سفرنامہ ازبکستان
”امام بخاری کے ملک میں چند روز“
کی تقریب رونمائی
ہندوستانی زبانوں کا مرکز، جواہرلعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں ۲۹ جولائی کو ایک پر وقار تقریب میں پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین کی تازہ ترین تصنیف سفرنامہ ازبکستان ”امام بخاری کے ملک میں چند روز“ کی رسم اجرا ہوئی ۔ اس رسم اجرا کی تقریب کی خاص بات یہ رہی کہ تاشقند کے اردو ہند ی کے اساتذہ نے شرکت کی ۔ در اصل ازبکستان سے آئے تیرہ اردو اور ہندی کے اساتذہ کو ہندستانی زبانوں کی جانب سے استقبالیہ دیا گیا۔ان میں سے زیادہ تر اساتذہ تاشقند اسٹیٹ انسٹی ٹیوٹ آف اورینٹل اسٹڈیز کے تھے اور باقی اساتذہ لال بہادر شاستری اسکول اور تاشقند کے دیگر جامعات سے تھے یہ سب کے سب علمی اور ادبی دورے پر ہندستان آئے ہوئے ہیں ۔ پروگرام کا افتتاح کرتے ہوئے چیرپرسن پروفیسر اوم پرکاش سنگھ نے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ہندوستانی زبانوں کا مرکز کے لیے یہ فخر کی بات ہے کہ آج اتنی بڑی تعداد میں ازبکستان کے اردو ہندی اسکالرس ایک ساتھ جمع ہوئے ہیں۔
پروفیسر الفت محب صدر مشرقی زبانوں کا شعبہ تاشقند اسٹیٹ اورینٹل اسٹڈیز نے کہا کہ یہ خوشی کہ بات ہے پروفیسر خواجہ اکرام پندرہ دونوں کے لیے ہماری دعوت پر وزٹنگ پروفیسر کے طور پر تاشقند آئے تھے ، ان سے ہمارے طلبہ وطالبات اور اساتذہ نے بھر پور فائدہ اٹھایا ۔ لیکن اتنی کم مدت کے قیام میں بھی انھوں نے ازبکستا ن کا جو سفر نامہ لکھا ہے وہ حیرت کی بات ہے ہم ان کے مشاہدے کی قوت کے قائل ہوگئے ۔ ان کی تحریر سے نہ صر ف ہمارے ملک کی شہرت ہوگی بلکہ ہمارے شعبے کی بھی شہرت ہوگی۔
پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین نے اپنے خطاب میں کہا کہ یہاں ہندی اور اردو کے تیرہ اسکالرس تشریف رکھتے ہیں۔ جومختلف اداروں میں اردو اور ہندی کے استاد ہیں ، ان لوگوں کی کاوشوں سے آج ازبکستان میں اردو اور ہندی زبان کی وقعت بڑھتی جارہی ہے۔ نئی نسل ان زبانوں سے وابستہ ہو رہی ہے جو کہ خوش آئند قدم ہے۔ ازبکستان میں رہتے ہوئے میں نے دیکھا کہ اردو سیکھنے والے طلبا و طالبات کس قدر ہندوستانی زبانوں سے دل چسپی رکھتے ہیں۔اردو اور ہندی زبانوں میں ہندوستان کی صدیوں پرانی تہذیب موجودہے۔اس اہم موقع پر پروفیسر خواجہ محمداکرام الدین کی کتاب سفر نامۂ ازبکستان ” امام بخاری کے ملک میں چند روز“ کی رسم رونمائی عمل میں آئی۔اس کتاب میں ازبکستان کی تہذیب و ثقافت کو ایک اردو اسکالر کی نظر سے دیکھ سکتے ہیں۔ازبکستان اور ہندوستان کی صدیوں پرانی تہذیبی پس منظر بھی اس کتاب کا ایک اہم حصہ ہے۔
پروفیسر الفت کے علاوہ ڈاکٹر مرتضیٰ خوجائیوا مکتوبہ، ڈاکٹر صادقواموجودہ، ڈاکٹر شرماتواگلیورا، ڈاکٹر سلیمانوا معموار، ڈاکٹر ایرگاشیوا کمولہ، ڈاکٹر مرزائیوا مخرم، ڈاکٹر نصیروادلدورا، ڈاکٹر خبیبوا عزیزہ، ڈاکٹر رحمت جان کمولہ، ڈاکٹر محمد خوجائیواامیدا، ڈاکٹر ترداخونوامحیا اور ڈاکٹر ذکر و قدرت ازبکی اساتذہ موجود تھے ۔
اس پروگرام میں پروفیسر انور پاشا، پروفیسر دیویندر کامر چوبے ، پروفیسر اخلاق احمد آہن ، ڈاکٹر توحید خان، ڈاکٹر سمیع الرحمن، ڈاکٹر ہادی سرمدی کے علاوہ بڑی تعداد میں ریسرچ اسکالرس اور طلبہ وطالبات نے شرکت کی۔