خصوصی انٹرویو
موریشس کے سابق نائب صدر جمہوریہ سے ایشیا ٹائمز کے نمائندے زبیر خان سعیدی کی ملاقات
▪ بتادوں کہ یہ دراصل ایک ویڈیو انٹرویو ہے، جس کی اصل فائل تکنیکی وجوہات سے کرپٹ ہو گئی تھی، لہذا اب اسے قارئین کے لئے تحریری شکل میں پیش کیا جا رہا ہے
آج میرے ساتھ بطور مہمان بیٹھے عالی جناب کوئی معمولی تعارف کے انسان نہیں ہیں بلکہ وہ عظیم الخلقت و المرتبت،اعلیٰ انسانی قدروں کے علمبردار صاحب السمو الملکی عبد الرؤف بندھن مد ظلہ العالی ہیں، جن کا مختصر تعارف پیش خدمت ہے۔ ‘برٹش موریشس’ میں 1937 میں پیدا ہونے والے بندھن صاحب کے جد امجد کا تعلق ‘بھارت’ کی ریاست ‘اتر پردیش: کے شہر ‘غازی پور’ کے ایک قریہ ‘نولی’ سے تھا- 1866 میں انگریز اپنے ساتھ جن ہندوستانی مزدوروں کو دھوکہ دیکر موریشس کے جزیرے پر کام کروانے لے گئے تھے، ان میں ایک آپ کے پر دادا’ مہاجر بندھن’ بھی تھے، کئی صدی لمبی غلامی جھیلنے کے بعد بالآخر 1968 میں موریشس کو آزادی حاصل ہوئی، عبدالرؤف بندھن نے جن حالات میں آنکھ کھولی وہ موریشس کے باشندوں کے لئے بدترین حالات تھے، ان نا مساعد حالات میں بندھن صاحب نے نہ صرف خود کو زندہ رکھا بلکہ آزادی کی تحریک میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا- آپ نے فرانس سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی- موریشس کی سول سروسز میں اپنی خدمات پیش کیں اور جلد ہی ملازمت ترک کر فعال سیاست کا متحرک حصہ بنے، چار بار وہ وہاں کی نیشنل اسمبلی کے ممبر بنے، دو بار وزارت کا عہدہ بھی سنبھالا، ایک بار فرانس میں موریشس کے سفیر بھی رہے اور سب سے اہم منصب جس کا حصول انہوں نے اپنی محنت اور لگن سے حاصل کیا وہ موریشس کے نائب صدر جمہوریہ کا عہدہ تھا لیکن ان سب سرگرمیوں کے بیچ انہوں نے اپنی اصل شناخت ‘ہندوستانی’ کو کبھی فراموش نہیں کیا۔ آپ سب جانتے ہیں کہ موریشس بحر ہند میں مڈغاسکر کے مشرق میں جزائر پر مشتمل ایک ملک ہے، سرکاری زبان انگریزی ہے، دوسری بڑی زبان بھوجپوری ہے، عام بول چال کی زبان فرینچ اور کری اول ہے، جبکہ دارلحکومت پورٹ لوئس ہے۔
سفیر اردو خواجہ محمد اکرام الدین اور سابق سفیر ہند برائے موریشس انوپ کمار مدگل کے ساتھ
زبیر خان سعیدی: کتنا چیلنجنگ تھا آپ کا یہ سفر اور کیسے ممکن بنایا آپ نے خود کی اور ہندوستانی شناخت کی بقا کو؟ اور ایک خاص گزارش ہے کہ ہمارے ناظرین اردو ہندی والے ہیں، اس لئے کوشش کریں کہ اردو میں ہی بات کریں ۔
ص س عبدالروف بندھن: السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ، سب سے پہلے ایشیا ٹائمز کا شکریہ، میری زبان فرینچ ہے، مگر مجھے اردو ہندی اور بھوجپوری سمجھ میں آتی ہے، آپ نے کہا تو اردو بولنے کی کوشش کر رہا ہوں، بریکنگ اردو ہے، لوگ ہنسیں گے۔
