تالیف حیدر
جے این یو
پیٹنگ پر ایک خوبصورت مضمون
تصویر کا دوسرا رخ
چپ چاپ سنتی رہتی ہے پہروں شب فراق
تصویر یار کو ہے میری گفتگو پسند
(داغ دہلوی)
تصویر کا بولتا ہوا بدن جن خطوط سے مل کر بنتا ہے وہ تصویر میں چھپے الفاظ ہوتے ہیں ۔لفظوں کا وہی جال جس سے تصویر میں معنی کی تاثیر جنم لیتی ہے اور اسی سے ایک زندہ متن وجود میں آتا ہے۔ تصویر اور کچھ نہیں صرف ایک نوع کا متن ہے جس کو سمجھنے کے لیے ہم پر اس کی زبان کا جاننا لازمی قرار پاتا ہے۔ میں گزشتہ کئی دنوں سے تصویر کی منطق پر غور کر رہا ہوں اور اس کے لاینحل مظاہر پر بھی۔ اس ضمن میں میں نےادھر کئی سو تصویریں دیکھ ڈالیں۔ کچھ پر مغز،با معنی، مختلف الجہات اور کثیر الاخطوط اور کچھ بے ہنگم، گنجلک اورمعنی کی سطح پر داخلی طور پر متصادم۔ ان تصویروں پر غور کرتے ہوئے میں کبھی بہت دور تک گیا ،رنگوں کے نئے معنی سمجھنے کے لیے ان کو الگ الگ زاویوں سے دیکھنے کی کوشش کی ساتھ ہی تصویر میں موجود ان خطوط کی ترتیب کو الٹ پلٹ کر بھی دیکھا۔ بعض اوقات حیران بھی ہوا کہ بہت سی تصویریں دنیا میں ہونے والے قانونی جھگڑوں کو ختم کرتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں اور بہت سی ایسی ہیں جو انسان کے موجود طرز تفہم پر ہنستی ہیں اور اس کا مذاق اڑاتی ہیں۔انہیں تصویروں کے درمیان مجھے ان کے زندہ ہونے، مضطرب ہونے اور اپنے مظہر سے آگے کی سمت سفر کرتے چلے جانے کا ادراک بھی حاصل ہوا اور تصویروں کے نامیاتی تسلسل کا بھی کہ وہ کس طرح آنکھ کے پردے پر ابھرتی ہیں اور اپنے ساتھ دیکھنے والے کو اسی زمین میں لے جاتی ہیں جہاں سے ان کا اکھوا پھوٹا تھا۔ تصویر کو دیکھنے کا عمل سحر انگیز عمل ہے۔ ایسا عمل جس میں ہم کبھی مکمل کامیابی حاصل نہیں کر سکتے۔ یہ کوئی مجذوب کی بڑ نہیں کہ تصویر حقیقتاً اتنے ہی زاویوں میں پھیلی ہوتی ہے کہ برہنہ آنکھ تو اس کو مکمل دیکھنے کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔ دنیا کی ہر تصویر جیسی کہ وہ نظر آتی ہے اصل میں ویسی نہیں ہوتی ۔ ہم تصویروں کو ایک خط کی صورت میں دیکھتے ہیں ،ایسا خط جو ہماری آنکھوں سے تصویر کے ابھرے ہوئے نقوش تک ایک اور خط کھینچتا ہے۔ ان دو خطوط کے درمیان تصویر ایک دائرے کی صورت میں ابھرتی ہے اور پھر اپنا رقبہ بڑھاتے ہوئے مربع نما شکل اختیار کر لیتی ہے۔اس کے بعد پھر مختلف زاویوں میں تقسیم ہو جاتی ہے۔تصویر کی اس قواعد کا نظام ہی ایسا ہے کہ اس سے اصل کے تبدیل ہوتے چلے جانے کا عنصر اس کی بنیاد میں داخل ہو جاتا ہے۔لہذا اس کی معنیاتی سطح ابتدا سے کئی صورتوں میں متصادم ہے۔ یہ عمل ایک عام سی تصویر میں بھی ہوتا ہے اور اپنے اندر معنی کا اک جہان لیے ہوئے اس فریم میں بھی جس میں رنگوں کی بصیرت پوشیدہ ہوتی ہے۔ مثال کے طور پرMasaccioکی مشہور زمانہ تصویرSan Giovenale Triptych کو دیکھ لیجیے، اس میں عیسائی مذہب کے تقدس کو ایک شکل دی گئی ہے۔ ان معتقدات کو ایک انسانی صورت میں ابھار کر پیش کیا گیا ہے۔ مگر تصویر پر غور کرو تو معلوم ہوتا ہے کہ اصل میں اس کے یہ معنی ہی نہیں۔ یہ تو اعتقاد اور تہذیب کے طے شدہ معنی ہیں جو تصویر کے خطوط میں ٹھونسے جا رہے ہیں۔ اپنے سیاق سے قطع نظر یہ ایک ظالم اور جابر تصویر ہے ،ایسی کہ جس میں نظام حیات کی الٹی گتھیاں پروئی گئی ہیں۔ تصویر میں موجود چار مرد ،دو پریاں(فرشتے) ایک عورت اور ایک بچہ جن کی گردنوں کے گرد ایک حلقہ سا کھنچا ہوا ہے یہ سب مصنوعی نظام معاشرت سے بیزار نظر آرہے ہیں۔ ان کے چہروں کی لکیریں ان کی پریشاں حالی کا ثبوت ہیں۔میں تصویر کے اصل معنی کے ساتھ کھلواڑ نہیں کررہا ہوں بلکہ اس کے اصل کی نقل کو ظاہر کر رہا ہوں۔ تصویروں کے قاعدے معاشرت کے قاعدوں سے ہزار گنا جدا ہوتے ہیں،خواہ ہم کسی تصویر پر آنکھیں ٹکائے اس کی علامتوں کو اپنی معاشرت کے اثبات اور زندگی کا ثبوت خیال کرتے رہیں ، مگر دیکھنے والوں کی دنیا اس سے کہیں زیادہ مختلف ہوتی ہے۔ انسان کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ تصویروں کو اپنے سیاق میں ڈھالنے کا خواہاں ہوتا ہے جبکہ کوئی تصویر اس بات کی مرتکب ہو ہی نہیں سکتی۔
ایک فن کار حقیقت پسند ہوتا ہے۔ ایسا حقیقت پسند جس میں حقیقت کے کوئی طے شدہ معنی نہیں ہوتے۔ ہو بھی نہیں سکتے کیوں کہ اسے معلوم ہے کہ حقیقت ہر لمحہ تبدیل ہو رہی ہے، ایسے میں کسی ایک تصور پر ٹھہرنا اور ایک حقیقت کو اصل الاصول تصور کرنا کسی طور ممکن نہیں۔اس لیے ان حقیقت نگاروں کے شاہکاروں کو محدود نگاہوں سے دیکھنے کا تصور بھی بے کار محض ہے۔مثلاً میں نے پہلی مرتبہ جب Saint George and the Dragon کو دیکھا تو دل سے ایک آواز آئی کہ موجودہ سیاسی صورت حال کی اگر کوئی زندہ تصویر ہو سکتی ہے تو وہ یہ ہی ہے۔ہم سب ایک ایسے نظام کا حصہ ہیں جہاں ہمارے پیروں سے خونی سیاستدانوں کے شکاری کتے لپٹے ہوئے ہیں اور ہم اپنی محنتوں کا ہتھیا ر ہاتھ میں تھامے زندگی کے سفید گھوڑے پر سوار آگے کی طرف بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ ہمارے اطراف میں ہماری ذمہ داریاں ہیں اور راہ میں لٹتا ہوا وہ اسباب جسے ہم ان سیاسی بھیڑوں سے جنگ و جدل کے دوران چھوڑ کر آگے بڑھ جانا ہی مناسب سمجھتے ہیں۔ایسی کوئی ایک تصویر نہیں ہے بلکہ ہزاروں ہیں۔اس میں Michelangeloکی The Creation of Adamبھی شامل ہے اورCaravaggio کی Saint Francis of Assisi in Ecstasyبھی،Velazquezکی Portrait of Pope Innocent Xبھی اور Pablo Picassoکی مشہور زمانہ تصویرGuernicaبھی۔ میں ان تمام تصویروں میں دنیا کی مختلف صورتوں کا معائنہ بھی کرتا ہوں اور ان کے معنی کی مختلف جہات کو پالینے پر غور بھی۔
تصویر کی جمالیات کا یہ معاملہ ہے کہ یہ فن کے مختلف شعبوں سے قدرے الگ اور معنی خیز ہوتی ہے۔ہندوستان میں اس جمالیات پر فنکاروں کی نظریں ایک عرصے سے جمی ہوئی ہیں۔ مہاراشٹر میں اجتنا الورا کے غاروں میں پتھروں پر ابھری ہوئی تصویریں اس امر کا ثبوت ہیں کہ جنوبی ایشا میں تصویر سے انسان کی شناسائی کتنی قدیم ہے۔ ان رشتوں کو اپنے چند نوکیلے ہتھیاروں سے ایک مضبوط شکل دینے والے ہندوستانی مصور دنیا کے پردے پر دکھوں کو انسان کے باطن میں تلاش کرنے والے قدیم ترین فنکار ہیں۔ دنیا کی دوسری تہذیبیں جو قدیم ترین تھیں، مثلاً سومیرین، میسوپوٹامین، اجپشین، عرب اور ایرانین انہوں نے تصویروں کی دنیا سے اپنا ایک مافوق الفطری رشتہ جوڑا تھا۔ یہ تصویریں جنہیں مذہب کی بندشوں نے بت پرستی کا نام دیا ان میں انسانی ذہن کی ایک نہایت خوش آمیز فنی مہارت دیکھنے کو ملتی ہے۔ آج ہم تصویر کی تاریخ سے واقفیت کی بنیاد پر ان حقائق سے آشنا ہوئے ہیں کہ تصویریں پانی کے رنگوں سے بن کر جن پتھر کی چٹانوں اور درخت کی چھالوں پر ابھرتی تھیں۔ جن پھول،پتیوں اور قدرتی آلات سے ہم نے انسانی مشاہدے کے کمالات کو اپنے اطراف کی کھردری زمینوں پر ابھارا تھا۔ زندگی اس جدید عہد تصویر میں جہاں ہم امرا کی تیل آمیز مصوری اور تہذیب یافتہ قوموں کی مختلف الخطوط مصوری سے اوب رہے ہیں۔ ہم پانی کے رنگوں کی دنیا میں لوٹ رہے اور تصویر کے نئے امکانات کو قدرت کے دائمی آلات سے مزین کر رہے ہیں۔ فن کی یہ ہی حقیقت ہے کہ اس میں تصنع کی آمیزش کبھی ایک مقدار سے زیادہ نہیں ہوتی۔ فن کے معنی ہی اپنی لیاقت سے حاصل کی ہوئی صلاحیت کے ہیں۔ لہذا مصوری کا فن بھی اسی کے مصداق ہے کہ جوفن کار اصل سے اپنا رشتہ قائم رکھتا ہے اور مصنوعی آلات سے جس درجہ اجتناب برتا ہے وہ مصوری کے اتنی ہی معراج پر پہنچتا ہے۔ تصنع ظاہری علوم کا حصہ تو ہو سکتا ہے مگر فنون میں اس کے سانس لینے کے امکانات خاصے کم ہیں۔ لہذا میں نے جن تصویروں میں اپنے گزشتہ روز گزارے ان میں مجھے زیادہ سے زیادہ وہ ہی تصویریں پسند آئیں جن میں تصنع سے پرہیز برتا گیا ہے۔ یہ مشاہدہ آپ کو تصویرو ں کی مسلسل قرت سے ہی حاصل ہوتا ہے۔ ذاتی تجربے کی بنیاد پر مجھے یہ محسوس ہوا کہ میں نے جب ابتدا میں رفائلوسنزیو کی تصویرTransfigurationدیکھی تو میں حیران ہوا کہ ایک فن کار جو روشنی کی لکیروں سے کھیل کرنا جانتا ہو۔ جو تصویر کی دنیا میں ایسا اندیکھا سورج وضع کر سکتا ہو جس کی بنیاد پر سائیوں کا اندھا رقص تصویر میں معنی کے امکانات روشن کرے اور اجلے،گدلے کا فرق واضح کر دے اس سے بڑا فن کار کون ہو سکتا ہے۔ اسی طرح جب میں نے Digital Reproductionسے پہلے تصویروں سے انصاف برتنے والے ان مصوروں کے فنی کارناموں کا مشاہدہ کیا جن میں رفائلو بھی شامل ہے تو مجھے ایک نوع کی حیرت آمیز مسرت ہوئی کہ فن کا اصل ماخذ یہ ہی ہے۔ اسی کو مصوری کی معراج کہا جاسکتا ہے۔ یہ سارے خیالات میرے ذہن میں گردش کیا کیے اور میں ان تصویروں کو دیکھ دیکھ کر سر دھنا کیا کہ انسان نے بھی کیا کیا اپنی تاریخ میں کیا ہے اور کتنے ذوق و شوق سے کیا ہے۔کیا یہ فن سے آخری درجے کا عشق نہیں کہلائے گا کہ کوئی ایک مصور صرف ایک تصویر بنانے کے لیے مختلف مقامات پر آٹھ، آٹھ،دس، دس مہینے گزار دے ۔ اس ایک لمحے کو تراشنے کے لیے مسلسل اپنے کان پر قلم رکھا رہے اور اپنے چوکور لکڑی کے کینوس کو کندھے پر لادے شہر شہر پھرتا رہے۔ ایسے فنکار تو طلسم ہوش ربا یا The Hobbitمیں ہی ہو سکتے ہیں۔ لیکن ایسے حقیقی فن کاروں کے فن کو آپ کیا کہیں گے۔ ان میں زندگی کی رمق ہوتی ہے اور جذبات ،ایک نہ مرنے والی لہر بھی۔ ایسی تصویریں اور ایسے مصور ہمارے پاس ہیں اور اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ان کا فن لازوال ہے۔ مگر میری ذاتی رائے میں ان کے فن میں آپ کی دلچسپی کا سامان تو نکلتا ہے دائمی الجھنوں کا علاج نظر نہیں آتا۔ جمنا کا کنارہ اور بنارس کے گھاٹ ،اٹلی کی کوئی گلی اور فرانس کا ایک چائے خانہ بنانے والے مصور بے شک بڑے فن کار تھے انہوں نے تصویر کی دنیا کو وہ کچھ دیا جو مصوری کی تاریخ کے لیے از حد ضروری تھا ،لیکن معنی کے جہان کو اپنی تصویروں سے جلا بخشنے والے کوئی اور تھے۔ اس میں مایوسی کا پہلو نہیں کہ مصوری کی بو قلمونی کا راز اسی امر میں مضمر ہے۔
