You are currently viewing حافظ کی شاعری میں قرآنی تلمیحات

حافظ کی شاعری میں قرآنی تلمیحات

مہدیہ نژادشیخ (ایران)

پی ایچ ڈی اسکالر، جواہرلعل نہرو یونیورسٹی، دہلی، انڈیا

حافظ کی شاعری میں قرآنی تلمیحات

تلمیح کی لغوی معنی ”کلام میں کسی قصّے کی طرف اشارہ کرنا ”ہے (فیروز اللغات، ص ۲۱۲)۔اصطلاح میں تلمیح، نظم و نثر میں کسی مشہور افسانے، قصے، واقعے، احادیث اور قرآنی آیات و غیرہ کی طرف (مختصر الفاظ میں) اشارہ کرنے کوکہتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ تلمیحی الفاظ بہت مختصر ہوتے ہیں لیکن ان کے اندرمعنی کا ایک جہان آباد ہوتا ہے اور تلمیحی الفاظ کو سنتے ہی ہمارا ذہن خودبخوداس کہانی اور واقعے کی جانب منتقل ہوجاتا ہے جس جانب ادیب و شاعر ہماری توجہ مرکوز کرانا چاہتا ہے۔سیروس شمیسا نے تلمیح کی تعریف اس طرح کی ہے:
”علم بدیع کے اصطلاح میں کسی کہانی،شعر یا لوگوں کے درمیان عامیانہ و متداول مثل کی طرف مختصر اشارہ کرنے کو تلمیح کہتے ہیں”(شمیسا، ص۹)۔
فارسی ادب میں قدیم زمانے سے ہی تلمیح ایک بہت مقبول صنعت رہی ہے جسے شعراء و ادباء اپنے خیالات و افکار کی ترویج کا مؤثر ذریعہ سمجھتے ہیں کیونکہ اس سے نہ صرف اشارے کنایے میں بڑے بڑے موضوعات اور بہت معلومات کو سمیٹ لیا جاتا ہے بلکہ اس کے ذریعے شعر و نثر کا حسن بھی دوبالا ہوجاتا ہے۔ رودکیؔ، فرخیؔ، عنصریؔ، منوچہریؔ، انوریؔ، فردوسیؔ، مولویؔ، حافظؔ و غیرہ کا شمارفارسی کے ان شعراء میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی شاعری میں صنعت تلمیح کا کثرت سے استعمال کیا ہے جس سے ان کی شاعری کی فنی اور فکری خوبیوں میں اہم اضافہ ہوا ہے۔ اکثر فارسی شعراء کے کلام میں احادیث اور آیات قرآنی یعنی اسلامی تلمیحات کے نمونے ملتے ہیں لیکن اسلامی تلمیحات کے مناسب اور برمحل استعمال میں حافظ شیرازی کا نام سر فہرست ہے۔
خواجہ شمس الدین محمد شیرازی(تخلص حافظؔ) ایران اور فارسی ادب کے سب سے نامور غزل گو ہیں۔ وہ آٹھویں صدی ہجری میں شیراز میں پیدا ہوئے۔ انہیں فارسی اور عربی زبان و ادب پر دسترس حاصل تھا۔ انہوں نے اپنی جوانی میں قرآن حفظ کیا اوراسی وجہ سے انہوں نے اپنا تخلص حافظؔ رکھا۔ انہوں نے اپنی شاعری میں جابجا اپنے حافظ قرآن ہونے پر فخر کیا ہے۔ ایک شعر میں وہ لکھتے ہیں:
ندیدم خوش تر از شعر تو حافظؔ             بہ قرآنی کہ اندر سینہ داری(حافظ، ص۲۹۴)
مذکورہ بالا شعر میں حافظؔ کو حافظ قرآن ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی شاعری پر بھی فخر ہے۔ حافظ اپنے سینے میں محفوظ قرآن کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی شاعری سے زیادہ اچھی چیز آج تک نہیں دیکھا۔ اس شعر میں حافظؔ اس نکتہ کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ان کی شاعری سب سے اچھی اس وجہ سے ہے کیونکہ ان کے سینے میں قرآن ہے۔ یہاں یہ بھی ملحوظ رہے کہ حافظؔ کو اپنی شاعری پر اتنا ناز ہے کہ وہ قرآن کی قسم کھانے سے نہیں جھجھکتے جب کہ قرآن کی قسم معمولی حالات میں نہیں کھائی جاتی۔ لیکن حافظ ؔنے ایسا کر کے اپنی شعری عظمت کو واضح کیا ہے۔ایک دوسری جگہ حافظؔ یوں گویا ہوئے ہیں:
عشقت رسد بہ فریاد گر خود بسان حافظ       قرآن ز بر بخوانی در چاردہ روایت(حافظ، ص۵۴)
اس شعر میں حافظ ؔیہ کہتے ہیں کہ اگر تم قرآن کو اس کی چودہ روایتوں کے ساتھ حافظؔ کی طرح زبانی پڑھو تو خدا بھی تمہاری مدد کرے گا۔ حافظؔ اس شعر میں جہاں ایک طرف یہ اشارہ کرتے ہیں کہ انہیں قرآن اس کی چودہ روایتوں کے ساتھ از بر ہے وہیں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ عشق خداوندی اور قربت الہی کے لیے قرآن کا ٹھیک ٹھیک پڑھا جانا ضروری ہے۔
مذکورہ بالا دونوں اشعار کے مطالعے سے حافظؔ کی قرآن سے عقیدت و محبت ظاہر ہے۔ قرآن سے ان کی عقیدت و محبت کا ہی نتیجہ ہے کہ انہوں نے اپنی شاعری کے لیے قرآن کو بنیادی ماخذ بنایا اور بے شمار قرآنی تلمیحات سے اپنی شاعری کو مزیّن و ملوّن کیا۔انہیں اس بات پر بھی فخر ہے کہ جس خوبصورت اور دلکش انداز میں نکات قرآنی کو اپنی شاعری میں پیش کیا ہے آج تک کسی نے نہیں کیا چنانچہ وہ کہتے ہیں:
 ز حافظان جہان کس چو بندہ جمع نکرد               لطایف حکما با نکات قرآنی
اس شعر میں حافظؔ کہتے ہیں کہ ان کو قرآن سے اتنی محبت ہے کہ کوئی بھی ان کے جیسا بزرگوں کی باتیں اور قرآن کے نکات کو اپنے شعروں میں جمع نہیں کیا ہے۔ حافظ ؔدرس قرآن اور وردِ ذکر کو تمام انسانی مسائل و مشکلات کا مداوا سمجھتے ہیں جس کی جانب انہوں نے اس شعر میں اشارہ کیا ہے:
  حافظا در کنج فقر و خلوت شب ہای تار تا بود                  وردت دعا و درس قرآن غم مخور(حافظ، ص۱۷۲)
حافظؔ اس شعر میں کہتے ہیں کہ اگر انسان ہمیشہ قرآن کو پڑھے اور ذکر خداوندی میں مشغول رہے تو پھر ان کو فقر و غریبی، تنہایی و بے بسی سے بالکل بھی پریشان اور خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ جب تک دل میں خدا کی یاد ہے اور زبان پر آیات قرآنی کا ورد ہے اسے کوئی بھی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ حافظ ؔکا قرآن پر کس حد تک یقین و ایمان ہے اس کا اندازہ مذکورہ بالا اشعار سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب ہم ان کے دیوان کا مطالعہ کرتے ہیں تو ایسے سینکڑوں اشعار مل جاتے ہیں جن میں انہوں نے بالواسطہ یا بلا واسطہ آیات قرآنی سے استفادہ کیا ہے اور جن سے ان کا دیوان روشن و منور نظر آتا ہے اور جو انسانی ذہن کو بصارت و بصیرت عطا کرتے ہیں۔ حافظؔ کی شاعری میں موجود قرآنی تلمیحات کی درجہ بندی موٹے طور پر ہم تین طرح سے کر سکتے ہیں، ذیل میں ان کا جائزہ لیا جارہا ہے۔
1۔ کسی آیت کے ٹکڑے کو اپنے شعر میں لانا:
اس طرز میں حافظ ؔنے قرآن کی کسی آیت کی طرف براہ راست اشارہ کیا ہے اورمکمل آیت یا آیت کے کسی ٹکڑے کو جوں کا توں اپنے شعر میں پیش کیا ہے۔ مندرجہ ذیل شعر ملاحظہ ہو:
شب وصل است و طی شد نامہ ی ہجر             سلام  فیہ حتی مطلع الفجر (حافظ، ص۱۶۸)
حافظؔ اس شعر میں کہتے ہیں جدائی کے دن ختم ہوئے، اب وصل و وصال کی رات ہے جس میں صبح تک سلامتی ہی سلامتی ہے۔ اس شعر کے دوسرے مصرعے میں قرآن کے سورہ قدر کی پانچویں آیت کو پیش کیا گیا ہے جو اس طرح ہے: فہِیَ حَتّی مَطْلَعِ الْفَجْرِ(سورہ قدر، آیت۵)
حافظؔ کا ایک اور شعر ہے:
 چشم حافظ زیر بام قصر آن حوری سرشت               شیوہ ی جنات تجری تحتہا الانہار داشت(حافظ، ص۴۹)
حافظؔ کہتے ہیں کہ جب وہ اپنے معشوق(جو کہ مثل حور ہے) کے محل کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں تو ان کی آنکھوں سے ایسے ہی آنسو بہتا ہے جیسے کہ باغ بہشت سے نہریں نکلتی ہیں۔ اس شعر میں قرآن کے سورہ توبہ آیت ۸۹ اور سورہ حج آیت۲۳(جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِہَا الْأَنْہارُ) کی طرف اشارہ ہواہے۔ حافظ نے معشوق کے محل کو جنت کے باغ سے تشبیہ دی ہے جو درختوں سے بھرا ہوا ہے اور اپنی نمناک آنکھوں کو ان نہروں سے تشبیہ دی ہے جو درختوں کے نیچے جاری ہیں۔
حافظؔ کے اس طرز کا ایک اور شعر ملاحظہ فرمائیں:
   ظلّ ممدود خم زلف توام بر سرباد              کاندرین  سایہ قرار دل شیدا باشد(حافظ، ص۱۵۲)
حافظؔ کہتے ہیں میری آرزو ہے کہ تمہارے گھنی زلف کے سایے ہمیشہ میرے سر کے اوپر ہو، کیونکہ میرے مضطرب اور بیقرار دل کی آرام اسی سایہ میں ممکن ہے۔ ِظلٍّ مَّمدُودٍ کی ترکیب قرآن کے سورہ واقعہ آیت۳۰ سے لی گئی ہے۔ حافظؔ اپنے معشوق گھنی زلف کو ایک سایہ دار درخت سے تشبیہ دیتے ہیں جس کے گھنے سایے میں خستہ حالوں کو سکون و فرحت کے لمحات میسر ہوتے ہیں۔
حافظؔ کے دیون میں ایسے لاتعداد اشعار ہیں جہاں انہوں نے قرآن کی چھوٹی بڑی آیتوں اور تراکیب و الفاظ سے براہ راست استفادہ کیا ہے اور انہیں جوں کا توں اپنی شاعری میں کھپا دیا ہے اس طرح حافظؔ کی شاعری قرآنی آیات کی آمیزش سے تقدس و احترام کا درجہ حاصل کر لیتی ہے۔
2۔ کسی آیت کے مفہوم کو شاعری میں بیان کرنا:
حافظؔ نے ایک دوسرے طریقے سے بھی قرآنی آیات و تلمیحات کا اپنی شاعری میں استعمال کیا ہے وہ اس طرح کہ قرآن کی آیت کو براہ راست شعر میں درج نہ کر کے اس آیت کے مفہوم اور معنی کو شاعری میں بیان کیا ہے۔ یہ روش صنعت تلمیح میں زیادہ اہم سمجھی جاتی ہے۔ عطاء الرحمن صدیقی ندوی نے اپنی کتاب”اردو شاعری میں اسلامی تلمیحات” تلمیح کی اس روش کے بارے میں لکھا ہے:
”تلمیح کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ کلام میں اشارہ لفظا موجود ہو بلکہ معانی و مفہوم کے اعتبار سے بھی اگر اشارہ پایا جا رہا ہے تو ایسے کلام کو بھی تلمیح شمار کیا جائے گا بلکہ یہ زیادہ لطیف و بلیغ تلمیح ہو گی کیونکہ اس میں استعارہ کی شان پیدا ہو جائے گی”(صدیقی ندوی، ص۱۴۹)۔