آپ نے بقا کی بات کی، میرا بچپن تو بہت مشکل ترین حالات سے گزرا لیکن مجھے گاندھی جی کی ایک بات یاد تھی، ‘پڑھو اور سیاست کرو’ اس لئے میں نے کسی طرح اپنی پڑھائی جاری رکھی اور جب بات سیاست کی ہوتی ہے تو آپ ہندوستانی اسے دوسرے ارتھ میں سمجھتے ہیں لیکن ہم موریشس والے اسے سیوا سمجھتے ہیں، ہم نے لڑ کر وہاں ووٹ کا حق حاصل کیا، اور میں نے پہلا الیکشن ایک آزاد امیدوار کے طور پر لڑا اور جیتا، مشکل تھا مگر نیت صاف تھی اس لئے اللہ نے کامیابی عطا کی، میرا گرانڈ فادر نولی گاؤں سے آیا تھا، اس کو انگریز یہ بول کر لایا تھا کہ تم پتھر توڑو گے تو زمین سے سونا نکلے گا، میرے دادا نے پتھر توڑا لیکن میں نے مٹی سے سونا نکال کر دکھایا، بہت مشکل تھا یہ سفر۔
تقدیر ایک زندگی ایک قسمت
زبیر خان سعیدی: آج آپ کی سوانح حیات ‘تقدیر’ کے اردو ترجمے کا رسم اجرا ہے، ورلڈ اردو ایسوسی ایشن اور پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین نے اسے ممکن بنایا ہے، آپ کو کیسا لگ رہا ہے؟
ص س عبدالروف بندھن: مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے، تقدیر میری زندگی نہیں بلکہ موریشس کی پوری تاریخ ہے، اسے پہلے انگریزی میں لکھا گیا تھا پھر فرینچ میں اس کا ترجمہ ہوا اور آج اس کا اردو ایڈیشن آپ اردو والوں کے ہاتھ میں ہوگا، مجھے بے حد خوشی ہو رہی ہے، میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین کو، ورلڈ اردو ایسوسی ایشن کو اور عنایت حسین عیدن اور ان کی بیگم ریحانہ عیدن کو اس کے لئے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
زبیر خان سعیدی: آپ کی سوانح، یعنی اس کتاب کا نام تقدیر ہے، فی الوقت مجھے ایک شعر یاد آرہا ہے کہ
میں نے تدبیر کے ہاتھوں سے سنبھالا ہے نصیب
میری پیشانی پے کوئی خط تقدیر نہ دیکھ
اب سوال یہ ہے کہ یہ صرف تقدیر ہے یا اس میں آپ کی تدابیر بھی شامل ہیں ؟
ص س عبدالروف بندھن: نو ڈاؤٹ.. بنا افرٹس اور ڈیڈیکیشن کے کچھ بھی سمبھو نہیں ہوتا، لیکن یہ تقدیر ہے جو نولی گاؤں کے ایک مزدور غلام کو 165 سال پہلے موریشس لے جاتی ہے، ورنہ میں بھی آج نولی کا باشندہ ہوتا، میں کسی کو انڈر اسٹیمیٹ نہیں کر رہا ہوں، مجھے نولی گاؤں سے لگاؤ ہے، میں پچھلے سفر میں وہاں گیا بھی تھا ۔ لیکن اس تقدیر کو بنانے میں، سنوارنے میں گاندھی جی کی باتیں، آنجہانی مسز اندرا گاندھی کا پہلا دورہ موریشس اور ہم سب کی کوشش کا بہت عمل دخل ہے، ہم نے کوشش کی، کرتے رہے اور کامیابی حاصل کی
کہتے ہیں کہ ہمت مرداں مدد خدا۔
دہلی کے نوجوان اردو ادیبوں کے ساتھ