ان تمام تصویروں کے علاوہ تصویر کی دنیا میں مجھے ایک خاص تصور مصوری یعنی Cubismنے اس حد تک متاثر کیا کہ میں حیران رہ گیا۔ حالاں کہ یہ ایک خاص طرح کی تحریک کا حصہ ہے مگر اس یورپی تہذیب سے قطع نظر اس نظام مصوری پر غور کرو تو عرب اور ایران کی ان دنیاوں کی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں جن کا تذکرہ ابن الاثیر اور ابن خلدوں وغیرہ نے اپنی تاریخوں میں کیا ہے۔ یہ بات غالباً کم لوگوں کو معلوم ہو کہ ایک خاص طرح کی مربع نما تصویروں کو بنانے کا رواج یورپ سے کئی سو برس پہلے عرب میں تھا اور اسی کے زیر اثر وہ ایران میں بھی رائج ہوا۔ کعبے کی تعمیر بھی اسی لیے مربع نما شکل میں ہے کیوں کہ ابراہیم خلیل اللہ کے زمانے میں دنیا کو دیکھنے کا طرز ہی مربع نما تھااورقرآن کا ابتدائی متن بھی ایک خاص مربع نما شکل میں ہی لکھا ہوا ملتا ہے۔ خیریوں تو مربع نما عمارتوں کا رواج عرب سے بھی کئی ہزار برس پہلے ہندوستان میں تھا اور ہڑپا اور موہن جوداڑوجس کی نمایاں مثالیں ہیں۔ مگر اس کو تصویر پر سب سے پہلے عربوں نے ہی اتارا۔بعض خداوں کی مورتیاں عرب سے قبل یونانیوں کے یہاں مربع نما شکل میں ملتی ہیں ۔ مگر ان کا اثر تاریخ میں اتنی دور تک زندہ نہیں رہا جتنا عربوں کا ہے۔
بہر کیف تجریدی آرٹ میں مربع نما صورتوں سےبڑے پیمانے پر کام لیا گیا اور اس طرز کی مشہور تصویروں کو آج سے ہزار برس بعد بھی دیکھا جائے گا تو بالیقین ان میں ایسی ہی جازبیت اور معنوی تہہ داری پوشیدہ نظر آئے گی جیسیPicassoکے عہد مصوری سے اب تک اسی طرح قائم ہے۔
تصویروں کے بنے کا اور ان کے تصویر کی دنیا سے باہر قدم رکھنے کا نمونہ بھی کچھ کم دلچسپ نہیں۔ یہ بات عام طور پر ہم سب جانتے ہیں کہ ہر بڑی عمارت کا نقشہ پہلے پہل تصویر میں ہی تیار کیا جاتا رہا ہے۔ عمارتوں سے قطع نظر دھن راج بھگت کی وہ تمام تصویریں جو National Gallery of Modern Art (دہلی)میں موجود ہیں ۔ان پر نظر جماو تو تصویر کے کلبلاتے وجود کی پیدائش کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ دھن راج بھگت ایک عظیم فن کار تھے جنہوں نے کسی ایک زاویے اور ایک مادے تک تصویروں کی دنیا کو محدود نہیں کیا بلکہ مادے کی مختلف دنیاوں سے جدید عہد، ہندوستانی تاریخ، موجودہ مسائل، نوآبادیاتی جنوبی ایشیا ، مابعد نوآبادیاتی حالات، تصور آزادی، تانثیت اور منافق تہذیب کے انسان کی شکلیں وضع کی ہیں۔اس فن کار نے اپنے طور پردنیا سے بہت کچھ کہنے کی کوشش کی جن کی ایک ایک تصویر کےسامنے گھنٹوں نظریں جمانے کے بعد اس کی آفاقیت کا علم ہوتا ہے۔ دھن راج بھگت کی مصوری کا نمایا ں پہلو یہ ہے کہ انہوں نے اپنے باطن کی آوازوں کو تصویر کی دنیا میں خلق کیا ہے۔ کوئی ایک خیال ایسا نہیں جس میں کئی کئی خیال مضمر نہ ہوں۔ ان کا Cosmic manاس کی نمایاں مثال ہے۔ ایک شخص جس کو مذہب، تہذیب اور کائنات کی توسیع کا ادراک حاصل ہے، جس کے باطن میں الگ الگ معاشرتوں کا دریا اتر رہا ہے اور جس کے ہونے کا احساس خود اسی کو گم کیے دے رہا ہے۔ جس کی اپنی کوئی شناخت نہیں ، جو بھیڑ میں ہے مگر اپنے ہونے کے احساس کے ساتھ انسانوں کے غول میں کہیں کھوتا چلا جارہا ہے۔ Cosmic man اس بات کی زندہ مثال ہے کہ اسے بہت سے مسائل در پیش ہیں۔ پھر بھی وہ ہنستا ہے، جیتا ہے اور مستقل جیتا چلا جاتا ہے۔غالب نے کہاتھا:
غم ہستی کا اسد پھر سے ہو جز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک
دھن راج گیر کاCosmic manاصلاً ایک پتھر کا پتلا ہے،مگر اس کو تصویر کی دنیا میں اس لیے شامل کیا جاسکتا ہے کیوں کہ ان کاذہن ایک مصور کا ذہن تھا۔ انہوں نے اپنی بیش تر تخلیقات کو لوہے، لکڑی ، پی او پی اور پتھروغیرہ جیسے دوسرے مادوں میں رقم کرنے سے پہلے کاغذ پر تحریر کیا ہے جس کی تصویریںArt National Gallery of Mordenکی دیواروں پر چسپاں ہیں۔
ان کی مختلف تصویروں میں معنی کی اتنی پرتیں ہیں کہ زیادہ تر کو انہوں نے کوئی نام ہی نہیں دیا ہے ، اس کے علاوہ Duel Personalityجیسی تصاویر بھی اتنی کثیر الجہات ہیں کہ انسانی اوصاف کی توضیح کرتی معلوم ہوتی ہیں۔ Duel Personalityکی ایک خاص بات اور ہے کہ اس کا وہ حصہ جسے مصوری کی اصطلاح میں Alteration Partکہا جاسکتا ہے۔ وہ کہیں نظر نہیں آتا۔ ایک شخص جو دو مزید لوگوں کو خود میں داخل ہونے سے روک رہا ہے یا یوں سمجھا جائے کہ وقتاً فوقتاً چہرے تبدیل کر رہا ہے وہ ہر زاویے سے ضروری معلوم ہوتا ہے۔ کسی حصے کو اس تصویر سے بے دخل نہیں کیا جاسکتا۔ جیسا کہ ان کی بعض نسوانی تصاویر میں نظر آتا ہے۔یہ خاصیت ان کئی ایک مصوروں کے یہاں نظر آتی ہے” جن کی تصویر کا کوئی جز بے کار محض یا دوسرے اجزا سے الگ اپنا کوئی وجود نہیں رکھتا ہو”ایسی صورت حال نظر آئے۔ مجھے تو اونندر ناتھ ٹیگور جو کہ مشہور بنگالی شاعر ربیندر ناتھ ٹیگور کے بھتیجے تھے ان کی The Passing of Shah Jahanمیں بھی یہ ہی صورت حال نظر آتی ہے۔ حالاں کہ وہ بہت سے دیکھنے والوں کو کچھ خاص معلوم بھی نہ ہو۔ تصویر کو دیکھنے کا ہنر اس سلسلے میں انسان کی معاونت کرتا ہے۔ کون سی تصویر کس زاویے سے دیکھی جائے اس سے زیادہ اہم ہے کسی تصویر کو مستقل دیکھنا۔ جب تک کوئی تصویر آپ کے شعور کا حصہ نہیں بن جاتی تب تک اس میں سے کسی ایک معنی کا انتخاب ایسا ہی ہے جیسے آپ نے ابلے ہوئے گوشت کو بنا نمک کے چبا لیا اور یہ بات بھی مجھ پر انہیں دنوں کھلی ہے کہ تصویروں کو دیکھنے کا عمل خاصہ صبر طلب ہے۔
اوپر میں نے اونندر ناتھ ٹیگور کی جس تصویر کا تذکرہ کیا اس سے مجھے شاہی محلات کے ان مخصوص لمحات کی تصاویر کی یاد آ گئی جن میں ایک راجہ یا بادشاہ اپنی محبوبہ یا بیگم کے ساتھ وصل کر رہا ہے۔ یا کم سے کم درجے میں پیار محبت کی باتوں میں مصروف ہے۔ ایسے لمحوں کی تصویر بنانا ایک ناممکن سا امر ہے کہ شاہی محلات میں ان لمحوں میں بادشاہ کی خواب گاہوں کی جانب کوئی نہیں جاتا تھا۔ لیکن مصوری کی تاریخ میں ایسی تصویر یں بھی موجود ہیں جن کو اجتماعی طور پر کئی مصوروں نے کئی برسوں میں مل کر بنایا ہے۔ ایسے کسی ایک لمحے کو بنانے میں انہوں نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر ان لمحات کا چھپ کر دیدار کیا اور مختلف اوقات میں مختلف مصوروں نے اسے دیکھا اور دھیرے دھیرے اسے کینوس پر اتارا اور نہایت صبر اور تحمل سےایک لمحے کو تراشنے میں وہ کامیاب رہے۔ ایسی کچھ تصاویر بھی ان سترہ ہزار تصاویر کے ساتھ NGMAکی دیواروں پر ٹنگی ہیں جس میں مصوری کی تاریخی داستانیں رقم ہیں۔
