بجّو
امتیاز رومی
حسن پورگاؤں کے چوراہے پرایک بھیڑجمع تھی۔بچے بوڑھے جوان سبھی حاضرتھے۔مانوپوراگائوں اس چھوٹے سے چوراہے پرآگیاتھا۔ہرایک کے چہرے پرخوف وغم کے آثارنمایاں تھے۔مجمع پرسناٹے کاعالم۔۔۔گویامنہ میں زبان نہیں۔
’’بھائیو!ہمیں اس مسئلے کاحل ڈھونڈنا ہوگا،ہمیں اس مصیبت سے نجات پاناہوگا،اب ہم اسے ہرگزبرداشت نہیں کرسکتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایسی ذلیل حرکت کون کرسکتاہے؟‘‘خاموشی توڑتے ہوئے ایک خوب رونوجوان نے کہااورمجمع پرسوالیہ نظردوڑانے لگا۔
’’کسی جانورکاکام ہوسکتاہے‘‘مجمع سے ایک شخص نے کہا۔
’’بھیڑیاہوسکتاہے‘‘ایک آدمی نے اس کی وضاحت کی۔
’’بھوت پریت ہی یہ کام کرسکتاہے‘‘ایک نسوانی آوازآئی۔
’’یہ بجوّکاکام ہے‘‘ایک نوجوان نے کہا۔
’’یہ کسی آدمی ہی کی حرکت ہوسکتی ہے‘‘ایک معمراورتجربہ کارشخص نے کہا۔
دراصل حسن پورگاؤں میں آج کل مردوں کی چوری چل رہی تھی۔ دن میں لاش دفن کردی جاتی اورصبح تک غائب ہوجاتی۔وہ بھی صرف کم سن بچے اورنوجوان عورتوں کی۔ بوڑھے اپنی قبروں میں محفوظ تھے۔وباکی وجہ سے موت بھی کثرت سے واقع ہورہی تھی۔ہردوسرے تیسرے دن کسی نہ کسی کی موت ہوجاتی۔
اس نازک مسئلہ کے حل کے لیے گائوں والوں نے دس لوگوں پرمشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی۔۔۔صدراسی نوجوان کوبنایاگیا۔یہ نوجوان کچھ دن پہلے اس گاؤں میں آیا تھا۔ابھی سنگل تھااورایک کرایہ کے مکان میں مقیم تھا۔شاطرانہ ذہنیت سے گائوں والوں کواپناہمنوابناچکاتھا۔بڑے بوڑھوں کے ساتھ اٹھنابیٹھنااورمشورہ دینااس کامحبوب مشغلہ تھا۔بڑے بوڑھے بھی اس کااحترام کرتے سوائے اس معمراورتجربہ کارشخص کے۔۔۔۔اس کی نظروں میں یہ ہمیشہ کھٹکتا۔اس طرح کاواقعہ گائوں میں پہلی باررونماہواتھا۔
نوجوان اپنی ٹیم کے ساتھ رات بھرقبرستان کی نگرانی کرتا۔اب لوگوںکواطمینان ہوچلاتھا کہ یہ ناگہانی بلاٹل گئی۔چنددنوںکے بعد ایک نوجوان لڑکی کی موت ہوگئی۔نوجوان کفن دفن میں پیش پیش تھا۔رات کوپوری مستعدی کے ساتھ قبرستان پہنچا۔سارے لوگوں کوعلاحدہ علاحدہ تعینات کرکے خود قبرستان کے پوربی کونے پرچلاگیا،جہاںسے ایک پگڈنڈی ندی کی طرف جاتی تھی۔دسمبر کامہینہ تھا۔چاندنی رات تھی ۔تاہم کوہاسے نے چاندکواپنی آغوش میں چھپالیاتھااورتاریکی نے اپناڈیراڈال دیاتھا۔برف میں لپٹی ہوئی ہوائیں چل رہی تھیں جوکانوں کوچھوتی ہوئی سائیں سے گزرجاتی ،رات کی تاریکی میں ایک مہیب صدامحسوس ہوتی اورپورابدن کانپ اٹھتا۔ہردم یوں محسوس ہوتاکہ پیچھے سے کوئی دھکادے رہاہے۔نوجوان نے لوگوں کامعائنہ کیااورپھراپنی جگہ واپس آگیا۔آہستہ آہستہ رات کی تاریکی نے اپنانقاب ہٹاناشروع کیااورسامنے کی چیزیں نظرآنے لگیں۔۔۔قبرکھلی ہے اورلاش غائب۔۔۔۔۔۔۔