زبیر خان سعیدی: اگر بات کریں زبان کی تو اس وقت مجھ سے اردو میں بات کر رہے ہیں اور آپ کی تہذیب بھی لگ بھگ ہمارے مشابہ ہی ہے، زبان اور تہذیب کو باقی رکھنے میں آپ کیسے کامیاب ہوئے؟
ص س عبدالروف بندھن: جہاں تک بات زبان کی ہے اس کا کریڈٹ وہاں کے لوگوں کو جاتا ہے، وہاں لوگ بھوجپوری بھی بولتے ہیں، اردو بھی بولتے ہیں، بنگالی بھی بولتے ہیں، تمل بھی بولتے ہیں اور مراٹھی بھی بولتے ہیں۔ ہم اپنے یہاں ایک ‘میاں جی’ صاحب رکھتے ہیں جو بچوں کو زبان اور مذہب کی تعلیم دیتا ہے میاں جی سمجھ رہے ہیں آپ؟ جسے آپ مولوی پادری یا پنڈت. کہتے ہیں۔اور جب زبان باقی رہتی ہے تو کلچر بھی باقی رہتا ہے، آج آپ کے بھارت میں چھٹی ہے، موریشس میں بھی آج چھٹی ہے.۔ مہا شو راتری کا تہوار موریشس والے جس انداز میں مناتے ہیں ویسا آپ کے یہاں بھی نہیں مناتے ہوں گے، ہر گاؤں سے بچے فینسی ڈریس پہن کر شہر میں آتے ہیں اور ایسا منظر ہوتا ہے جو دیکھنے لائق ہوتا ہے اسی طرح عید مناتے ہیں اور سب تہوار ہمارے یہاں منائے جاتے ہیں۔
زبیر خان سعیدی: آپ نے ابھی بھوجپوری کی بات کی آپ کے پردادا بھی بھوجپوری تھے ، کیا ہمارے ناظرین کو چند جملے بھوجپوری میں بول کر سنا سکتے ہیں؟
ص س عبدالروف بندھن: ہم دیکھل بانی.،تو کہاں سے ہو ،تو سے مل کر اچھا لگل ۔
(ہنستے ہوئے )
زبیر خان سعیدی: آپ تہذیب کی بات کر رہے تھے، میں نے بیچ میں آپ کو انٹرپٹ کردیا
ص س عبدالروف بندھن: جی ہماری تہذیب بالکل بھارت جیسی ہے، مسز اندرا گاندھی نے موریشس کو چھوٹا بھارت کہا تھا، موریشس کے لوگ آپس میں پریم کے ساتھ رہتے ہیں، ایک چھوٹا سا سندر سا ٹاپو ہے موریشس، آپ کبھی وہاں آئیں تو آپ کو ایسا محسوس ہی نہیں ہوگا کہ آپ کسی اجنبی ملک میں آگئے ہیں، وہاں مدراس سے آئے ہوئے لوگ بھی رہتے ہیں، وہاں کولکاتہ کے لوگ بھی ہیں، وہاں مراٹھی بولنے والے ہیں اور بھوج پور کے لوگ بھی ہیں، مطلب جغرافیائی اعتبار سے پورے بھارت کے لوگ وہاں آباد ہیں اور سب اپنے اپنے مذہب کو، اپنی زبان کو زندہ رکھے ہوئے ہیں ۔
زبیر خان سعیدی: یہ تو ہوئی لوگوں کی بات اور ان کی کاوش، کیا سرکاری طور پر بھی ہندوستانی زبانوں کے عروج اور تعلیم پر وہاں توجہ دی جاتی ہے؟
ص س عبدالروف بندھن: بالکل، ہمارے یہاں اندرا گاندھی سینئر ہے جہاں اردو اور ہندی پڑھائی اور سکھائی جاتی ہے، میں آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ آپ بھارت والے موریشس اردو سیکھنے آسکتے ہیں، ہندی سیکھنے آسکتے ہیں، ٹمل سیکھنے آسکتے ہیں ۔ میری اس سوانح عمری کا اردو ترجمہ بھی عنایت حسین عیدن نے کیا ہے جو موریشس میں اردو ڈپارٹمنٹ کے ہیڈ رہ چکے ہیں، لیکن اس کو خواجہ محمد اکرام الدین نے ترتیب و تزئین دیکر اشاعت کے قابل بنایا، میں ایک بار پھر دونوں کا اور ریحانہ بی کا شکریہ ادا کرتا ہوں ۔