بارہا گفتہ ام و بار دگر می گویم                  کہ منِ دلشدہ، این رہ نہ بہ خود می پویم(حافظ،ص۲۱۱)
حافظؔ کہتے ہیں کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے اور اب بھی کہتا ہوں کہ عشق و عاشقی کا یہ رستہ میرا اختیار کردہ نہیں ہے بلکہ میں اس راہ پر چلایا جا رہا ہوں۔ اس شعر میں براہ راست کوئی تلمیح نہیں دکھائی دیتی ہے لیکن اگر غور کریں تو اس میں پوشیدہ تلمیح موجود ہے۔ یہ شعر قرآن کے سورہ ابراہیم آیت۴ کی طرف اشارہ کرتاہے جس میں کہا گیا ہے” فَیُضِلُّ اللَّہُ مَن یَشَائُ وَیہْدِي مَن یَشَائُ” یعنی خدا جس کو چاہے گمراہ کرتا ہے اور جس کو چاہے ہدایت دیتا ہے”۔حافظ کا مذکورہ بالا شعر اسی آیت کی تفسیر ہے۔ اسی موضوع کا ایک اور شعر اس طرح ہے:
   خندہ وگریہ ی عشاق زجایی دگر است                 می سرایم بہ شب و وقت سحر می مویم(حافظ،ص۲۱۲)
یعنی عاشقوں کا ہنسنا اور رونا ان کے اختیار میں نہیں ہے بلکہ یہ کسی اور کے ہاتھ میں ہے یہی وجہ ہے کہ انسان ایک وقت میں بے حد خوش ہے تو دوسرے ہی لمحے بے حد ٖغمگین بھی۔ یعنی کہ خوش ہونا، غمگین ہونا، ہنسنا اور رونا، فتح و شکست انسان کے دائرہ قدرت سے باہر ہے اور خدا ہی ہے جو انسان کو خوشی و غم دیتا ہے، رنج و الم دیتا ہے سب کچھ اسی کے ہاتھ میں ہے۔ یہ شعر قرآن کی اس آیت کی طرف اشارہ کرتا ہے جس میں کہا گیا ہے: ”اللہ ہی ہے جو ہنساتا ہے اور رلاتا بھی ہے”۔سورہ نجم آیت ۴۳:
وَأَنَّہُ ہُوَ أَضْحَکَ وَأَبکَیٰ(سورہ نجم، آیت ۴۳) معنی: اور یہ کہ وہ ہنساتا اور رلاتا ہے۔
عیب رندان مکن ای زاہدِ پاکیزہ سرشت                    کہ گناہ دگران بر تو نخواہند نوشت(حافظ،ص۳۸)
حافظؔ کہتے ہیں کہ رندوں کی برائی مت کرو کیونکہ دوسروں کے گناہ تمہارے نامہ اعمال میں نہیں لکھا جائے گا۔ یعنی کہ انسان جو کچھ بھی کر رہاہے اچھا یا برا اس کا ذمہ دار وہ خود ہے اور کسی دوسرے کی غلطی کے بدلے میں کسی دوسریکو مجرم نہیں گردانا جائے گا۔ اس شعر میں قرآن کے سورہ فاطر آیت۱۸، اور سورہ انعام آیت۱۶۴؍ کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ارشاد ربانی ہے: وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِزْرَ أُخْرَیٰ یعنی اور کوئی شخص کسی کا بوجھ (گناہ) نہیں اٹھائے گا۔
  بہ ہست و نیست مرنجان ضمیر و خوش می باش              کہ نیستی است سرانجام ہر کمال کہ ہست(حافظ،ص۲۵)