’’تم سب کہاں تھے؟؟تمہاری موجودگی میں لاش کہاں غائب ہوگئی؟؟‘‘نوجوان نے مواخذہ کے اندازمیں کہا۔
سب نے ایک دوسرے کوسوالیہ نظروں سے دیکھااوربیک زبان کہا’’ہم لوگوں نے توکوئی کوتاہی نہیں کی،ہماری موجودگی میں توکوئی نہیں آیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔کوئی جانوربھی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔،یہ۔۔۔۔۔۔’’بھوت پریت ہی کی حرکت ہوسکتی ہے‘‘نوجوان نے خود ہی اس کاجملہ پوراکردیا۔
صبح کوکمیٹی کے ممبران نے پہلے ہی بھوت پریت کی حرکت بتاکرگائوں والوں کوخوف زدہ کردیا۔گائوں والوں نے اس کا یقین بھی کرلیااوردوسرے دن سے قبرستان جانابند۔
کوئی ایک ہفتہ بعد چودھری صاحب کی نئی نویلی دلہن کاانتقال ہوگیا۔کفنانے دفنانے کے بعد لوگ اپنے اپنے گھروں کولوٹ گئے۔سارے لوگ اس واقعے کوبھول چکے تھے۔لیکن وہ معمرشخص ابھی نہیں بھولا تھا۔شام ہوتے ہی وہ ،نوجوان کے تعاقب میںلگ گیا۔جب سارے لوگ سوگئے تب نوجوان اپنے گھرسے نکلا۔ بوڑھابھی اس کے پیچھے ہولیا۔چاند بادلوں کی اوٹ میں چھپ گیاتھا۔البتہ جھلملاتے ستارے کبھی کبھی جھانک لیاکرتے تھے۔نوجوان سیدھاقبرستان پہنچااورادھرادھردیکھنے کے بعداس تازہ قبر کی مٹی ہٹانے لگا۔بوڑھے نے دیکھ کرشورمچاناچاہا۔لیکن حقیقت جاننے کے لیے خاموش رہا۔نوجوان پرجیسے جنون طاری ہو۔منوںمٹی اس نے تھوڑی ہی دیرمیں ہٹادیا۔اب اس کے چہرے کی شادابی بڑھتی جارہی تھی۔جلدی سے کفن ہٹایااورننگے بدن کوچومنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھرلاش کواٹھاکردریاکی طرف چل دیا۔بوڑھے کی حیرانی اورغصہ بڑھتاجارہاتھا۔لیکن انجام کی دریافت نے اسے خاموش رکھا۔دریاکنارے پہنچ کرنوجوان نے لاش کوزمین پررکھااوراس کے ننگے بدن پرٹوٹ پڑا۔بوڑھاپرسکتہ طاری ہوگیا۔آگے بڑھ کرسرپرلاٹھی مارناچاہالیکن ہاتھ سن ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔۔چیخناچاہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگرزبان گنگ ہوگئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’سالابجوّ۔۔۔۔۔۔حرام زادہ بجوّ۔۔۔۔۔تجھے زندہ نہیں چھوڑوںگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔تجھے زندہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بوڑھے کے حلق میں جملہ پھنسارہ گیااوروہ دھڑام سے گرگیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امتیازرومی
جوہرلعل نہرویونیورسٹی نئی دہلی
9810945177