You are currently viewing اقبَال کا پیغام طالبِ علموں کے نام

اقبَال کا پیغام طالبِ علموں کے نام

(اقبَال کا پیغام طالبِ علموں کے نام ( نظم ۔طلبہ علی گڑھ کی روشنی میں

                                                        محمودہ قریشی آگرہ ۔
یو۔پی۔انڈیا۔
نہیں ہے نا امید  اقبال اپنی کشتِ ویراں سے

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زر خیز ہے ساقی ۔

ملت اسلامیہ کی مٹی در حقیقت بڑی زر خیز ہے۔ بعض شخصیات ایسی ہوتی ہیں ۔جو اپنے آنے والے دور آنے والی نسلوں کو متاثر کرتی ہیں ۔اس کے نغمے ہر خاص و عام ,ہر طبقہ ہر زبان کے لوگ گنگناتے ہیں ۔
ترجمان حقیقت علامہ اقبال ایک ایسی ہی شخصیت ہیں جس نے اپنی شاعری میں انسانیت کا پیغام دیا ہے ۔ان  کا پیغام کسی ایک فرد کے لئے نہیں بلکہ عالم انسان کے لئے ہے ۔جس کا اثر آج تک قائم ہے ۔بقول رشید احمد صدیقی ۔
“حالی ماضی کے , اکبر حال کے اور اقبال مستقبل کے شاعر قرار دیے جا سکتے ہیں ۔”

گویا علامہ اقبال اپنے ابتدائی دور میں جتنے مقبول تھے آج بھی اردو ادب میں ان کا وہی مقام ہے ۔
آج ہم ان کے یوم ولادت نو( 9)نومبر کو عالمی یوم اردو کی صورت میں مناتے ہیں ۔

نہ تو زمیں کے لئے نہ آسماں کے لئے ۔
جہاں ہے تیرے لئے تو نہیں جہاں کے لئے ۔

اقبال کو شعرو شاعری سے طالب علمی کے زماے سے ہی سغف تھا ۔
انھوں نے اپنی شاعری میں۔قوم پرستی ,حب الوطنی ,احساس خودی ,جدوجہد ,عشق,اور خاص کر انسانیت کا پیغام دیا ہے ۔وہ خودی اور خودداری کے علمبردار تھے ۔۔
وہ اپنی  ملک کے لوگوں کو پیغام دیتے ہوئے کہتے ہیں ۔

نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤگے ائے ہندوستان والو۔
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں ۔

اقبال کہتے ہیں کہ جب انسان کو خودی کا احساس ہو جائے۔ یعنی اپنی پوشیدہ قوتوں کا علم ہو جائے تو پھر وہ انھیں مضبوط کریں ۔اسے اقبال استحکام خودی کا نام دیتے ہیں ۔

1905میں اقبال اعلیٰ تعلیم کی غرض سے یورپ  گئے ۔وہاں پروفیسر آرنلڈ کی صحبت میں رہ کر ان کی شخصیت میں جو نکھار آیا ۔اس سے ان کے فلسفہ کی بنیاد پڑی ۔انھوں نے مغربی تہزیب پر مشرقی تہذیب کو فوقیت دی ۔
اپنے فلسفہ میں مشرقی تہزیب کو پیش کر شاعر مشرق کہلائے وہ کہتے ہیں ۔

عمل سے زندگی بنتی ہے جنّت بھی جہنم بھی ۔
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہی ۔