حافظؔ اس شعر میں کہتے ہیں کہ دنیا میں ہر چیز فانی ہے، ہر کمال کو زوال ہے لہذا اپنے آپ کو کسی چیز کے پانے اور کھونیکی وجہ سے پریشان مت کرو اور ہر حال میں خوش رہو۔ حافظ کی نظروں میں دنیا کی تمام چیز فانی ہے اور وہ صرف خدا کی ذات ہے جو ہمیشہ قائم رہنے والی ہے تو پھر کیوں مٹ جانے اور ختم ہوجانے والی چیزوں سے لو لگایا جائے یہی نہیں بلکہ انسان کی ذات خود بھی فنا ہونے والی ہے تو پھر دنیا سے عشق و محبت انسان کی نادانی ہی ہے۔ حافظ نے مذکورہ بالا شعر میں قرآن کے سورہ الرحمن آیت۲۶ و۲۷ ، اور سورہ قصص آیت۸۸ کی طرف اشارہ کیا ہے۔ (کُلُّ مَنْ عَلَیہَا فَانٍ(۲۶) وَیَبْقیٰ وَجہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِ(۲۷)(سورہ الرحمن) معنی: جو(مخلوق) زمین پر ہے سب کو فنا ہونا ہے(۲۶) اور تمہارے پروردگار ہی کی ذات(بابرکات) جو صاحب جلال وعظمت ہے باقی رہے گی(۲۷)(سورہ الرحمن ۔ اور: وَلَا تَدْعُ مَعَ اللَّہِ إِلٰہًا آخَرَ لَا إِلَٰہَ إِلَّا ہُوَ کُلُّ شَيْئٍ ہالِکٌ إِلَّا وَجْہَہ لَہُ الْحُکْمُ وَإِلَیْہِ تُرْجَعُونَ (سورہ قصص، آیت۸۸) معنی: اور خدا کے ساتھ کسی اور کو معبود (سمجھ کر) نہ پکارنا اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اس کی ذات (پاک) کے سوا ہر چیز فنا ہونے والی ہے۔ اسی کا حکم ہے اور اسی کی طرف تم لوٹ کر جاؤ گے۔)
حافظؔ نے اپنے ایک شعر میں قرآن کے سورہ حدید آیت ۲۳ کی طرف یوں اشارہ کیا ہے:
سود و زیان و مایہ چو خواہد شدن زدست                  از بہر این معاملہ غمگین مباش و شاد(حافظ، ص۱۰۴)
حافظؔ کا کہنا ہے کہ جب نفع و نقصان اور مال و دولت کسی کو بھی دوام نہیں ہے تو پھر دنیاوی معاملات میں الجھنے کا کیا فایدہ۔ بہتر یہی ہے کہ انسان ان چیزوں کی پرواہ نہ کرے اور ان عارضی چیزوں کے لیے خود کو مٖغموم اور مسرور نہ کرے۔ اس شعر میں معاملہ سے مطلب زندگی ہے اور مایہ عمر ہے، یعنی زندگی میں عمر جو اصل سرمایہ ہے وہ ختم ہوجانے والی ہے تو اس کے سود و زیان سے خوشی اور غم کا کیا مطلب ہے۔ (لِّکَیْلَا تَأْسَوْا عَلَیٰ مَا فَاتَکُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آتَاکُمْ وَاللَّہُ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ (سورہ حدید، آیت۲۳) معنی: تاکہ جو (مطلب) تم سے فوت ہوگیا ہو اس کا غم نہ کھایا کرو اور جو تم کو اس نے دیا ہو اس پر اترایا نہ کرو۔ اور خدا کسی اترانے اور شیخی بگھارنے والے کو دوست نہیں رکھتا۔)
در عشق خانقاہ و خرابات فرق نیست                    ہر جا کہ ہست پرتو روی حبیب ہست(حافظ،ص۴۳)
اس شعر کا مطلب یہ ہے کہ خانقاہ اور خرابات میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ معشوق کے چہرے کا پرتو(جلوہ) ہر جگہ موجود ہے۔ یہ شعرقرآن کی اس آیت کی طرف اشارہ کرتا ہے: ’’فَأینَما تَوّلَوا فَثّمَ وَجہُ اللہ‘‘ یعنی ہر جگہ دیکھو وہاں خدا کی ذات موجود ہے۔ (’’وَلِلَّہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَیْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْہُ اللَّہ إِنَّ اللَّہَ وَاسِعٌ عَلِیمٌ‘‘(سورہ بقرہ، آیت ۱۱۵) معنی: اور مشرق اور مغرب سب خدا ہی کا ہے۔ تو جدھر تم رخ کرو۔ ادھر خدا کی ذات ہے۔ بے شک خدا صاحبِ وسعت اور باخبر ہے)
