You are currently viewing آخری سواریاں

آخری سواریاں

(نام کتاب: آخری سواریاں(ناول

تخلیق کار:سید محمد اشرف

ناشر:عرشیہ پبلی کیشنز،دہلی

سن اشاعت:2016

250 قیمت:

مبصر:محمد محسن رضا مصباحیؔ

ریسرچ اسکالر،جواہر لعل نہرو یونیورسٹی،نئی دہلی

mohsinrazajnu@gmail.com

اردو  فکشن کی دنیا میں سید محمد اشرف کی شخصیت محتاج تعارف نہیں۔ ایک طویل عرصے کے بعد ان کا ایک اور تخلیقی شاہکار ‘‘ آٓخری سواریاں’’ ناول کی ہیت میں شائع ہوکر منظر عام پر آیا۔اس ناول نےادبی دنیا میں  نہ صرف ہمارے انتظار کے تسلسل اور صبر کے باندھ کوتوڑابلکہ بہت حد تک ہماری ادبی تشنگی کو کم کرنے کی کوشش کی ۔ادبی دنیا میں  ناول ‘‘ آخری سواریاں ’’ کا  انتظار اسی شدت کے ساتھ کیا جا رہا تھا جس شدت سے آمد ورفت کے لیے آخری سواری کا کیا جاتا ہے۔اس انتظارکی وجہ ہماری وہ امیدیں تھیں جو ہر آنے والی آخری سواریوں سے وابستہ ہوتی ہیں۔ مگر جوں ہی ناول کےسر ورق پر نظر پڑتی ہے  ، ہماری امیدوں کا قلعہ سر نگوں ہو جاتا ہے اور تحویل قبلہ سے دوچار ہونا پڑتا ہے ۔کیوں کہ سر ورق پر چھپی تصویر ہی اس بات کی  پیشن گوئی  کر دیتی ہے کہ کہ اندرونی صفحات پر بکھرے ہوے خوشگوار لمحوں کی یادداشت،تاریخی ،تہذیبی، لسانی ،ادبی ،ثقافتی،سوانحی  حقائق اور واقعات آنے والی سواریوں پر نہیں بلکہ جانے والی اور جاکر ،کبھی نہ لوٹنے والی سواریوں پر سوار ہیں۔

‘‘ آخری سواریاں’’ شاید ایک نیم تاریخی اور نیم سوانحی ناول ہے۔جو بچپن کے چند خوشگوار لمحوں کی یادداشت،کچھ تاریخی حقائق اور ایک سفرنامے پر مشتمل ہے۔انہیں تاریخی واقعات اور حقائق کی روشنی میں ہمیں ہمارے شاندار ماضی اور اسلاف سے جوڑنے کی کوشش کی گئی ہے۔ماضی سے جوڑتے ہوےعصر حاضر میں ہماری سیاسی ، سماجی،معاشی،ادبی ،لسانی ،تہذیبی ،ثقافتی صورت حال کو موضوع بنایا گیا ہے ۔ اوررو بہ زوال بنیادی اقدار اور مشترکہ کلچر کا عکس ماضی کے آئینے میں دکھانے کی کوشش کی ہے۔

 ہمارے شاندار ماضی کی طرح 208صفحات پر پھیلے ہوے  ناول کا بیشتر حصہ ذات پات ،مذہب و ملت اور رنگ ونسل کے امتیاز سے پر ے  مشترکہ تہذیب و ثقافت کی مثالوں سے لبریز لمحات اور واقعات پر مشتمل ہے۔ جن میں  سات سالہ اکرم میاں(چھوٹے میاں) کا جموں (جمیلہ) اور شاردا سے دلی اور نفسیاتی لگاو،شام لال کی بیٹی کی شادی کے مذہبی رسوم،اماں کے ذریعہ بیوہ کے لیے خریدا گیا لالٹین کو راہزنوں کے ذریعہ لو ٹنا، پھر سرپنچ کا دوسرا لالٹین لاکر دینا اور لالٹین کے تلاش کی جھوٹی کہانی کو سچ بنا کر پیش کرنا، جنم اشٹمی کا میلہ،  کشتی کامقابلہ اور اس مقابلے کی آمدنی سے غریب لڑکیوں کی شادی کا انتظام کرنا،اس میلہ کےمذہبی رسوم کے بقا کے لیے مسلمانوں کا فکر مند ہونا اور بارش کے لیے نماز استسقا قائم کرنا جیسی واقعات ہمارےگنگ وجمنی تہذیب وثقافت اور مشترکہ کلچر کی بہترین مثالیں ہیں جو پہلے آہستہ آہستہ اور اب بڑی تیزی سے آخری سواریوں پر سوار ہو کر ہم سے رخصت ہو رہے ہیں۔آخری سواریوں کا منظرذرا ملاحظہ ہو:

