاعری اور صلح وجنگ کی داستان پر سیر حاصل گفتگو کی جس سے رزم اور بزم کے کئی پہلو بہت واضح طور پر سامنے آئے ۔

 


ہندوستانی زبانوں کا مرکز جواہر لال نہرو یونیورسٹی اور ورلڈ اردو ایسوسی ایشن نئی دہلی کی جانب سے اور قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی اور انجمن ترقی اردو (ہند) کے تعاون سے منعقد ہونے والے اس سیمینار میں پروفیسر علی احمد فاطمی نے کلیدی خطبہ پیش کیااور کہاکہ ’’عمدہ رزمیہ شاعری محض بیان جنگ تک محدود نہیں رہتی، بلکہ فلسفۂ جنگ کے حوالے سے حیات وممات ، حق وباطل ، خیر وشر کو تو اپنے دائرے میں سمیٹتی ہی ہے نیز اس میں انسانی اور عوامی کلچر در آتا ہے۔ خوف وڈر ، شجاعت اور قربانی کے جو مظاہر سامنے آتے ہیں ، اس سے نہ صرف نظریہ جنگ بلکہ نظریہ حیات اور مقصد حیات ظاہر ہوتا جاتا ہے‘‘۔جامعہ ازہر کے وائس چانسلر پروفیسر یوسف عامر نے بطور مہمان شرکت کرتے ہوئے کہا کہ اردو بہت قدیم زبان نہیں ، اس کے باوجود اس زبان کے ادب میں عالمی ادب سے مقابلے کی قوت موجود ہے۔ کیوں کہ اردو کے شاعروں نے فلسفۂ حیات کو بڑی عمدگی سے پیش کیا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اردو کا دائرہ عالمی سطح پر بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال یہ بھی ہے کہ مصر کی سات یونیورسٹیوں میں باضابطہ اردو کی اعلی تعلیم دی جا رہی ہے۔ ورلڈ اردو ایسو سی ایشن کے چیئر مین اور اردو کے عالمی سفیر پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین نے سیمینار کے موضوع ’’اردو ، فارسی اور عربی میں رزمیہ شاعری: صلح وجنگ کی داستان‘‘ کے ابعاد ومتعلقات پر روشنی ڈ الی اور کہا کہ یہ موضوع اپنے آپ میں بہت اہمیت کا حامل ہے ۔ اس میں جذبات نگاری اور منظر کشی اعلی درجے کی ہوتی ہے۔ نیز اپنے آئندہ کے عزائم کا بھی اظہارکیا ۔ ساتھ ہی ساتھ جامعہ ازہر ، عین شمس یونیورسٹی اور ورلڈاردو ایسوسی ایشن کے اشتراک سے چند ماہ بعد قاہرہ میں منعقد ہونے والے سیمینار کا انھوں نے اعلان بھی کیا ۔جب کہ بزم اردو دبئی کے جنرل سکریٹری ریحان خان نے کہا کہ ہماری بنیادی خدمت یہ ہوگی کہ ہم آئندہ نسل تک اردو زبان کی روح کو پہنچا سکیں۔ اس موقع پر انجمن ترقی اردو ہند کے ڈائرکٹر اطہر فاروقی نے کہا کہ آج تعلیمی اداروں کی ڈورمکمل طور پر پرائیویٹ سیکٹر کے ہاتھوں میں ہے۔ اس لیے اگر ہم اپنے بچوں کو اردو کی تعلیم دلانا لازمی سمجھ لیں تو یقیناًوہ ادارے اردو کی تعلیم کے لیے اردو اساتذہ بحال کریں گے ۔ اس لیے ہمیں اردو کے لیے خود بیداری کا ثبوت دینا ہوگا۔ واضح رہے کہ اس موقع پر ہندوستان میں مصر کے کلچرل قونصل ڈاکٹرمحمد ندانے کہا کہ ہندوستان اور مصر کے درمیان روز بروز تعلقات بہتر ہوتے جارہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مصر کے تعلیمی اداروں میں ہندوستانی طلبا کو بہت سی اسکالر شپ دی جارہی ہیں ۔ امید ہے کہ آنے والے دنوں میں دونوں ملکوں کے تعلقات میں مضبوطی آئے گی۔ سیمینار کی مختلف نشستوں میں پروفیسر یوسف عامر ، پروفیسر ابن کنول، پروفیسر رانیا فوزی ،ڈاکٹر ولاء جمال ،ڈاکٹر رشید احمد، ڈاکٹر ایم جے وارثی، ڈاکٹر مروہ لطفی، ڈاکٹر ارشدالقادری اور ڈاکٹر سعدیہ سلیم وغیرہ نے پرمغز مقالے پیش کیے۔ جب کہ پروفیسر ابن کنول ، پروفیسر سید شفیق احمد اشرفی ،پروفیسر یوسف عامر اور پروفیسر عباس رضا نیر وغیرہ نے صدارت کے فرائض انجام دیے۔ مقالہ خوانی کے بعد مرثیہ خوانی کا بھی اہتمام کیا گیا جس میں امروہہ سے رزم خواں تشریف لائے ۔ اس پروگرام میں پروفیسر انور پاشا ،پروفیسر کوثر مظہری، ڈاکٹر ندیم احمد، ڈاکٹر توحیدخان ، ڈاکٹر رضا حیدر ، ڈاکٹر محمد کاظم ، ڈاکٹر شیو پرکاش ، ڈاکٹر محمد محسن وغیرہ نے شرکت کی۔ جب کہ ڈاکٹر شفیع ایوب، رکن الدین ،ڈائریکٹر ورلڈ اردو ایسوسی ایشن اور امتیاز رومی نے مختلف اجلاس کی نظامت کی۔ نیز دہلی اور بیرون دہلی کی یونی ورسٹیز کے ریسر چ اسکالرز نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔

 

 

   

 

Leave a Reply