کلیات اقبال میں” بانگ درا”( 1924),بالِ جبرئیل (1935),ضربِ کلیم( 1936),اور ارمغان حجاز(1938) کوشامل کیا گیا ہے ۔
زیر بحث ان کا پہلا مجموعہ بانگ درا میں شامل نظم “طلبہ علی گڑھ “ہے۔ جو اقبال نے یورپ میں قیام کے دوران 1907میں لکھی تھی ۔یورپ کے  قیام کے دوران علامہ کے خیالات میں جو تبدیلی آئی۔ اس احساس کو پیش کرنے میں  انھوں نے پہلی مرتبہ  قوم کے نو جوانوں کو مخاطب کیا ۔اس نظم سے ہی ان کے فلسفہ کی بنیاد پڑی  ۔ان کا فکرو فلسفہ ,انسان کے لئے ہی وقف ہے ۔بنی نو انسان ہی ان کی شاعری کا ممدوح رہا ہے ۔خاص کر طالب علموں کے لئے ہے ۔علامہ اقبال تعلیم کو دلچسپ  اور انسانی دوستی کو بہتر بنانا چاہتے تھے ۔ان کا پیغام صرف اس زمانے کے لئے نہیں بلکہ آنے والے ہر زمانے کے لئے ہے ۔نظم میں طلبہ علی گڑھ کو پیغام دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ جس کا پیغام چاہے جو ہو میرا پیغام انسان میں خاص کر طلبہ میں خودی کو بیدار کرنا ہے ۔یہ ہی ان کا طرز خاص ہے ۔لکھتے ہیں ۔

اوروں کا ہے پیام اور میرا پیام اور ہے   ۔
عشق کے درد مند کا طرز کلام اور ہے ۔

نظم میں طلبہ کی رہنمائی کرتے ہوئے کہتے ہیں ۔مجھ درد مند عاشق کی آواز کی پکار سنوں  ان کی یہ درد مند آواز عہد حاضر کے لئے ساز گار ثابت ہوتی ہے ۔ان کا یہ پیغام طلبہ علی گڑھ کے لئے نہیں بلکہ ہر طالب علم کے لئے ہے۔ لکھتے ہیں ۔

طائر زیر دام کے نالے تو سن چکے ہو تم ۔
یہ بھی سنو کہ نالہ طائر بام اور ہے ۔

ان کے شاعری کلام میں   انسانی زندگی کی  روداد , بے نقاب ہوتی حقیقتوں کو   ۔ ایک درد مند آواز کے ساتھ  پیش کیا گیا  ہے ۔ ان کا فلسفہ کہتا ہے کہ زندگی کا اصل لطف اس آہستہ  آہستہ گزارنے والی زندگی میں ہے ۔
وہ نظم میں طلبہ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہتے ہیں ۔یہ ایک روشن انجمن ہے ۔جو چراغ حرم سرا میں روشن ہوتا ہے ۔  ۔وہی چراغ یہاں بھی روشن ہوتے ہیں ۔ یہ چراغِ نو نہال ہمارے اس چمن کی زینت ہیں۔ یہ طلبہ ہمارے ملک و قوم کے  وہ درخشاں ستارے ہیں جو ہمیشہ چمکتے رہے گے ۔۔  یعنی جو  فصل یہاں تیار ہو رہی ہے۔ اس سے پورا ملک فیض یاب ہوگا ۔یہ صرف ایک ادارہ نہیں بلکہ ملک کا مستقبل ہے ۔ روشن مستقبل ۔یہاں کا نظام مشرقی ہونے کے ساتھ    سائنس وعلوم کا درس بھی قائم کرتا ہے ۔  یہ علم وہنر کی دولت ہی ہماری جاگیر ہے  ۔کہتے ہیں ۔

جزب حرم سے ہے فروغ انجمن حجاز ۔
اس کا  پیغام اور ہے اس کا نظام اور ہے ۔

دور حاضر میں طلبہ ان کی  باتوں پر عمل کرتے ہوئے   اپنے مستقبل کو, اپنے ملک کے مستقبل کو روشن بنا سکتے ہیں ۔ان کا یہ پیغام ان نو نہال طلبہ کے ذہنوں کو درس انسانیت کا پیغام دینا ہے ۔جو ہماری یونورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں ۔
مگر افسوس آج ہمارا تعلیمی شعبہ جس میں صرف طلبہ کا ڈگری حاصل کر نا ہی تعلیم کامقصد رہ گیا ہے ۔ علم کا  یہ بڑھتا ہوا  رجحان جو انسان کو زیادہ تر خرابی کی طرف لے جا رہا ہے ۔علامہ کے پیغام کو پھلانے کی,  آج شدت سے  ضرورت ہے ۔جس پر ہمارے اساتذہ ,ہماری انجمنیں ,اور ہماری نوجوان نسل کامزن  ہیں ۔