3۔ قرآن میں مذکور پیغمبروں کے واقعات اور حالات کی طرف اشارہ کرنا:
حافظؔ اپنی غزلوں میں قرآن میں مذکور پیغمبروں جیسے حضرت یوسفؑ، حضرت موسیؑ، حضرت عیسیؑ، حضرت نوحؑ و غیرہ کے واقعات اور حالات کو بھی جابجا اپنے اشعار کا موضوع بناتے ہیں۔ یہ بھی تلمیح کی ایک قسم ہے جس میں حافظؔ کسی پیغمبر کے کسی اہم واقعے کی جانب اشارہ کر دیتے ہیں جس سے پوری کہانی اور پورا منظر نگاہوں کے سامنے آجاتا ہے۔ تلمیح کی ایسی مثالیں مندرجہ ذیل اشعار میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
یار مفروش بہ دنیا کہ بسی سود نکرد                       آنکہ یوسف بہ زر ناسرہ بفروختہ بود(حافظ،ص۱۰۶)
مذکورہ بالا شعر کے پہلے مصرعے میں حافظؔ کہتے ہیں کہ دنیا کو معمولی اور ادنی چیزوں کے عوض مت بیچو اور دوسرے مصرعے میں وہ اس کی توضیح پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جس طرح یوسف کے بھائیوں نے انہیں بہت ہی معمولی قیمت میں فروخت کر دیا تھا۔حافظ ؔنے اس شعر میں سورہ یوسف آیت۲۰ کی جانب اشارہ کیا ہے: ”وَشَرَوْہُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ دَرَاہِمَ مَعْدُودَۃٍ” یعنی اس کو کم درہموں پر بیچ دیا۔ (’’وَشَرَوْہُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ دَرَاہِمَ مَعْدُودَۃ وَکَانُوا فِيہِ مِنَ الزَّاہِدِین‘‘َ (سورہ یوسف، آیت ۸۰) معنی: اور اس کو تھوڑی سی قیمت (یعنی) معدود چند درہموں پر بیچ ڈالا)
اینکہ پیرانہ سرم صحبت یوسف بنواخت                اجر صبریست کہ در کلبہ ی احزان کردم(حافظ،ص۲۲۹)
حافظؔ کے مطابق صبر و ضبط ہی کامیابی کی کلید ہے۔ وصال محبوب کے لیے صبر بے حد ضروری ہے۔ اس شعر میں انہوں نے حضرت یوسف سے حضرت یعقوب کی ملاقات کی جانب اشارہ کیا ہے۔ حضرت یعقوب عمر بھر حضرت یوسف کی جدائی میں تڑپتے رہے اور صبر و ضبط سے کام لیتے رہے۔ انہیں یقین تھا کہ ایک دن ان کا بیٹا(یوسف) ضرور ملے گا بالاخر بڑھاپے میں ان کی ملاقات یوسف سے ہوتی ہے۔ شاعرنے اپنے آپ کو بلاواسطہ حضرت یعقوب اور معشوق کو حضرت یوسف سے تشبیہ دی ہے اور محبوب کی ہمنشینی کو صبر و ضبط کا نتیجہ بتایا ہے۔ یہ شعر سورہ بقرہ آیت ۴۵ کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ حافظ نے اکثر موقعوں پر حضرت یوسف کے حالات زندگی کو اپنی غزلوں کا موضوع بنایا ہے۔ ان کا ایک اور شعر دیکھیے:
عزیز مصر بہ رغم برادران غیور                ز قعر چاہ برآمد بہ اوج ماہ رسید(حافظ،ص۸۴)