کیمرے کی ایجاد کے بعد تصاویر کا ایک عمومی رجحان عام ہو گیا ہے، اب ہم اس عہد میں جی رہے ہیں جہاں ہمیں اپنی تصویر لینے کے لیے کسی اور کی محتاجی نہیں ۔یہ سیلفیز کی دنیا ہے۔ اسی لیے تصویر سے ہمارارشتہ خواہ ظاہری طور پر مضبوط ہو اصلاً کمزور ہو گیا ہے۔اب ہماری یونیورسٹیز میں تصویر کے فن کو پڑھایا جاتا ہے۔ کیمرے کی تکنیک پر خاص موضوع کے طور پر بہت دھیان دیا جاتا ہے۔ لیکن تصویر کے Digitalizationکے بعد ہم تصویر کے معاملے میں ایک مخصوص دائرے میں ایک حد تک ہی سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ عوام میں اچھی اور بری تصاویر کا تمیز نہیں۔ میں جب کسی ہندو چائے بنانے والے یا بال ترشنے والے کی دکان پر جاتا ہوں او ر انتظار کے لمحوں میں اس کی دکان پر لٹکے ہوئے کیلنڈر پر چھپی ہندو تہذیب کی مختلف تصاویر دیکھتا ہوں تو ان میں مجھے ایک نوع کی بے رونقی کا احساس ہوتا ہے۔ جبکہ اسی کے بالمقابل مہابھارت ااور رامائین کے چندمخصوص لمحوں کو مصوروں کے شاہکاروں میں دیکھتا ہوں تو ان سے اپنے ایک گہرے رشتے کا احساس ہوتا ہے۔ ڈجیٹل دنیا میں تہذیبی بیزاری کس طرح پیدا ہوئی ہے اس کی یہ ایک ادنی سی مثال ہے کہ جن ذہنی معراج اور طاقت کی نشانیوں کے ہمارے اساطیری کردار خوگر ہیں ان کو مصنوی تصاویر سے کسی طور پیش نہیں کیا جاسکتا، اس کے لیے از حد ضروری ہے کہ کوئی شخص دنوں، ہفتوں اور مہینوں تک اپنی فنی مہارت سے انہیں تراشے۔مثلاً راجہ روی ورما کی سرسوتی،رام،شانتنو اور ستیہ وتی،جٹایو اور راون اور شری کشن وغیرہ۔فلم کی دنیا میں ایسی تصویریں کامیاب ہوجاتی ہیں، لیکن مصوری کی دنیا میں نہیں۔البتہ ایک اچھی خبر یہ ہے کہ ابھی حال ہی میں دنیا کی سب سے پہلی ایک بالکل نئے انداز کی فلم نبی ہے۔ جسے یورپ کی بہترین اطالوی فلم کا خطاب ملا ہے ۔یہ فلم 2017 میں بنی ہے اور اس کا نام ہے Loving Vincent۔اس فلم میں 65 ہزار فریم ہیں جنہیں ایک سال میں 125مصوروں نے بنایا ہے۔ جس میں عظیم ڈچ پینٹر Vincent van Goghکی زندگی کے متعلق بتایا گیا ہے۔ یہ فلم ایک سوانحی ڈرامہ ہے جس میں خود فنکار کو پینٹ کیا گیا ہے اور اس نے خود اپنا کردار ادا کیا ہے۔ اس مووی سے فلم کی دنیا میں ایک عظیم تبدیلی کا امکان پیدا ہوا ہے ۔ عین ممکن ہے کہ ہم جلد ہی اس طرح کی فلموں کی جانب بڑھیں۔کیا ہی خوب ہو کہ ایسی سوانحی فلموں میں ہم اکبر کو دیکھیں، اورنگ زیب کو شکسپیر کومیر کو اور نواب واجد علی شاہ کو۔ مستقبل سے کچھ بعید نہیں کہ میں نے ابھی پچھلے دنوں وحید الدین خاں کے ایک لکچر میں سنا تھا کہ ہماری جسم کی حرارت کو محسوس کر کے ہماری بیس سے بائیس منٹ قبل کی تصویر اتارنے والا ایک کیمرا ایجاد ہو گیا ہے۔ ایسے کسی پروگرام میں اگر ترقی ہوئی تو عین ممکن ہے کہ ہم مستقبل میں کسی بھی تاریخی شخص کی حقیقی زندگی کو پورے طور پر کھنگال لیں۔ بہر کیف میں نے Loving Vincentکو تخلیق کی سطح پر ایک عظیم شاہ کار کے طور پر دیکھا اور مجھے حیرت ہوئی کہ انسانی ذہن تصویروں کے ساتھ سفر کرتا ہو کتنا آگے آ گیا ہے اور تصاویر سے اس کی داخلی دنیا کا کیسا گہرا رشتہ قائم ہواہے۔
مجھے جن مصوروں کی تصویروں نے بہت کچھ سوچنے کی دعوت دی ان میں تھومس ڈینیل،نند لال بوس،ایم ، اے آر چغتائی،جورج کیٹ،میرا مکھرجی،جامینی رائے اور ایس ،ایچ رضا وغیرہ شامل ہیں۔ انہیں میں ایک نام میرے عزیز شمیل حسین صاحب کا بھی ہے جن کی تصویروں کو میں اکثر دیکھتا ہوں۔تھومس ڈینیل کی تصویروں میں مجھے سنبھل کی جامع مسجد نے خاصہ متاثر کیا لیکن ان کی اصل شناخت میرے نزدیک ان کی اس تصویر سے قائم ہوتی ہے جس میں انہوں نے ایک ڈوبتے ہوئے شخص اور جہاز کو بہت مہارت سے پینٹ کیا ہے۔ اس تصویر کا نام ہی A man overboardہے جو انہوں نے 1810 میں اپنے بھتیجے ولیم ڈینیل کے ساتھ مل کے بنائی تھی۔ نند لال بوس کی وہ تصویرجس میں ایک جوان عورت بھیگی ساڑھی میں ملبوس جنگل کی طرف منہ کیے کھڑی ہے جس کی وجہ سے صرف اس کی پشت نظر آ رہی ہےاس میں کمال کی فن کاری کا مظاہرہ کیا گیا ہے،جنسی حالت کا اعادہ کرنے کے لیے یہ تصویر ان ہزاروں برہنہ عورتوں سے زیادہ متاثر کن ہے جن کی برہنہ تصویریں یوروپین پینٹرس نے بنائی ہیں۔ حالاں کہ اس کے علاوہ بھی اس تصویر میں کئی ایک چیزیں ہیں مگر اس کا یہ پہلو تصویر میں خاصہ نمایاں ہے۔ ایم، اے ،آر چغتائی کی لیلہ اور رادھیکا،جورج کیٹ کی تقریباً 20 سے زیادہ تصاویر جن میں اعلی درجے کی مصوری کا نمونہ پیش کیا گیا ہے۔ جورج کیٹ ایک عظیم سری لنکن فن کار تھا جس نے مصوری میں بہت سے نئے شاہکار تراشے۔ اس کے متعلق مشہور شاعر پبلو نرودا نے لکھا تھا:
“Keyt I think is the living nucleus of a great painter. In all his works, there is the moderation of maturity. His figures take on a strange expressive grandeur, and radiate an aura of intensely profound feeling.”(artist.christies.com)
ان کے علاوہ ان چند جنوب مشرقی ایشیائی مصوروں کی مختلف تصاویرجن میں مقبول فدا حسین،میرا مکھرجی،جہانگیر سبروال،فرانسس نیوٹن اور سید رضا حیدر کا شمار ہوتا ہے اور لندن کی 11 جولائی 2013 کی ایک رپورٹ کے مطابق جن کی تصاویر اور مجسمےچالیس کروڑ کے فروخت ہوئے تھے۔ میرا مکھرجی کا شاہکار Balanceحالاں کہ ایک متعین معنی کے ساتھ ہے۔ لیکن اس کی ایک اور خاص بات مجھے یہ لگی کہ اس میں مرد اور عورت کی زندگی کے طے شدہ اصولوں کو وضع کیا گیا ہے۔ عورت کا کام اس طرح سے مسائل کی مٹکیوں کو ڈھوتے چلے جانا ہے جس سے اس کے حسن پر حرف نہ آئےاور جس میں ہر عورت ایک جیسی ہے خواہ وہ قدیم ہو یا جدید اور مرد کا مقدر زندگی میں اعتدال پیدا کرنا ہے۔ خواہ وہ کسی بھی سطح پر ہو ۔نئی معاشرت میں اس ضرورت کو محسوس کیا گیا ہے ۔ مرد اور عورت دونوں کے کاموں کی تقلیب ہو گئی ہے، یہ عمل انسانی زندگی میں لطف تو پیدا کرسکتا ہے ، مگر دائمی نہیں ہو سکتا۔میرا مکھرجی نے 60 اور 70 کی دہائی میں میٹل کرافٹ کا فن سیکھا تھا جس پرانہوں نے ایک کتاب Craftsmen of Indiaکے عنوان سے تحریر کی۔ آخر میں سید رحیدرضاکی geometric abstractionکی ان چند صورتوں نے بھی اپنی گرفت میں لیا جن کورنگوں کی بوقلمونی کہا جا سکتا ہے۔
تصویروں کے مختلف النوع نظریات رہے ہیں ،ایسے جن کے ذیل میں کسی بھی تصویر کو سمجھنے میں آسانی پیش آتی ہے۔ وہ تمام تصویریں جن کا کوئی نہ کوئی سیاق ہے،خواہ وہ ہندوستان میں کمپنی سرکار کی دلچسپیاں ظاہر کرتی ہوں یا مابعد نوآبادیاتی ہندوستان کی تاریخ کا ایک لمحہ ہوں،انقلاب فرانس کی نمائندہ ہوں یا اسلامی تہذیب کا خوگر۔ ایک عام انسانی خیال ہو یا کسی مزدور عورت کی جوانی کا راز ان سب کو ہمیں اپنی دو آنکھوں سے دیکھنا چاہیے، ایک آنکھ وہ جس میں معنی کا اصل پرتو ہو مگر دوسری آنکھ وہ جس میں معنی کی کوئی متعین تصویر نہ ہو۔ ایسے میں ہم Old Sculpturesسے New Miniatures اور Oil Paint سےWater Paintتک سب کی متنوع معنیات سے دوچار ہوں گے۔تجریدی آرٹ ہو یا غیر تجریدی Cubismہو یا Expressionism،Landscape Imagesہوں یا Pop Artسب کی معنیات کی منطق کا ایک نیا سراغ ملے گا۔ میں ادب کا ایک طالب علم ہوں اس لیے جانتا ہوں کہ کسی تحریک سے کسی متن کو وابستہ رکھنا درست نہیں ۔متن ایک آزاد خیال ہوتا ہے اس کو قید کرنے سے اس کی روح مر جاتی ہے۔ جس خیال کی بہت ہی اعلی مثال بیدی کے اس ڈرامے سےہمیں ملتی ہے جوانہوں نے روح انسانی کے عنوان سے لکھا تھا۔ روح کی سب سے بڑی سزا اس کی قید ہےچہ جائے کہ ایک تخلیق کار کی روح جو بیک وقت کئی ارواحوں کا ملغوبہ ہوتی ہے۔ ادب میں کئی تحریکیں رائج رہی ہیں اور مصوری میں تو اس سے بھی زیادہ نظریات رائج ہوئے۔ لیکن کسی تصویر کا صرف ایک رخ نہیں ہوتا اس کا پہلا رخ خواہ عام ہو مگر تصویر کا اصل رخ اس کا دوسرا رخ ہوتا ہے۔میں نے زیادہ تر تصاویر کے اسی دوسرے رخ کو دیکھنے کی کوشش کی ہے۔لہذا اس کوشش سے مجھے حقیقت کی نئی معنویت کا سراغ ملا۔ اس نے مجھے سوچنے کی تحریک دی اور سطحیت سے پاک رکھا۔ یہ بات بہت اہم ہے کہ اگر ہم کسی تخلیق کار کی کوئی چیز اپنے مشاہدے میں لا رہے ہیں تو اس کے متعلق ایک بات ہمیں اولین صورت میں سمجھ لینا ہوگی کہ یہ ہمارے تمہارے جیسے انسانوں کی بنائی چیز نہیں بلکہ ایک سوچتے ہوئے گرم دماغ کی اپج ہے اس میں معنی کی دیواروں کا کوئی دخل نہیں۔اس کو مقید کرنا خود کو مقید کرنے کے مترادف ہے۔ ایک عورت جس کے بدن پر پھٹی ہوئی ساڑی ہے اور بے رونق بلاوز، جس کے بال بکھرے ہیں اور آنکھوں کی گگر پہ کیچڑ جمی ہوئی ہے ، جس کے ہاتھ بھدے ہیں اور پاوں لاغر ایسی تصویر میں حسن کی رمق ایک تخلیق کارپیدا کرتا ہے، اس تصویر میں وہ ایسے کونے تراشنے کا ہنر جانتا ہے جس سے انسان کی نگاہوں میں تصویر کے اجلے مناظر سما جائیں اور وہ تصویر کے بدنما Spotsپر نظر جما ہی نہ پائے۔ قاری ذہین ہو تا ہے ، سامع چالاک ہوتا ہے اور ناظر شاطر ہوتا ہے، مگر ایک تخلیق کار ان تینوں کا آمیزہ ہوتا ہے۔ وہ کسی خواب کی دنیا کا باشندہ نہیں ہوتا بلکہ حقیقی دنیا کو اتنا سمجھ چکا ہوتا ہے کہ اس کی حقیقتوں کا راز اس پر ظاہر ہو جاتا ہے، لہذا اسے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی دماغ کیسے کام کرتا ہے، کن چیزوں سے آسودگی حاصل کرتا ہے اور کن باتوں پر اسے اپنے آپ سے شرم آتی ہے۔ ایک تخلیق کار انسان کو اس کی حقیقت کا آئینہ ایسے جام جمشید کی صورت میں عطا کرتا ہے جس کو نہ اسے دیکھے بنتا ہے اور نہ اندیکھاکیے۔ ایک مصور کا ذہن بہت دور تک سوچتا ہے ،اتنی ہی دور تک جتنی دور کا ہالی ووڈ کی مشہور فلم Perfumeمیں مرکزی اداکار کی ناک سونکھتی ہے۔ جس طرح ایک پیڑ کے تنے پر بیٹھ کر وہ پانی میں پیدا ہونے والے میڈک کے انڈوں کی مہک کو سونگھ لیتا ہے اسی طرح ایک مصور عوام کی آنکھیں دیکھ کر ان کی دلچسپیوں کا منظر جان لیتا ہے۔ کوئی مصور خواہ کسی تصویر کو کتنے ہی زاویوں میں بنائے اور انسانی معاشرت کے کتنے ہی بے ہنگم قاعدوں کو توڑنے کی سعی کرے اسے اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ جن خطوط پر وہ کام کررہا ہے اسے کتنے وقت میں قبول کیا جائے گا اور کتنے عرصے تک اس کو قبول کیا جاتا رہے گا۔ ایک سچا فنکار خدا کا بیٹا ہوتا ہے،جس کے پاس شو کی تیسری آنکھ ہوتی ہے ،اسے احمق اور پاگل سمجھنےوالا معاشرہ خود کم علم اور کم فکر ہوتاہے۔لہذا مصوری کے باب میں کسی ایک مصور کو کسی ایک دنیا کا مسافر نہیں سمجھنا چاہیے اور نہ اسے اپنی دلچسپیوں کے مطابق آنکنا چاہیے ، بلکہ اس کے خیالات کی توسع کو سمجھنا چاہیے اور اس بات کی کوشش کرنا چاہیے کہ اس کی تصاویر میں چھپے اس دوسرے رخ کا ادراک حاصل ہوسکے جس کو صرف بصیرت کی آنکھ سے ہی دیکھا جا سکتا ہے۔