رسم رونمائی میں دہلی کے محبان اردو
زبیر خان سعیدی: مطلب یہ ہوا کہ موریشس میں اردو اجنبی نہیں ہے؟
ص س عبدالروف بندھن: جی، ایک بات بتانا بھول گیا کہ دو سال پہلے ہمارے یہاں ورلڈ اردو کانفرنس بھی ہوئی تھی اور ورلڈ ہندی کانفرنس بھی وہاں ہوئی تھی، جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے پروفیسر محمد اکرام الدین وہاں آئے تھے، ان کے ساتھ اور بھی کچھ اہم لوگ تھے، سب کے نام مجھے یاد نہیں ہیں ۔
زبیر خان سعیدی: ایک ذاتی سوال، آپ ڈپلومیٹ بھی رہے، منسٹر بھی رہے، سیاست داں بھی رہے اور نائب صدر جمہوریہ ماریشس بھی، لیکن آپ کے انداز کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ایک زمین سے جڑا ہوا سادہ لوح انسان ہم سے مخاطب ہے، اس سادگی کا کیا راز ہے؟
ص س عبدالروف بندھن: (جیب سے اپنا موبائل نکال کر دکھاتے ہوئے) یہ دیکھئے میرا موبائل، پرانا والا ورزن ہے، اولڈ فیشن، میں گاندھی وادی انسان ہوں میری زندگی گاندھی کے آدرشوں کے انوسار ہے۔ جہاں تک بات ہے انداز کی، تو ہم موریشس والے بڑے پریم سے رہتے ہیں، گھل مل کر، ہمارے یہاں دکھاوا یا بناوٹ نہیں ہے، سب ایک دوسرے کے جذبات کا احترام کرتے ہیں، میرے دوست ہندو بھی ہیں، مسلم بھی اور کرسچن بھی۔
زبیر خان سعیدی: آپ جس پریم اور سوہارد کی بات کر رہے ہیں، لیکن ہمارے بھارت میں آجکل سب ایک دوسرے کے دشمن بنے ہوئے ہیں، کیا آپ بھارت واسیوں کو کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟
ص س عبدالروف بندھن: میرا میسیج یہی ہے کہ سب اچھی تعلیم حاصل کریں، اپنے کلچر اور زبان سے محبت کریں اور آپ کے یہاں تو گاندھی تھے، گاندھی کے جیون کو آدرش بنائیں۔ گاندھی ساؤتھ افریقہ سے واپسی پر موریشس میں ایک ہفتے رکے تھے، ہم نے ان سے سیکھا ہے۔
زبیر خان سعیدی: ایک آخری سوال، اس وقت انڈیا انٹرنیشنل سینٹر میں موجود ہیں، جہاں ورلڈ اردو ایسوسی ایشن کی جانب سے اس تقریب کا اہتمام کیا جا رہا ہے، ورلڈ اردو ایسوسی ایشن اور اس کے روح رواں پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین کے بارے میں کیا کہنا چاہیں گے؟
ص س عبدالروف بندھن: میں سب کو مبارکباد پیش کروں گا، بہت شکریہ، ایسی گیدرنگ دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے، میرے گرانڈ فادر کے گاؤں نولی سے لوگ یہاں آئے ہیں، سب کا شکریہ، سب بھارت والوں کو السلام علیکم، نمستے۔
اور پھر ایک بے تکلفانہ معانقے کے ساتھ وہ اپنے رشتہ داروں سے ہمیں ملواتے ہیں، انٹرویو ختم ہوجاتا ہے۔
واقعی آج ایک جیتے جاگتے مہاتما سے میری ملاقات ہوئی تھی، شکریہ ورلڈ اردو ایسوسی ایشن کہ آپ کی وجہ سے یہ ملاقات اور یہ انٹرویو ممکن ہوا۔