حافظؔ کہتے ہیں کہ حضرت یوسف نے جن کو ان کے حاسد بھائیوں نے کنویں میں ڈال دیا تھا نہ صرف یہ کہ وہ کنویں سے باہر ہوئے بلکہ وہ قدر و منزلت کی چوٹی تک پہنچے یعنی انہیں مصر کی فرمانروائی بھی ملی اور بعد میں ان کے حاسد بھائیوں کو ان کے سامنے سرتسلیم بھی خم کرنا پڑا۔مطلب یہ کہ کسی کے برا چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا خدا جسے چاہتا ہے عزت، دولت، قدرو منزلت سے نوازتاہے اور جسے چاہتا ہے اسے گمراہ و باطل کر دیتا ہے۔ اس شعر میں قرآن کے سورہ یوسف آیت۵۶ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ (’’وَکَذَٰلِکَ مَکَّنَّا لِیُوسُفَ فِي الْأَرْضِ یَتَبَوَّأُ مِنْہا حَیْثُ یَشَائُ نُصِیبُ بِرَحْمَتِنَا مَن نَّشَائُ وَلَا نُضِیعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ‘‘(سورہ یوسف، آیت۵۶) معنی: اس طرح ہم نے یوسف کو ملک (مصر) میں جگہ دی اور وہ اس ملک میں جہاں چاہتے تھے رہتے تھے۔ ہم اپنی رحمت جس پر چاہتے ہیں کرتے ہیں اور نیکوکاروں کے اجر کو ضائع نہیں کرتے)
اسی طرح حافظؔ نے قرآن میں موجود دوسرے نبیوں کے حالات زندگی اور واقعات کو بھی اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ ایک طرف جہاں ان کی شاعری کے مطالعے سے ان کی فنی عظمت اور شعری لطافت سے قاری محظوظ ہوتا ہے تو دوسری جانب قرآنی آیات اور اس کی تفسیر سے بھرپور ان کی غزلیں ایمان کو تر و تازہ اور روحانی تازگی بخشتی ہیں۔ حافظؔ حضرت موسی کے واقعے کو اپنے ایک شعر میں یوں بیان کرتے ہیں:
    زآتش وادی ایمن نہ منم خرم و بس                       موسی اینجا بہ امید قبسی می آید(حافظ،ص۱۳۹)
حافظؔ کہتے ہیں کہ وادی ایمن(جس صحرا میں خدا کی آواز حضرت موسی کو سنائی دی) کی آگ سے بس میں ہی خوش نہیں ہوں بلکہ موسی بھی چنگاری کی امید میں وہاں پہنچے تھے۔ یہ شعر وادی ایمن میں حضرت موسی کے سامنے آگ ظاہر ہونے اور خدا کے تجلی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ قرآن میں یہ کہانی سورہ نمل آیت ۸؍ اور سورہ طہ آیت ۱۰و ۱۱ میں موجود ہے۔ (’’فَلَمَّا جَائَ ہَا نُودِيَ أَن بُورِک مَن فِي النَّارِ وَمَنْ حَوْلَہا وَسُبْحَانَ اللَّہِ رَبِّ الْعَالَمِین‘‘(سورہ نمل، آیت۸) معنی: جب موسیٰ اس کے پاس آئے تو ندا آئی کہ وہ جو آگ میں اور آگ کے ارد گرد میں ہے، بابرکت ہے۔ اور خدا جو تمام عالم کا پروردگار ہے پاک ہے۔)
ایک دوسرے شعر میں حافظ قرآن میں بیان کردہ حضرت موسی کے واقعات سییوں استفادہ کرتے ہیں:
این ہمہ شعبدہ خویش چو می ددکرد آنجا                   سامری پیش عصا و ید بیضا می کرد (حافظ،ص۱۱۹)
اس شعر میں حافظؔ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ دنیادار صوفیوں اور زاہدوں کی شعبدہ بازی درحقیقت کھوکھلی اور بے معنی ہے جس طرح سامری کی جادوگری حضرت موسی کے معجزے(لاٹھی کا اژدہا ہونا اور ید بیضا) کے سامنے بے معنی تھی۔ (فَأَلْقَیٰ عَصَاہُ فَإِذَا ہِيَ ثُعْبَانٌ مُّبِین(۱۰۷) وَنَزَعَ یَدَہُ فَإِذَا ہِيَ بَیْضَائُ لِلنَّاظِرِین(۱۰۸)(سورہ اعراف) معنی:موسیٰ نے اپنی لاٹھی (زمین پر) ڈال دی تو وہ اسی وقت صریح اژدھا ہوگیا(۱۰۷) اور اپنا ہاتھ باہر نکالا تو اسی دم دیکھنے والوں کی نگاہوں میں سفید براق تھا(۱۰۸))