علامہ سر محمد اقبال اس کائنات کی گردش میں سرگرداں رہنے کے لئے کہتے ہیں ۔چونکہ گردش ہی زندگی کا اصل زر ہے ۔یہ  زندگی کی حقیقت ہے۔وہ طلبہ سے کہتے ہیں کہ گردش کا جام نوش کرنے میں کچھ تردّد نہیں کرو چونکہ گردش کا جام نوش کرکے  ہی طالب  علمی  میں عیش وفرحت حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ شمع سحر اس بات کی علامت ہے ۔کہ درد و جلن ,غم ہی,اسباب و سامان  زندگی ہیں   ۔زندگی میں غم ہمیشہ رہنے والا ہے ۔اور جنبس , یہ حرکت ہی کارساز حیات ہے ۔جنبس نہیں , تو حرکت نہیں۔حرکت و عمل ہی کاروان ہستی کا راز ہے   ۔چونکہ ۔سونے کو  تپا کر ہی کھرا بنایا جاتا ہے ۔

ان کا فلسفہ حیات اس بات کا درس قائم کرتا ہے ۔کہ اگر انسان کو اپنی پوشیدہ قوتوں کا علم ہو جائے ,  تو اس کو بہار نکالنے کا نام ہی حرکت و عمل ہے ۔یہ ہی راز حیات ہے  ۔وہ کہتے ہیں کہ دائمی حیات کے لئے بھی غم کدہ زندگی کا خمیر بادہ نیم رس میں ہے ۔چونکہ رنجیدگی ہی شوق کو پورا کرنے کے لئے اُکساتی ہے ۔لکھتے ہیں ۔۔

“موت ہے عیش جادواں ذوق طلب اگر نہ ہو ۔
گردش آدمی ہے اور گردش جام اور ہے ۔
شمع سحر یہ کہہ گئی سوز ہے زندگی کا ساز ۔
غم کدۂ نمود میں شرط دوام اور ہے ۔””

جب تک طلبہ میں یہ شوق باقی ہے ۔وہ اس خمیر میں ڈوبا رہے گا ۔جس کمی کو ہم شدت کے ساتھ محسوس کر رہے ہیں ۔اس کو پورا کرنے  کے لئے ہمارا جنوں ہم میں حرکت پیدا کرتا رہے گا ۔
وہ طلبہ سے التماس کرتے ہیں جب تک اس ملک و قوم کا ذرہ ذرہ روشن نہیں ہوجاتا  آپ کوشش کرتے رہے ۔
وہ ہمارے طلبہ سے مخاطب ہیں ان میں  جوش پیدا کرنے کے خواہش مند ہیں ۔چونکہ یہ یونیورسٹیاں  ہماری تہزیب ہیں , ہمارے کارخانے ہیں ۔جس کی تعمیر کے لئے ,ترقی کے لئے علامہ سر محمد اقبال کامزن ہیں ۔۔وہ ایک درد مند دل رکھتے تھے ۔ان کا یہ درد مند دل ہی ہم میں حرکت و عمل کی دعوت دیتا ہے ۔
ان کے یہ شعر پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ علامہ نے اپنے دور کے لئے , ہمارے دور کے لئے اور آنے ہر دور کے لئے خاص کر طلبہ کے  لئے یہ درس قائم کیا  ہے ۔عہد حاضر میں  اس پر کامزن رہنے کی بے حد ضرورت ہے ۔چونکہ علامہ بچچوں کی تعلیم کو لے بہت فکر مند تھے ۔جس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے ادب اطفال پر بھی بہت سی نظمیں لکھی ۔جس میں “بچے کی دعا “” ماں کا خواب “”,طالب علم”,جگنو””,چاند اور تارے””,مسلم کی دعا”,ترانہ ملی”,,ایک مکڑا اور ایک مکڑی “”,ایک پہاڑ اور گلہری “”,ایک گائے اور بکری “”,ہندوستانی بچوں کا قومی گیت “”,کا نام لے سکتے ہیں ۔اس کے علاوہ ان کا ایک نثری مضمون جو رسالہ “مخزن “میں شائع ہوا  اس سے بھی اندازہ  لگایا جا سکتا ہے ۔کہ وہ کس شدت کے ساتھ طلبہ کی رہنمائی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔وہ اپنی بات کو واضح طور پر پیش کرنے میں تیسری آواز کا استعمال کرتے ہیں ۔اس کے  لئےوہ مزہبی رہنماؤں کا انتخاب کرتے ہیں ۔چونکہ مثال سے بات واضح طور پر سمجھ میں آجاتی ہے ۔جہاں علامہ آدم علیہ السلام ,  جبریل علیہ السلام اور خضر  علیہ السلام پر نظمیں لکھتے ہیں وہی رام چندر اور سوامی رام تیرتھ جیسے مزہبی پیشواؤں کو بھی کلام میں  جگہ دیتے ہیں ۔اس لئے ان کا کلام صرف مزہبی یا اسلامی  نہیں بلکہ ان کا کلام فلسفہ اور اسلام  کا سنگ میل ہے ۔اور ان سب سے  بڑھ کر وہ جدید تعلیم کے علمبردار ہیں ۔ “”مسلمان اور جدید تعلیم “”ان کی کافی متاثر کن نظم ہے ۔
ان کی نظموں کا یہ معلوماتی انداز بیان ہی ہے جو قاری کو تخلیق سے لے کر آج تک گرفت میں لیا ہوا ہے ۔
لکھتے ہیں ۔

ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا ۔
درد مندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا۔
زندگی ہو مری پروانے کی صورت یا رب ۔
علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یارب ۔

چونکہ وہ جانتے ہیں علم ہی انسان کو گردش سے نکلالنے میں مفید ثابت ہوگا ۔علم سے ہی انسان ترقی کے منازل آسانی سے طے کر سکتا ہے۔
مختصر یہ کہ وہ قوم پرست شاعر ہیں ۔جس نے قوم کو خواب گراں سے بیدار کرنے میں اپنے مشن کو عملی جامہ پہنانے میں ہر ممکن کوشش کی ہے ۔ان کے خیالات کی روشنی میں ہمارے طالب علموں کو , مثال قائم کر ادب میں گرنقدر اضافہ  کرنے کے ساتھ زندگی کے ہر شعبہ میں آگے بڑھنا ہوگا ۔ جس کی معاشرے کو , ملک کو آج بہت ضرورت ہے ۔وہ نظم ساقی نامہ  ہم سے کہتے ہیں کہ ۔

زمانے کے انداز بدلے گئے ۔
نیا راگ ہے ساز بدلے گئے۔
ہوا اس طرح فاش راز فرنگ ,
کہ حیرت میں ہے شیشہ باز فرنگ ۔
پرانی سیاست گری خوار ہے ,
زمیں میر و وسلطاں سے بے زار ہے ۔
گیا دور سرمایہ داری گیا ۔
تماشا دکھا کر مداری گیا ۔

اس لئے وہ ہماری پوشیدہ قوتوں کو مستحکم کرنے کی صلاح دیتے ہیں  ۔ کہتے ہیں ۔

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے ۔
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے۔ ہے ۔
ان کا کلام ہماری میراث ہے ۔جس کو ہمیں آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے سنبھال کر رکھنا ہے ۔خود بھی اس پر عمل پیرا رہنا ہے ۔اور اپنی مادری زبان کو فروغ دیتے ہوئے ملک کی ترقی میں کوشاں رہنا ہے ۔

سبق پھر پڑھ صداقت کا ,عدالت کا,شجاعت کا۔
لیا جائے گا تجھ سے کام , دنیا کی امامت کا۔

دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر ۔
نیا زمانہ نئے صبع وشام پیدا کر ۔
میرا طریق امیری  نہیں فقیری ہے ۔
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر ۔

Leave a Reply