جرمنی کی علم دوست یونیورسٹیاں
تحریر: سیّد اقبال حیدر،فرینکفرٹ۔جرمنی
اعلی ٰتعلیم کے خواہشمند نوجوانوں کے لئے جرمنی آئیڈیل ملک بنتا جا رہا ہے، جرمنی کی تاریخ میں کبھی بھی تعلیم کے بھاری معاوضے اور بھاری فیسوں کا تصور نہ تھا،،یہاں تعلیم کبھی بھی کمرشل سروس نہیں بلکہ پبلک سروس سمجھ کر دی جاتی رہی ہے ، مہذب معاشرے میں پبلک سروس کی قیمت نہیں وصول کی جاتی،انھیں زرّین اصولوں کے تحت جرمنی کا نظام تعلیم کامیابی سے چل رہا ہے اور نظام تعلیم کی یہی خوبی جرمنی کو یورپ ہی نہیں دنیا بھر میں ممتاز کر دیتی ہے،ایشیا ہی نہیں برطانیہ اور امریکہ جیسے ممالک میںنظامِ تعلیم کمرشل ہو گیا ہے یونیورسٹیاں طلباء سے بھاری فیس وصول کر رہی کیونکہ ان کا نظام تعلیم اسے پبلک سروس نہیں بلکہ کمرشل سمجھتا ہے برطانیہ کے تعلیمی نظام میں توفیسوں میں طبقاتی تفریق بھی پائی جاتی ہے ،برطانوی طلباء،یورپین کیمونٹی کے طلباء اور نان یورپین کیمونٹی کے طلباء کی فیسوں میں بڑا تضاد پایا جاتا ہے،جرمنی کی یونیورسٹیوں کی مقبولیت کا سبب اعلیٰ تعلیمی معیار اسکول سے لیکر یونیورسٹی تک مفت معیاری تعلیم کی سہولت ہے جو یورپ ،امریکہ اور دوسرے ممالک میں نظر نہیں آتی،جرمنی کی 16ریاستوں میں 15میں ابھی تک اسکول کی ابتدائی تعلیم سے لیکر یونیورسٹی کی اعلیٰ تعلیم PHD تک مفت ہے اور یہ سہولت مقامی جرمن طلباء ہی نہیں دنیا کے ہر کونے سے آئے طلباء کو حاصل ہے۔پورے ملک میں صرف ایک ریاست’’ باڈ ووٹنگ برگ‘‘ میں کچھ معمولی فیس چارج کی جاتی ہے مگر وہاں بھی یہ شرط بیچلرز اور ماسٹرز کے لئے ہے PHD پروگرام وہاں بھی فری ہے اس کی کوئی ٹیوشن فیس نہیں لی جاتی،جرمنی کی باقی15 ریاستوں میں تعلیمیاخراجات حکومت سبسٹدی کی شکل میں ادا کر کے طلباء کو مالی بوجھ سے آزاد کر دیتی ہے ،جرمنی غیرملکی طلباء کو صرف مفت تعلیم ہی نہیں دیتا بلکہ دورانِ تعلیم پڑھائی کے ساتھ ساتھ کام کرنے کی بھی اجازت دیتا ہے اور اس سہولت کا ذکر اس کے اسٹوڈنٹ ویزے میں لکھا ہوتا ہے فارغ التحصیل طلباء کو 12سے 18ماہ کا وقت دیا جاتا ہیء کہ وہ جرمنی میں ملازمت ڈھونڈ سکیں جن خوش قسمت طلباء کو ملازمت مل جاتی ہے وہ جرمنی میں مستقل قیام کر لیتے ہیں اور مقامی قانون کے مطابق وہ افراد مستقل ویزہ اور پھرجرمن شہریت کے اہل ہوتے ہیں،آج جرمنی میں سینکڑوں طلباء موجود ہیں جو تعلیم حاصل کرنے آئے اور آج جرمن شہریوں کی طرح باعزت روزگار کے باعث پُرسکون زندگی گزار رہے ہیں،غیر ملکی طلباء جرمنی کی کسی یونیورسٹی میں داخلہ ملنے اور تعلیم شروع کرنے تک اگر کسی مالی گارنٹی اور بینک اکائونٹ کھولنے کی کوئی شرط موجود ہے تو وہ یونیورسٹی نہیں بلکہ اس ملک میں جرمن ایمبیسی کی طرف سے ہے اس لئے کہ طالبعلم جرمنی آنے اور تعلیم شروع کرنے تک تنگ دستی کا شکار نہ ہو اور صرف یہ گارنٹی کی حد تک ہے،جبکہ برطانیہ میں 10 سے15ہزارپونڈ سمیسٹر فیس وصول کی جاتی ہے،ایشیا اور دوسرے ممالک میں بھی معروف یونیورسٹیاں فی سمیسٹر ایک لاکھ روپے وصول کر رہی ہیں،اور ستم ظریفی کہ سمیسٹر کی مدت بھی چھ ماہ سے کم ہوتی ہے تاکہ کم سے کم وقت میں تعلیم کے خواہاں افراد سے زیادہ سے زیادہ رقم وصول کی جائے جبکہ جرمنی میں دوران تعلیم طلباء اپنی بنیادی تعلیم کے ساتھ ساتھ مختلف فری لینگویج ہی نہیں دیگر کورس بھی مفت کر سکتے ہیں،تعلیم کے ساتھ ساتھ ملازمت کی سہولت،دوران تعلیم یونیورسٹی میں موجود ’’شاپس‘‘ سے طلباء کو سبسڈی کے تحت ’’مینزا‘‘ میں کم قیمت کی فوڈ شاپنگ کی سہولت بھی ہوتی ہے،طلباء کو شہر ہی نہیں بلکہ 60 سے90 کلومیٹر لگ بھگ پورے صوبے کی فری ٹرانسپورٹ کی سہولت ہوتی ہے،تعلیم مکمل کرنے کے بعد ملازمت اور مستقل قیام کے مواقع بھی ہوتے ہیں،جرمن یونیورسٹیوں کا یہ اعلیٰ معیار ہی تو تھا جس کے سبب ماضی میں شاعر مشرق،دانشور،فلسفی ڈاکٹر محمد اقبالؔ اعلی تعلیم PHD کے لئے انگلینڈ چھوڑ کر جرمنی آئے رہائش کے لئے دریائے نیکر کے کنارے شہر’’ہائیڈل برگ‘‘ میں قیام رکھا اور ڈاکٹریٹ کے امتحان کے لئے میونخ یونیورسٹی کا انتخاب کیا،جرمن چانسلر’’اینجلا میرکل‘‘ کا تاریخی جملہ ہے کی کسی معاشرے کی مثالی تعمیر کرنا ہو تو وہاں کے ’’اساتذہ‘‘ کا خیال رکھو،انھیں عزت دو، انھیں خوشحال رکھو، نظام تعلیم خود بخود سنور جائے گا اور ملک ترقی کرے گا۔
سیّد اقبال حیدر۔۔۔واٹس اپ نمبر۔۔۔0049 172 6650343