حافظ ؔحضرت نوحؑ کی کشتی کے واقعے سے کچھ اس طرح اپنی شاعری میں استفادہ کرتے نظر آتے ہیں:
؎ حافظؔ از دست مدہ دولت این کشتی نوح ورنہ طوفان حوادث ببرد بنیادت(حافظ،ص۴۴)
    ای دل ار سیل فنا بنیاد ہستی برکند چون ترا نوح                است کشتیبان ز طوفان غم مخور(حافظ،ص۱۷۲)
مذکورہ بالا اشعار میں حافظؔ کہتے ہیں کہ تمام مصائب و مشکلات سے بچنے کا بس ایک ہی راستہ ہے کہ خدا پر مکمل ایمان اور نبیوں کے بتائے ہوئے راستے کی پیروی۔ جس طرح حضرت نوح کے زمانے میں ہر چیز کو فنا کر دینے والے سیلاب سے بچنے کا واحد راستہ صرف حضرت نوح کی کشتی تھی یعنی جو حضرت نوح کی کشتی پر سوار ہوگیا وہ ہر طرح کے حوادث سے محفوظ ہوگیا– حافظ نے اس قرآنی واقعے سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ فلاح و کامیابی، تحفظ و سلامتی کا ایک ہی راستہ ہے وہ یہ کہ ایمان کی کشتی پر سوار ہوجائیں۔ حضرت نوح کے کشتی بنانے کی کہانی سورہ مؤمنوں آیت۲۳-۲۶ میں موجود ہے۔
حافظؔ اپنے ایک شعر میں حضرت سلیمان اور ملکہ سبا کے واقعے کو اس طرح پیش کیا ہے:
  ای ہدہد صبا بہ سب می فرستمت                           بنگر کہ از کجا بہ کجا می فرستمت(حافظ،ص۲۷)
اے باد صبا(صبح کی ہوا) تم کو سبا کے ملک میں بھیجتا ہوں، دیکھو تم کو کہاں سے کہاں بھیجتا ہوں۔ یہ شعر حضرت سلیمان، ہدہد اور ملکہ سبا کے واقعے کی طرف اشارہ کرتا ہے جب حضرت سلیمان نے ہدہد کے ذریعے ملکہ سبا کو خط بھیجا تھا۔ یہ کہانی سورہ نمل آیت ۲۲-۲۸ میں آئی ہے۔اس شعر میں صبح کی ہوا کو جو عاشق اور معشوق کے خطوط کو ایک دوسرے کے پاس پہنچاتی ہے ہدہد سے تشبیہ دی ہے اور معشوق کے ملک کو سبا کے ملک سے اور کہتا ہے کہ اے باد صبا تم ہدہد کی طرح میرے معشوق کے دیار میں جاو اور وہاں سے میرے لیے خبریں لاؤ۔
حافظؔ کے دیوان کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ حافظؔ نے اپنی شاعری میں بڑی فنکاری اور مہارت کے ساتھ قرآنی آیات اور تلمیحات کا استعمال کیا ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کی شاعری کی غیر معمولی مقبولیت کے پیچھے قرآنی آیات و تلمیحات کی برکتیں بھی شامل ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ حافظؔ نے قرآنی مضامین کو جس فنی و فکری خوبیوں کے ساتھ اپنی شاعری میں پیش کر دیا ہے اس کی نظیر ہمیں پورے فارسی ادبیات میں دکھائی نہیں دیتی۔ حافظؔ کی شاعری کی یہ وہ خصوصیت ہے جو اسے لاثانی اور لافانی بنا دیتی ہے۔
کتابیات:
1- حافظ، دیوان حافظ، مقدمہ و تصحیح محمد معین، شرکت طبع کتاب، ۱۳۱۹ش
2- شمیسا، سیروس، فرہنگ تلمیحات، تہران، نشر میترا، ۱۳۸۹ش
3- صدیقی ندوی،عطاء الرحمن، اردو شاعری میں اسلامی تلمیحات، لکھنؤ، ندوۃ العلماء، ۲۰۰۴ء
4- فیروزاللغات اردو جدید، لاہور، فیروز سنز پرائیویٹ لمیٹڈ، ۱۹۸۷ء

Leave a Reply