‘‘ سواریاں بہت تیزی سے گزر رہی ہیں ۔ایک ایک چیز نہ مجھے نظر آ رہی ہیں نہ میں بیان کر پائوں گا۔آ پ بھی تو کوشش کریں ۔ دکھیے ! وہ دیکھیے سامنے والی سواری میں ٹوٹی ہوئی محر ابیں اور کنگورے لدے ہیں۔ ان کے پیچھے والی سواری میں کٹاو دار در اور نقشین دریچے ہیں ۔منار اور گنبدوں کی سواری پیچھے آ رہی ہے۔ اور یہ جو سامنے سے سواری گزر رہی ہے،اس میں سنگھاردان ، سرمہ دانی ، خاص دان ، پان دان اور عطر دانوں کا انبار ہے۔اس کے ٹھیک پیچھے والی سواری میں عماموں ، کلف دار ٹوپیوں ، خرقوں، جبوں اور عباوں کے گٹھر لدے ہیں۔ ان کے پیچھے طوطوں اور میناوں کے پنجروں کی سواریاں ہیں ۔ وہ جو ایک سجی ہوئی سواری ہے اس میں عطر کی شیشیاں بھری ہوئی ہیں ۔اس کے پیچھے جو سواری ہے اس میں منھ سے پھونکنے والے اور ہاتھ سے بجانے والے موسیقی کے آلات ہیں۔ اور ۔۔۔۔۔۔اف! دیکھو یہ جو بالکل ہمارے پاس سے سواری گزر ی، اس میں مثنویوں،قصیدوں ،مر ثیوں،رباعیوں،بارہ ماسوں، قصوں، کتھاوں اور داستانوں کے دفتر کے دفتر کتنے پھوہڑ انداز میں لادرکھے ہیں۔ خطاطی کے بیش قیمت نمونے قدم قدم پر زمیں پہ گرتے جا رہے ہیں۔ ’’  (ص ۲۰۷)

ناول کے آخری حصے میں سلطنت مغلیہ کے بانی اور امیر تیمور کے عروج و زوال   کی کہانی تیمور کی زبانی ہے۔ اسی حصے میں  ہندوستان میں مغلیہ حکو مت کے آخری چشم وچراغ بہادر شاہ ظفر کی اسیری اور سفر رنگون(جلاوطنی) کے لیے لے جانے والی آخری سواریوں کا درد انگیز بیان ہے ۔ جس کے چشم دید خود مصنف کے پرداد حضور ہیں۔

ہمار ے زوال کے بعد سے موجودہ عہد تک مغربی تہذیب و ثقافت نے ہماری زندگی کے ہر شعبے کو جس طرح متاثر کرتا رہاہے۔ اور دن بہ دن جس طرح ہماری بنیادی اقدار اور مشترکہ کلچر کوروند تا جا رہا ہے۔اور جتنی  تیزی سے اپنی زبان وثقافت اور تہذیب و تمدن کے  ذریعہ ہم   پر مسلط ہوتا جا رہا ہے۔اس کے نتائج کی صورت میں آج ہماری ادبی ،لسانی ،ثقافتی اور تہذیبی قدریں زوال پزیر ہیں اور کبھی نہ لوٹ کر آنے والی سواریوں پر سوار ہو کر ہماری نظروں کے سامنے سے رخصت ہو رہی ہیں۔اس نازک صورت حال پر ناول نگار اپنے کرب اور بے چینی کا اظہار اپنی ذہنی اور نفسیاتی الجھنوں کی صورت میں اس قدر  فنکارنہ اندازمیں پیش کرتے ہیں کہ قاری بلکہ کوئی بھی ذی شعور انسان اپنے آپ کو اس سے الگ نہیں سمجھ سکتاہے۔

فنی اعتبار سے اس ناول میں کئی کہانیاں ہیں ۔تمام واقعات اورکہانیوں کاسرا آپس میں مربوط ہے۔ان تمام قصوں اور کہانیوں کو ملا کرمصنف نے ایک ایسا آئینہ خانہ تیار کر نے کی کوشش کی ہے جس میں ہمارے ماضی کا تابناک اور حال کا کربناک چہرہ دکھائی دے۔ ایک ناول کی کامیابی کا انحصار بہت حد تک قصے کی دلچسپی پر ہوتا ہے اور دلچسپی کے لیے قصے میں تجسس کا ہونا ضروری ہے ۔ یہ تجسس مذکورہ ناول میں اختتام تک قائم رہتا ہے۔یو ں تو سید محمد اشرف کی پہچان اور شہر ت اردو فکشن میں علامتی اور تجریدی فکشن نگار کے حیثیت سے ہے ۔ بر خلاف اس کے ‘‘ آخری سواریاں’’ بیانیہ اسلوب میں لکھا گیا ہے ۔پھر بھی اس میں تاریخی شعور کے ساتھ ساتھ علامتی پہلو بھی در آ یا ہے۔ناول کا پلاٹ ،کردارنگاری،واقعات کا تخلیقی استعمال ،زبان کی روانی اور اظہار میں بر جستگی  ناول کا فنی حسن اور فن کار کے تخلیقی قوت کا ثبوت ہے۔ بقول  قاضی عبد الستار  :

’’ آخری سواریاں‘اردو ادب کے صف اول کے ناولوں میں ایک قابل قدر اضافہ ہے اور اپنے آپ میں ایک سنگ میل’‘‘

مبصر:محمد محسن رضا مصباحیؔ

ریسرچ اسکالر،جواہر لعل نہرو یونیورسٹی،نئی دہلی

mohsinrazajnu@gmail.com

Leave a Reply